سب سے بڑی ثروت عقل و دانش ہے، اور سب سے بڑی ناداری حماقت و بے عقلی ہے۔ حکمت 38
(٢٥) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۵)
وَ قَدْ تَوَاتَرَتْ عَلَیْهِ الْاَخْبَارُ بِاِسْتِیْلَآءِ اَصْحَابِ مُعَاوِیَۃَ عَلَی الْبِلَادِ وَ قَدِمَ عَلَيْهِ عَامِلَاهُ عَلَى الْيَمَنِ وَ هُمَا عُبَيْدُ اللّٰهِ بْنُ عَباسٍ وَّ سَعِيْدُ بْنُ نُمْرَانَ لَمَّا غَلَبَ عَلَيْهِمَا بُسْرُ بْنُ اَبِیْۤ اَرْطَاةَ، فَقَامَ ؑ عَلَى الْمِنْۢبَرِ ضَجِرًۢا بِتَثَاقُلِ اَصْحَابِهٖ عَنِ الْجِهَادِ وَ مُخَالَفَتِهِمْ لَهٗ فِی الرَّاْیِ، فَقَالَ:
جب امیر المومنین علیہ السلام کو پے درپے یہ اطلاعات ملیں کہ معاویہ کے اصحاب (آپؑ کے مقبوضہ) شہروں پر تسلط جما رہے ہیں اور یمن کے عامل عبید اللہ ابنِ عباس اور سپہ سالارِ لشکر سعید ابن نُمران، بسر ابن ابی ارطات سے مغلوب ہو کر حضرتؑ کے پاس پلٹ آئے تو آپؑ اپنے اصحاب کی جہاد میں سستی اور رائے کی خلاف ورزی سے بد دل ہو کر منبر کی طرف بڑھے اور فرمایا: [۱]
مَا هِیَ اِلَّا الْكُوْفَةُ، اَقْبِضُهَا وَ اَبْسُطُهَا اِنْ لَّمْ تَكُوْنِیْۤ اِلَّاۤ اَنْتِ، تَهُبُّ اَعَاصِیْرُكِ، فَقَبَّحَكِ اللهُ!.
یہ عالم ہے اس کوفہ کا جس کا بندوبست میرے ہاتھ میں ہے۔ (اے شہر کوفہ!) اگر تیرا یہی عالم رہا کہ تجھ میں آندھیاں چلتی رہیں تو خدا تجھے غارت کرے!۔
[وَ تَمَثَّلَ بِقَوْلِ الشَّاعِرِ]
[پھر آپؑ نے شاعر کا یہ شعر بطورِ تمثیل پڑھا]
لَعَمْرُ اَبِيْكَ الْخَيْرِ يَا عَمْرُو اِنَّنِیْ
’’اے عمرو! تیرے اچھے باپ کی قسم! مجھے تو اس برتن سے تھوڑی سی چکناہٹ ہی ملی ہے (جو برتن کے خالی ہونے کے بعد اس میں لگی رہ جاتی ہے)‘‘۔
عَلٰى وَضَرٍ مِّنْ ذَا الْاِنَآءِ قَلِيْلِ
[ثُمَّ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ]
[پھر آپؑ نے فرمایا]
اُنْۢبِئْتُ بُسْرًا قَدِ اطَّلَعَ الْیَمَنَ وَ اِنِّیْ وَاللهِ! لَاَظُنُّ اَنَّ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمَ سَیُدَالُوْنَ مِنْكُمْ بِاجْتِمَاعِهِمْ عَلٰى بَاطِلِهِمْ، وَ تَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ، وَ بِمَعْصِیَتِكُمْ اِمَامَكُمْ فِی الْحَقِّ، وَ طَاعَتِهِمْ اِمَامَهُمْ فِی الْبَاطِلِ، وَ بِاَدَآئِهِمُ الْاَمَانَةَ اِلٰى صَاحِبِهِمْ وَ خِیَانَتِكُمْ، وَ بِصَلَاحِهِمْ فِیْ بِلَادِهِمْ وَ فَسَادِكُمْ، فَلَوِ ائْتَمَنْتُ اَحَدَكُمْ عَلٰى قَعْبٍ لَّخَشِیْتُ اَنْ یَّذْهَبَ بِعِلَاقَتِهٖ.
مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ بسر یمن پر چھا گیا ہے۔ بخدا! میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتھیا لیں گے، اس لئے کہ وہ (مرکز) باطل پر متحد و یکجا ہیں اور تم اپنے (مرکز) حق سے پراگندہ و منتشر۔ تم امرِ حق میں اپنے امام کے نافرمان اور وہ باطل میں بھی اپنے امام کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کے ساتھ امانت داری کے فرض کو پورا کرتے ہیں اور تم خیانت کرنے سے نہیں چوکتے۔ وہ اپنے شہروں میں امن بحال رکھتے ہیں اور تم شورشیں برپا کرتے ہو۔ میں اگر تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالے کا بھی امین بناؤں تو یہ ڈر رہتا ہے کہ وہ اس کے کنڈے کو توڑ کر لے جائے گا۔
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ قَدْ مَلِلْتُهُمْ وَ مَلُّوْنِیْ، وَ سَئِمْتُهُمْ وَ سَئِمُوْنِیْ، فَاَبْدِلْنِیْ بِهِمْ خَیْرًا مِّنْهُمْ، وَ اَبْدِلْهُمْ بِیْ شَرًّا مِّنِّىْ، اَللّٰهُمَّ مِثْ قُلُوْبَهُمْ كَمَا یُمَاثُ الْمِلْحُ فِی الْمَآءِ، اَمَا وَاللهِ! لَوَدِدْتُّ اَنَّ لِیْ بِكُمْ اَلْفَ فَارِسٍ مِّنْۢ بَنِیْ فِرَاسِ بْنِ غَنْمٍ:
اے اللہ! وہ مجھ سے تنگ دل ہو چکے ہیں اور میں ان سے، وہ مجھ سے اُکتا چکے ہیں اور میں ان سے، مجھے ان کے بدلے میں اچھے لوگ عطا کر اور میرے بدلے میں انہیں کوئی اور بُرا حاکم دے۔ خدایا! ان کے دلوں کو اس طرح (اپنے غضب سے) پگھلا دے جس طرح نمک پانی میں گھول دیا جاتا ہے۔ خدا کی قسم! میں اس چیز کو دوست رکھتا ہوں کہ تمہارے بجائے میرے پاس بنی فراس ابن غنم کے ایک ہی ہزار سوار ہوتے ایسے (جن کا وصف شاعر نے یہ بیان کیا ہے کہ:)
هُنَالِكَ، لَوْ دَعَوْتَ، اَتَاكَ مِنْهُمْ فَوَارِسُ مِثْلُ اَرْمِیَةِ الْحَمِیْمِ
’’اگر تم کسی موقعہ پر انھیں پکارو تو تمہارے پاس ایسے سوار پہنچیں جو تیز روی میں گرمیوں کے ابر کے مانند ہیں‘‘۔
ثُمَّ نَزَلَ ؑ مِنَ الْمِنْۢبَرِ۔
اس کے بعد حضرتؑ منبر سے نیچے آتر آئے۔
اَقُوْلُ: «الْاَرْمِيَةُ» جَمْعُ «رَمِىٍّ» وَ هُوَ السَّحَابُ، وَ الْحَمِيْمُ هٰهُنَا وَقْتُ الصَّيْفِ، وَ اِنَّمَا خَصَّ الشَّاعِرُ سَحَابَ الصَّيْفِ بِالذِّكْرِ لِاَنَّهٗ اَشَدُّ جُفُوْلًا وَّ اَسْرَعُ خُفُوْفًا، لِاَنَّهٗ لَا مَآءَ فِيْهِ، وَ اِنَّمَا يَكُوْنُ السَّحَابُ ثَقِيْلَ الْسَّيْرِ لِامْتِلَآئِهٖ بِالْمَآءِ، وَ ذٰلِكَ لَا يَكُوْنُ فِی الْاكْثَرِ اِلَّا زَمَانَ الشِّتَآءِ، وَ اِنَّمَا اَرَادَ الشَّاعِرُ وَصْفَهُمْ بِالسُّرْعَةِ اِذَا دُعُوْا وَ الْاِغَاثَةِ اِذَا اسْتُغِيْثُوْا، وَ الدَّلِيْلُ عَلٰى ذٰلِكَ قَوْلُهٗ: «هُنَالِكَ، لَوْ دَعَوْتَ، اَتَاكَ مِنْهُمْ۔۔۔»۔
سید رضیؒ کہتے ہیں کہ: اس شعر میں لفظ: ’’اُرمیہ‘‘ رمی کی جمع ہے، جس کے معنی اَبر کے ہیں اور ’’حمیم‘‘ کے معنی یہاں پر موسمِ گرم کے ہیں اور شاعر نے گرمیوں کے ابر کی تخصیص اس لئے کی ہے کہ وہ سریع السیر اور تیز رفتار ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پانی سے خالی ہوتا ہے۔ اور ابر سست گام اس وقت ہوتا ہے جب اس میں پانی بھرا ہوا ہو اور ایسے ابر (ملک عرب میں) عموماً سردیوں میں اٹھتے ہیں۔ اس شعر سے شاعر کا مقصود یہ ہے کہ انہیں جب مدد کیلئے پکارا جاتا ہے اور ان سے فریاد رسی کی جاتی ہے تو وہ تیزی سے بڑھتے ہیں اور اس کی دلیل شعر کا پہلا مصرع ہے: «هُنَالِكَ، لَوْ دَعَوْتَ، اَتَاكَ مِنْهُمْ» : ’’اگر تم پکارو تو وہ تمہارے پاس پہنچ جائیں گے‘‘۔
۱جب تحکیم کے بعد معاویہ کے قدم مضبوطی سے جم گئے تو اس نے اپنا دائرہ سلطنت وسیع کرنے کیلئے امیر المومنین ﷺکے مقبوضہ شہروں پر قبضہ جمانے کی تدبیریں شروع کر دیں اور مختلف علاقوں میں اپنی فوجیں بھیج دیں تا کہ وہ جبر و تشدد سے امیر شام کیلئے بیعت حاصل کریں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں بسر ابن ابی ارطاة کو حجاز روانہ کیا جس نے حجاز سے لے کر یمن تک ہزاروں بے گناہوں کے خون بہائے، قبیلوں کے قبیلے زندہ آگ میں جلا دیئے اور چھوٹے چھوٹے بچوں تک کو قتل کیا، یہاں تک کہ عبید اللہ ابن عباس والی یمن کے دو کم سن بچوں قثم اور عبد الرحمٰن کو ان کی ماں حوریہ بنت خالد کے سامنے ذبح کر دیا۔
امیر المومنین علیہ السلام کو جب اس کی سفاکیوں اور خونریزیوں کا علم ہوا تو آپؑ نے اس کی سرکوبی کیلئے لشکر روانہ کرنا چاہا مگر پیہم جنگ آزمائیوں کی وجہ سے لوگ جنگ سے جی چھوڑ بیٹھے تھے اور سرگرمی کے بجائے بد دلی ان میں پیدا ہو چکی تھی۔ حضرتؑ نے جب ان کو جنگ سے پہلو بچاتے ہوئے دیکھا تو یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں انہیں حمیت و غیرت دلائی ہے اور دشمن کی باطل نوازیوں اور ان کے مقابلے میں ان کی کوتاہیوں کا تذکرہ کر کے انہیں جہاد پر اُبھارا ہے۔ آخر جاریہ ابنِ قدامہ نے آپؑ کی آواز پر لبیک کہی اور دو ہزار کے لشکر کے ساتھ اس کے تعاقب میں روانہ ہوئے اور اس کا پیچھا کر کے اسے امیر المومنین علیہ السلام کے مقبوضات سے نکال باہر کیا۔↑