جب کسی کام میں اچھے برے کی پہچان نہ رہے توآغاز کو دیکھ کر انجام کو پہچان لینا چاہیے۔ حکمت 76
(٢٢٦) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۲۶)
فِیْ وَصْفِ بَیْعَتِهٖ بِالْخِلَافَةِ
آپ ؑ کی بیعت کے بیان میں
وَ قَدْ تَقَدَّمَ مِثْلُهٗ بِاَلْفَاظٍ مُّخْتَلِفةٍ.
ایسا ہی ایک خطبہ اس سے قبل اس سے کچھ مختلف لفظوں میں گزر چکا ہے۔
وَ بَسَطْتُّمْ یَدِیْ فَكَفَفْتُهَا، وَ مَدَدْتُمُوْهَا فَقَبَضْتُهَا، ثُمَّ تَدَاكَكْتُمْ عَلَیَّ تَدَاكَّ الْاِبِلِ الْهِیْمِ عَلٰی حِیَاضِهَا یَوْمَ وُرُوْدِهَا، حَتَّی انْقَطَعَتِ النَّعْلُ، وَ سَقَطَتِ الرِّدَآءُ، وَ وُطِئَ الضَّعِیْفُ، وَ بَلَغَ مِنْ سُرُوْرِ النَّاسِ بِبَیْعَتِهِمْ اِیَّایَ اَنِ ابْتَهَجَ بِهَا الصَّغِیْرُ، وَ هَدَجَ اِلَیْهَا الْكَبِیْرُ، وَ تَحَامَلَ نَحْوَهَا الْعَلِیْلُ، وَ حَسَرَتْ اِلَیْهَا الْكَعَابُ.
تم نے (بیعت کیلئے) میرا ہاتھ (اپنی طرف) پھیلانا چاہا تو میں نے اُسے روکا اور تم نے کھینچا تو میں اُسے سمیٹتا رہا، مگر تم نے مجھ پر اس طرح ہجوم کیا جس طرح پیاسے اونٹ پانی پینے کے دن تالابوں پر ٹوٹتے ہیں، یہاں تک کہ جوتی (کے تسمے) ٹوٹ گئے اور عبا کاندھے سے گر گئی، کمزور و ناتواں کچلے گئے اور میری بیعت پر لوگوں کی مسرت یہاں تک پہنچ گئی کہ چھوٹے چھوٹے بچے خوشیاں منانے لگے اور بوڑھے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے بیعت کیلئے بڑھے، بیمار بھی اٹھتے بیٹھتے ہوئے پہنچ گئے اور نوجوان لڑکیاں پردوں سے نکل کر دوڑ پڑیں۔