اے آدمؑ کے بیٹے! جب تو دیکھے کہ اللہ سبحانہ تجھے پے درپے نعمتیں دے رہا ہے اور تو اس کی نافرمانی کررہا ہے تو اس سے ڈرتے رہنا۔ حکمت 24
(٢٠٣) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۰۳)
كَلَّمَ بِهٖ طَلْحَةَ وَ الزُّبَيْرَ بَعْدَ بَيْعَتِهٖ بِالْخِلَافَةِ وَ قَدْ عَتَبَا عَلَيْهِ مِنْ تَرْكِ مَشْوِرَتِهِمَا وَ الْاِسْتِعَانَةِ فِی الْاُمُوْرِ بِهِمَا:
حضرتؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد طلحہ اور زبیر نے آپؑ سے شکایت کی کہ ان سے کیوں (امور حکومت میں) مشورہ نہیں لیا جاتا اور کیوں ان سے امداد کی خواہش نہیں کی جاتی تو حضرتؑ نے فرمایا:
لَقَدْ نَقَمْتُمَا یَسِیْرًا، وَ اَرْجَاْتُمَا كَثِیْرًا، اَ لَا تُخْبِرَانِیْ، اَیُّ شَیْءٍ لَّكُمَا فِیْهِ حَقٌّ دَفَعْتُكُمَا عَنْهُ؟ وَ اَیُّ قَسْمٍ اسْتَاْثَرْتُ عَلَیْكُمَا بِهٖ؟ اَمْ اَیُّ حَقٍّ رَّفَعَهٗ اِلَیَّ اَحَدٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ ضَعُفْتُ عَنْهُ، اَمْ جَهِلْتُهٗ، اَمْ اَخْطَاْتُ بَابَهٗ!.
ذرا سی بات پر تو تمہارے تیور بگڑ گئے ہیں اور بہت سی چیزوں کو تم نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ کیا مجھے بتا سکتے ہو کہ کسی چیز میں تمہارا حق تھا اور میں نے اسے دبا لیا ہو؟ یا تمہارے حصہ میں کوئی چیز آتی ہو اور میں نے اس سے دریغ کیا ہو؟ یا کسی مسلمان نے میرے سامنے کوئی دعویٰ پیش کیا ہو اور میں اس کا فیصلہ کرنے سے عاجز یا اس کے حکم سے جاہل رہا ہوں؟ یا صحیح طریق کار سے خطا کی ہو؟۔
وَاللهِ! مَا كَانَتْ لِیْ فِی الْخِلَافَةِ رَغْبَةٌ، وَ لَا فِی الْوِلَایَةِ اِرْبَةٌ، وَ لٰكِنَّكُمْ دَعَوْتُمُوْنِیْۤ اِلَیْهَا، وَ حَمَلْتُمُوْنِیْۤ عَلَیْهَا، فَلَمَّاۤ اَفْضَتْ اِلَیَّ نَظَرْتُ اِلٰی كِتَابِ اللهِ وَ مَا وَضَعَ لَنَا، وَ اَمَرَنَا بِالْحُكْمِ بِهٖ فَاتَّبَعْتُهٗ، وَ مَا اسْتَنَّ النَّبِیُّ -ﷺ فَاقْتَدَیْتُهٗ، فَلَمْ اَحْتَجْ فِیْ ذٰلِكَ اِلٰی رَاْیِكُمَا، وَ لَا رَاْیِ غَیْرِكُمَا، وَ لَا وَقَعَ حُكْمٌ جَهِلْتُهٗ، فَاَسْتَشِیْرَكُمَا وَ اِخْوَانِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ لَوْ كَانَ ذٰلِكَ لَمْ اَرْغَبْ عَنْكُمَا، وَ لَا عَنْ غَیْرِكُمَا.
خدا کی قسم! مجھے تو کبھی بھی اپنے لئے خلافت اور حکومت کی حاجت و تمنا نہیں رہی۔ تم ہی لوگوں نے مجھے اس کی طرف دعوت دی اور اس پر آمادہ کیا۔ چنانچہ جب وہ مجھ تک پہنچ گئی تو میں نے اللہ کی کتاب کو نظر میں رکھا اور جو لائحہ عمل اس نے ہمارے سامنے پیش کیا اور جس طرح فیصلہ کرنے کا اس نے حکم دیا میں اسی کے مطابق چلا اور جو سنت ِپیغمبرؐ قرار پا گئی اس کی پیروی کی۔ اس میں نہ تو تم سے کبھی مجھے رائے لینے کى احتیاج ہوئی اور نہ تمہارے علاوہ کسی اور سے۔ (اور نہ میں کسی حکم سے جاہل تھا کہ تم سے یا دیگر برادران اسلام سے مشورہ کرتا اور اگر ایسی کوئی ضرورت ہوتی تو میں نہ تمہیں نظر انداز کرتا اور نہ دیگر مسلمانوں کو)۔
وَ اَمَّا مَا ذَكَرْتُمَا مِنْ اَمْرِ الْاُسْوَةِ، فَاِنَّ ذٰلِكَ اَمْرٌ لَّمْ اَحْكُمْ اَنَا فِیْهِ بِرَاْیِیْ، وَ لَا وَلِیْتُهٗ هَوًی مِّنِّیْ، بَلْ وَجَدْتُ اَنَا وَ اَنْتُمَا مَا جَآءَ بِهٖ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ، فَلَمْ اَحْتَجْ اِلَیْكُمَا فِیْمَا قَدْ فَرَغَ اللهُ مِنْ قَسْمِهٖ، وَ اَمْضٰی فِیْهِ حُكْمَهٗ، فَلَیْسَ لَكُمَا، وَاللهِ! عِنْدِیْ وَ لَا لِغَیْرِكُمَا فِیْ هٰذَا عُتْبٰی. اَخَذَ اللهُ بِقُلُوْبِنَا وَ قُلُوْبِكُمْ اِلَی الْحَقِّ، وَ اَلْهَمَنَا وَ اِیَّاكُمْ الصَّبْرَ.
لیکن تم نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ میں نے (بیت المال سے ) برابر کی تقسیم جاری کی ہے تو یہ میری رائے کا حکم اور میری خواہش نفسانی کا فیصلہ نہیں، بلکہ یہ وہی طے شدہ چیز ہے جسے رسول اللہ ﷺ لے کر آئے جو میرے بھی سامنے ہے اور تمہارے بھی پیش نظر ہے۔ تو جس چیز کی اللہ نے حد بندی کر دی ہے اور اس کا قطعی حکم دے دیا اس میں تم سے رائے لینے کی مجھے احتیاج نہیں۔ خدا کی قسم! تمہیں اور تمہارے علاوہ کسی کو بھی اس معاملہ میں شکایت کرنے کا حق نہیں۔ خدا ہمارے اور تمہارے دلوں کو حق پر ٹھہرائے اور ہمیں اور تمہیں صبر عطا کرے۔
ثُمَّ قَالَؑ:
پھر آپؑ نے ارشاد فرمایا:
رَحِمَ اللهُ امْرَاً رَاٰی حَقًّا فَاَعَانَ عَلَیْهِ، اَوْ رَاٰی جَوْرًا فَرَدَّهٗ، وَ كَانَ عَوْنًۢا بِالْحَقِّ عَلٰی صَاحِبِهٖ.
خدا اس شخص پر رحم کرے جو حق کو دیکھے تو اس کی مدد کرے، باطل کو دیکھے تو اسے ٹھکرا دے اور صاحب حق کا حق کے ساتھ معین هو۔