’’ایمان‘‘ چار ستونوں پر قائم ہے: ’’صبر‘‘، ’’یقین‘‘، ’’عدل‘‘ اور ’’جہاد‘‘: حکمت 30
(١٢٢) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۲۲)
فِیْ حَثِّ اَصْحَابِهٖ عَلَى الْقِتَالِ
اپنے اصحاب [۱] کو جنگ پر آمادہ کرنے کیلئے فرمایا
فَقَدِّمُوا الدَّارِعَ، وَ اَخِّرُوا الْحَاسِرَ، وَ عَضُّوْا عَلَی الْاَضْرَاسِ، فَاِنَّهٗۤ اَنْۢبٰی لِلسُّیُوْفِ عَنِ الْهَامِ، وَ الْتَوُوْا فِیْۤ اَطْرَافِ الرِّمَاحِ، فَاِنَّهٗۤ اَمْوَرُ لِلْاَسِنَّةِ، وَ غُضُّوا الْاَبْصَارَ، فَاِنَّهٗۤ اَرْبَطُ لِلْجَاْشِ وَ اَسْكَنُ لِلْقُلُوْبِ، وَ اَمِیْتُوا الْاَصْوَاتَ فَاِنَّهٗۤ اَطْرَدُ لِلْفَشَلِ.
زرہ پوش کو آگے رکھو اور بے زرہ کو پیچھے کر دو اور دانتوں کو بھینچ لو کہ اس سے تلواریں سروں سے اُچٹ جاتی ہیں اور نیزوں کی اَنیوں کو پہلو بدل کر خالی دیا کرو کہ اس سے اُن کے رخ پلٹ جاتے ہیں۔ آنکھیں جھکائے رکھو کہ اس سے حوصلہ مضبوط رہتا ہے اور دل ٹھہرے رہتے ہیں اور آوازوں کو بلند نہ کرو کہ اس سے بزدلی دور رہتی ہے۔
وَ رَایَتَكُمْ فَلَا تُمِیْلُوْهَا وَ لَا تُخِلُّوْهَا، وَ لَا تَجْعَلُوْهَاۤ اِلَّا بِاَیْدِیْ شُجْعَانِكُمْ، وَ الْمَانِعِیْنَ الذِّمَارَ مِنْكُمْ، فَاِنَّ الصَّابِرِیْنَ عَلٰی نُزُوْلِ الْحَقَآئِقِ هُمُ الَّذِیْنَ یَحُفُّوْنَ بِرَایَاتِهِمْ، وَ یَكْتَنِفُوْنَهَا: حِفَافَیْهَا، وَ وَرَآءَهَا، وَ اَمَامَهَا، لَا یَتَاَخَّرُوْنَ عَنْهَا فَیُسْلِمُوْهَا، وَ لَا یَتَقَدَّمُوْنَ عَلَیْهَا فَیُفْرِدُوْهَا. اَجْزَاَ امْرُؤٌ قِرْنَهٗ، وَ اٰسٰۤی اَخَاهُ بِنَفْسِهٖ، وَ لَمْ یَكِلْ قِرْنَهٗۤ اِلٰۤی اَخِیْهِ فَیَجْتَمِـعَ عَلَیْهِ قِرْنُهٗ وَ قِرْنُ اَخِیْهِ.
اور اپنا جھنڈا سرنگوں نہ ہونے دو اور نہ اسے اکیلا چھوڑو۔ اسے اپنے جواں مردوں اور عزت کے پاسبانوں کے ہاتھوں ہی میں رکھو، چونکہ مصیبتوں کے ٹوٹ پڑنے پر وہی لوگ صبر کرتے ہیں جو اپنے جھنڈوں کے گرد گھیرا ڈال کر دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے اس کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ وہ پیچھے نہیں ہٹتے کہ اسے (دشمنوں کے ہاتھوں میں) سونپ دیں اور نہ آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اسے اکیلا چھوڑ دیں۔ ہر شخص اپنے مدمقابل سے خود نپٹے اور دل و جان سے اپنے بھائی کی بھی مدد کرے اور اپنے حریف کو کسی اور بھائی کے حوالے نہ کرے کہ یہ اور اس کا حریف ایکا کر کے اس پر ٹوٹ پڑیں۔
وَایْمُ اللهِ! لَئِنْ فَرَرْتُمْ مِنْ سَیْفِ الْعَاجِلَةِ، لَا تَسْلَمُوْا مِنْ سَیْفِ الْاٰخِرَةِ، وَ اَنْتُمْ لَهَامِیْمُ الْعَرَبِ، وَ السَّنَامُ الْاَعْظَمُ، اِنَّ فِی الْفِرَارِ مَوْجِدَةَ اللهِ، وَ الذُّلَّ اللَّازِمَ، وَ الْعَارَ الْبَاقِیَ، وَ اِنَّ الْفَارَّ لَغَیْرُ مَزِیْدٍ فِیْ عُمُرِهٖ، وَ لَا مَحْجُوْزٍۭ بَیْنَهٗ وَ بَیْنَ یَوْمِهٖ.
خدا کی قسم! تم اگر دنیا کی تلوار سے بھاگے تو آخرت کی تلوار سے نہیں بچ سکتے۔ تم تو عرب کے جواں مرد اور سر بلند لوگ ہو۔ (یاد رکھو کہ) بھاگنے میں اللہ کا غضب اور نہ مٹنے والی رسوائی اور ہمیشہ کیلئے ننگ و عار ہے۔ بھاگنے والا اپنی عمر بڑھا نہیں لیتا اور نہ اس میں اور اس کی موت کے دن میں کوئی چیز حائل ہو جاتی ہے۔
اَلرَّآئِحُ اِلَی اللهِ كَالظَّمَاٰنِ یَرِدُ الْمَآءَ. اَلْجَنَّةُ تَحْتَ اَطْرَافِ الْعَوَالِیْ! اَلْیَوْمَ تُبْلَی الْاَخْبَارُ! وَاللهِ! لَاَنَا اَشْوَقُ اِلٰی لِقَآئِهِمْ مِنْهُمْ اِلٰی دِیَارِهِمْ.
اللہ کی طرف جانے والا تو ایسا ہے جیسے کوئی پیاسا پانی تک پہنچ جائے۔ جنت نیزوں کی انیوں کے نیچے ہے۔ آج حالات پرکھ لئے جائیں گے۔ خدا کی قسم! میں ان دشمنوں سے دو بدو ہو کر لڑنے کا اس سے زیادہ مشتاق ہوں جتنا یہ اپنے گھروں کو پلٹنے کے مشتاق ہوں گے۔
اَللّٰهُمَّ فَاِنْ رَّدُّوا الْحَقَّ فَافْضُضْ جَمَاعَتَهُمْ، وَ شَتِّتْ كَلِمَتَهُمْ، وَ اَبْسِلْهُمْ بِخَطَایَاهُمْ. اِنَّهُمْ لَنْ یَّزُوْلُوْا عَنْ مَّوَاقِفِهِمْ دُوْنَ طَعْنٍ دِرَاكٍ یَّخْرُجُ مِنْهُ النَّسِیْمُ، وَ ضَرْبٍ یَّفْلِقُ الْهَامَ، وَ یُطِیْحُ الْعِظَامَ، وَ یُنْدِرُ السَّوَاعِدَ وَ الْاَقْدَامَ، وَ حَتّٰی یُرْمَوْا بِالْمَنَاسِرِ تَتْبَعُهَا الْمَنَاسِرُ، وَ یُرْجَمُوْا بِالْكَتَآئِبِ تَقْفُوْهَا الْحَلَآئِبُ، وَ حَتّٰی یُجَرَّ بِبِلَادِهِمُ الْخَمِیْسُ یَتْلُوْهُ الْخَمِیْسُ، وَ حَتّٰی تَدْعَقَ الْخُیُوْلُ فِیْ نَوَاحِرِ اَرْضِهِمْ، وَ بِاَعْنَانِ مَسَارِبِهِمْ وَ مَسَارِحِهِمْ.
خداوندا! اگر یہ حق کو ٹھکرا دیں تو ان کے جتھے کو توڑ دے اور انہیں ایک آواز پر جمع نہ ہونے دے اور ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ و برباد کر۔ یہ اپنے مؤقف (شر و فساد) سے اس وقت تک ہٹنے والے نہیں جب تک تابڑ توڑ نیزوں کے ایسے وار نہ ہوں کہ (جس سے زخموں کے منہ اس طرح کھل جائیں کہ) ہوا کے جھونکے گزر سکیں اور تلواروں کی ایسی چوٹیں نہ پڑیں کہ جو سروں کو شگافتہ کر دیں اور ہڈیوں کے پرخچے اڑا دیں اور بازوؤں اور قدموں کو توڑ کر پھینک دیں اور پے درپے لشکروں کا نشانہ نہ بنائے جائیں اور ایسی فوجیں ان پر ٹوٹ نہ پڑیں کہ جن کے پیچھے (کمک کیلئے) اور شہسواروں کے دستے ہوں اور جب تک کہ ان کے شہروں پر یکے بعد دیگرے فوجوں کی چڑھائی نہ ہو، یہاں تک کہ گھوڑے ان کی زمینوں کو آخر تک روند ڈالیں اور ان کے سبزہ زاروں اور چراگاہوں کو پامال کر دیں۔
اَقُوْلُ: «اَلدَّعْقُ»: الدَّقُّ، اَیْ: تَدُقُّ الْخُیُوْلُ بِحَوَافِرِهَاۤ اَرْضَهُمْ.
سیّد رضی کہتے ہیں کہ: «اَلدَّعْقُ» کے معنی روندنے کے ہیں اور اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ گھوڑے اپنے سموں سے ان کی زمینوں کو روند دیں۔
وَ «نَوَاحِرِ اَرْضِهِمْ»: مُتَقَابِلَاتُهَا، یُقَالُ: مَنَازِلُ بَنِیْ فُلَانٍ تَتَنَاحَرُ، اَیْ: تَتَقَابَلُ.
اور «نَوَاحِرِ اَرْضِهِمْ» سے مراد وہ زمینیں ہیں جو ایک دوسرے کے بالمقابل ہوں۔ عرب اگر یوں کہیں کہ: «مَنَازِلُ بَنِیْ فُلَانٍ تَتَنَاحَرُ» تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ فلاں قبیلے کے گھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔
۱حضرتؑ نے یہ خطبہ جنگِ صفین کے موقع پر ارشاد فرمایا۔ یہ جنگ امیر المومنین علیہ السلام اور امیر شام معاویہ کے درمیان ۳۷ ھ میں خونِ عثمان کے قصاص کے نام سے لڑی گئی، مگر اصل حقیقت اس کے علاوہ کچھ نہ تھی کہ امیر شام جو حضرت عمر کے عہد سے شام کا خود مختار حکمران چلا آ رہا تھا، حضرتؑ کے ہاتھوں پر بیعت کر کے شام کی ولایت سے دستبردار ہونا نہ چاہتا تھا اور قتل عثمان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ جیسا کہ بعد کے واقعات اس کے شاہد ہیں کہ اس نے حکومت حاصل کر لینے کے بعد خونِ عثمان کے سلسلہ میں کوئی عملی قدم نہ اٹھایا اور بھولے سے بھی قاتلین عثمان کا نام نہ لیا۔
امیر المومنین علیہ السلام کو اگرچہ پہلے سے اس کا اندازہ تھا کہ اس سے ایک نہ ایک دن جنگ ضرور ہو گی، تاہم اس پر اِتمام حجت کر دینا ضروری تھا۔ اس لیے جب ۱۲ رجب روز دو شنبہ ۳۶ ھ میں جنگ جمل سے فارغ ہو کر وارد کوفہ ہوئے تو جریر ابن عبد اللہ بجلی کو خط دے کر معاویہ کے پاس دمشق روانہ کیا جس میں تحریر فرمایا کہ مہاجرین و انصار میرے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں، لہٰذا تم بھی میری اطاعت قبول کرتے ہوئے پہلے بیعت کرو اور پھر قتل عثمان کا مقدمہ میرے سامنے پیش کرو تا کہ میں کتاب و سنت کے مطابق اس کا فیصلہ کروں۔ مگر معاویہ نے جریر کو حیلے بہانوں سے روک لیا اور عمر و ابن عاص سے مشورہ کرنے کے بعد خون عثمان کے بہانہ سے بغاوت شروع کر دی اور شام کے سر برآوردہ لوگوں کے ذریعہ تنگ نظر و نافہم عوام کو یقین دلا دیا کہ حضرت عثمان کے قتل کی ذمہ داری حضرت علی علیہ السلام پر عائد ہوتی ہے اور وہی اپنے طرز عمل سے محاصرہ کرنے والوں کی ہمت افزائی کرنے والے اور انہیں اپنے دامن میں پناہ دینے والے ہیں اور ادھر حضرت عثمان کا خون آلودہ پیراہن اور ان کی زوجہ نائلہ بنت فرافصہ کی کٹی ہوئی انگلیاں دمشق کی جامع مسجد میں منبر پر لٹکا دیں جس کے گرد ستر ہزار شامی دھاڑیں مار مار کر روتے اور قصاص عثمان کے عہد و پیمان باندھتے تھے۔ جب معاویہ نے شامیوں کے جذبات اس حد تک بھڑکا دیئے کہ وہ جان دینے اور کٹ مرنے کیلئے آمادہ ہو گئے تو خونِ عثمان کے قصاص پر ان سے بیعت لی اور حرب و پیکار کے سر و سامان کرنے میں مصروف ہو گیا اور جریر کو یہ سارا نقشہ دکھا کر نا کامران رخصت کر دیا۔
جب امیر المومنین علیہ السلام کو جریر ابنِ عبد اللہ کی زبانی ان واقعات کا علم ہوا تو آپؑ اس کے خلاف قدم اٹھانے پر مجبور ہو گئے اور مالک بن حبیب یربوعی کو وادی نخیلہ میں فوجوں کی فراہمی کا حکم دیا۔ چنانچہ کوفہ اور اطراف و جوانب کے لوگ وہاں پر جوق در جوق آنے شروع ہوئے اور بڑھتے بڑھتے ان کی تعداد اَسّی (۸۰) ہزار سے متجاوز ہو گئی۔ حضرتؑ نے پہلے آٹھ ہزار کا ایک ہر اول دستہ زیاد ابن نضر حارثی کی زیر قیادت اور چار ہزار کا ایک دستہ شریح بن ہانی کی زیر سرکردگی شام کی جانب روانہ کیا اور اس مقدمة الجیش کی روانگی کے بعد ۵ شوال روز چہار شنبہ خود بھی بقایا لشکر کو لے کر شام کی جانب چل دیے۔
جب حدود کوفہ سے نکلے تو نماز ظہر ادا فرمائی اور دیر ابو موسیٰ، نہر نرس، قبہ قبین، بابل، دیر کعب، کربلا، ساباط، بہر سیر، انبار اور جزیرہ میں منزل کرتے ہوئے مقام رقہ پر پہنچے۔ یہاں کے لوگ حضرت عثمان کے ہوا خواہ تھے اور یہیں پر سماک ابن مخرمہ اسدی بنی اسد کے آٹھ سو آدمیوں کے ساتھ مقیم تھا۔ یہ لوگ امیر المومنین علیہ السلام سے منحرف ہو کر معاویہ کے پاس جانے کیلئے کوفہ سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ جب انہوں نے حضرتؑ کی فوج کو دیکھا تو دریائے فرات پر سے کشتیوں کا پل اتار دیا تا کہ آپؑ کی فوج ادھر سے دریا کو عبور کر کے دوسری طرف نہ جا سکے، مگر مالک اشتر کے ڈرانے دھمکانے سے وہ لوگ خوفزدہ ہو گئے اور آپس میں مشورہ کر نے کے بعد کشتیوں کو پھر سے جوڑ دیا جس سے حضرتؑ اپنے لشکر سمیت گزر گئے۔
جب دریا کے اس پار اترے تو دیکھا کہ زیاد اور شریح بھی اپنے اپنے دستوں کے ساتھ وہاں پر موجود ہیں۔ چونکہ ان دونوں نے دریائے فرات کے کنارے خشکی کا راستہ اختیار کیا تھا اور یہاں پہنچ کر جب انہیں معلوم ہوا کہ امیر شام اپنی فوجوں کے ہمراہ فرات کی طرف بڑھ رہا ہے تو اس خیال سے کہ وہ شامی فوج کا مقابلہ نہ کر سکیں گے امیر المومنین علیہ السلام کے انتظار میں ٹھہر گئے تھے۔ جب ان لوگوں نے اپنے رک جانے کی وجہ بیان کی تو حضرتؑ نے ان کے عذر کو صحیح قرار دیا اور یہاں سے پھر انہیں آگے کی جانب روانہ کر دیا۔
جب یہ فصیل روم کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ابو الاعور سلمی سپاہ شام کے ساتھ چھاؤنی ڈالے ہوئے ہے۔ ان دونوں نے امیر المومنین علیہ السلام کو اس کی اطلاع دی جس پر حضرت نے مالک بن حارث اشتر کو سپہ سالار بنا کر ان کے عقب میں روانہ کر دیا اور انہیں تاکید فرما دی کہ جنگ میں پہل نہ کریں اور جہاں تک بن پڑے انہیں سمجھانے بجھانے اور حقیقت حال پر مطلع کرنے کی کوشش کریں۔ چنانچہ مالک اشتر نے وہاں پہنچ کر ان سے تھوڑے فاصلہ پر پڑاؤ ڈال دیا۔ جنگ تو ہر وقت شروع کی جا سکتی تھی مگر انہوں نے ان سے کوئی تعرض نہ کیا اور نہ کوئی ایسا اقدام کیا کہ جس سے جنگ کے چھڑنے کی کوئی صورت پیدا ہوتی۔ مگر ابو الاعور نے اچانک رات کے وقت ان پر ہلہ بول دیا جس پر انہوں نے بھی تلواریں نیاموں سے نکال لیں اور ان کی روک تھام کیلئے آمادہ ہو گئے۔ کچھ دیر تک آپس میں جھڑپیں ہوتی رہیں۔ آخر وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ جنگ کی ابتدا تو ہو چکی تھی۔ صبح ہوتے ہی عراقیوں کے ایک سپہ سالار ہاشم ابن عتبہ میدان میں آ کھڑے ہوئے۔ ادھر سے بھی فوج کا ایک دستہ مقابلہ کیلئے اتر آیا اور دونوں طرف سے جنگ کے شعلے بھڑکنے لگے۔ آخر مالک اشتر نے ابوالاعور کو اپنے مقابلہ کیلئے للکارا، مگر وہ ان کے مقابلہ میں آنے کی جرأت نہ کر سکا اور شام کے وقت اپنے لشکر کو لے کر آگے کی طرف بڑھ گیا۔
دوسرے دن امیر المومنین علیہ السلام بھی اپنے لشکر کے ساتھ وہاں پہنچ گئے اور ہر اول دستوں اور فوجوں کے ہمراہ صفین کے رخ پر چل دئیے کہ جہاں معاویہ نے پہلے ہی پہنچ کر مناسب جگہوں پر مورچے قائم کر لئے تھے اور فرات کے گھاٹ پر پہرا بٹھا کر اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ حضرتؑ نے وہاں پہنچ کر اسے فرات پر سے پہرا اٹھا لینے کیلئے کہلوایا مگر اس نے انکار کیا جس پر عراقی سپاہیوں نے تلواریں کھینچ لیں اور دلیرانہ حملہ کر کے فرات پر قبضہ کر لیا۔ جب یہ مرحلہ طے ہو گیا تو حضرتؑ نے بشیر ابن عمرو انصاری، سعید ابن قیس ہمدانی اور شبث ابن ربعی تمیمی کو معاویہ کے پاس بھیجا تا کہ اسے جنگ کے نشیب و فراز سمجھائیں اور مصالحت و بیعت کیلئے آمادہ کریں۔ مگر اس نے یہ جواب دیا کہ ہم کسی طرح عثمان کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور اب ہمارا فیصلہ تلوار ہی کرے گی۔
چنانچہ ذی الحجہ ۳۶ ھ میں دونوں فریق میں جنگ کی ٹھن گئی اور دونوں طرف سے مردان کا رزار اپنے حریف کے مقابلہ کیلئے میدان میں اتر آئے۔ حضرتؑ کی طرف سے میدانِ مقابلہ میں آنے والے حجر بن عدی کندی، شبث بن ربعی، خالد بن معمر، زیاد بن نصر، زیاد بن خصفہ تمیمی، سعید بن قیس، قیس بن سعد اور مالک بن حارث اشتر تھے اور شامیوں کی طرف سے عبد الرحمٰن بن خالد مخزومی، ابوالاعور سلمی، حبیب بن مسلمہ فہری، عبد اللہ ابن ذی الکلاع حمیری، عبید اللہ بن عمر بن خطاب، شرحبیل ابن سمط کندی اور حمزہ بن مالک ہمدانی تھے۔ جب ذی الحجہ کا مہینہ ختم ہو گیا تو محرم میں جنگ کا سلسلہ روک دینا پڑا اور یکم صفر روز چہار شنبہ سے پھر جنگ شروع ہو گئی اور دونوں فریق تلواروں، نیزوں، تیروں اور دوسرے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہو گئے۔ حضرتؑ کی طرف سے اہل کوفہ کے سواروں پر مالک اشتر اور پیادوں پر عمار بن یاسر اور اہل بصرہ کے سواروں پر سہل بن حنیف اور پیادوں پر قیس بن سعد سپہ سالار متعین ہوئے اور علم لشکر ہاشم بن عتبہ کے سپرد کیا گیا اور سپاہ شام کے میمنہ پر ابن ذی الکلاع اور میسرہ پر حبیب بن مسلمہ اور سواروں پر عمرو بن عاص اور پیادوں پر ضحاک بن قیس امیر سپاہ مقرر ہوئے۔
پہلے دن مالک اشتر اپنے دستہ کے ساتھ میدان وَغا میں آئے اور ادھر سے ان کے مقابلہ میں حبیب بن مسلمہ اپنی فوج کو لے کر نکلا اور دونوں طرف سے خونریز جنگ شروع ہو گئی اور دن بھر تلواریں تلواروں سے اور نیزے نیزوں سے ٹکراتے رہے۔
دوسرے دن ہاشم بن عتبہ سپاہ علوی کے ساتھ نکلے اور ادھر سے ابو الاعور سوار و پیادے لے کر مقابلہ میں آیا اور جب دونوں لشکر ایک دوسرے سے قریب ہوئے تو سوار سواروں پر اور پیادے پیادوں پر ٹوٹ پڑے اور بڑے صبر و استقلال سے ایک دوسرے پر وار کرتے اور سہتے رہے۔
تیسرے دن عمار بن یاسر اور زیاد بن نضر سوار و پیادے لے کر نکلے اور ادھر سے عمرو بن عاص سپاہ کثیر لے کر بڑھا۔ زیاد نے فوج مخالف کے سواروں پر اور عمار یاسر نے پیادوں پر ایسے جوش و خروش سے حملے کئے کہ سپاہ دشمن کے قدم اکھڑ گئے اور وہ تاب مقاومت نہ لا کر اپنی قیام گاہوں کی طرف پلٹ گئے۔
چوتھے دن محمد بن حنفیہ اپنے دستہ فوج کے ساتھ میدان میں آئے اور ادھر سے عبید اللہ بن عمر شامیوں کے لشکر کے ساتھ بڑھا اور دونوں فوجوں میں گھمسان کی لڑائی ہوئی۔
پانچویں دن عبد اللہ بن عباس آگے بڑھے اور ادھر سے ولید بن عتبہ سامنے آیا۔ عبد اللہ بن عباس نے بڑی پا مردی و جرأت سے حملے کئے اور اس طرح جوہرِ شجاعت دکھائے کہ دشمن میدان چھوڑ کر پیچھے ہٹ گیا۔
چھٹے دن قیس بن سعد انصاری فوج کو لے کر بڑھے اور ان کے مقابلہ میں ذو الکلاع اپنا دستہ لے کر بڑھا اور ایسا سخت رن پڑا کہ قدم قدم پر لاشے تڑپتے اور خون کے سیلاب بہتے ہوئے نظر آنے لگے۔ آخر رات کے اندھیرے نے دونوں لشکروں کو جدا کر دیا۔
ساتویں دن مالک اشتر نکلے اور ان کے مقابلہ میں حبیب ابن مسلمہ اپنی سپاہ کے ساتھ بڑھا اور ظہر تک معرکہ کا رزار گرم رہا۔
آٹھویں دن خود امیر المومنین علیہ السلام لشکر کے جلو میں نکلے اور اس طرح حملہ کیا کہ میدان میں زلزلہ آ گیا اور صفوں کو چیرتے اور تیر و سنان کے حملے روکتے ہوئے دونوں صفوں کے درمیان آکھڑے ہوئے اور معاویہ کو للکارا جس پر وہ عمرو ابن عاص کو لئے ہوئے کچھ قریب آیا تو آپؑ نے فرمایا:
اُبْرُزْ اِلَیَّ، فَاَيُّنَا قَتَلَ صَاحِبَهٗ فَالْاَمْرُ لَهٗ.
تم خود میرے مقابلہ کیلئے نکلو اور پھر جو اپنے حریف کو مار لے وہ خلافت کو سنبھال لے۔[۱]
جس پر عمرو ابن عاص نے معاویہ سے کہا کہ علی علیہ السلام بات تو انصاف کی کہتے ہیں۔ ذرا جرأت کرو اور مقابلہ کر دیکھو۔ معاویہ نے کہا کہ میں تمہارے تاننے کی وجہ سے اپنی جان گنوانے کیلئے تیار نہیں اور یہ کہہ کر واپس ہو گیا۔ حضرتؑ نے اسے جاتے دیکھا تو مسکرا کر خود بھی لوٹ آئے۔
امیر المومنین علیہ السلام نے صفین کے میدان میں جس بے جگری سے حملے کئے اسے اعجازی قوت ہی کا کرشمہ کہا جا سکتا ہے۔ چنانچہ جب بھی آپؑ میدان میں للکارتے ہوئے نکلتے، دشمن کی صفیں ابتری اور سراسیمگی کے عالم میں منتشر ہو جاتیں اور جی توڑ کر لڑنے والے بھی آپؑ کے مقابلہ میں آنے سے ہچکچانے لگتے۔ اسی لئے حضرتؑ بعض دفعہ لباس تبدیل فرما کر میدان میں آئے تا کہ دشمن پہچان نہ سکے اور کوئی دو بدو ہو کر لڑنے کیلئے تیار ہو جائے۔ چنانچہ ایک دفعہ عباس ابن ربیعہ کے مقابلہ میں ادھر سے غراز ابن ادہم نکلا اور دونوں داؤ پیچ دکھاتے رہے مگر کوئی اپنے حریف کو شکست نہ دے سکا۔ اتنے میں عباس کو اس کی زرہ کا ایک حلقہ ڈھیلا دکھائی دیا۔ چنانچہ انہوں نے نہایت چابکدستی سے اس حلقہ کو تلوار کی نوک میں پرو لیا اور جھٹکا دے کر زرہ کے حلقے چیر ڈالے اور پھر تاک کر ایسا وار کیا کہ تلوار اس کے سینہ کے اندر اتر گئی۔ لوگوں نے یہ دیکھ کر نعرہ تکبیر بلند کیا۔ معاویہ اس آواز پر چونکا اور جب اسے یہ معلوم ہوا کہ غراز مارا گیا تو پیچ و تاب کھانے لگا اور پکار کر کہا کہ کوئی ہے جو عباس کو قتل کر کے غراز کا بدلہ لے۔ جس پر قبیلہ بنی لخم کے دو شمشیر زن اٹھ کھڑے ہوئے اور عباس کو اپنے مقابلہ میں للکارا۔ عباس نے کہا کہ میں اپنے امیر سے اجازت لے کر آتا ہوں اور یہ کہہ کر حضرتؑ کے پاس اجازت طلب کرنے کیلئے آئے۔ حضرتؑ نے انہیں روک کر ان کا لباس خود پہن لیا اور انہی کے گھوڑے پر سوار ہو کر میدان میں آ گئے۔ لخمی آپؑ کو عباس سمجھ کر کہنے لگا کہ: کیا اپنے امیر سے اجازت لے آئے ہو؟ حضرتؑ نے جواب میں اس آیت کی تلاوت فرمائی: ﴿اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَـصْرِهِمْ لَـقَدِيْرُ ۙ ﴾ [۲]: ’’جن (مسلمانوں) کے خلاف (کافر) لڑا کرتے ہیں اب انہیں بھی جنگ کی اجازت ہے، کیونکہ ان پر ظلم ہو رہا ہے اور اللہ ان کی مدد پر یقیناً قادر ہے‘‘۔
اب ان میں سے ایک فیل مست کی طرح چنگھاڑتا ہوا نکلا اور آپؑ پر حملہ کیا مگر آپؑ نے اس کا وار خالی جانے دیا اور پھر اس طرح صفائی سے اس کی کمر پر تلوار چلائی کہ اس کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ لوگوں نے یہ سمجھا کہ وار خالی گیا ہے مگر جب اس کا گھوڑا اچھلا تو اس کے دونوں ٹکڑے الگ الگ زمین پر جا پڑے۔ اس کے بعد دوسرا نکلا اور وہ بھی چشمِ زدن میں ڈھیر ہو گیا۔ پھر حضرتؑ نے دوسروں کو مقابلہ کیلئے للکارا مگر دشمن تلوار کے وار سے سمجھ گیا کہ عباس کے بھیس میں خود امیر المومنین علیہ السلام ہیں اس لئے کسی نے سامنے آنے کی جرأت نہ کی۔
نویں دن میمنہ عبد اللہ ابن بدیل کے اور میسرہ عبداللہ ابن عباس کے زیر کمان تھا اور قلب لشکر میں خود امیر المومنین علیہ السلام رونقِ افزا تھے اور ادھر سے حبیب ابن مسلمہ سپاہ شام کی قیادت کر رہا تھا۔ جب دونوں صفیں ایک دوسرے کے قریب ہوئیں تو بہادروں نے تلواریں سونت لیں اور ایک دوسرے پر بپھرے ہوئے شیر کی طرح جھپٹ پڑے اور ہر طرف رَن پر رَن پڑنے لگا۔ حضرتؑ کے میمنہ لشکر کا علم بنی ہمدان کے ہاتھوں میں گردش کر رہا تھا۔ چنانچہ جب بھی ان میں سے کوئی شہید ہو کر گرتا تھا تو دوسرا بڑھ کر علم اٹھا لیتا۔ پہلے کریب ابن شریح نے عَلم سپاہ بلند کیا۔ ان کے شہید ہونے پر شرحبیل ابن شریح نے، پھر مرثد ابن شریح نے، پھر ہبیرہ ابن شریح نے، پھر ندیم ابن شریح نے۔ ان سب بھائیوں کے مارے جانے کے بعد عمیر ابن بشیر نے بڑھ کر علم لے لیا۔ ان کے شہید ہونے کے بعد حارث ابن بشیر نے اور پھر وہب ابن کریب نے اٹھا لیا۔ آج دشمن کا زیادہ زور میمنہ ہی پر تھا اور اس کے حملے اتنے شدید تھے کہ میمنہ لشکر کے قدم اکھڑ گئے اور وہ میدان چھوڑ کر پیچھے ہٹنے لگا اور رئیس میمنہ عبد اللہ ابن بدیل کے ہمراہ صرف دو تین سو آدمی رہ گئے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے جب یہ صورت حال دیکھی تو مالک اشتر سے فرمایا: ذرا انہیں پکارو اور کہو کہ کہاں بھاگے جا رہے ہو، اگر زندگی کے دن ختم ہو چکے ہیں تو بھاگ کر موت سے بچ نہیں سکتے۔ ادھر میمنہ لشکر کی ہزیمت سے قلب لشکر کا متاثر ہونا بھی چونکہ ضروری تھا اس لئے حضرتؑ میسرہ کی طرف مڑ گئے اور صفوں کو چیر کر آگے بڑھ رہے تھے کہ بنی امیہ کے ایک غلام احمر نامی نے حضرتؑ سے کہا کہ: خدا مجھے مارے اگر میں آج آپؑ کو قتل نہ کروں ۔یہ سن کر حضرتؑ کا غلام کیسان اس کی طرف جھپٹا مگر اس کے ہاتھ سے شہید ہو گیا۔ حضرتؑ نے یہ دیکھا تو بڑھ کر اسے دامنِ زرہ سے پکڑ لیا اور اونچا لے جا کر اس طرح زمین پر پٹکا کہ اس کے جوڑ بند الگ ہو گئے اور امام حسن علیہ السلام اور محمد ابن حنفیہ نے بڑھ کر اسے دار البوار میں پہنچا دیا۔
ادھر مالک اشتر کے للکارنے اور شرم و غیرت دلانے سے بھاگنے والے پلٹ پڑے اور پھر جم کر اس طرح حملہ کیا کہ دشمن کو دھکیلتے ہوئے وہیں پہنچ گئے جہاں عبداللہ ابن بدیل نرغہ میں گھرے ہوئے تھے۔ جب انہوں نے اپنے آدمیوں کو دیکھا تو ان کی ہمت بندھ گئی اور تلوار سونت کر معاویہ کے خیمہ کی طرف لپکے۔ مالک اشتر نے انہیں روکنا چاہا مگر وہ نہ رکے اور سات شامیوں کو موت کے گھاٹ اتار کر معاویہ کی قیام گاہ کے قریب پہنچ گئے۔ معاویہ نے جب انہیں بڑھتے دیکھا تو ان پر پتھراؤ کا حکم دیا جس سے آپ نڈھال ہو کر گر پڑے اور شامیوں نے ہجوم کر کے آپ کو شہید کر دیا۔ مالک اشتر نے یہ دیکھا تو قبیلہ ہمدان اور بنی مذحج کے جنگجوؤں کے ہمراہ معاویہ پر حملہ کرنے کیلئے بڑھے اور اس کے گرد حلقہ کرنے والے حفاظتی دستوں کو منتشر کرنا شروع کیا۔ جب ان کے پانچ حلقوں میں سے صرف ایک حلقہ منتشر ہونے سے رہ گیا تو معاویہ نے گھوڑے کی رکاب میں پیر رکھ دیا اور بھاگنے پر تیار ہو گیا مگر ایک شخص کے ڈھارس بندھانے سے پھر رک گیا۔
ادھر میدان کا رزار میں عمار ابن یاسر اور ہاشم ابن عتبہ کی تلواروں سے اس سرے سے لے کر اس سرے تک تلاطم برپا تھا۔ حضرت عمار جدھر سے ہو کر گزرتے تھے صحابہ ہجوم کر کے آپؑ کے ساتھ ہو لیتے تھے اور پھر مل کر اس طرح حملہ کرتے تھے کہ دشمن کی صفوں میں تہلکہ مچ جاتا تھا۔ معاویہ نے جب ان کو بڑھتے دیکھا تو اپنی تازہ دم فوجیں ان کی طرف جھونک دیں۔ مگر آپ تلواروں اور سنانوں کے ہجوم میں اپنی شجاعت کے جوہر دکھاتے رہے۔ آخر ابو عادیہ مری نے آپ پر نیزہ لگایا جس سے آپ سنبھل نہ سکے اور ابن جون نے آگے بڑھ کر آپ کو شہید کر دیا۔ عمار یاسر کی شہادت سے معاویہ کی فوج میں ہلچل مچ گئی، کیونکہ ان کے متعلق پیغمبر ﷺ کا ارشاد: « تَقْتُلُ عَمَّارَ الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» [۳]: ’’عمار ایک باغی گروہ کے ہاتھ سے قتل ہوں گے‘‘ وہ سن چکے تھے۔چنانچہ ان کی شہادت سے پہلے ذو الکلاع نے عمرو ابن عاص سے کہا بھی تھا کہ میں عمار کو علی علیہ السلام کے ساتھ دیکھ رہا ہوں، کیا وہ باغی گروہ ہم ہی تو نہیں؟ جس پر عمرو نے یہ کہا تھا کہ: آخر میں عمار ہمارے ساتھ مل جائیں گے۔ مگر جب وہ امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گئے تو اگرچہ باغی گروہ بے نقاب ہو چکا تھا اور کسی تاویل کی گنجائش نہ رہی تھی مگر معاویہ نے شامیوں سے یہ کہنا شروع کیا کہ: عمار کے قاتل ہم نہیں بلکہ علی علیہ السلام ہیں، چونکہ وہی انہیں میدان جنگ میں لانے والے ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام نے یہ پر فریب جملہ سنا تو فرمایا کہ: پھر حمزہ کے قاتل رسول اللہ ﷺ تھے جو انہیں میدان اُحد میں لائے تھے۔ اس معرکہ میں ہاشم ابن عتبہ بھی کام آ گئے جو حارث ابن منذر کے ہاتھ سے شہید ہوئے اور ان کے بعد علمِ لشکر ان کے فرزند عبد اللہ نے سنبھال لیا۔
جب ایسے ایسے جان نثار ختم ہو چکے تو حضرتؑ نے قبیلہ ہمدان اور ربیعہ کے جوانمردوں سے کہا کہ تم میرے لئے بمنزلہ زرہ اور نیزہ کے ہو۔ اٹھو اور ان باغیوں کو کیفر کردار تک پہنچا ؤ۔ چنانچہ قبیلہ ربیعہ و ہمدان کے بارہ ہزار نبرد آزما شمشیر بکف اٹھ کھڑ ہوئے۔ علم لشکر حصین ابن منذر نے اٹھا لیا اور دشمن کی صفوں میں گھس کر اس طرح تلواریں چلائیں کہ سر کٹ کٹ کر گرنے لگے۔ لاشوں کے انبار لگ گئے اور ہر طرف خون کے سیلاب بہہ نکلے مگر ان شمشیر زنوں کے حملے کسی طرح رکنے میں نہ آتے تھے۔ یہاں تک کہ دن اپنی ہولناکیوں کے ساتھ سمٹنے لگا اور شام کے بھیانک اندھیرے پھیلنے لگے اور وہ دہشت انگیز و بلا خیز رات شروع ہوئی جسے تاریخ میں ’’لیلۃ الہریر‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جس میں ہتھیاروں کی کھڑکھڑاہٹ، گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز اور شامیوں کی چیخ و پکار کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ امیر المومنین علیہ السلام کے باطل شکن نعروں سے ایک طرف دلوں میں ہمت و شجاعت کی لہریں دوڑ رہی تھیں اور دوسری طرف سینوں میں کلیجے دہل رہے تھے۔ جنگ اپنے پورے زوروں پر تھی، تیر اندازوں کے ترکش خالی ہو چکے تھے، نیزوں کی چوبیں ٹوٹ چکی تھی، صرف تلواروں سے دست بدست جنگ ہوتی رہی اور کشتوں کے پشتے لگتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہونے تک مقتولین کی تعداد تیس ہزار سے متجاوز ہو گئی۔
دسویں دن امیر المومنین علیہ السلام کے لشکریوں کے وہی دم خم تھے۔ میمنہ پر مالک اشتر اور میسرہ پر ابن عباس متعین تھے اور تازہ دم سپاہیوں کی طرح حملوں پر حملے کئے جا رہے تھے۔ شامیوں پر شکست کے آثار ظاہر ہو چکے تھے اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ نکلنے کو تیار ہی تھے کہ پانچ سو (۵۰۰) قرآن نیزوں پر بلند کر کے جنگ کا نقشہ بدل دیا گیا۔ چلتی ہوئی تلواریں رک گئیں، فریب کا حربہ چل نکلا اور باطل کے اقتدار کیلئے راستہ ہموار ہو گیا۔ اس جنگ میں ۴۵ ہزار شامی مارے گئے اور ۲۵ ہزار عراقی شہید ہوئے۔
(کتاب صفین، نصر ابن مزاحم المنقری المتوفی ۲۱۲ھ۔ تاریخ طبری)↑
[۱]۔ وقعۃ صفین، ص ۲۷۵۔
[۲]۔ سورۂ حج، آیت ۳۹۔
[۳]۔ البدایۃ و النہایۃ، ج ۳، ص ۲۱۷۔