جس کی زبان پر کبھی یہ جملہ نہ آئے کہ: ’’میں نہیں جانتا‘‘ تو وہ چوٹ کھانے کی جگہو ں پر چوٹ کھا کر رہتا ہے۔ حکمت 85
(٣٢) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۳۲)
اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّا قَدْ اَصْبَحْنَا فِیْ دَهْرٍ عَنُوْدٍ، وَ زَمَنٍ كَنُوْدٍ، یُعَدُّ فِیْهِ الْمُحْسِنُ مُسِیْٓـئًا، وَ یَزْدَادُ الظَّالِمُ فِیْهِ عُتُوًّا، لَا نَنْتَفِـعُ بِمَا عَلِمْنَا، وَ لَا نَسْئَلُ عَمَّا جَهِلْنَا، وَ لَا نَتَخَوَّفُ قَارِعَةً حَتّٰى تَحُلَّ بِنَا. فَالنَّاسُ عَلٰۤى اَرْبَعَةِ اَصْنَافٍ:
اے لوگو! ہم ایک ایسے کج رفتار زمانہ اور ناشکر گزار دنیا میں پیدا ہوئے ہیں کہ جس میں نیکو کار کو خطا کار سمجھا جاتا ہے اور ظالم اپنی سرکشی میں بڑھتا ہی جاتا ہے۔ جن چیزوں کو ہم جانتے ہیں ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور جن چیزوں کو نہیں جانتے انہیں دریافت نہیں کرتے اور جب تک مصیبت آ نہیں جاتی ہم خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ (اس زمانے کے) لوگ چار طرح کے ہیں:
مِنْهُمْ مَنْ لَّا یَمْنَعُهُ الْفَسَادَ اِلَّا مَهَانَةُ نَفْسِهٖ، وَ كَلَالَةُ حَدِّهٖ وَ نَضِیْضُ وَفْرِهٖ،
کچھ وہ ہیں جنہیں مفسدہ انگیزی سے مانع صرف ان کے نفس کا بے وقعت ہونا، ان کی دھار کا کند ہونا اور ان کے پاس مال کا کم ہونا ہے۔
وَ مِنْهُمُ الْمُصْلِتُ لِسَیْفِهٖ، وَ الْمُعْلِنُ بِشَرِّهٖ، وَ الْمُجْلِبُ بِخَیْلِهٖ وَ رَجْلِهٖ، قَدْ اَشْرَطَ نَفْسَهٗ وَ اَوْبَقَ دِیْنَهٗ لِحُطَامٍ یَنْتَهِزُهٗ اَوْ مِقْنَبٍ یَّقُوْدُهٗ، اَوْ مِنْۢبَرٍیَفْرَعُهٗ وَ لَبِئْسَ الْمَتْجَرُ اَنْ تَرَى الدُّنْیَا لِنَفْسِكَ ثَمَنًا، وَ مِمَّا لَكَ عِنْدَ اللهِ عِوَضًا!
اور کچھ لوگ وہ ہیں جو تلواریں سونتے ہوئے علانیہ شر پھیلا رہے ہیں اور انہوں نے اپنے سوار اور پیادے جمع کر رکھے ہیں۔ صرف کچھ مال بٹورنے، یا کسی دستہ کی قیادت کرنے، یا منبر پر بلند ہونے کیلئے انہوں نے اپنے نفسوں کو وقف کر دیا ہے اور دین کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے۔ کتنا ہی بُرا سودا ہے کہ تم دنیا کو اپنے نفس کی قیمت اور اللہ کے یہاں کی نعمتوں کا بدل قرار دے لو۔
وَ مِنْهُمْ مَنْ یَّطلُبُ الدُّنْیَا بِعَمَلِ الْاٰخِرَةِ، وَ لَا یَطْلُبُ الْاٰخِرَةَ بِعَمَلِ الدُّنْیَا، قَدْ طَامَنَ مِنْ شَخْصِهٖ، وَ قَارَبَ مِنْ خَطْوِهٖ، وَ شَمَّرَ مِنْ ثَوْبِهٖ، وَ زَخْرَفَ مِنْ نَّفْسِهٖ لِلْاَمَانَةِ، وَ اتَّخَذَ سِتْرَ اللهِ ذَرِیْعَةً اِلَى الْمَعْصِیَةِ.
اور کچھ لوگ وہ ہیں جو آخرت والے کاموں سے دنیا طلبی کرتے ہیں اور یہ نہیں کرتے کہ دنیا کے کاموں سے بھی آخرت کا بنانا مقصود رکھیں۔ یہ اپنے اوپر بڑا سکون و وقار طاری رکھتے ہیں۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہیں اور دامنوں کو اوپر کی طرف سمیٹتے رہتے ہیں اور اپنے نفسوں کو اس طرح سنوار لیتے ہیں کہ لوگ انہیں امین سمجھ لیں۔ یہ لوگ اللہ کی پردہ پوشی سے فائدہ اٹھا کر اس کا گناہ کرتے ہیں۔
وَمِنْهُمْ مَنْ اَقْعَدَهٗ عَنْ طَلَبِ الْمُلْكِ ضُؤٗلَةُ نَفْسِهٖ وَ انْقِطَاعُ سَبَبِهٖ، فَقَصَرَتْهُ الْحَالُ عَلٰى حَالِهٖ، فَتَحَلّٰى بِاسْمِ الْقَنَاعَةِ، وَ تَزَیَّنَ بِلِبَاسِ اَهْلِ الزَّهَادَةِ، وَ لَیْسَ مِنْ ذٰلِكَ فِیْ مَرَاحٍ وَّ لَا مَغْدًى.
اور کچھ لوگ وہ ہیں جنہیں ان کے نفسوں کی کمزوری اور ساز و سامان کی نافراہمی ملک گیری کیلئے اٹھنے نہیں دیتی۔ ان حالات نے انہیں ترقی و بلندی حاصل کرنے سے درماندہ و عاجز کر دیا ہے۔ اس لئے قناعت کے نام سے انہوں نے اپنے آپ کو آراستہ کر رکھا ہے اور زاہدوں کے لباس سے اپنے کو سجا لیا ہے، حالانکہ انہیں ان چیزوں سے کسی وقت کبھی کوئی لگاؤ نہیں رہا۔
وَ بَقِیَ رِجَالٌ غَضَّ اَبْصَارَهُمْ ذِكْرُ الْمَرْجِـعِ، وَ اَرَاقَ دُمُوْعَهُمْ خَوْفُ الْـمَحْشَرِ، فَهُمْ بَیْنَ شَرِیْدٍ نَّادٍّ، وَ خَآئِفٍ مَّقْمُوْعٍ، وَ سَاكِتٍ مَّكْعُوْمٍ، وَ دَاعٍ مُّخْلِصٍ، وَ ثَكْلَانَ مُوْجَعٍ، قَدْ اَخْمَلَتْهُمُ التَّقِیَّةُ وَ شَمِلَتْهُمُ الذِّلَّةُ، فَهُمْ فِیْ بَحْرٍ اُجَاجٍ، اَفْوَاهُهُمْ ضَامِزَةٌ، وَ قُلُوْبُهُمْ قَرِحَةٌ، وَ قَدْ وَعَظُوْا حَتّٰى مَلُّوْا وَ قُهِرُوْا حَتّٰى ذَلُّوْا، وَ قُتِلُوْا حَتّٰى قَلُّوْا.
اِسکے بعد تھوڑے سے وہ لوگ رہ گئے جن کی آنکھیں آخرت کی یاد اور حشر کے خوف سے جھکی ہوئی ہیں اور ان سے آنسو رواں رہتے ہیں۔ ان میں کچھ تو وہ ہیں جو دنیا والوں سے الگ تھلگ تنہائی میں پڑے ہیں اور کچھ خوف و ہراس کے عالم میں ذلتیں سہہ رہے ہیں اور بعض نے اس طرح چپ سادھ لی ہے کہ گویا ان کے منہ باندھ دیئے گئے ہیں، کچھ خلوص سے دُعائیں مانگ رہے ہیں، کچھ غم زدہ و درد رسیدہ ہیں جنہیں خوف نے گمنامی کے گوشہ میں بٹھا دیا ہے اور خستگی و درماندگی ان پر چھائی ہوئی ہے۔ وہ ایک شور دریا میں ہیں (کہ باوجود پانی کی کثرت کے پھر وہ پیاسے ہیں)۔ ان کے منہ بند اور دل مجروح ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو اتنا سمجھایا بجھایا کہ وہ اکتا گئے اور اتنا ان پر جبر کیا گیا کہ وہ بالکل دب گئے اور اتنے قتل کئے گئے کہ ان میں (نمایاں) کمی ہو گئی۔
فَلْتَكُنِ الدُّنْیَاۤ فِیْۤ اَعْیُنِكُمْ اَصْغَرَ مِنْ حُثَالَةِ الْقَرَظِ وَ قُرَاضَةِ الْجَلَمِ وَ اتَّعِظُوْا بِمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ قَبْلَ اَنْ یَّتَّعِظَ بِكُمْ مَنْۢ بَعْدَكُمْ، وَ ارْفُضُوْهَا ذَمِیْمَةً، فَاِنَّهَا قَد رَفَضَتْ مَنْ كَانَ اَشْغَفَ بِهَا مِنْكُمْ.
اس دنیا کو تمہاری نظروں میں کیکر کے چھلکوں اور ان کے ریزوں سے بھی زیادہ حقیر و پست ہونا چاہیے اور اپنے قبل کے لوگوں سے تم عبرت حاصل کر لو۔ اس کے قبل کہ تمہارے حالات سے بعد والے عبرت حاصل کریں اور اس دنیا کی بُرائی محسوس کرتے ہوئے اس سے قطع تعلق کرو۔ اس لئے کہ اس نے آخر میں ایسوں سے قطع تعلق کر لیا جو تم سے زیادہ اس کے والہ و شیدا تھے۔
اَقُوْلُ: هٰذِهِ الْخُطْبَةُ رُبَّمَا نَسَبَهَا مَنْ لَّا عِلْمَ لَهٗ اِلٰى مُعَاوِيَةَ، وَ هِیَ مِنْ كَلَامِ اَمِيْرِالْمُؤْمِنِيْنَ ؑ الَّذِیْ لَا يُشَكُّ فِيْهِ وَ اَيْنَ الذَّهَبُ مِنَ الرَّغَامِ؟ وَ الْعَذْبُ مِنَ الْاُجَاجِ؟ وَ قَدْ دَلَّ عَلٰى ذٰلِكَ الدَّلِيْلُ الْخِرِّيْتُ، و نَقَدَهُ النَّاقِدُ الْبَصِيْرُ عَمْرُو بْنُ بَحْرٍ الْجَاحِظُ، فَاِنَّهٗ ذَكَرَ هٰذِهِ الْخُطْبَةَ فِیْ كِتَابِ «الْبَيَانِ وَ التَّبْيِيْنِ»، وَ ذَكَرَ مَنْ نَّسَبَهَا اِلٰى مُعَاوِيَةَ، ثُمَّ قَالَ: هِىَ بِكَلَامِ عَلِیٍّ ؑ اَشْبَهُ، وَ بِمَذْهَبِهٖ فِیْ تَصْنِيْفِ النَّاسِ وَ بِالْاِخْبَارِ عَمَّا هُمْ عَلَيْهِ مِنَ الْقَهْرِ وَ الْاِذْلَالِ وَ مِنَ التَّقِيَّةِ وَ الْخَوْفِ اَلْيَقُ، قَالَ: وَ مَتٰى وَجَدْنَا مُعَاوِيَةَ فِیْ حَالٍ مِّنَ الْاَحْوَالِ يَسْلُكُ فِیْ كَلَامِهٖ مَسْلَكَ الزُّهَّادِ وَ مَذَاهِبَ الْعُبَّادِ؟!.
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: بعض لوگوں نے اپنی لاعلمی کی بنا پر اس خطبہ کو معاویہ کی طرف منسوب کیا ہے، حالانکہ یہ امیر المومنین علیہ السلام کا کلام ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ بھلا سونے کو مٹی سے کیا نسبت؟ اور شیریں پانی کو شور پانی سے کیا ربط؟۔ چنانچہ اس وادی میں راہ دکھانے والے ماہرِ فن اور پرکھنے والے بابصیرت عمر و ابن بحر جاحظ نے اس کی خبر دی ہے، اور اپنی کتاب «البیان والتبین» میں اس کا ذکر کیا ہے اور ان لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے، جنہوں نے اسے معاویہ کی طرف منسوب کیا ہے، اس کے بعد کہا ہے کہ: یہ کلام علی علیہ السلام کے کلام سے ہو بہو ملتا جلتا ہے اور اس میں جو لوگوں کی تقسیم اور ان کی ذلت و پستی اور خوف و ہراس کی حالت بیان کی ہے، یہ آپؑ ہی کے مسلک سے میل کھاتی ہے۔ ہم نے تو کسی حالت میں بھی معاویہ کو زاہدوں کے انداز اور عابدوں کے طریقہ پر کلام کرتے ہوئے نہیں پایا۔