جس نے اپنی آخرت کو سنوار لیا تو خدا اس کی دنیا بھی سنوار دے گا، اور جو خود اپنے آپ کو وعظ و پند کرلے تو اللہ کی طرف سے اس کی حفاظت ہوتی رہے گی۔ حکمت 89
(٥٨) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۵۸)
كَلَّمَ بِهِ الْخَوَارِجَ
آپؑ کا کلام خوارج کو مخاطب فرماتے ہوئے
اَصَابَكُمْ حَاصِبٌ، وَ لَا بَقِیَ مِنْكُمْ اٰبِرٌ، اَ بَعْدَ اِیْمَانِیْ بِاللهِ وَ جِهَادِیْ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ اَشْهَدُ عَلٰی نَفْسِیْ بِالْكُفْرِ! لَـ﴿قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ﴾! فَاُوْبُوْا شَرَّ مَاٰبٍ، وَ ارْجِعُوْا عَلٰۤی اَثَرِ الْاَعْقَابِ، اَمَا اِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِیْ ذُلًّا شَامِلًا، وَ سَیْفًا قَاطِعًا، وَ اَثَرَةً یَّتَّخِذُهَا الظَّالِمُوْنَ فِیْكُمْ سُنَّةً.
تم پر سخت آندھیاں آئیں اور تم میں کوئی اصلاح کرنے والا باقی نہ رہے! کیا میں اللہ پر ایمان لانے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو کر جہاد کرنے کے بعد اپنے اوپر کفر کی گواہی دے سکتا ہوں؟ پھر تو میں گمراہ ہو گیا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے نہ رہا۔ تم اپنے (پرانے) بدترین ٹھکانوں کی طرف لوٹ جاؤ اور اپنی ایڑیوں کے نشانوں پر پیچھے کی طرف پلٹ جاؤ۔ یاد رکھو کہ تمہیں میرے بعد چھا جانے والی ذلّت اور کاٹنے والی تلوار سے دو چار ہونا ہے اور ظالموں کے اس وتیرے سے سابقہ پڑنا ہے کہ وہ تمہیں محروم کر کے ہر چیز اپنے لئے مخصوص کر لیں۔ [۱]
قَوْلُهٗ ؑ: «وَ لَا بَقِیَ مِنْكُمْ اٰبِرٌ»، يُرْوٰى بِالْبَآءِ وَ الرَّآءِ مِنْ قَوْلِهِمْ: «رَجُلٌ اٰبِرٌ »لِلَّذِیْ يَاْبِرُ النَّخْلَ اَیْ يُصْلِحُهٗ. وَ يُرْوٰى «اٰثِرٌ» وَ هُوَ الَّذِیْ يَاْثِرُ الْحَدِيْثَ اَیْ يَرْوِيْهِ وَ يَحْكِيْهِ وَ هُوَ اَصَحُّ الْوُجُوْهِ عِنْدِیْ، كَاَنَّهٗ ؑ قَالَ: «لَا بَقِیَ مِنْكُمْ مُخْبِرٌ» وَ يُرْوٰى «اٰبِزٌ »بِالزَّایِ الْمُعْجَمَةِ وَ هُوَ الْوَاثِبُ، وَ الْهَالِكُ اَيْضًا يُقَالُ لَهٗ «اٰبِزٌ».
علامہ رضیؒ فرماتے ہیں کہ: حضرتؑ کے اس ارشاد: «وَ لَا بَقِیَ مِنْكُمْ اٰبِرٌ» (تم میں کوئی اصلاح کرنے والا نہ رہے) میں لفظ «اٰبِرٌ» ’’ب‘‘ اور ’’ر‘‘ کے ساتھ روایت ہوا ہے اور یہ عربوں کے قول: «رَجُلٌ اٰبِرٌ» سے لیا گیا ہے جس کے معنی خرما کے درختوں کے چھانٹنے والے اور ان کی اصلاح کرنے والے کے ہیں۔ اور ایک روایت میں «اٰثِرٌ» ہے اور اس کے معنی خبر دینے والے اور اقوال نقل کرنے والے کے ہیں۔ میرے نزدیک یہی روایت زیادہ صحیح ہے۔ گویا حضرتؑ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ: ’’تم میں کوئی خبر دینے والا نہ بچے‘‘۔ اور ایک روایت میں «اٰبِزٌ» زائے معجمہ کے ساتھ آیا ہے جس کے معنی کودنے والے کے ہیں اور ہلاک ہونے والے کو بھی ’’آبز‘‘ کہا جاتا ہے۔
۱تاریخ شاہد ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے بعد خوارج کو ہر طرح کی ذلتوں اور خواریوں سے دو چار ہونا پڑا اور جب بھی انہوں نے فتنہ انگیزی کیلئے سر اٹھایا تو تلواروں اور نیزوں پر دھر لئے گئے۔ چنانچہ زیاد ابن ابیہ، عبید اللہ ابن زیاد، مصعب ابنِ زبیر، حجاج ابنِ یوسف اور مہلب ابن ابی صفرہ نے انہیں صفحہ ہستی سے نابود کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ خصوصاً مہلب نے انیس برس تک ان کا مقابلہ کر کے ان کے سارے دم خم نکال دیئے اور ان کی تباہی و بربادی کو تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیا۔
طبری نے لکھا ہے کہ مقامِ ’’سلی سلبری‘‘ میں جب دس ہزار خوارج جنگ و قتال کیلئے سمٹ کر جمع ہو گئے تو مہلب نے اس طرح ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ سات ہزار خارجیوں کو تهِ تیغ کر دیا اور بقیہ تین ہزار کرمان کی طرف بھاگ کر جان بچا سکے، لیکن والی فارس عبید اللہ ابنِ عمر نے جب ان کی شورش انگیزیاں دیکھیں تو مقامِ سابور میں انہیں گھیر لیا اور ان میں کافی تعداد وہیں پر ختم کر دی اور جو بچے کھچے رہ گئے، وہ پھر اصفہان و کرمان کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے وہاں سے پھر جتھا بنا کر بصرہ کی راہ سے کوفہ کی طرف بڑھے تو حارث ابن ابی ربیعہ اور عبد الرحمٰن ابن مخنف چھ ہزار جنگ آزماؤں کو لے کر ان کا راستہ روکنے کیلئے کھڑے ہو گئے اور عراق کی سرحد سے انہیں نکال باہر کیا۔ یوں ہی تابڑ توڑ حملوں نے ان کی عسکری قوتوں کو پامال کر کے رکھ دیا اور آبادیوں سے نکال کر صحراؤں اور جنگلوں میں خاک چھاننے پر مجبور کر دیا اور بعد میں بھی جب کبھی جتھا بنا کر اٹھے تو کچل کر رکھ دیئے گئے۔↑