فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

سب سے بڑی ثروت عقل و دانش ہے، اور سب سے بڑی ناداری حماقت و بے عقلی ہے۔ حکمت 38
(٢٥) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۵)
وَ قَدْ تَوَاتَرَتْ عَلَیْهِ الْاَخْبَارُ بِاِسْتِیْلَآءِ اَصْحَابِ مُعَاوِیَۃَ عَلَی الْبِلَادِ وَ قَدِمَ عَلَيْهِ عَامِلَاهُ عَلَى الْيَمَنِ وَ هُمَا عُبَيْدُ اللّٰهِ بْنُ عَباسٍ وَّ سَعِيْدُ بْنُ نُمْرَانَ لَمَّا غَلَبَ عَلَيْهِمَا بُسْرُ بْنُ اَبِیْۤ اَرْطَاةَ، فَقَامَ ؑ عَلَى الْمِنْۢبَرِ ضَجِرًۢا بِتَثَاقُلِ اَصْحَابِهٖ عَنِ الْجِهَادِ وَ مُخَالَفَتِهِمْ لَهٗ فِی الرَّاْیِ، فَقَالَ:
جب امیر المومنین علیہ السلام کو پے درپے یہ اطلاعات ملیں کہ معاویہ کے اصحاب (آپؑ کے مقبوضہ) شہروں پر تسلط جما رہے ہیں اور یمن کے عامل عبید اللہ ابنِ عباس اور سپہ سالارِ لشکر سعید ابن نُمران، بسر ابن ابی ارطات سے مغلوب ہو کر حضرتؑ کے پاس پلٹ آئے تو آپؑ اپنے اصحاب کی جہاد میں سستی اور رائے کی خلاف ورزی سے بد دل ہو کر منبر کی طرف بڑھے اور فرمایا: [۱]
مَا هِیَ اِلَّا الْكُوْفَةُ، اَقْبِضُهَا وَ اَبْسُطُهَا اِنْ لَّمْ تَكُوْنِیْۤ اِلَّاۤ اَنْتِ، تَهُبُّ اَعَاصِیْرُكِ، فَقَبَّحَكِ اللهُ!.
یہ عالم ہے اس کوفہ کا جس کا بندوبست میرے ہاتھ میں ہے۔ (اے شہر کوفہ!) اگر تیرا یہی عالم رہا کہ تجھ میں آندھیاں چلتی رہیں تو خدا تجھے غارت کرے!۔
[وَ تَمَثَّلَ بِقَوْلِ الشَّاعِرِ]
[پھر آپؑ نے شاعر کا یہ شعر بطورِ تمثیل پڑھا]
لَعَمْرُ اَبِيْكَ الْخَيْرِ يَا عَمْرُو اِنَّنِیْ
’’اے عمرو! تیرے اچھے باپ کی قسم! مجھے تو اس برتن سے تھوڑی سی چکناہٹ ہی ملی ہے (جو برتن کے خالی ہونے کے بعد اس میں لگی رہ جاتی ہے)‘‘۔
عَلٰى وَضَرٍ مِّنْ ذَا الْاِنَآءِ قَلِيْلِ
[ثُمَّ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ]
[پھر آپؑ نے فرمایا]
اُنْۢبِئْتُ بُسْرًا قَدِ اطَّلَعَ الْیَمَنَ وَ اِنِّیْ وَاللهِ! لَاَظُنُّ اَنَّ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمَ سَیُدَالُوْنَ مِنْكُمْ بِاجْتِمَاعِهِمْ عَلٰى بَاطِلِهِمْ، وَ تَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ، وَ بِمَعْصِیَتِكُمْ اِمَامَكُمْ فِی الْحَقِّ، وَ طَاعَتِهِمْ اِمَامَهُمْ فِی الْبَاطِلِ، وَ بِاَدَآئِهِمُ الْاَمَانَةَ اِلٰى صَاحِبِهِمْ وَ خِیَانَتِكُمْ، وَ بِصَلَاحِهِمْ فِیْ بِلَادِهِمْ وَ فَسَادِكُمْ، فَلَوِ ائْتَمَنْتُ اَحَدَكُمْ عَلٰى قَعْبٍ لَّخَشِیْتُ اَنْ یَّذْهَبَ بِعِلَاقَتِهٖ.
مجھے یہ خبر دی گئی ہے کہ بسر یمن پر چھا گیا ہے۔ بخدا! میں تو اب ان لوگوں کے متعلق یہ خیال کرنے لگا ہوں کہ وہ عنقریب سلطنت و دولت کو تم سے ہتھیا لیں گے، اس لئے کہ وہ (مرکز) باطل پر متحد و یکجا ہیں اور تم اپنے (مرکز) حق سے پراگندہ و منتشر۔ تم امرِ حق میں اپنے امام کے نافرمان اور وہ باطل میں بھی اپنے امام کے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کے ساتھ امانت داری کے فرض کو پورا کرتے ہیں اور تم خیانت کرنے سے نہیں چوکتے۔ وہ اپنے شہروں میں امن بحال رکھتے ہیں اور تم شورشیں برپا کرتے ہو۔ میں اگر تم میں سے کسی کو لکڑی کے ایک پیالے کا بھی امین بناؤں تو یہ ڈر رہتا ہے کہ وہ اس کے کنڈے کو توڑ کر لے جائے گا۔
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ قَدْ مَلِلْتُهُمْ وَ مَلُّوْنِیْ، وَ سَئِمْتُهُمْ وَ سَئِمُوْنِیْ، فَاَبْدِلْنِیْ بِهِمْ خَیْرًا مِّنْهُمْ، وَ اَبْدِلْهُمْ بِیْ شَرًّا مِّنِّىْ، اَللّٰهُمَّ مِثْ قُلُوْبَهُمْ كَمَا یُمَاثُ الْمِلْحُ فِی الْمَآءِ، اَمَا وَاللهِ! لَوَدِدْتُّ اَنَّ لِیْ بِكُمْ اَلْفَ فَارِسٍ مِّنْۢ بَنِیْ فِرَاسِ بْنِ غَنْمٍ:
اے اللہ! وہ مجھ سے تنگ دل ہو چکے ہیں اور میں ان سے، وہ مجھ سے اُکتا چکے ہیں اور میں ان سے، مجھے ان کے بدلے میں اچھے لوگ عطا کر اور میرے بدلے میں انہیں کوئی اور بُرا حاکم دے۔ خدایا! ان کے دلوں کو اس طرح (اپنے غضب سے) پگھلا دے جس طرح نمک پانی میں گھول دیا جاتا ہے۔ خدا کی قسم! میں اس چیز کو دوست رکھتا ہوں کہ تمہارے بجائے میرے پاس بنی فراس ابن غنم کے ایک ہی ہزار سوار ہوتے ایسے (جن کا وصف شاعر نے یہ بیان کیا ہے کہ:)
هُنَالِكَ، لَوْ دَعَوْتَ، اَتَاكَ مِنْهُمْ فَوَارِسُ مِثْلُ اَرْمِیَةِ الْحَمِیْمِ
’’اگر تم کسی موقعہ پر انھیں پکارو تو تمہارے پاس ایسے سوار پہنچیں جو تیز روی میں گرمیوں کے ابر کے مانند ہیں‘‘۔
ثُمَّ نَزَلَ ؑ مِنَ الْمِنْۢبَرِ۔
اس کے بعد حضرتؑ منبر سے نیچے آتر آئے۔
اَقُوْلُ: «الْاَرْمِيَةُ» جَمْعُ «رَمِىٍّ» وَ هُوَ السَّحَابُ، وَ الْحَمِيْمُ هٰهُنَا وَقْتُ الصَّيْفِ، وَ اِنَّمَا خَصَّ الشَّاعِرُ سَحَابَ الصَّيْفِ بِالذِّكْرِ لِاَنَّهٗ اَشَدُّ جُفُوْلًا وَّ اَسْرَعُ خُفُوْفًا، لِاَنَّهٗ لَا مَآءَ فِيْهِ، وَ اِنَّمَا يَكُوْنُ السَّحَابُ ثَقِيْلَ الْسَّيْرِ لِامْتِلَآئِهٖ بِالْمَآءِ، وَ ذٰلِكَ لَا يَكُوْنُ فِی الْاكْثَرِ اِلَّا زَمَانَ الشِّتَآءِ، وَ اِنَّمَا اَرَادَ الشَّاعِرُ وَصْفَهُمْ بِالسُّرْعَةِ اِذَا دُعُوْا وَ الْاِغَاثَةِ اِذَا اسْتُغِيْثُوْا، وَ الدَّلِيْلُ عَلٰى ذٰلِكَ قَوْلُهٗ: «هُنَالِكَ، لَوْ دَعَوْتَ، اَتَاكَ مِنْهُمْ۔۔۔»۔
سید رضیؒ کہتے ہیں کہ: اس شعر میں لفظ: ’’اُرمیہ‘‘ رمی کی جمع ہے، جس کے معنی اَبر کے ہیں اور ’’حمیم‘‘ کے معنی یہاں پر موسمِ گرم کے ہیں اور شاعر نے گرمیوں کے ابر کی تخصیص اس لئے کی ہے کہ وہ سریع السیر اور تیز رفتار ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پانی سے خالی ہوتا ہے۔ اور ابر سست گام اس وقت ہوتا ہے جب اس میں پانی بھرا ہوا ہو اور ایسے ابر (ملک عرب میں) عموماً سردیوں میں اٹھتے ہیں۔ اس شعر سے شاعر کا مقصود یہ ہے کہ انہیں جب مدد کیلئے پکارا جاتا ہے اور ان سے فریاد رسی کی جاتی ہے تو وہ تیزی سے بڑھتے ہیں اور اس کی دلیل شعر کا پہلا مصرع ہے: «هُنَالِكَ، لَوْ دَعَوْتَ، اَتَاكَ مِنْهُمْ» : ’’اگر تم پکارو تو وہ تمہارے پاس پہنچ جائیں گے‘‘۔

۱؂جب تحکیم کے بعد معاویہ کے قدم مضبوطی سے جم گئے تو اس نے اپنا دائرہ سلطنت وسیع کرنے کیلئے امیر المومنین ﷺکے مقبوضہ شہروں پر قبضہ جمانے کی تدبیریں شروع کر دیں اور مختلف علاقوں میں اپنی فوجیں بھیج دیں تا کہ وہ جبر و تشدد سے امیر شام کیلئے بیعت حاصل کریں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں بسر ابن ابی ارطاة کو حجاز روانہ کیا جس نے حجاز سے لے کر یمن تک ہزاروں بے گناہوں کے خون بہائے، قبیلوں کے قبیلے زندہ آگ میں جلا دیئے اور چھوٹے چھوٹے بچوں تک کو قتل کیا، یہاں تک کہ عبید اللہ ابن عباس والی یمن کے دو کم سن بچوں قثم اور عبد الرحمٰن کو ان کی ماں حوریہ بنت خالد کے سامنے ذبح کر دیا۔
امیر المومنین علیہ السلام کو جب اس کی سفاکیوں اور خونریزیوں کا علم ہوا تو آپؑ نے اس کی سرکوبی کیلئے لشکر روانہ کرنا چاہا مگر پیہم جنگ آزمائیوں کی وجہ سے لوگ جنگ سے جی چھوڑ بیٹھے تھے اور سرگرمی کے بجائے بد دلی ان میں پیدا ہو چکی تھی۔ حضرتؑ نے جب ان کو جنگ سے پہلو بچاتے ہوئے دیکھا تو یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں انہیں حمیت و غیرت دلائی ہے اور دشمن کی باطل نوازیوں اور ان کے مقابلے میں ان کی کوتاہیوں کا تذکرہ کر کے انہیں جہاد پر اُبھارا ہے۔ آخر جاریہ ابنِ قدامہ نے آپؑ کی آواز پر لبیک کہی اور دو ہزار کے لشکر کے ساتھ اس کے تعاقب میں روانہ ہوئے اور اس کا پیچھا کر کے اسے امیر المومنین علیہ السلام کے مقبوضات سے نکال باہر کیا۔