ہمارا ایک حق ہے اگر وہ ہمیں دیا گیا تو ہم لے لینگے، ورنہ ہم اونٹ کے پیچھے والے پٹھوں پر سوار ہوں گے۔ اگرچہ شب روی طویل ہو۔ حکمت 21
(٨١) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۸۱)
وَ ھِیَ مِنَ الْخُطَبِ الْعَجِیْبَةِ وَ تُسَمَّی «الْغَرَّآءَ»:
اس خطبہ کا نام ’’غراء‘‘ ہے جو امیر المومنین علیہ السلام کے عجیب و غریب خطبوں میں شمار ہوتا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ عَلَا بِحَوْلِهٖ، وَ دَنَا بِطَوْلِهٖ، مَانِحِ كُلِّ غَنِیْمَةٍ وَّ فَضْلٍ، وَ كَاشِفِ كُلِّ عَظِیْمَةٍ وَ اَزْلٍ. اَحْمَدُهٗ عَلٰی عَوَاطِفِ كَرَمِهِ، وَ سَوَابِـغِ نِعَمِهٖ، وَ اُوْمِنُ بِهٖ اَوَّلًۢا بَادِیًا، وَ اَسْتَهْدِیْهِ قَرِیْبًا هَادِیًا، وَ اَسْتَعِیْنُهٗ قَادِرًا قَاهِرًا، وَ اَتَوَكَّلُ عَلَیْهِ كَافِیًا نَاصِرًا. وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا ﷺ عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ، اَرْسَلَهٗ لِاِنْفَاذِ اَمْرِهٖ، وَ اِنْهَآءِ عُذْرِهٖ وَ تَقْدِیْمِ نُذُرِهٖ.
تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو اپنی طاقت کے اعتبار سے بلند، اپنی بخشش کے لحاظ سے قریب ہے۔ ہر نفع و زیادتی کا عطا کرنے والا اور ہر مصیبت و ابتلا کا دور کرنے والا ہے۔ میں اس کے کرم کی نوازشوں اور نعمتوں کی فراوانیوں کی بنا پر اس کی حمد و ثنا کرتا ہوں۔ میں اس پر ایمان رکھتا ہوں، چونکہ وہ اوّل و ظاہر ہے اور اس سے ہدایت چاہتا ہوں، چونکہ وہ قریب تر اور ہادی ہے اور اس سے مدد چاہتا ہوں، چونکہ وہ قادر و توانا ہے اور اس پر بھروسا کرتا ہوں، چونکہ وہ ہر طرح کی کفایت و اعانت کرنے والا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے عبد و رسول ہیں، جنہیں احکام کے نفاذ اور حجت کے اتمام اور عبرتناک واقعات پیش کر کے پہلے سے متنبہ کر دینے کیلئے بھیجا۔
اُوصِیْكُمْ عِبَادَ اللهِ بِتَقْوَی اللهِ الَّذِیْ ضَرَبَ لَکُمُ الْاَمْثَالَ، وَ وَقَّتَ لَكُمُ الْاٰجَالَ، وَ اَلْبَسَكُمُ الرِّیَاشَ، وَ اَرْفَغَ لَكُمُ الْمَعَاشَ، وَ اَحَاطَ بِكُمُ الْاِحْصَآءَ، وَ اَرْصَدَ لَكُمُ الْجَزَآءَ، وَ اٰثَرَكُمْ بِالنِّعَمِ السَّوَابِـغِ، وَ الرِّفَدِ الرَّوَافِغِ، وَ اَنْذَرَكُمْ بِالْحُجَجِ الْبَوَالِغِ، فَاَحْصَاكُمْ عَدَدًا، وَ وَظَّفَ لَكُمْ مُدَدًا، فِیْ قَرَارِ خِبْرَةٍ، وَ دَارِ عِبْرَةٍ، اَنْتُمْ مُّخْتَبَرُوْنَ فِیْهَا، وَ مُحَاسَبُوْنَ عَلَیْهَا.
خدا کے بندو! میں تمہیں اس اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جس نے تمہارے (سمجھانے کے) لئے مثالیں پیش کیں اور تمہاری زندگی کے اوقات مقرر کئے،تمہیں (مختلف) لباسوں [۱] سے ڈھانپا اور تمہارے رزق کا سامان فراواں کیا۔ اس نے تمہارا پورا جائزہ لے رکھا ہے اور تمہارے لئے جزا مقرر کی ہے اور تمہیں اپنی وسیع نعمتوں اور فراخ عطیوں سے نوازا اور مؤثر دلیلوں سے تمہیں متنبہ کر دیا ہے۔ وہ ایک ایک کر کے تمہیں گِن چکا ہے اور اس مقامِ آزمائش و محل عبرت میں اس نے تمہاری عمریں مقرر کر دی ہیں۔ اس میں تمہاری آزمائش ہے اور اس کی درآمد و برآمد پر تمہارا حساب ہو گا۔
فَاِنَّ الدُّنْیَا رَنِقٌ مَّشْرَبُهَا، رَدِغٌ مَّشْرَعُهَا، یُوْنِقُ مَنْظَرُهَا، وَ یُوْبِقُ مَخْبَرُهَا، غُرُوْرٌ حَآئِلٌ، وَ ضَوْءٌ اٰفِلٌ، وَ ظِلٌّ زآئِلٌ، وَ سِنَادٌ مَّآئِلٌ، حَتّٰۤی اِذَا اَنِسَ نَافِرُهَا، وَ اطْمَاَنَّ نَاكِرُهَا، قَمَصَتْ بِاَرْجُلِهَا، وَ قَنَصَتْ بِاَحْبُلِهَا، وَ اَقْصَدَتْ بِاَسْهُمِهَا، وَ اَعْلَقَتِ الْمَرْءَ اَوْهَاقَ الْمَنِیَّةِ قَآئِدَةً لَّهٗۤ اِلٰی ضَنْكِ الْمَضْجَعِ، وَ وَحْشَةِ الْمَرْجِـعِ، وَ مُعَایَنَةِ الْمَحَلِّ، وَ ثَوَابِ الْعَمَلِ، وَ كَذٰلِكَ الْخَلَفُ یَعْقُبُ السَّلَفَ، لَا تُقْلِعُ الْمَنِیَّةُ اخْتِرَامًا، وَ لَایَرْعَوِی الْبَاقُوْنَ اجْتِرَامًا، یَحْتَذُوْنَ مِثَالًا، وَ یَمْضُوْنَ اَرْسَالًا، اِلٰی غَایَةِ الْاِنْتِهَآءِ، وَ صَیُّوْرِ الْفَنَآءِ.
اس دنیا کا گھاٹ گدلا اور سیراب ہونے کی جگہ کیچڑ سے بھری ہوئی ہے۔ اس کا ظاہر خوشنما اور باطن تباہ کن ہے۔ یہ ایک مٹ جانے والا دھوکا، غروب ہو جانے والی روشنی، ڈھل جانے والا سایہ اور جھکا ہوا ستون ہے۔ جب اس سے نفرت کرنے والا اس سے دل لگا لیتا ہے اور اجنبی اس سے مطمئن ہو جاتا ہے تو یہ اپنے پیروں کو اُٹھا کر زمین پر دے مارتی ہے اور اپنے جال میں پھانس لیتی ہے اور اپنے تیروں کا نشانہ بنا لیتی ہے اور اس کے گلے میں موت کا پھندا ڈال کر تنگ و تار قبر اور وحشت ناک منزل تک لے جاتی ہے کہ جہاں سے وہ اپنا ٹھکانا (جنت یا دوزخ) دیکھ لے اور اپنے کئے کا نتیجہ پالے۔ بعد میں آنے والوں کی حالت بھی اَگلوں کی سی ہے۔ نہ موت کانٹ چھانٹ سے منہ موڑتی ہے اور نہ باقی رہنے والے گناہ سے باز آتے ہیں۔ باہم ایک دوسرے کے طور طریقوں کی پیروی کرتے ہیں اور یکے بعد دیگرے منزلِ منتہا و مقامِ فنا کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
حَتّٰۤی اِذَا تَصَرَّمَتِ الْاُمُوْرُ، وَ تَقَضَّتِ الدُّهُوْرُ، وَ اَزِفَ النُّشُوْرُ، اَخْرَجَهُمْ مِنْ ضَرَآئِحِ الْقُبُوْرِ، وَ اَوْكَارِ الطُّیُوْرِ، وَ اَوْجِرَةِ السِّبَاعِ، وَ مَطَارِحِ الْمَهَالِكِ، سِرَاعًا اِلٰۤی اَمْرِهٖ، مُهْطِعِیْنَ اِلٰی مَعَادِهٖ، رَعِیْلًا صُمُوْتًا، قِیَامًا صُفُوْفًا، یَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ، وَ یُسْمِعُهُمُ الدَّاعِیْ، عَلَیْهِمْ لَبُوْسُ الْاِسْتِكَانَةِ، وَ ضَرَعُ الْاِسْتِسْلَامِ وَ الذِّلَّةِ، قَدْ ضَلَّتِ الْحِیَلُ، وَ انْقَطَعَ الْاَمَلُ، وَ هَوَتِ الْاَفْئِدَةُ كَاظِمَةً، وَ خَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ مُهَیْنِمَةً، وَ اَلْجَمَ الْعَرَقُ، وَ عَظُمَ الشَّفَقُ، وَ اُرْعِدَتِ الْاَسْمَاعُ لِزَبْرَةِ الدَّاعِیْ اِلٰی فَصْلِ الْخِطَابِ، وَ مُقَایَضَةِ الْجَزَآءِ، وَ نَكَالِ الْعِقَابِ، وَ نَوَالِ الثَّوَابِ.
یہاں تک کہ جب تمام معاملات ختم ہو جائیں گے اور دنیا کی عمر تمام ہو جائے گی اور قیامت کا ہنگام آ جائے گا تو اللہ سب کو قبر کے گوشوں [۲] ، پرندوں کے گھونسلوں، درندوں کے بھٹوں اور ہلاکت گاہوں سے نکالے گا، گروہ در گروہ، صامت و ساکت، ایستادہ و صف بستہ امر الٰہی کی طرف بڑھتے ہوئے اور اپنی جائے بازگشت کی جانب دوڑتے ہوئے، نگاهِ قدرت ان پر حاوی اور پکارنے والے کی آواز ان سب کے کان میں آتی ہوئی ہو گی۔ وہ ضعف و بے چارگی کا لباس پہنے ہوئے ہوں گے اور عجز و بے کسی کی وجہ سے ذلت ان پر چھائی ہوئی ہو گی، حیلے اور ترکیبیں غائب اور امیدیں منقطع ہو چکی ہوں گی، دل مایوسانہ خاموشیوں کے ساتھ بیٹھتے ہوں گے، آوازیں دَب کر خاموش ہو جائیں گی، پسینہ منہ میں پھندا ڈال دے گا، وحشت بڑھ جائے گی اور جب انہیں آخری فیصلہ سنانے، عملوں کا معاوضہ دینے اور عذاب و عقوبت اور اجر و ثواب کیلئے بُلایا جائے گا تو پکارنے والے کی گر جدار آواز سے کان لرز اٹھیں گے۔
عِبَادٌ مَّخْلُوْقُوْنَ اقْتِدَارًا، وَ مَرْبُوْبُوْنَ اقْتِسَارًا، وَ مَقْبُوْضُوْنَ احْتِضَارًا، وَ مُضَمَّنُوْنَ اَجْدَاثًا، وَ كَآئِنُوْنَ رُفَاتًا، وَ مَبْعُوْثُوْنَ اَفْرَادًا، وَ مَدِیْنُوْنَ جَزَآءً، وَ مُمَیَّزُوْنَ حِسَابًا قَدْ اُمْهِلُوْا فِیْ طَلَبِ الْمَخْرَجِ، وَ هُدُوْا سَبِیْلَ الْمَنْهَجِ، وَ عُمِّرُوْا مَهَلَ الْمُسْتَعْتِبِ، وَ كُشِفَتْ عَنْهُمْ سُدَفُ الرِّیَبِ، وَ خُلُّوْا لِـمِضْمَارِ الْجِیَادِ، وَ رَوِیَّةِ الْاِرْتِیَادِ، وَ اَنَاةِ الْمُقْتَبِسِ الْمُرْتَادِ، فِیْ مُدَّةِ الْاَجَلِ، وَ مُضْطَرَبِ الْمَهَلِ.
یہ بندے اس کے اقتدار کا ثبوت دینے کیلئے وجود میں آئے ہیں اور غلبہ و تسلط کے ساتھ ان کی تربیت ہوئی ہے۔ نزع کے وقت ان کی روحیں قبض کر لی جاتی ہیں اور قبروں میں رکھ دیئے جاتے ہیں، (جہاں) یہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور (پھر) قبروں سے اکیلے اٹھائے جائیں گے اور عملوں کے مطابق جزا پائیں گے اور سب کو الگ الگ حساب دینا ہو گا۔ انہیں دنیا میں رہتے ہوئے گلو خلاصی کا موقع دیا گیا تھا اور سیدھا راستہ بھی دکھایا جا چکا تھا اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے مہلت بھی دی گئی تھی، شک و شبہات کی تاریکیاں ان سے دور کر دی گئی تھیں اور اس مدتِ حیات و آماجگاہ عمل میں انہیں کھلا چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ آخرت میں دوڑ لگانے کی تیاری اور سوچ بچار سے مقصد کی تلاش کر لیں اور اتنی مہلت پائیں جتنی فوائد کے حاصل کرنے اور اپنی آئندہ منزل کا سامان کرنے کیلئے ضروری ہے۔
فَیَالَهَا اَمْثَالًا صَآئِبَةً، وَ مَوَاعِظَ شَافِیَةً، لَوْ صَادَفَتْ قُلُوْبًا زَاكِیَةً، وَ اَسْمَاعًا وَّاعِیَةً، وَ اٰرَآءً عَازِمَةً، وَ اَلْبَابًا حَازِمَةً!.
یہ کتنی ہی صحیح مثالیں اور شفا بخش نصیحتیں ہیں، بشرطیکہ انہیں پاکیزہ دل اور سننے والے کان اور مضبوط رائیں اور ہوشیار عقلیں نصیب ہوں۔
فَاتَّقُوا اللهَ تَقِیَّةَ مَنْ سَمِـعَ فَخَشَعَ، وَ اقْتَرَفَ فَاعْتَرَفَ، وَ وَجِلَ فَعَمِلَ، وَ حَاذَرَ فَبَادَرَ، وَ اَیْقَنَ فَاَحْسَنَ، وَ عُبِّرَ فَاعْتَبَرَ، وَ حُذِّرَ فَازْدَجَرَ، وَ اَجَابَ فَاَنَابَ، وَ رَجَعَ فَتَابَ، وَ اقْتَدٰی فَاحْتَذٰی، وَ اُرِیَ فَرَاٰی، فَاَسْرَعَ طَالِبًا، وَ نَجَا هَارِبًا، فَاَفَادَ ذَخِیْرَةً، وَ اَطَابَ سَرِیْرَةً، وَ عَمَّرَ مَعَادًا، وَ اسْتَظْهَرَ زَادًا لِّیَوْمِ رَحِیْلِهٖ وَ وَجْهِ سَبِیْلِهٖ، وَ حَالِ حَاجَتِهٖ، وَ مَوْطِنِ فَاقَتِهٖ، وَ قَدَّمَ اَمَامَهٗ لِدَارِ مُقَامِهٖ.
اللہ سے ڈرو! اس شخص کے مانند جس نے نصیحت کی باتوں کو سنا تو جھک گیا، گناہ کیا تو اس کا اعتراف کیا، ڈرا تو عمل کیا، خوف کیا تو نیکیوں کی طرف بڑھا، قیامت کا یقین کیا تو اچھے اعمال بجا لایا، عبرتیں دلائی گئیں تو اس نے عبرت حاصل کی اور خوف دلایا گیا تو بُرائیوں سے رُک گیا اور (اللہ کی پکار پر) لبیک کہی تو پھر اس کی طرف رخ موڑ لیا اور اس کی طرف توبہ و اِنابت کے ساتھ متوجہ ہوا، (اَگلوں کی) پوری پوری پیروی کی اور حق کے دکھائے جانے پر اسے دیکھ لیا۔ ایسا شخص طلبِ حق کیلئے سرگرمِ عمل رہا اور (دنیا کے بندھنوں سے ) چھوٹ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے لئے ذخیرہ فراہم کیا اور باطن کو پاک و صاف رکھا اور آخرت کا گھر آباد کر لیا۔ سفرِ آخرت اور اس کی راه نوردی کیلئے اور احتیاج کے مواقع اور فقر و فاقہ کے مقامات کے پیشِ نظر اس نے زاد اپنے ہمراہ بار کر لیا ہے۔
فَاتَّقُوا اللهَ عِبَادَ اللهِ! جِهَةَ مَا خَلَقَكُمْ لَهٗ، وَ احْذَرُوْا مِنْهُ كُنْهَ مَا حَذَّرَكُمْ مِنْ نَّفْسِهٖ، وَ اسْتَحِقُّوْا مِنْهُ مَاۤ اَعَدَّ لَكُمْ بِالتَّنَجُّزِ لِصِدْقِ مِیْعَادِهٖ، وَ الْحَذَرِ مِنْ هَوْلِ مَعَادِهٖ.
اللہ کے بندو! اپنے پیدا ہونے کی غرض و غایت کے پیش نظر اس سے ڈرتے رہو اور جس حد تک اس نے تمہیں ڈرایا ہے اس حد تک اس سے خوف کھاتے رہو اور اس سے اس کے سچے وعدے کا ایفاء چاہتے ہوئے اور ہول قیامت سے ڈرتے ہوئے ان چیزوں کا استحقاق پیدا کرو جو اس نے تمہارے لئے مہیا کر رکھی ہیں۔
[مِنْهَا]
[اسی خطبہ میں یہ بھی الفاظ ہیں]
جَعَلَ لَكُمْ اَسْمَاعًا لِّتَعِیَ مَا عَنَاهَا، وَ اَبْصَارًا لِّتَجْلُوَ عَنْ عَشَاهَا، وَ اَشْلَآءً جَامِعَةً لِّاَعْضَآئِهَا، مُلَآئِمَةً لِاَحْنَآئِهَا فِیْ تَرْكِیْبِ صُوَرِهَا، وَ مُدَدِ عُمُرِهَا،بِاَبْدَانٍ قَآئِمَةٍۭ بِاَرْفَاقِهَا، وَ قُلُوْبٍ رَآئِدَةٍ لِّاَرْزَاقِهَا، فِیْ مُجَلِّلَاتِ نِعَمِهٖ، وَ مُوْجِبَاتِ مِنَنِهٖ، وَ حَوَاجِزِ عَافِیَتِهٖ.
اس نے تمہارے لئے کان بنائے تاکہ ضروری اور اہم چیزوں کو سن کر محفوظ رکھیں اور اس نے تمہیں آنکھیں دی ہیں تاکہ وہ کوری و بے بصری سے نکل کر روشن و ضیاء بار ہوں اور جسم کے مختلف حصے جن میں سے ہر ایک میں بہت سے اعضاء ہیں جن کے پیچ و خم ان کی مناسبت سے ہیں۔ اپنی صورتوں کی ترکیب اور عمر کی مدتوں کے تناسب کے ساتھ ساتھ ایسے بدنوں کے ساتھ جو اپنے ضروریات کو پورا کر رہے ہیں اور ایسے دلوں کے ساتھ ہیں جو اپنی غذائے روحانی کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ علاوہ دیگر بڑی نعمتوں اور احسان مند بنانے والی بخششوں اور سلامتی کے حصاروں کے۔
وَ قَدَّرَ لَكُمْ اَعْمَارًا سَتَرَهَا عَنْكُمْ، وَ خَلَّفَ لَكُمْ عِبَرًا مِّنْ اٰثَارِ الْمَاضِیْنَ قَبْلَكُمْ، مِنْ مُّسْتَمْتَعِ خَلَاقِهِمْ، وَ مُسْتَفْسَحِ خَنَاقِهِمْ. اَرْهَقَتْهُمُ الْمَنَایَا دُوْنَ الْاٰمَالِ، وَ شَذَّبَهُمْ عَنْهَا تَخَرُّمُ الْاٰجَالِ، لَمْ یَمْهَدُوْا فِیْ سَلَامَةِ الْاَبْدَانِ، وَ لَمْ یَعْتَبِرُوْا فِیْۤ اُنُفِ الْاَوَانِ.
اور اس نے تمہاری عمریں مقرر کر دی ہیں جنہیں تم سے مخفی رکھا ہے اور گزشتہ لوگوں کے حالات و واقعات سے تمہارے لئے عبرت اندوزی کے مواقع باقی رکھ چھوڑے ہیں۔ ایسے لوگ جو اپنے حظ و نصیب سے لذت اندوز تھے اور کھلے بندوں آزاد پھرتے تھے، کس طرح امیدوں کے بر آنے سے پہلے موت نے انہیں جا لیا اور عمر کے ہاتھ نے انہیں ان امیدوں سے دور کر دیا۔ اس وقت انہوں نے کچھ سامان نہ کیا کہ جب بدن تندرست تھے اور اس وقت عبرت و نصیحت حاصل نہ کی کہ جب جوانی کا دور تھا۔
فَهَلْ یَنْتَظِرُ اَهْلُ بَضَاضَةِ الشَّبَابِ اِلَّا حَوَانِیَ الْهَرَمِ؟ وَ اَهْلُ غَضَارَةِ الصِّحَّةِ اِلَّا نَوَازِلَ السَّقَمِ؟ وَ اَهْلُ مُدَّةِ الْبَقَآءِ اِلَّاۤ اٰوِنَةَ الْفَنَآءِ؟ مَعَ قُرْبِ الزِّیَالِ، وَ اُزُوْفِ الْاِنْتِقَالِ، وَ عَلَزِ الْقَلَقِ، وَ اَلَمِ الْمَضَضِ، وَ غُصَصِ الْجَرَضِ، وَ تَلَفُّتِ الْاِسْتِغَاثَةِ بِنُصْرَةِ الْحَفَدَةِ وَ الْاَقْرِبَآءِ، وَ الْاَعِزَّةِ وَ الْقُرَنَآءِ! فَهَلْ دَفَعَتِ الْاَقَارِبُ، اَوْ نَفَعَتِ النَّوَاحِبُ؟
کیا یہ بھر پور جوانی والے، کمر جھکا دینے والے بڑھاپے کے منتظر ہیں اور صحت کی تر و تازگی والے ٹوٹ پڑنے والی بیماریوں کے انتظار میں ہیں اور یہ زندگی والے فنا کی گھڑیاں دیکھ رہے ہیں؟ جب چل چلاؤ کا ہنگام نزدیک اور کوچ قریب ہو گا اور (بستر مرگ پر) قلق و اضطراب کی بے قراریاں اور سوز و تپش کی بے چینیاں اور لعابِ دہن کے پھندے ہوں گے اور عزیز و اقارب اور اولاد و احباب سے مدد کیلئے فریاد کرتے ہوئے ادھر ادھر کروٹیں بدلنے کا وقت آ گیا ہو گا تو کیا قریبیوں نے موت کو روک لیا، یا رونے والیوں کے (رونے نے) کچھ فائدہ پہنچایا۔
وَ قَدْ غُوْدِرَ فِیْ مَحَلَّةِ الْاَمْوَاتِ رَهِیْنًا، وَ فِیْ ضِیْقِ الْمَضْجَعِ وَحِیْدًا، قَدْ هَتَكَتِ الْهَوَامُّ جِلْدَتَهٗ، وَ اَبْلَتِ النَّوَاهِكُ جِدَّتَهٗ، وَ عَفَتِ الْعَوَاصِفُ اٰثَارَهٗ، وَ مَحَا الْحَدَثَانُ مَعَالِمَهٗ، وَ صَارَتِ الْاَجْسَادُ شَحِبَةًۢ بَعْدَ بَضَّتِهَا، وَ الْعِظَامُ نَخِرَةًۢ بَعْدَ قُوَّتِهَا، وَ الْاَرْوَاحُ مُرْتَهَنَةًۢ بِثِقَلِ اَعْبَآئِهَا، مُوْقِنَةًۢ بِغَیْبِ اَنْۢبَآئِهَا، لَا تُسْتَزَادُ مِنْ صَالِحِ عَمَلِهَا، وَ لَا تُسْتَعْتَبُ مِنْ سَیِّئِ زَلَلِهَا!.
اسے تو قبرستان میں قبر کے ایک تنگ گوشے کے اندر جکڑ باندھ کر اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے، سانپ اور بچھوؤں نے اس کی جلد کو چھلنی کر دیا ہے اور (وہاں کی) پامالیوں نے اس کی تر و تازگی کو فنا کر دیا ہے، آندھیوں نے اس کے آثار مٹا ڈالے اور حادثات نے اس کے نشانات تک محو کر دیئے۔ تر و تازہ جسم لاغر و پژ مردہ ہو گئے، ہڈیاں گل سڑ گئیں اور رُوحیں (گناہ کے) بار گراں کے نیچے دبی پڑی ہیں اور غیب کی خبروں پر یقین کر چکی ہیں، لیکن ان کیلئے اب نہ اچھے عملوں میں اضافہ کی کوئی صورت اور نہ بد اعمالیوں سے توبہ کی کچھ گنجائش ہے۔
اَوَ لَسْتُمْ اَبْنَآءَ الْقَوْمِ وَ الْاٰبَآءَ، وَ اِخْوَانَهُمْ وَالْاَقْرِبَآءَ؟ تَحْتَذُوْنَ اَمْثِلَتَهُمْ، وَ تَرْكَبُوْنَ قِدَّتَهُمْ، وَ تَطَؤُوْنَ جَادَّتَهُمْ؟! فَالْقُلُوْبُ قَاسِیَةٌ عَنْ حَظِّهَا، لَاهِیَةٌ عَنْ رُشْدِهَا، سَالِكَةٌ فِیْ غَیْرِ مِضْمَارِهَا! كَاَنَّ الْمَعْنِیَّ سِوَاهَا، وَ كَاَنَّ الرُّشْدَ فِیْۤ اِحْرَازِ دُنْیَاهَا.
کیا تم انہی مر چکنے والوں کے بیٹے، باپ، بھائی اور قریبی نہیں ہو؟ آخر تمہیں بھی تو ہو بہو انہی کے سے حالات کا سامنا کرنا اور انہی کی راہ پر چلنا ہے اور انہی کی شاہراہ پر گزرنا ہے۔ مگر دل اب بھی حظ و سعادت سے بے رغبت اور ہدایت سے بے پروا ہیں اور غلط میدان میں جا رہے ہیں۔ گویا ان کے علاوہ کوئی اور مراد و مخاطب ہے اور گویا ان کیلئے دنیا سمیٹ لینا ہی صحیح راستہ ہے۔
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ مَجَازَكُمْ عَلَی الصِّرَاطِ وَ مَزَالِقِ دَحْضِهٖ، وَ اَهَاوِیْلِ زَلَـلِهٖ، وَ تَارَاتِ اَهْوَالِهٖ.
یاد رکھو کہ تمہیں گزرنا ہے صراط پر اور وہاں کی ایسی جگہوں پر جہاں قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں اور پَیر پھسل جاتے ہیں اور قدم قدم پر خوف و دہشت کے خطرات ہیں۔
فَاتَّقُوا اللهَ تَقِیَّةَ ذِیْ لُبٍّ شَغَلَ التَّفَكُّرُ قَلْبَهٗ، وَ اَنْصَبَ الْخَوْفُ بَدَنَهٗ، وَ اَسْهَرَ التَّهَجُّدُ غِرَارَ نَوْمِهٖ، وَ اَظْمَاَ الرَّجَآءُ هَوَاجِرَ یَوْمِهٖ، وَ ظَلَفَ الزُّهْدُ شَهَوَاتِهٖ، وَ اَوْجَفَ الذِّكْرُ بِلِسَانِهٖ، وَ قَدَّمَ الْخَوْفَ لِاَمَانِهٖ، وَ تَنَكَّبَ الْمَخَالِجَ عَنْ وَّضَحِ السَّبِیْلِ، وَ سَلَكَ اَقْصَدَ الْمَسَالِكَ اِلَی النَّهْجِ الْمَطْلُوْبِ، وَ لَمْ تَفْتِلْهُ فَاتِلَاتُ الْغُرُوْرِ، وَ لَمْ تَعْمَ عَلَیْهِ مُشْتَبِهَاتُ الْاُمُوْرِ، ظَافِرًۢا بِفَرْحَةِ الْبُشْرٰی، وَ رَاحَةِ النُّعْمٰی،فِیْۤ اَنْعَمِ نَوْمِهٖ، وَ اٰمَنِ یَوْمِهٖ. قَدْ عَبَرَ مَعْبَرَ الْعَاجِلَةِ حَمِیْدًا، وَ قَدَّمَ زَادَ الْاٰجِلَةِ سَعِیْدًا، وَ بَادَرَ مِنْ وَّجَلٍ، وَ اَكْمَشَ فِیْ مَهَلٍ، وَ رَغِبَ فِیْ طَلَبٍ، وَ ذَهَبَ عَنْ هَرَبٍ، وَ رَاقَبَ فِیْ یَوْمِهٖ غَدَهٗ، وَ نَظَرَ قُدُمًا اَمَامَهٗ.
اللہ سے اس طرح ڈرو جس طرح وہ مردِ زیرک و دانا ڈرتا ہے کہ جس کے دل کو (عقبیٰ کی) سوچ بچار نے اور چیزوں سے غافل کر دیا ہو اور خوف نے اس کے بدن کو تعب و کلفت میں ڈال دیا ہو اور نمازِ شب نے اس کی تھوڑی بہت نیند کو بھی بیداری سے بدل دیا ہو اور امید ثواب میں اس کے دن کی تپتی ہوئی دوپہریں پیاس میں گزرتی ہوں اور زہد و ورع نے اس کی خواہشوں کو روک دیا ہو اور ذکر ِالٰہی سے اس کی زبان ہر وقت حرکت میں ہو، خطروں کے آنے سے پہلے اس نے خوف کھایا ہو اور کٹی پھٹی راہوں سے بچتا ہوا سیدھی راہ پر ہو لیا ہو اور راہ مقصود پر آنے کیلئے سیدھا راستہ اختیار کیا ہو، نہ خوش فریبیوں نے اس میں پیچ و تاب پیدا کیا ہو اور نہ مشتبہ باتوں نے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈالا ہو، بشارت کی خوشیوں اور نعمت کی آسائشوں کو پا کر میٹھی نیند سوتا ہے اور امن چین سے دن گزارتا ہے، وہ دنیا کی عبور گاہ سے قابلِ تعریف سیرت کے ساتھ گزر گیا اور آخرت کی منزل پر سعادتوں کے ساتھ پہنچا، (وہاں کے) خطروں کے پیش نظر اس نے نیکیوں کی طرف قدم بڑھایا اور اچھائیوں کیلئے اس وقفہ حیات میں تیز گام چلا، طلبِ آخرت میں دلجمعی و رغبت سے بڑھتا گیا اور برائیوں سے بھاگتا رہا اور آج کے دن کل کا خیال رکھا اور پہلے سے اپنے آگے کی ضرورتوں پر نظر رکھی۔
فَكَفٰی بِالْجَنَّةِ ثَوَابًا وَّ نَوَالًا، وَ كَفٰی بِالنَّارِ عِقَابًا وَّ وَبَالًا! وَ كَفٰی بِاللهِ مُنْتَقِمًا وَّ نَصِیْرًا! وَ كَفٰی بِالْكِتَابِ حَجِیْجًا وَّ خَصِیْمًا!.
بخشش و عطا کیلئے جنت اور عقاب و عذاب کیلئے دوزخ سے بڑھ کر کیا ہو گا اور انتقام لینے اور مدد کرنے کیلئے اللہ سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے؟ اور سند و حجت بن کر اپنے خلاف سامنے آنے کیلئے قرآن سے بڑھ کر کیا ہے؟
اُوْصِیْكُمْ بِتَقْوَی اللهِ الَّذِیْۤ اَعْذَرَ بِمَاۤ اَنْذَرَ، وَ احْتَجَّ بِمَا نَهَجَ، وَ حَذَّرَكُمْ عَدُوًّا نَّفَذَ فِی الصُّدُوْرِ خَفِیًّا، وَ نَفَثَ فِی الْاٰذَانِ نَجِیًّا، فَاَضَلَّ وَ اَرْدٰی، وَ وَعَدَ فَمَنّٰی،وَ زَیَّنَ سَیِّئَاتِ الْجَرَآئِمِ، وَ هَوَّنَ مُوْبِقَاتِ الْعَظَآئِمِ، حَتّٰۤی اِذَا اسْتَدْرَجَ قَرِیْنَتَهٗ، وَ استَغْلَقَ رَهِیْنَتَهٗ، اَنْكَرَ مَا زَیَّنَ، وَ اسْتَعْظَمَ مَا هَوَّنَ، وَ حَذَّرَ مَاۤ اَمَّنَ.
میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جس نے ڈرانے والی چیزوں کے ذریعے عذر تراشی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رکھی اور سيدھی راه دکھا کر حجت تمام کر دى ہے اور تمہیں اس دشمن سے ہوشيار کر ديا ہے جو چپکے سے سينوں ميں نفوذ کر جاتا ہے اور کانا پھوسى کرتے ہوئے کانوں ميں پھونک ديتا ہے۔ چنانچه وه گمراه کر کے تباه و برباد کر ديتا ہے اور وعدے كركے طفل تسليوں سے ڈھارس بندھائے ركھتا ہے۔ (پہلے تو) بڑے سے بڑے جرموں كو سنوار كر سامنے لاتا ہے اور بڑے بڑے مہلک گناہوں کو ہلکا اور سبک کر کے دکھاتا ہے اور جب بہکائے ہوئے نفس كو گمراہى كے ڈھرے پر لگا ديتا ہے اور اسے اپنے پھندوں ميں اچھی طرح جكڑ ليتا ہے تو جسے سجایا تھا اُس كو برا كہنے لگتا ہے اور جسے ہلکا اور سبک دكھايا تھا اس کی گراں باری و اہمیت بتاتا ہے اور جس سے مطمئن اور بے خوف کیا تھا اس سے ڈرانے لگتا ہے۔
[وَ مِنْهَا: فِیْ صِفَةِ خَلْقِ الْاِنْسَانِ]
[اسی خطبے کا ایک جز یہ ہے کہ جس میں انسان کی پیدائش کا بیان ہے]
اَمْ هٰذَا الَّذِیْۤ اَنْشَاَهٗ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْحَامِ، وَ شُغُفِ الْاَسْتَارِ، نُطْفَةً دِهَاقًا، وَ عَلَقَةً مُّحَاقًا، وَ جَنِیْنًا وَّ رَاضِعًا، وَ وَلِیْدًا وَّ یَافِعًا. ثُمَّ مَنَحَهٗ قَلْبًا حَافِظًا، وَ لِسَانًا لَّافِظًا، وَ بَصَرًا لَّاحِظًا، لِیَفْهَمَ مُعْتَبِرًا، وَ یُقَصِّرَ مُزْدَجِرًا.
یا پھر اسے دیکھو جسے (اللہ نے) ماں کے پیٹ کی اندھیاریوں اور پردے کی اندرونی تہوں میں بنایا، جو ایک (جراثیم حیات) سے چھلکتا ہوا نطفہ اور بے شکل و صورت کا منجمد خون تھا، (پھر انسانی خط و خال کے سانچے میں ڈھل کر) جنین بنا اور (پھر) طفل شیر خوار اور (پھر حد ِرضاعت سے نکل کر)، طفل (نوخیز) اور (پھر) پورا پورا جوان ہوا۔ (پھر) اللہ نے اسے نگہداشت کرنے والا دل اور بولنے والی زبان اور دیکھنے والی آنکھیں دیں تاکہ عبرت حاصل کرتے ہوئے کچھ سمجھے بوجھے اور نصیحت کا اثر لیتے ہوئے برائیوں سے باز رہے۔
حَتّٰۤی اِذَا قَامَ اعْتِدَالُهٗ، وَ اسْتَوٰی مِثَالُهٗ، نَفَرَ مُسْتَكْبِرًا، وَ خَبَطَ سَادِرًا، مَاتِحًا فِیْ غَرْبِ هَوَاهُ، كَادِحًا سَعْیًا لِّدُنْیَاهُ، فِیْ لَذَّاتِ طَرَبِهٖ، وَ بَدَوَاتِ اَرَبِهٖ، لَا یَحْتَسِبُ رَزِیَّةً، وَ لَا یَخْشَعُ تَقِیَّةً، فَمَاتَ فِیْ فِتْنَتِهٖ غَرِیْرًا، وَ عَاشَ فِیْ هَفْوَتِهٖ یَسِیْرًا، لَمْ یُفِدْ عِوَضًا، وَ لَمْ یَقْضِ مُفْتَرَضًا.
مگر ہوا یہ کہ جب اس (کے اعضاء) میں توازن و اعتدال پیدا ہو گیا اور اس کا قد و قامت اپنی بلندی پر پہنچ گیا تو غرور و سرمستی میں آ کر (ہدایت سے) بھڑک اٹھا اور اندھا دھند بھٹکنے لگا۔ اس طرح کہ رندی و ہوسناکی کے ڈول بھر بھر کے کھینچ رہا تھا اور نشاط و طرب کی کیفیتوں اور ہوس بازی کی تمناؤں کو پورا کرنے میں جان کھپائے ہوئے تھا۔ نہ کسی مصیبت کو خاطر میں لاتا تھا، نہ کسی ڈر اندیشے کا اثر لیتا تھا۔ آخر انہی شوریدگیوں میں غافل و مدہوش حالت میں مر گیا اور جو تھوڑی بہت زندگی تھی اسے بیہودگیوں میں گزار گیا۔ نہ ثواب کمایا نہ کوئی فریضہ پورا کیا۔
دَهِمَتْهُ فَجَعَاتُ الْمَنِیَّةِ فِیْ غُبَّرِ جِمَاحِهٖ، وَ سَنَنِ مِرَاحِهٖ، فَظَلَّ سَادِرًا، وَ بَاتَ سَاهِرًا، فِیْ غَمَرَاتِ الْاٰلَامِ وَ طَوَارِقِ الْاَوْجَاعِ وَ الْاَسْقَامِ، بَیْنَ اَخٍ شَقِیْقٍ، وَ وَالِدٍ شَفِیْقٍ، وَ دَاعِیَةٍۭ بِالْوَیْلِ جَزَعًا، وَ لَادِمَةٍ لِّلصَّدْرِ قَلَقًا. وَ الْمَرْءُ فِیْ سَكْرَةٍ مُّلْهِیَةٍ، وَ غَمْرَةٍ كَارِثَةٍ، وَ اَنَّةٍ مُّوْجِعَةٍ، وَ جَذْبَةٍ مُّكْرِبَةٍ وَّ سَوْقَةٍ مُّتْعِبَةٍ.
ابھی وہ باقی ماندہ سر کشیوں کی راہ ہی میں تھا کہ موت لانے والی بیماریاں اس پر ٹوٹ پڑیں کہ وہ بھونچکا سا ہو کر رہ گیا اور اس نے رات اندوہ و مصیبت کی کلفتوں اور درد و آلام کی سختیوں میں جاگتے ہوئے اس طرح گزار دی کہ وہ حقیقی بھائی، مہربان باپ، بے چینی سے فریاد کرنے والی ماں اور بے قراری سے سینہ کوٹنے والی بہن کے سامنے سکرات کی مدہوشیوں اور سخت بدحواسیوں اور درد ناک چیخوں اور سانس اُکھڑنے کی بے چینیوں اور نزع کی درماندہ کر دینے والی شدتوں میں پڑا ہوا تھا۔
ثُمَّ اُدْرِجَ فِیْۤ اَكْفَانِهٖ مُبْلِسًا، وَ جُذِبَ مُنْقَادًا سَلِسًا، ثُمَّ اُلْقِیَ عَلَی الْاَعَوادِ رَجِیْعَ وَصَبٍ، وَ نِضْوَ سَقَمٍ، تَحْمِلُهٗ حَفَدَةُ الْوِلْدَانِ، وَ حَشَدَةُ الْاِخْوَانِ، اِلٰی دَارِ غُرْبَتِهٖ، وَ مُنْقَـطَعِ زَوْرَتِهٖ.
پھر اسے کفن میں نامرادی کے عالم میں لپیٹ دیا گیا اور وہ بڑے چپکے سے بلا مزاحمت دوسروں کی نقل و حرکت کا پابند رہا۔ پھر اسے تختے پر ڈالا گیا، اس عالم میں کہ وہ محنت و مشقت سے خستہ حال اور بیماریوں کے سبب سے نڈھال ہو چکا تھا۔ اسے سہارا دینے والے نوجوانوں اور تعاون کرنے والے بھائیوں نے کاندھا دے کر پردیس کے گھر تک پہنچا دیا کہ جہاں میل ملاقات کے سارے سلسلے ٹوٹ جاتے ہیں۔
حَتّٰی اِذَا انْصَرَفَ الْمُشَیِّـعُ، وَ رَجَعَ الْمُتَفَجِّـعُ اُقْعِدَ فِیْ حُفْرَتِهٖ نَجِیًّا، لِبَهْتَةِ السُّؤَالِ، وَ عَثْرَةِ الْاِمْتِحَانِ. وَ اَعْظَمُ مَا هُنَالِكَ بَلِیَّةً نُّزُوْلُ الْحَمِیْمِ، وَ تَصْلِیَةُ الْجَحِیْمِ، وَ فَوْرَاتُ السَّعِیْرِ، وَ سَوْرَاتُ الزَّفِیْرِ، لَا فَتْرَةٌ مُّرِیْحَةٌ، وَ لَا دَعَةٌ مُّزِیْحَةٌ، وَ لَا قُوَّةٌ حَاجِزَةٌ، وَ لَا مَوْتَةٌ نَّاجِزَةٌ، وَ لَا سِنَةٌ مُّسَلِّیَةٌ، بَیْنَ اَطْوَارِ الْمَوْتَاتِ، وَ عَذَابِ السَّاعَاتِ! اِنَّا بِاللهِ عَآئِذُوْنَ!.
اور جب مشایعت کرنے والے اور مصیبت زدہ (عزیز و اقارب) پلٹ آئے تو اُسے قبر کے گڑھے میں اٹھا کر بٹھا دیا گیا۔ فرشتوں کے سوال و جواب کے واسطے سوال کی دہشتوں اور امتحان کی ٹھوکریں کھانے کیلئے اور پھر وہاں کی سب سے بڑی آفت کھولتے ہوئے پانی کی مہمانی اور جہنم میں داخل ہونا ہے اور دوزخ کی لپٹیں اور بھڑکتے ہوئے شعلوں کی تیزیاں ہیں۔ نہ اس میں راحت کیلئے کوئی وقفہ ہے اور نہ سکون و راحت کیلئے کچھ دیر کیلئے بچاؤ ہے، نہ روکنے والی کوئی قوت ہے اور نہ اب سکون دینے والی موت، نہ تکلیف کو بھلا دینے کیلئے نیند، بلکہ وہ ہر وقت قسم قسم کی موتوں اور گھڑی گھڑی کے (نت نئے) عذابوں میں ہو گا۔ ہم اللہ ہی سے پناہ کے خواستگار ہیں۔
عِبَادَ اللهِ! اَیْنَ الَّذِیْنَ عُمِّرُوْا فَنَعِمُوْا، وَ عُلِّمُوْا فَفَهِمُوْا، وَ اُنْظِرُوْا فَلَهُوْا، وَ سَلِمُوْا فَنَسُوْا؟ اُمْهِلُوْا طَوِیْلًا، وَ مُنِحُوْا جَمِیْلًا، وَ حُذِّرُوْا اَلِیْمًا، وَ وُعِدُوْا جَسِیْمًا! احْذَرُوا الذُّنُوْبَ الْمُوَرِّطَةَ، وَ الْعُیُوْبَ الْمُسْخِطَةَ.
اللہ کے بندو! وہ لوگ کہاں ہیں جنہیں عمریں دی گئیں تو وہ نعمتوں سے بہرہ یاب ہوتے رہے اور انہیں بتایا گیا تو وہ سب کچھ سمجھ گئے اور وقت دیا گیا تو انہوں نے وقت غفلت میں گزار دیا اور صحیح و سالم رکھے گئے تو اس نعمت کو بھول گئے۔ انہیں لمبی مہلت دی گئی تھی، اچھی اچھی چیزیں بھی انہیں بخشی گئی تھیں، درد ناک عذاب سے انہیں ڈرایا بھی گیا تھا اور بڑی چیزوں کے ان سے وعدے بھی کئے گئے تھے۔ (تو اب تم ہی) ورطۂ ہلاکت میں ڈالنے والے گناہوں اور اللہ کو ناراض کرنے والی خطاؤں سے بچتے رہو۔
اُولِی الْاَبْصَارِ وَ الْاَسْمَاعِ، وَ الْعَافِیَةِ وَ الْمَتَاعِ! هَلْ مِنْ مَّنَاصٍ اَوْ خَلَاصٍ، اَوْ مَعَاذٍ اَوْ مَلَاذٍ، اَوْ فِرَارٍ اَوْ مَحَارٍ! اَمْ لَا؟ ﴿فَاَنّٰی تُؤْفَكُوْنَ﴾! اَمْ اَیْنَ تُصْرَفُوْنَ! اَمْ بِمَاذَا تَغْتَرُّوْنَ؟ وَ اِنَّمَا حَظُّ اَحَدِكُمْ مِنَ الْاَرْضِ، ذَاتِ الطُّوْلِ وَ الْعَرْضِ، قِیْدُ قَدِّهٖ، مُتَعَفِّرًا عَلٰی خَدِّهٖ!.
اے چشم و گوش رکھنے والو! اے صحت و ثروت والو! کیا بچاؤ کی کوئی جگہ یا چھٹکارے کی کوئی گنجائش ہے؟ یا کوئی پناہ گاہ یا ٹھکانا ہے؟ بھاگ نکلنے کا موقع یا پھر دنیا میں پلٹ کر آنے کی کوئی صورت ہے؟ اگر نہیں ہے تو پھر کہاں بھٹک رہے ہو؟ اور کدھر کا رخ کئے ہوئے ہو؟ یا کن چیزوں کے فریب میں آ گئے ہو؟ حالانکہ اس لمبی چوڑی زمین میں سے تم میں سے ہر ایک کا حصہ اپنے قد بھر کا ٹکڑا ہی تو ہے کہ جس میں وہ مٹی سے اٹا ہوا رخسار کے بَل پڑا ہو گا۔
اَلْاٰنَ عِبَادَ اللهِ! وَ الْخِنَاقُ مُهْمَلٌ، وَ الرُّوْحُ مُرْسَلٌ، فِیْ فَیْنَةِ الْاِرْشَادِ، وَ رَاحَةِ الْاَجْسَادِ، وَ بَاحَةِ الْاِحْتِشَادِ، وَ مَهَلِ الْبَقِیَّةِ، وَ اُنُفِ الْمَشِیَّةِ، وَ اِنْظَارِ التَّوْبَةِ، وَ انْفِسَاحِ الْحَوْبَةِ قَبْلَ الضَّنْكِ وَ الْمَضِیْقِ، وَ الرَّوْعِ وَ الزُّهُوْقِ، وَ قَبْلَ قُدُوْمِ الْغَآئِبِ الْمُنتَظَرِ، وَ اِخْذَةِ الْعَزِیْزِ الْمُقْتَدِرِ.
یہ ابھی غنیمت ہے خدا کے بندو، جبکہ گردن میں پھندا نہیں پڑا ہوا ہے اور روح بھی آزاد ہے۔ ہدایت حاصل کرنے کی فرصت اور جسموں کی راحت اور مجلسوں کے اجتماع اور زندگی کی بقایا مہلت اور از سر نو اختیار سے کام لینے کے مواقع اور توبہ کی گنجائش اور اطمینان کی حالت میں، قبل اس کے کہ تنگی و ضیق میں پڑ جائے اور خوف و اضمحلال اس پر چھا جائے اور قبل اس کے کہ موت آ جائے اور قادر و غالب کی گرفت اسے جکڑ لے۔
وَ فِی الْخَبَرِ: اَنَّهٗ ؑ لَمَّا خَطَبَ بِهٰذِهِ الْخُطْبَةِ اقْشَعَرَّتْ لَهَا الْجُلُوْدُ، وَ بَكَتِ الْعُیُوْنُ، وَ رَجَفَتِ الْقُلُوْبُ. وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّسَمِّیْ هٰذِهِ الْخُطْبَةَ: «الْغَرَّآءَ».
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: وارد ہوا ہے کہ جب حضرتؑ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا تو بدن لرزنے لگے، رونگٹے کھڑے ہو گئے، آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور دل کانپ اُٹھے۔ بعض لوگ اس خطبہ کو ’’خطبۂ غراء‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
۱خداوند عالم نے ہر جاندار کو قدرتی لباس سے آراستہ کیا ہے جو سردی اور گرمی میں اس کیلئے بچاؤ کا ذریعہ ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی کو پروں میں ڈھانپ رکھا ہے اور کسی کو اونی لبادے اُڑھا دیئے ہیں، مگر انسانی شعور کی بلندی اور اس کی شرم و حیا کا جوہر دوسری مخلوقات سے امتیاز چاہتا ہے۔ لہٰذا اس کے امتیاز کو برقرار رکھنے کیلئے اسے تن پوشی کے طریقے بتائے گئے۔ اسی فطری تقاضے کا نتیجہ تھا کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کے بدن سے لباس اتروا لیا گیا تو انہوں نے جنت کے پتوں سے اپنی ستر پوشی کر لی جیسا کہ قدرت کا ارشاد ہے:
﴿فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْءٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَـنَّةِ ؕ﴾
جب ان دونوں نے اس درخت (کے پھل) کو چکھا تو اُن کے لباس اتر گئے اور بہشت کے پتوں کو جوڑ کر اپنے اوپر ڈھانپنے لگے۔[۳]
یہ اس عتاب کا نتیجہ تھا جو ترکِ اَولیٰ کی وجہ سے ہوا تھا۔ تو جب لباس کا اتروانا عتاب کا اظہار ہے تو اس کا پہنانا لطف و احسان ہو گا اور یہ چونکہ انسان کیلئے مخصوص ہے، اس لئے خصوصیت سے اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ خداوندِ عالم تمام مرنے والوں کو محشور کرے گا۔ خواہ وہ درندوں کا لقمہ اور گوشت خور پرندوں کی غذا بن کر ان کے جزوِ بدن ہو چکے ↑
۲ہوں۔ اس سے ان حکماء کی ردّ مقصود ہے کہ جو «اَلْمَعْدُوْمُ لَایُعَادُ» (اعادہ معدوم محال ہے) کی بنا پر معادِ جسمانی کے قائل نہیں ہیں۔
ان کی اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جو چیز فنا ہو کر معدوم ہو جائے، وہ بعینہٖ دوبارہ پلٹ نہیں سکتی، لہٰذا کائنات کے مٹ جانے کے بعد کسی چیز کا دوبارہ پلٹ کر آنا ناممکن ہے، لیکن یہ عقیدہ درست نہیں۔ کیونکہ اجزاء کا منتشر و پاشاں ہو جانا ان کا نابود ہو جانا نہیں ہے کہ ان کے دوبارہ ترکیب پا کر یکجا ہونے کو ’’اعادہ معدوم‘‘ سے تعبیر کیا جائے، بلکہ متفرق و پراگندہ اجزاء کسی نہ کسی شکل و صورت میں موجود رہتے ہیں۔
البتہ اس سلسلہ میں یہ اعتراض کچھ وزن رکھتا ہے کہ جب ہر شخص کو بعینہٖ اپنے اجزاء کے ساتھ محشور ہونا ہے تو در صورتیکہ ایک انسان دوسرے انسان کو نگل چکا ہو گا اور ایک کے اجزائے بدن دوسرے کے اجزائے بدن بن چکے ہوں گے تو ان دونوں کو انہی کے اجزائے بدن کے ساتھ کیونکر پلٹانا ممکن ہو گا، جب کہ اس سے کھا جانے والے انسان کے اجزاء میں کمی کا رونما ہونا ضروری ہے۔
اس کا جواب متکلمین نے یہ دیا ہے کہ ہر بدن میں کچھ اجزاء اصلی ہوتے ہیں اور کچھ اجزاء غیر اصلی۔ اصلی اجزاء ابتدائے عمر سے آخر عمر تک قائم و برقرار رہتے ہیں اور ان میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا اور حشر و نشر کا تعلق انہی اصلی اجزاء سے ہے کہ جن کے پلٹا لینے سے کھا جانے والے انسان کے اجزاء میں کمی پیدا نہ ہو گی۔↑
[۱]۔ سورۂ اعراف، آیت ۲۲۔