جب تک تمہارے نصیب یاور ہیں تمہارے عیب ڈھکے ہوئے ہیں۔ حکمت 51
(٩٦) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۹۶)
وَاللهِ! لَا یَزَالُوْنَ حَتّٰی لَا یَدَعُوْا لِلّٰهِ مُحَرَّمًا اِلَّا اسْتَحَلُّوْهُ، وَ لَا عَقْدًا اِلَّا حَلُّوْهُ، وَ حَتّٰی لَا یَبْقٰی بَیْتُ مَدَرٍ وَّ لَا وَبَرٍ اِلَّا دَخَلَهٗ ظُلْمُهُمْ وَ نَبَا بِهٖ سُوْٓءُ رَعْیِهِمْ، وَ حَتّٰی یَقُوْمَ الْبَاكِیَانِ یَبْكِیَانِ: بَاكٍ یَّبْكِیْ لِدِیْنِهٖ، وَ بَاكٍ یَّبْكِیْ لِدُنْیَاهُ، وَ حَتّٰی تَكُوْنَ نُصْرَةُ اَحَدِكُمْ مِنْ اَحَدِهِمْ كَنُصْرَةِ الْعَبْدِ مِنْ سَیِّدِهٖ، اِذَا شَهِدَ اَطَاعَهٗ، وَ اِذَا غَابَ اغْتَابَهٗ، وَ حَتّٰی یَكُوْنَ اَعْظَمَكُمْ فِیْهَا عَنَآءً اَحْسَنُكُمْ بِاللهِ ظَنًّا، فَاِنْ اَتَاكُمُ اللهُ بِعَافِیَةٍ فَاقْبَلُوْا، وَ اِنِ ابْتُلِیْتُمْ فَاصْبِرُوْا، فَـ ﴿اِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِیْنَ۠﴾.
خدا کی قسم! وہ ہمیشہ یونہی (ظلم ڈھاتے) رہیں گے اور کوئی اللہ کی حرام کی ہوئی چیز ایسی نہ ہو گی جسے وہ حلال نہ سمجھ لیں گے اور ایک بھی عہد و پیمان ایسا نہ ہو گا جسے وہ توڑ نہ ڈالیں گے۔ یہاں تک کہ کوئی اینٹ پتھر کا گھر اور اُون کا خیمہ ان کے ظلم کی زد سے محفوظ نہ رہے گا اور ان کی بُری طرز نگہداشت سے لوگوں کا اپنے گھروں میں رہنا مشکل ہو جائے گا اور یہاں تک کہ دو قسم کے رونے والے کھڑے ہو جائیں گے: ایک دین کیلئے رونے والا اور ایک دنیا کیلئے اور یہاں تک کہ تم میں سے کسی ایک کا ان میں سے کسی ایک سے داد خواہی کرنا ایسا ہی ہو گا جیسے غلام کا اپنے آقا سے کہ وہ سامنے اطاعت کرتا ہے اور پیٹھ پیچھے برائی کرتا (اور دل کی بھڑاس نکالتا) ہے اور یہاں تک نوبت پہنچ جائے گی کہ تم میں سے جو اللہ کا زیادہ اعتقاد رکھے گا اتنا ہی وہ زحمت و مشقت میں بڑھا چڑھا ہو گا۔ اس صورت میں اگر اللہ تمہیں امن و عافیت میں رکھے تو (اس کا شکر کرتے ہوئے) اسے قبول کرو اور اگر ابتلا و آزمائش میں ڈالے جاؤ تو صبر کرو۔ اس لئے کہ اچھا انجام پرہیزگاروں کیلئے ہے۔