بخل ننگ و عار ہے، اور بزدلی نقص و عیب ہے۔ حکمت 3
(٧٥) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۷۵)
اِنَّ بَنِیْۤ اُمَیَّةَ لَیُفَوِّقُوْنَنِیْ تُرَاثَ مُحَمَّدٍ ﷺ تَفْوِیْقًا، وَاللهِ! لَئِنْۢ بَقِیْتُ لَهُمْ لَاَنْفُضَنَّهُمْ نَفْضَ اللَّحَّامِ الْوِذَامَ التَّرِبَةَ!.
بنی امیہ مجھے محمد ﷺ کا ورثہ تھوڑا تھوڑا کر کے دیتے ہیں۔ خدا کی قسم! اگر میں زندہ رہا تو انہیں اس طرح جھاڑ پھینکوں گا جس طرح قصائی خاک آلودہ گوشت کے ٹکڑے سے مٹی جھاڑ دیتا ہے۔
وَ یُرْوٰی: «التُّرَابُ الْوَذَمَةُ»، وَ هُوَ عَلَی الْقَلْبِ.
علامہ رضیؒ فرماتے ہیں کہ: ایک روایت میں «اَلْوِذَامَ التَّرِبَۃُ» (خاک آلودہ گوشت کے ٹکڑے کے بجائے) «التُّرَابُ الْوَذَمَةُ» (مٹی جو گوشت کے ٹکڑے میں بھر گئی ہو) آیا ہے، یعنی صفت کی جگہ موصوف اور موصوف کی جگہ صفت رکھ دی گئی ہے۔
قَوْلُهٗ ؑ: «لَیُفَوِّقُوْنَنِیْ» اَیْ: یُعْطُوْنَنِیْ مِنَ الْمَالِ قَلِیْلًا قَلِیْلًا كَفُوَاقِ النَّاقَةِ، وَ هُوَ الْحَلْبَةُ الْوَاحِدَةُ مِنْ لَّبَنِهَا.
اور «لَیُفَوِّقُوْنَنِیْ» سے حضرتؑ کی مراد یہ ہے کہ وہ مجھے تھوڑا تھوڑا کر کے دیتے ہیں جس طرح اونٹنی کو ذرا سا دوہ لیا جائے اور پھر تھنوں کو اس کے بچے کے منہ سے لگا دیا جائے تاکہ وہ دوہے جانے کیلئے تیار ہو جائے۔
و «الْوِذَامُ» : جَمْعُ وَذَمَةٍ، وَ هِیَ: الْحُزَّةُ مِنَ الْكَرِشِ اَوِ الْكَبِدِ تَقَعُ فِی التُّرَابِ فَتُنْفَضُ.
اور ’’وذام‘‘ وذمہ کی جمع ہے جس کے معنی اوجھڑی یا جگر کے ٹکڑے کے ہیں جو مٹی میں گر پڑے اور پھر مٹی اس سے جھاڑ دی جائے۔