فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

عورت ایک ایسا بچھو ہے جس کے لپٹنے میں بھی مزہ آتا ہے۔ حکمت 61
(١٢٨) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۲۸)
لِاَبِیْ ذَرٍّ رَحِمَهُ اللهُ، لَـمَّاۤ اُخْرِجَ اِلَی الرَّبَذَةِ:
جب حضرت ابو ذرؓ کو ربذہ کی طرف جلا وطن [۱] کیا گیا تو ان سے خطاب کر کے فرمایا:
یَاۤ اَبَا ذَرٍّ! اِنَّكَ غَضِبْتَ لِلّٰهِ، فَارْجُ مَنْ غَضِبْتَ لَهٗ، اِنَّ الْقَوْمَ خَافُوْكَ عَلٰی دُنْیَاهُمْ، وَ خِفْتَهُمْ عَلٰی دِیْنِكَ، فَاتْرُكْ فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ مَا خَافُوْكَ عَلَیْهِ، وَ اهْرُبْ مِنهُمْ بِمَا خِفْتَهُمْ عَلَیْهِ، فَمَاۤ اَحْوَجَهُمْ اِلٰی مَا مَنَعْتَهُمْ، وَ مَاۤ اَغْنَاكَ عَمَّا مَنَعُوْكَ! وَ سَتَعْلَمُ مَنِ الرَّابِحُ غَدًا، وَ الْاَكْثَرُ حُسَّدًا.
اے ابو ذر! تم اللہ کیلئے غضب ناک ہوئے ہو تو پھر جس کی خاطر یہ تمام غم و غصہ ہے اسی سے امید بھی رکھو۔ ان لوگوں کو تم سے اپنی دنیا کے متعلق خطرہ ہے اور تمہیں ان سے اپنے دین کے متعلق اندیشہ ہے، لہٰذا جس چیز کیلئے انہیں تم سے کھٹکا ہے وہ انہیں کے ہاتھ میں چھوڑو اور جس شے کیلئے تمہیں ان سے اندیشہ ہے اسے لے کر ان سے بھاگ نکلو۔ جس چیز سے تم انہیں محروم کر کے جا رہے ہو (کاش کہ وہ سمجھتے کہ) وہ اس کے کتنے حاجتمند ہیں اور جس چیز کو انہوں نے تم سے روک لیا ہے اس سے تم بہت ہی بے نیاز ہو اور جلد ہی تم جان لو گے کہ کل فائدہ میں رہنے والا کون ہے اور کس پر حسد کرنے والے زیادہ ہیں۔
وَ لَوْ اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرَضِیْنَ كَانَتَا عَلٰی عَبْدٍ رَتْقًا، ثُمَّ اتَّقَی اللهَ، لَجَعَلَ اللهُ لَهٗ مِنْهُمَا مَخْرَجًا! لَا یُؤْنِسَنَّكَ اِلَّا الْحَقُّ، وَ لَا یُوْحِشَنَّكَ اِلَّا الْبَاطِلُ، فَلَوْ قَبِلْتَ دُنْیَاهُمْ لَاَحَبُّوْكَ، وَ لَوْ قَرَضْتَ مِنْهَا لَاَمَّنُوْكَ.
اگر یہ آسمان و زمین کسی بندے پر بند پڑے ہوں اور وہ اللہ سے ڈرے تو وہ اس کیلئے زمین و آسمان کی راہیں کھول دے گا۔ تمہیں صرف حق سے دلچسپی ہونا چاہیے اور صرف باطل ہی سے گھبرانا چاہیے۔ اگر تم ان کی دنیا قبول کر لیتے تو وہ تمہیں چاہنے لگتے اور تم اس میں کوئی حصہ اپنے لئے مقرر کرا لیتے تو وہ تم سے مطمئن ہو جاتے۔

۱؂(ابو ذر غفاریؓ)
’’ابو ذر غفاری‘‘ کا نام جندب ابن جنادہ تھا۔ ربذہ کے رہنے والے تھے جو مدینہ کی مشرقی جانب ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔جب بعثتِ رسولؐ کا تذکرہ سنا تو مکہ آئے اور پوچھ گچھ کرنے کے بعد پیغمبر ﷺ کی خدمت میں بازیاب ہو کر اسلام قبول کیا جس پر کفار قریش نے انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دیں اذیتوں پر اذیتیں پہنچائیں۔ مگر آپ کے ثبات قدم میں لغزش نہ آئی۔ اسلام لانے والوں میں آپ تیسرے یا چوتھے یا پانچویں ہیں اور اس سبقت اسلامی کے ساتھ آپ کے زہد و اتقاء کا یہ عالم تھا کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا کہ:
اَبُوْ ذَرٍّ فِیْ اُمَّتِیْ شَبِيْهُ عِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ فِیْ زُهْدِهٖ وَ وَرَعِہٖ.
میری اُمت میں ابوذر زہد و ورع میں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی مثال ہیں۔[۱]
آپ حضرت عمر کے دورِ حکومت میں شام چلے گئے اور حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں بھی وہیں مقیم تھے۔ زندگی کے شب و روز ہدایت و تبلیغ کے فرائض سر انجام دینے، اہل بیت رسول علیہم السلام کی عظمت سے روشناس کرنے اور جادۂ حق کی طرف رہنمائی فرمانے میں گزرتے تھے۔ چنانچہ شام اور جبل عامل میں شیعیت کے جو اثرات پائے جاتے ہیں وہ آپ ہی کی تبلیغ و مساعی کا نتیجہ اور آپ ہی کے بوئے ہوئے بیج کے برگ و بار ہیں۔ امیر شام معاویہ کو ان کی یہ روش پسند نہ تھی۔ چنانچہ وہ ان کے کھلم کھلا لے دے کرنے اور حضرت عثمان کی زر اندوزی و بے راہ روی کے تذکرے کرنے سے انتہائی بیزار تھے، مگر کچھ بنائے نہ بنتی تھی۔ آخر اس نے حضرت عثمان کو لکھا کہ اگر یہ کچھ عرصہ اور یہاں مقیم رہے تو ان اطراف کے لوگوں کو تم سے برگشتہ کر دیں گے، لہٰذا اس کا انسداد ہونا چاہیے جس پر انہوں نے لکھا کہ ابو ذرّ کو شتر بے پالان پر سوار کر کے مدینہ روانہ کر دیا جائے۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل کی گئی اور انہیں مدینہ روانہ کر دیا گیا۔ جب آپ مدینہ پہنچے تو یہاں بھی حق و صداقت کی تبلیغ شروع کر دی۔ مسلمانوں کو پیغمبر ﷺ کا عہد یاد دلاتے، کسروی و قیصری شان کے مظاہروں سے روکتے، جس پر حضرت عثمان جز بز ہوتے، ان کی زبان بندی کی تدبیریں کرتے۔ چنانچہ ایک دن انہیں بلا کر کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم کہتے پھرتے ہو کہ پیغمبر ﷺ نے فرمایا تھا کہ:
اِذَا كَمُلَتْ بَنُوْۤ اُمَيّةَ ثَلَاثِيْنَ رَجُلًا، اتّخَذُوْا بِلَادَ اللّٰهِ دُوَلًا، و عِبادَ اللّٰهِ خَوَلًا، وَ دِيْنَ اللّٰهِ دَغَلًا.
جب بنی امیہ کی تعداد تیس تک پہنچ جائے گی تو وہ اللہ کے شہروں کو اپنی جاگیر اور اس کے بندوں کو اپنا غلام اور اس کے دین کو فریب کاری کا ذریعہ قرار دے لیں گے۔[۲]
آپ نے کہا کہ بیشک میں نے پیغمبر اسلام ﷺ کو یہ فرماتے سنا تھا۔ عثمان نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو اور پاس بیٹھنے والوں سے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے اس حدیث کو سنا ہے۔ سب نے نفی میں جواب دیا۔ جس پر حضرت ابوذر نے فرمایا کہ: امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دریافت کیا جائے۔ چنانچہ آپؑ کو بلا کر دریافت کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ: ہاں یہ درست ہے اور ابو ذر سچ کہتے ہیں۔ عثمان نے کہا کہ آپؑ کس بنا پر اس حدیث کی صحت کی گواہی دیتے ہیں۔ حضرتؑ نے فرمایا کہ میں نے پیغمبر ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ:
مَاۤ اَظَلَّتِ الْخَضْرَآءُ وَ لَاۤ اَقَلَّتِ الْغَبْرَآءُ عَلٰى ذِیْ لَهْجَةٍ اَصْدَقَ مِنْ اَبِیْ ذَرٍّ.
کسی بولنے والے پر آسمان نے سایہ نہیں ڈالا اور زمین نے اسے نہیں اٹھایا جو ابو ذر سے زیادہ راست گو ہو۔[۳]
اب حضرت عثمان کیا کہہ سکتے تھے اگر جھٹلاتے تو پیغمبر ﷺ کی تکذیب لازم آتی تھی۔ پیچ و تاب کھا کر رہ گئے اور کوئی تردید نہ کر سکے۔ ادھر حضرت ابو ذر نے سرمایہ پرستی کے خلاف کُھلم کھلا کہنا شروع کر دیا اور حضرت عثمان کو دیکھتے تو اس آیت کی تلاوت فرماتے:
﴿وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍۙ‏ ﴿۳۴﴾ يَّومَ يُحْمٰى عَلَيْهَا فِىْ نَارِ جَهَـنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْ‌ؕ هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ﴾
وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے رہتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادو جس دن کہ ان کا جمع کیا ہوا سونا چاندی دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جسے تم نے اپنے لئے ذخیرہ بنا کر رکھا تھا تو اب اس ذخیرہ اندوزی کا مزا چکھو۔[۴]
حضرت عثمان نے مال و دولت کا لالچ دیا مگر اس طائر آزاد کو سنہرى جال میں نہ جکڑ سکے۔ تشدد و سختی سے بھی کام لیا مگر ان کی زبان حق ترجمان کو بند نہ کر سکے۔ آخر انہیں مدینہ چھوڑ دینے اور ربذہ کی جانب چلے جانے کا حکم دیا اور طرید رسولؐ کے فرزند مروان کو اس پر مامور کیا کہ وہ انہیں مدینہ سے باہر نکال دے اور اس کے ساتھ یہ قہرمانی فرمان بھی صادر فرمایا کہ کوئی ان سے کلام نہ کرے اور نہ انہیں الوداع کہے۔ مگر امیرالمومنین علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام، عقیل، عبد اللہ ابن جعفر اور عمار یاسر نے اس فرمان کی کوئی پرواہ نہ کی اور انہیں رخصت کرنے کیلئے ساتھ ہو لئے اور اسی رخصت کے موقعہ پر حضرتؑ نے ان سے یہ کلمات فرمائے۔
ربذہ میں حضرت ابو ذر کی زندگی بڑی ابتلاؤں میں کٹی۔ یہیں پر آپ کے فرزند ’’ذر‘‘ اور اہلیہ نے انتقال کیا اور جو بھیڑ بکریاں گزارے کیلئے پال رکھی تھیں وہ بھی ہلاک ہو گئیں۔ اولاد میں صرف ایک دختر رہ گئی جو فاقوں اور دکھوں میں برابر کی شریک تھی۔ جب سر و سامان زندگی ناپید ہو گئے اور فاقوں پر فاقے ہونے لگے تو اس نے حضرت ابو ذر سے عرض کیا کہ: بابا یہ زندگی کے دن کس طرح کٹیں گے؟ کہیں آنا جانا چاہئے اور رزق کی تلاش کرنا چاہئے۔ جس پر حضرت ابو ذرّ اسے ہمراہ لے کر صحرا کی طرف نکل کھڑے ہوئے مگر گھاس پات بھی میسر نہ آ سکا۔ آخر تھک کر ایک جگہ بیٹھ گئے اور ریت جمع کر کے اس کا ڈھیر بنایا اور اس پر سر رکھ کر لیٹ گئے اسی عالم میں سانسیں اکھڑ گئیں، پتلیاں اوپر چڑھ گئیں، نزع کی حالت طاری ہو گئی۔ جب دختر ابو ذرّ نے یہ حالت دیکھی تو سراسیمہ و مضطرب ہو کر کہنے لگی کہ: بابا! اگر آپ نے اس لق و دق صحرا میں انتقال فرمایا تو میں اکیلی کیسے دفن و کفن کا سامان کروں گی؟ آپ نے فرمایا کہ: بیٹی گھبراؤ نہیں، پیغمبر اکرم ﷺ مجھ سے فرما گئے تھے کہ: ’’اے ابو ذرّ! تم عالم غربت میں مرو گے اور کچھ عراقی تمہاری تجہیز و تکفین کریں گے‘‘۔ تم میرے مرنے کے بعد ایک چادر میرے اوپر ڈال دینا اور سرِ راہ جا بیٹھنا اور جب ادھر سے کوئی قافلہ گزرے تو اس سے کہنا کہ پیغمبر ﷺ کے صحابی ابو ذرّ نے انتقال کیا ہے۔ چنانچہ ان کی رحلت کے بعد وہ سرِ راہ جا کر بیٹھ گئی۔کچھ دیر کے بعد ادھر سے ایک قافلہ گزرا جس میں ہلال ابن مالک مزنی، احنف ابن قیس تمیمی، صعصعہ ابن صوحان عبدی، اسود ابنِ قیس تمیمی اور مالک ابن حارث اشتر تھے۔ جب انہوں نے حضرت ابو ذر کے انتقال کی خبر سنی تو اس بے کسی کی موت پر تڑپ اٹھے۔ سواریاں روک لیں اور ان کی تجہیز و تکفین کیلئے سفر ملتوی کر دیا۔ مالک اشتر نے ایک حلہ کفن کیلئے دیا جس کی قیمت چار ہزار درہم تھی اور تجہیز و تکفین کے فرائض سر انجام دے کر رخصت ہوئے۔ یہ واقعہ ۸ ذی الحجہ ۳۲ھ کا ہے۔

[۱]۔ بحار الانوار، ج ۶، ص ۴۔
[۲]۔ تاریخ الیعقوبی، ج ۱، ص ۱۷۵۔
[۳]۔ معانی الاخبار، ص ۱۷۸۔ طبقات ابن سعد، ج ۴، ص ۲۲۸۔
[۴]۔ سورۂ توبہ، آیت ۳۴-۳۵۔