جب تمہیں تھوڑی بہت نعمتیں حاصل ہوں تو ناشکری سے انہیں اپنے تک پہنچنے سے پہلے بھگا نہ دو۔ حکمت 12
(١٩٧) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۹۷)
كَانَ یُوْصِیْ بِهٖۤ اَصْحَابَهٗ
حضرتؑ اپنے اصحاب کو یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے
تَعَاهَدُوْۤا اَمْرَ الصَّلٰوةِ، وَ حَافِظُوْا عَلَیْهَا، وَ اسْتَكْثِرُوْا مِنْهَا، وَ تَقَرَّبُوْا بِهَا، فَاِنَّهَا ﴿كَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا﴾.
نماز کی پابندی اور اس کی نگہداشت کرو اور اسے زیادہ سے زیادہ بجا لاؤ اور اس کے ذریعہ سے اللہ کا تقرب چاہو، کیونکہ نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ واجب کی گئی ہے۔
اَ لَا تَسْمَعُوْنَ اِلٰی جَوَابِ اَهْلِ النَّارِ حِیْنَ سُئِلُوْا: ﴿مَا سَلَكَـكُمْ فِیْ سَقَرَ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَۙ﴾ وَ اِنَّهَا لَـتَحُتُّ الذُّنُوْبَ حَتَّ الْوَرَقِ، وَ تُطْلِقُهَاۤ اِطْلَاقَ الرِّبَقِ،
کیا (قرآن میں) دوزخیوں کے جواب کو تم نے نہیں سنا کہ جب ان سے پوچھا جائے گا کہ: ’’کون سی چیز تمہیں دوزخ کی طرف کھینچ لائی ہے؟ تو وہ کہیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے‘‘ ۔ بلاشبہ نماز گناہوں کو جھاڑ کر اس طرح الگ کر دیتی ہے جس طرح (درخت سے) پتے جھڑتے ہیں اور انہیں اس طرح الگ کرتی ہے جس طرح (چوپاؤں کی گردنوں سے) پھندے کھول کر انہیں رہا کیا جاتا ہے۔
وَ شَبَّهَهَا رَسُوْلُ اللهِ -ﷺ بِالْحَمَّةِ تَكُوْنُ عَلٰی بَابِ الرَّجُلِ، فَهُوَ یَغْتَسِلُ مِنْهَا فِی الْیَوْمِ وَ اللَّیْلَةِ خَمْسَ مَرَّاتٍ، فَمَا عَسٰۤی اَنْ یَّبْقٰی عَلَیْهِ مِنَ الدَّرَنِ ؟ وَ قَدْ عَرَفَ حَقَّهَا رِجَالٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ لَا تَشْغَلُهُمْ عَنْهَا زِیْنَةُ مَتَاعٍ، وَ لَا قُرَّةُ عَیْنٍ مِّنْ وَّلَدٍ وَّ لَا مَالٍ.
رسول اللہ ﷺ نے نماز کو اس گرم چشمہ سے تشبیہ دی ہے جو کسی شخص کے گھر کے دروازہ پر ہو اور وہ اس میں دن رات پانچ مرتبہ غسل کرے تو کیا امید کی جا سکتی ہے کہ اس کے (جسم پر) کوئی میل رہ جائے گا؟ نماز کا حق تو وہی مردانِ با خدا پہچانتے ہیں جنہیں متاع دنیا کی سج دھج اور مال و اولاد کا سرور دیدہ و دل اس سے غفلت میں نہیں ڈالتا۔
یَقُولُ اللهُ سُبْحَانَهٗ: ﴿رِجَالٌ ۙ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءِ الزَّكٰوةِ ۪ۙ ﴾. وَ كَانَ رَسُوْلُ اللهِ -ﷺ نَصِبًۢا بِالصَّلٰوةِ بَعْدَ التَّبْشِیْرِ لَهٗ بِالْجَنَّةِ، لِقَوْلِ اللهِ سُبْحَانَهٗ: ﴿وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَا ؕ ﴾، فَكَانَ یَاْمُرُ بِهَاۤ اَهْلَهٗ وَ یَصْبِرُ عَلَیْهَا نَفْسَهٗ.
(چنانچہ) اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے کہ: ’’کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جنہیں خدا کے ذکر اور نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے سے نہ تجارت غافل کرتی ہے، نہ خرید و فروخت‘‘۔ اور رسول اللہ ﷺ باوجودیکہ انہیں جنت کی نوید دی جا چکی تھی (بکثرت) نماز پڑھنے سے اپنے کو زحمت و تعب میں ڈالتے تھے۔ چونکہ انہیں اللہ کا ارشاد تھا کہ: ’’اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس کی پابندی کرو‘‘۔ چنانچہ حضرتؐ اپنے گھر والوں کو خصوصیت کے ساتھ نماز کی تاکید بھی فرماتے تھے اور خود بھی اس کی کثرت و بجا آوری میں زحمت و مشقت برداشت کرتے تھے۔
ثُمَّ اِنَّ الزَّكٰوةَ جُعِلَتْ مَعَ الصَّلٰوةِ قُرْبَانًا لِّاَهْلِ الْاِسْلَامِ، فَمَنْ اَعْطَاهَا طَیِّبَ النَّفْسِ بِهَا، فَاِنَّهَا تُجْعَلُ لَهٗ كَفَّارَةً، وَ مِنَ النَّارِ حِجَازًا وَّ وِقَایَةً. فَلَا یُتْبِعَنَّهَاۤ اَحَدٌ نَّفْسَهٗ، وَ لَا یُكْثِرَنَّ عَلَیْهَا لَهَفَهٗ، فَاِنَّ مَنْ اَعْطَاهَا غَیْرَ طَیِّبِ النَّفْسِ بِهَا، یَرْجُوْ بِهَا مَا هُوَ اَفْضَلُ مِنْهَا، فَهُوَ جَاهِلٌۢ بِالسُّنَّةِ، مَغْبُوْنُ الْاَجْرِ، ضَالُّ الْعَمَلِ،طَوِیْلُ النَّدَمِ.
پھر مسلمانوں کیلئے نماز کے ساتھ زکوٰة کو بھی تقرب خدا کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے تو جو شخص اسے برضا و رغبت ادا کرے گا، اس کیلئے یہ گناہوں کا کفارہ اور دوزخ سے آڑ اور بچاؤ ہے۔ (دیکھو! ادا کرنے کے بعد) کوئی شخص اس کا خیال تک دل میں نہ لائے اور نہ اس پر زیادہ ہائے وائے مچائے، کیونکہ جو شخص دلی لگن کے بغیر زکوٰة دے کر اس سے بہتر چیز کیلئے چشم براہ رہتا ہے وہ سنّت سے بے خبر، اجر کے اعتبار سے نقصان اٹھانے والا،غلط کار اور دائمی پریشانی و ندامت میں گرفتار ہے۔
ثُمَّ اَدَآءَ الْاَمَانَةِ، فَقَدْ خَابَ مَنْ لَّیْسَ مِنْ اَهْلِهَا، اِنَّهَا عُرِضَتْ عَلَی السَّمٰوٰتِ الْمَبْنِیَّةِ، وَ الْاَرَضِیْنَ الْمَدْحُوَّةِ، وَ الْجِبَالِ ذَاتِ الطُّوْلِ الْمَنْصُوْبَةِ، فَلَاۤ اَطْوَلَ وَ لَاۤ اَعْرَضَ، وَ لَاۤ اَعْلٰی وَ لَاۤ اَعْظَمَ مِنْهَا. وَ لَوِ امْتَنَعَ شَیْءٌۢ بِطُوْلٍ اَوْ عَرْضٍ اَوْ قُوَّةٍ اَوْ عِزٍّ لَّامْتَنَعْنَ، وَ لٰكِنْ اَشْفَقْنَ مِنَ الْعُقُوْبَةِ، وَ عَقَلْنَ مَا جَهِلَ مَنْ هُوَ اَضْعَفُ مِنْهُنَّ، وَ هُوَ الْاِنْسَانُ، ﴿اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًاۙ﴾.
پھر امانت کا ادا کرنا ہے۔ جو اپنے کو امانت کا اہل نہ بنا سکے وہ ناکام و نامراد ہے اس امانت کو مضبوط آسمانوں، پھیلی ہوئی زمینوں اور لمبے چوڑے گڑے ہوئے پہاڑوں پر پیش کیا گیا، بھلا ان سے تو بڑھ کر کوئی چیز لمبی، چوڑی، اونچی اور بڑی نہیں ہے، تو اگر کوئی چیز لمبائی چوڑائی یا قوت اور غلبہ کے بَل بوتے پر سرتابی کر سکتی ہوتی تو یہ سرتابی کر سکتے تھے، لیکن یہ تو اس کے عقاب و عتاب سے ڈر گئے اور اس چیز کو جان گئے جسے ان سے کمزور تر مخلوق انسان نہ جان سکا۔ ’’بلاشبہ انسان بڑا ناانصاف اور بڑا جاہل ہے‘‘۔
اِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ وَ تَعَالٰی لَا یَخْفٰی عَلَیْهِ مَا الْعِبَادُ مُقْتَرِفُوْنَ فِیْ لَیْلِهِمْ وَ نَهَارِهِمْ، لَطُفَ بِهٖ خُبْرًا، وَ اَحَاطَ بِهٖ عِلْمًا، اَعْضَآؤُكُمْ شُهُوْدُهٗ، وَ جَوَارِحُكُمْ جُنُوْدُهٗ، وَ ضَمَآئِرُكُمْ عُیُوْنُهٗ، وَ خَلَوَاتُكُمْ عِیَانُهٗ.
یہ بندگان خدا رات (کے پردوں)اور دن ( کے اجالوں)میں جو گناہ کرتے ہیں وہ اللہ سے ڈھکے چھپے ہوئے نہیں۔ وہ تو ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز سے آگاہ اور ہر شے پر اس کا علم محیط ہے۔ تمہارے ہی اعضاء اس کے سامنے گواہ بن کر پیش ہوں گے اور تمہارے ہی ہاتھ پاؤں اس کے لاؤ لشکر ہیں اور تمہارے ہی قلب و ضمیر اس کے جاسوس ہیں اور تمہاری تنہائیوں (کے عشرت کدے) اس کی نظروں کے سامنے ہیں۔