فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

بہترین زہد، زہد کا مخفی رکھنا ہے۔ حکمت 27
(١٩١) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۹۱)
رُوِیَ اَنَّ صَاحِبًا لِّاَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ یُقَالُ لَهٗ: «هَمَّامٌ» كَانَ رَجُلًا عَابِدًا،فَقَالَ: یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ صِفْ لِیَ الْمُتَّقِیْنَ حَتّٰۤى كَاَنِّیْۤ اَنْظُرُ اِلَیْهِمْ، فَتَثَاقَلَ ؑ عَنْ جَوَابِهٖ،ثُمَّ قَالَ: يَا هَمَّامُ! اتَّقِ اللّٰهَ وَ اَحْسِنْ فَـ ﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ﴾، فَلَمْ يَقْنَعْ هَمَّامٌۢ بِھٰذَا الْقَوْلِ حَتّٰى عَزَمَ عَلَيْهِ، فَحَمِدَ اللّٰهَ وَ اَثْنٰى عَلَيْهِ وَ صَلّٰى عَلَى النَّبِیِّ ﷺ، ثُمَّ قَالَ‏:
بیان کیا گیا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کے ایک صحابی [۱] نے کہ جنہیں ہمام کہا جاتا ہے اور جو بہت عبادت گزار شخص تھے، حضرتؑ سے عرض کیا کہ: یا امیر المومنینؑ! مجھ سے پرہیز گاروں کی حالت اس طرح بیان فرمائیں کہ ان کی تصویر میری نظروں میں پھرنے لگے۔ حضرتؑ نے جواب دینے میں کچھ تامل کیا۔ پھر اتنا فرمایا کہ: اے ہمام! اللہ سے ڈرو اور اچھے عمل کرو، کیونکہ’’اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی و نیک کردار ہوں‘‘۔ ہمام نے آپؑ کے اس جواب پر اکتفا نہ کیا اور آپؑ کو (مزید بیان فرمانے کیلئے) قسم دی جس پر حضرتؑ نے خدا کی حمد و ثنا کی اور نبی ﷺ پر درود بھیجا اور یہ فرمایا:
اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ اللهَ ـ سُبْحَانَهٗ وَ تَعَالٰی ـ خَلَقَ الْخَلْقَ حِیْنَ خَلَقَهُمْ غَنِیًّا عَنْ طَاعَتِهِمْ، اٰمِنًا مِّنْ مَّعْصِیَتِهِمْ، لِاَنَّہٗ لَا تَضُرُّهٗ مَعْصِیَةُ مَنْ عَصَاهُ، وَ لَا تَنْفَعُهٗ طَاعَةُ مَنْ اَطَاعَهٗ، فَقَسَمَ بَیْنَهُمْ مَعَایِشَهُمْ، وَ وَضَعَهُمْ مِنَ الدُّنْیَا مَوَاضِعَهُمْ.
اللہ سبحانہ نے جب مخلوقات کو پیدا کیا تو ان کی اطاعت سے بے نیاز اور ان کے گناہوں سے بے خطر ہو کر کارگاہ ہستی میں انہیں جگہ دی، کیونکہ اسے نہ کسی معصیت کار کی معصیت سے نقصان اور نہ کسی فرمانبردار کی اطاعت سے فائدہ پہنچتا ہے۔ اس نے زندگی کا سر و سامان ان میں بانٹ دیا ہے اور دنیا میں ہر ایک کو اس کے مناسب حال محل و مقام پہ رکھا ہے۔
فَالْمُتَّقُوْنَ فِیْهَا هُمْ اَهْلُ الْفَضَآئِلِ: مَنْطِقُهُمُ الصَّوَابُ، وَ مَلْبَسُهُمُ الْاِقْتِصَادُ، وَ مَشْیُهُمُ التَّوَاضُعُ. غَضُّوْا اَبْصَارَهُمْ عَمَّا حَرَّمَ اللهُ عَلَیْهِمْ، وَ وَقَفُوْا اَسْمَاعَهُمْ عَلَی الْعِلْمِ النَّافِعِ لَهُمْ. نُزِّلَتْ اَنْفُسُهُمْ مِنْهُمْ فِی الْبَلَآءِ كَالَّتِیْ نُزِّلَتْ فِی الرَّخَآءِ. وَ لَوْلَا الْاَجَلُ الَّذِیْ كَتَبَ اللهُ لَھُمْ لَمْ تَسْتَقِرَّ اَرْوَاحُهُمْ فِیْۤ اَجْسَادِهِمْ طَرْفَةَ عَیْنٍ، شَوْقًا اِلَی الثَّوَابِ، وَ خَوْفًا مِّنَ الْعِقَابِ.
چنانچہ فضیلت ان کیلئے ہے جو پرہیزگار ہیں کیونکہ ان کی گفتگو جچی تلی ہوئی، پہناوا میانہ روی اور چال ڈھال عجز و فروتنی ہے۔ اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے انہوں نے آنکھیں بند کر لیں اور فائدہ مند علم پر کان دھر لئے ہیں۔ ان کے نفس زحمت و تکلیف میں بھی ویسے ہی رہتے ہیں جیسے آرام و آسائش میں۔ اگر (زندگی کی مقررہ) مدت نہ ہوتی جو اللہ نے ان کیلئے لکھ دی ہے تو ثواب کے شوق اور عتاب کے خوف سے ان کی روحیں ان کے جسموں میں چشم زدن کیلئے بھی نہ ٹھہرتیں۔
عَظُمَ الْخَالِقُ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ فَصَغُرَ مَا دُوْنَهٗ فِیْۤ اَعْیُنِهِمْ، فَهُمْ وَ الْجَنَّةُ كَمَنْ قَدْ رَاٰهَا، فَهُمْ فِیْهَا مُنَعَّمُوْنَ، وَهُمْ وَ النَّارُ كَمَنْ قَدْ رَاٰهَا، فَهُمْ فِیْهَا مُعَذَّبُوْنَ.
خالق کی عظمت ان کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے۔ اس لئے کہ اس کے ماسوا ہر چیز ان کی نظروں میں ذلیل و خوار ہے۔ ان کو جنت کا ایسا ہی یقین ہے جیسے کسی کو آنکھوں دیکھی چیز کا ہوتا ہے، تو گویا وہ اسی وقت جنت کی نعمتوں سے سرفراز ہیں اور دوزخ کا بھی ایسا ہی یقین ہے جیسے کہ وہ دیکھ رہے ہیں تو انہیں ایسا محسوس ہو تا ہے کہ جیسے وہاں کا عذاب ان کے گرد و پیش موجود ہے۔
قُلُوْبُهُمْ مَّحْزُوْنَةٌ، وَ شُرُوْرُهُمْ مَاْمُوْنَةٌ، وَ اَجْسَادُهُمْ نَحِیْفَةٌ، وَ حَاجَاتُهُمْ خَفِیْفَةٌ، وَ اَنْفُسُهُمْ عَفِیْفَةٌ. صَبَرُوْا اَیَّامًا قَصِیْرَةً اَعْقَبَتْهُمْ رَاحَةً طَوِیْلَةً، تِجَارَةٌ مُّرْبِحَةٌ، یَسَّرَهَا لَهُمْ رَبُّهُمْ. اَرَادَتْهُمُ الدُّنْیَا فَلَمْ یُرِیْدُوْهَا، وَ اَسَرَتْهُمْ فَفَدَوْۤا اُنْفُسَهُمْ مِنْهَا.
ان کے دل غمزدہ و محزون اور لوگ ان کے شر و ایذا سے محفوظ و مامون ہیں۔ ان کے بدن لاغر، ضروریات کم اور نفس نفسانی خواہشوں سے بری ہیں۔ انہوں نے چند مختصر سے دنوں کی ( تکلیفوں پر) صبر کیا جس کے نتیجہ میں دائمی آسائش حاصل کی۔ یہ ایک فائدہ مند تجارت ہے جو اللہ نے ان کیلئے مہیا کی۔ دنیا نے انہیں چاہا مگر انہوں نے دنیا کو نہ چاہا۔ اس نے انہیں قیدی بنایا تو انہوں نے اپنے نفسوں کا فدیہ دے کر اپنے کو چھڑا لیا۔
اَمَّا اللَّیْلَ فَصَافُّوْنَ اَقْدَامَهُمْ، تَالِیْنَ لِاَجْزَآءِ الْقُرْاٰنِ یُرَتِّلُوْنَهٗ تَرْتِیْلًا، یُحَزِّنُوْنَ بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ، وَ یَسْتَثِیْرُوْنَ بِهٖ دَوَآءَ دَآئِهِمْ، فَاِذَا مَرُّوْا بِاٰیَةٍ فِیْهَا تَشْوِیْقٌ رَكَنُوْۤا اِلَیْهَا طَمَعًا، وَ تَطَلَّعَتْ نُفُوْسُهُمْ اِلَیْهَا شَوْقًا، وَ ظَنُّوْا اَنَّهَا نُصْبُ اَعْیُنِهِمْ، وَ اِذَا مَرُّوْا بِاٰیَةٍ فِیْهَا تَخْوِیْفٌ اَصْغَوْۤا اِلَیْهَا مَسَامِعَ قُلُوْبِهِمْ، وَ ظَنُّوْا اَنَّ زَفِیْرَ جَهَنَّمَ وَ شَهِیْقَهَا فِیْۤ اُصُوْلِ اٰذَانِهِمْ، فَهُمْ حَانُوْنَ عَلٰۤی اَوْسَاطِهِمْ، مُفْتَرِشُوْنَ لِجِبَاهِهِمْ وَ اَكُفِّهِمْ وَ رُكَبِهِمْ، وَ اَطْرَافِ اَقْدَامِهِمْ، یَطْلُبُوْنَ اِلَی اللهِ تَعَالٰی فِیْ فَكَاكِ رِقَابِهِمْ.
رات ہوتی ہے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر قرآن کی آیتوں کی ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرتے ہیں، جس سے اپنے دلوں میں غم و اندوہ تازہ کرتے ہیں اور اپنے مرض کا چارہ ڈھونڈتے ہیں۔ جب کسی ایسی آیت پر ان کی نگاہ پڑتی ہے جس میں (جنت کی) ترغیب دلائی گئی ہو تو اس کے طمع میں ادھر جھک پڑتے ہیں اور اس کے اشتیاق میں ان کے دل بے تابانہ کھنچتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ (پر کیف) منظر ان کی نظروں کے سامنے ہے اور جب کسی ایسی آیت پر ان کی نظر پڑتی ہے کہ جس میں (دوزخ سے )ڈرایا گیا ہو تو اس کی جانب دل کے کانوں کو جھکا دیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ جہنم کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چیخ پکار ان کے کانوں کے اندر پہنچ رہی ہے۔ وہ (رکوع میں) اپنی کمریں جھکائے اور (سجدہ میں) اپنی پیشانیاں، ہتھیلیاں، گھٹنے اور پیروں کے کنارے (انگوٹھے) زمین پر بچھائے ہوئے ہیں اور اللہ سے گلو خلاصی کیلئے التجائیں کرتے ہیں۔
وَ اَمَّا النَّهَارَ فَحُلَمَآءُ عُلَمَآءُ، اَبْرَارٌ اَتْقِیَآءُ، قَدْ بَرَاهُمُ الْخَوْفُ بَرْیَ الْقِدَاحِ، یَنْظُرُ اِلَیْهِمُ الْنَّاظِرُ فَیَحْسَبُهُمْ مَرْضٰی، وَ مَا بِالْقَوْمِ مِنْ مَّرَضٍ، وَ یَقُوْلُ: لَقَدْ خُوْلِطُوْا! وَ لَقَدْ خَالَطَهُمْ اَمْرٌ عَظِیْمٌ! لَا یَرْضَوْنَ مِنْ اَعْمَالِهِمُ الْقَلِیْلَ، وَ لَا یَسْتَكْثِرُوْنَ الْكَثِیْرَ.
دن ہوتا ہے تو وہ (بردبار) دانشمند عالم، نیکو کار اور پرہیز گار نظر آتے ہیں۔ خوف نے انہیں تیروں کی طرح لاغر کر چھوڑا ہے۔ دیکھنے والا انہیں دیکھ کر مریض سمجھتا ہے، حالانکہ انہیں کوئی مرض نہیں ہوتا اور جب ان کی باتوں کو سنتا ہے تو کہنے لگتا ہے کہ ان کی عقلوں میں فتور ہے، (ایسا نہیں) بلکہ انہیں تو ایک دوسرا ہی خطرہ لاحق ہے۔ وہ اپنے اعمال کی کم مقدار سے مطمئن نہیں ہوتے اور زیادہ کو زیادہ نہیں سمجھتے۔
فَهُمْ لِاَنْفُسِهِمْ مُتَّهِمُوْنَ، وَ مِنْ اَعْمَالِهِمْ مُشْفِقُوْنَ، اِذَا زُكِّـیَ اَحَدُهُمْ خَافَ مِمَّا یُقَالُ لَهٗ، فَیَقُوْلُ: اَنَا اَعْلَمُ بِنَفْسِیْ مِنْ غَیْرِیْ، وَ رَبِّیْۤ اَعْلَمُ بِیْ مِنِّیْ بِنَفْسِیْ! اَللّٰهُمَّ لَا تُؤَاخِذْنِیْ بِمَا یَقُوْلُوْنَ، وَ اجْعَلْنِیْۤ اَفْضَلَ مِمَّا یَظُنُّوْنَ، وَ اغْفِرْ لِیْ مَا لَا یَعْلَمُوْنَ.
وہ اپنے ہی نفسوں پر (کوتاہیوں کا) الزام رکھتے ہیں اور اپنے اعمال سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ جب ان میں سے کسی ایک کو (صلاح و تقویٰ کی بنا پر) سراہا جاتا ہے تو وہ اپنے حق میں کہی ہوئی باتوں سے لرز اٹھتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ: میں دوسروں سے زیادہ اپنے نفس کو جانتا ہوں اور میرا پروردگار مجھ سے بھی زیادہ میرے نفس کو جانتا ہے۔ خدایا! ان کی باتوں پر میری گرفت نہ کرنا اور میرے متعلق جو یہ حسن ظن رکھتے ہیں مجھے اس سے بہتر قرار دینا اور میرے ان گناہوں کو بخش دینا جو ان کے علم میں نہیں۔
فَمِنْ عَلَامَةِ اَحَدِهِمْ اَنَّكَ تَرٰی لَهٗ قُوَّةً فِیْ دِیْنٍ، وَ حَزْمًا فِیْ لِیْنٍ، وَ اِیْمَانًا فِیْ یَقِیْنٍ، وَ حِرْصًا فِیْ عِلْمٍ، وَ عِلْمًا فِیْ حِلْمٍ، وَ قَصْدًا فِیْ غِنًی، وَ خُشُوْعًا فِیْ عِبَادَةٍ، وَ تَجَمُّلًا فِیْ فَاقَةٍ، وَ صَبْرًا فِیْ شِدَّةٍ، وَ طَلَبًا فِیْ حَلَالٍ، وَ نَشَاطًا فِیْ هُدًی، وَ تَحَرُّجًا عَنْ طَمَعٍ.
ان میں سے ایک کی علامت یہ ہے کہ تم اس کے دین میں استحکام، نرمی و خوش خلقی کے ساتھ دور اندیشی، ایمان میں یقین و استواری، (حصول علم میں طمع)، بردباری کے ساتھ دانائی، خوشحالی میں میانہ روی، عبادت میں عجزو نیاز مندی، فقر و فاقہ میں آن بان، مصیبت میں صبر، طلب رزق میں حلال پر نظر، ہدایت میں کیف و سرور اور طمع سے نفرت و بے تعلقی دیکھو گے۔
یَعْمَلُ الْاَعْمَالَ الصَّالِحَةَ وَ هُوَ عَلٰی وَجَلٍ، یُمْسِیْ وَ هَمُّهُ الشُّكْرُ، وَ یُصْبِحُ وَ هَمُّهُ الذِّكْرُ. یَبِیْتُ حَذِرًا، وَ یُصْبِحُ فَرِحًا، حَذِرًا لِمَا حُذِّرَ مِنَ الْغَفْلَةِ، وَ فَرِحًۢا بِمَاۤ اَصَابَ مِنَ الْفَضْلِ وَ الرَّحْمَةِ. اِنِ اسْتَصْعَبَتْ عَلَیْهِ نَفْسُهٗ فِیْمَا تَكْرَهُ لَمْ یُعْطِهَا سُؤْلَهَا فِیْمَا تُحِبُّ. قُرَّةُ عَیْنِهٖ فِیْمَا لَا یَزُوْلُ، وَ زَهَادَتُهٗ فِیْمَا لَا یَبْقٰی، یَمْزُجُ الْحِلْمَ بِالْعِلْمَ، وَ الْقَوْلَ بِالْعَمَلِ.
وہ نیک اعمال بجا لانے کے باوجود خائف رہتا ہے۔ شام ہوتی ہے تو اس کے پیش نظر اللہ کا شکر اور صبح ہوتی ہے تو اس کا مقصد یاد خدا ہوتا ہے۔ رات خوف و خطر میں گزارتا ہے اور صبح کو خوش اٹھتا ہے۔ خطرہ اس کا کہ رات غفلت میں نہ گزر جائے اور خوشی اس فضل و رحمت کی دولت پر جو اسے نصیب ہوئی ہے۔ اگر اس کا نفس کسی ناگوار صورت حال کے برداشت کرنے سے انکار کرتا ہے تو وہ اس کی من مانی خواہش کو پورا نہیں کرتا۔ جاودانی نعمتوں میں اس کیلئے آنکھوں کا سرور ہے اور دارِ فانی کی چیزوں سے بے تعلقی و بیزاری ہے۔ اس نے علم میں حلم اور قول میں عمل کو سمو دیا ہے۔
تَرَاهُ قَرِیْبًا اَمَلُهٗ، قَلِیْلًا زَلَلُـهٗ، خَاشِعًا قَلْبُهْ، قَانِعَةً نَّفْسُهٗ، مَنْزُوْرًا اَكْلُهٗ، سَهْلًا اَمْرُهٗ، حَرِیْزًا دِیْنُهٗ، مَیِّتَةً شَهْوَتُهٗ، مَكْظُوْمًا غَیْظُهٗ. الْخَیْرُ مِنْهُ مَاْمُوْلٌ، وَ الشَّرُّ مِنْهُ مَاْمُوْنٌ. اِنْ كَانَ فِی الْغَافِلِیْنَ كُتِبَ فِی الذَّاكِرِیْنَ، وَ اِنْ كَانَ فِی الذَّاكِرِیْنَ لَمْ یُكْتَبْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ.
تم دیکھو گے کہ اس کی امیدوں کا دامن کوتاہ، لغزشیں کم، دل متواضع اور نفس قانع، غذا قلیل، رویہ بے زحمت، دین محفوظ، خواہشیں مردہ اور غصہ ناپید ہے۔ اس سے بھلائی ہی کی توقع ہو سکتی ہے اور اس سے گزند کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔ جس وقت ذکر خدا سے غافل ہونے والوں میں نظر آتا ہے جب بھی ذکر کرنے والوں میں لکھا جاتا ہے، (چونکہ اس کا دل غافل نہیں ہوتا) اور جب ذکر کرنے والوں میں ہوتا ہے تو ظاہر ہی ہے کہ اسے غفلت شعاروں میں شمار نہیں کیا جاتا۔
یَعْفُوْ عَمَّنْ ظَلَمَهٗ، وَ یُعْطِیْ مَنْ حَرَمَهٗ، وَ یَصِلُ مَنْ قَطَعَهٗ. بَعِیْدًا فُحْشُهٗ، لَیِّنًا قَوْلُهٗ، غَآئِبًا مُّنْكَرُهٗ، حَاضِرًا مَّعْرُوْفُهٗ، مُقْبِلًا خَیْرُهٗ، مُدْبِرًا شَرُّهٗ. فِی الزَّلَازِلِ وَقُوْرٌ، وَ فِی الْمَكَارِهِ صَبُوْرٌ، وَ فِی الرَّخَآءِ شَكُوْرٌ.
جو اس پر ظلم کرتا ہے اس سے درگزر کر جاتا ہے، جو اسے محروم کرتا ہے اس کا دامن اپنی عطا سے بھر دیتا ہے، جو اس سے بگاڑتا ہے یہ اس سے بناتا ہے۔ بیہودہ بکواس اس کے قریب نہیں پھٹکتی۔ اس کی باتیں نرم، برائیاں ناپید اور اچھائیاں نمایاں ہیں، خوبیاں اُبھر کر سامنے آتی ہیں اور بدیاں پیچھے ہٹتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ مصیبت کے جھٹکوں میں کوہ ِحلم و وقار، سختیوں پر صابر اور خوشحالی میں شاکر رہتا ہے۔
لَا یَحِیْفُ عَلٰی مَنْ یُبْغِضُ، وَ لَا یَاْثَمُ فِیْمَنْ یُّحِبُّ. یَعْتَرِفُ بِالْحَقِّ قَبْلَ اَنْ یُشْهَدَ عَلَیْهِ. لَا یُضَیِّـعُ مَا اسْتُحْفِظَ، وَ لَا یَنْسٰی مَا ذُكِّرَ، وَ لَا یُنَابِزُ بِالْاَلْقَابِ، وَ لَا یُضَارُّ بِالْجَارِ، وَ لَا یَشْمَتُ بِالْمَصَآئِبِ، وَ لَا یَدْخُلُ فِی الْبَاطِلِ، وَ لَا یَخْرُجُ مِنَ الْحَقِّ.
جس کا دشمن بھی ہو اس کے خلاف بے جا زیادتی نہیں کرتا اور جس کا دوست ہوتا ہے اس کی خاطر بھی کوئی گناہ نہیں کرتا۔ قبل اس کے کہ اس کی کسی بات کے خلاف گواہی کی ضرورت پڑے وہ خود ہی حق کا اعتراف کر لیتا ہے۔ امانت کو ضائع و برباد نہیں کرتا، جو اسے یاد دلایا گیا ہے اسے فراموش نہیں کرتا۔ نہ دوسروں کو برے ناموں سے یاد کرتا ہے نہ ہمسایوں کو گزند پہنچاتا ہے، نہ دوسروں کی مصیبتوں پر خوش ہوتا ہے،نہ باطل کی سرحد میں داخل ہوتا ہے اور نہ جادۂ حق سے قدم باہر نکالتا ہے۔
اِنْ صَمَتَ لَمْ یَغُمَّهٗ صَمْتُهٗ، وَ اِنْ ضَحِكَ لَمْ یَعْلُ صَوْتُهٗ، وَ اِنْۢ بُغِیَ عَلَیْهِ صَبَرَ حَتّٰی یَكُوْنَ اللهُ هُوَ الَّذِیْ یَنْتَقِمُ لَهٗ. نَفْسُهُ مِنْهُ فِیْ عَنَآءٍ، وَ النَّاسُ مِنْهُ فِیْ رَاحَةٍ. اَتْعَبَ نَفْسَهٗ لِاٰخِرَتِهٖ، وَ اَرَاحَ النَّاسَ مِنْ نَّفْسِهٖ.
اگر چپ سادھ لیتا ہے تو اس خاموشی سے اس کا دل نہیں بجھتا اور اگر ہنستا ہے تو آواز بلند نہیں ہوتی۔ اگر اس پر زیادتی کی جائے تو سہ لیتا ہے، تاکہ اللہ ہی اس کا انتقام لے۔ اس کا نفس اس کے ہاتھوں مشقت میں مبتلا ہے اور دوسرے لوگ اس سے امن و راحت میں ہیں۔ اس نے آخرت کی خاطر اپنے نفس کو زحمت میں اور خلق خدا کو اپنے نفس (کے شر) سے راحت میں رکھا ہے۔
بُعْدُهٗ عَمَّنْ تَبَاعَدَ عَنْهُ زُهْدٌ وَّ نَزَاهَةٌ، وَ دُنُوُّهٗ مِمَّنْ دَنَا مِنَهُ لِیْنٌ وَّ رَحْمَةٌ، لَیْسَ تَبَاعُدُهٗ بِكِبْرٍ وَّ عَظَمَةٍ، وَ لَا دُنُوُّهٗ بِمَكْرٍ وَّ خَدِیْعَةٍ.
جن سے دوری اختیار کرتا ہے تو یہ زہد و پاکیزگی کیلئے ہوتی ہے اور جن سے قریب ہوتا ہے تو یہ خوش خلقی و رحم دلی کی بنا پر ہے۔ نہ اس کی دوری غرور و کبر کی وجہ سے اور نہ اس کا میل جول کسی فریب اور مکر کی بنا پر ہوتا ہے۔
قَالَ: فَصَعِقَ هَمَّامٌ صَعْقَةً كَانَتْ نَفْسُهٗ فِیْهَا. فَقَالَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ:
راوی کا بیان ہے کہ ان کلمات کو سنتے سنتے ہمام پر غشی طاری ہوئی اور اسی عالم میں اس کی روح پرواز کر گئی۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ:
اَمَا وَاللهِ! لَقَدْ كُنْتُ اَخَافُهَا عَلَیْهِ.
’’خدا کی قسم! مجھے اس کے متعلق یہی خطرہ تھا‘‘۔
ثُمَّ قَالَ:
پھر فرمایا کہ:
هٰكَذَا تَصْنَعُ الْمَوَاعِظُ الْبَالِغَةُ بِاَهْلِهَا.
’’مؤثر نصیحتیں نصیحت پذیر طبیعتوں پر یہی اثر کیا کرتی ہیں‘‘۔
فَقَالَ لَهٗ قَآئِلٌ: فَمَا بَالُكَ یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ؟ فَقَالَ ؑ:
اس وقت ایک کہنے والے [۲] نے کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! پھر کیا بات ہے کہ خود آپؑ پر ایسا اثر نہیں ہوتا؟ حضرتؑ نے فرمایا کہ:
وَیْحَكَ! اِنَّ لِكُلِّ اَجَلٍ وَّقْتًا لَّا یَعْدُوْهُ، وَ سَبَبًا لَّا یَتَجَاوَزُهٗ، فَمَهْلًا، لَا تَعُدْ لِـمِثْلِهَا، فَاِنَّمَا نَفَثَ الشَّیْطٰنُ عَلٰی لِسَانِكَ!.
’’بلاشبہ موت کیلئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے کہ وہ اس سے آگے بڑھ ہی نہیں سکتا اور اس کا ایک سبب ہوتا ہے جو کبھی ٹل نہیں سکتا۔ایسی (بے معنی) گفتگو سے جو شیطان نے تمہاری زبان پر جاری کی ہے، باز آؤ اور ایسی بات پھر زبان پر نہ لانا‘‘۔

۱؂ابن ابی الحدید کے نزدیک اس سے ’’ہمام ابن شریح‘‘ مراد ہیں اور علامہ مجلسیؒ فرماتے ہیں کہ اس سے بظاہر ’’ہمام ابن عبادہ‘‘ مراد ہیں۔
۲؂یہ شخص ’’عبد ابن کوا‘‘ تھا جو خوارج کی ہنگامہ آرائیوں میں پیش پیش اور حضرتؑ کا سخت مخالف تھا۔