مال نفسانی خواہشوں کا سر چشمہ ہے۔ حکمت 58
(١١٨) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۱۸)
تَاللهِ! لَقَدْ عَلِمْتُ تَبْلِیْـغَ الرِّسَالَاتِ، وَ اِتْمَامَ الْعِدَاتِ، وَ تَمَامَ الْكَلِمَاتَ. وَ عِنْدَنَا ـ اَهْلَ الْبَیْتِ ـ اَبْوَابُ الْحِكَمِ وَ ضِیَآءُ الْاَمْرِ.
خدا کی قسم! مجھے پیغاموں کے پہنچانے، وعدوں کے پورا کرنے اور آیتوں کی صحیح تاویل بیان کرنے کا خوب علم ہے اور ہم اہل بیتؑ (نبوت) کے پاس علم و معرفت کے دروازے اور شریعت کی روشن راہیں ہیں۔
اَلَا وَ اِنَّ شَرَآئِعَ الدِّیْنِ وَاحِدَةٌ، وَ سُبُلَهٗ قَاصِدَةٌ، مَنْ اَخَذَ بِهَا لَحِقَ وَ غَنِمَ، وَ مَنْ وَّقَفَ عَنْهَا ضَلَّ وَ نَدِمَ.
آگاہ رہو کہ دین کے تمام قوانین کی روح ایک اور اس کی راہیں سیدھی ہیں۔ جو ان پر ہو لیا وہ منزل تک پہنچ گیا اور بہرہ یاب ہوا اور جو ٹھہرا رہا وہ گمراہ ہوا اور (آخر کار) نادم و پشیمان ہوا۔
اِعْمَلُوْا لِیَوْمٍ تُذْخَرُ لَهُ الذَّخَآئِرُ، وَ تُبْلٰی فِیْهِ السَّرَآئِرُ، وَ مَنْ لَّا یَنْفَعُهٗ حَاضِرُ لُبِّهٖ فَعَازِبُهٗ عَنْهُ اَعْجَزُ، وَ غَآئِبُهٗ اَعْوَزُ.
اس دن کیلئے عمل کرو کہ جس کیلئے ذخیرے فراہم کئے جاتے ہیں اور جس میں نیتوں کو جانچا جائے گا۔ جسے اپنی ہی عقل فائدہ نہ پہنچائے کہ جو اس کے پاس موجود ہے تو (دوسروں کی) عقلیں کہ جو اس سے دور اور اوجھل ہیں فائدہ رسانی سے بہت عاجز و قاصر ہوں گی۔
وَ اتَّقُوْا نَارًا حَرُّهَا شَدِیْدٌ، وَ قَعْرُهَا بَعِیْدٌ، وَ حِلْیَتُهَا حَدِیْدٌ، وَ شَرَابُهَا صَدِیْدٌ. اَلَا وَ اِنَّ اللِّسَانَ الصَّالِحَ یَجْعَلُهُ اللهُ لِلْمَرْءِ فِی النَّاسِ، خَیْرٌ لَّهٗ مِنَ الْمَالِ یُوْرِثُهٗ مَنْ لَّا یَحْمَدُهٗ.
(دوزخ کی) آگ سے ڈرو کہ جس کی تپش تیز اور گہرائی بہت زیادہ ہے اور (جہاں پہننے کو) لوہے کے زیور اور (پینے کو) پیپ بھرا لہو ہے۔ ہاں! [۱] جس شخص کا ذکرِ خیر لوگوں میں خدا برقرار رکھے وہ اس کیلئے اس مال سے کہیں بہتر ہے جس کا ایسوں کو وارث بنا یا جاتا ہے جو اس کو سراہتے تک نہیں۔
۱اگر انسان جیتے جاگتے اپنے اختیار سے کسی کو کچھ دے جائے تو لینے والا اس کا احسان مند ہوتا ہے، لیکن جو مال مجبوری سے چھن جائے تو چھین لینے والا اپنے کو اس کا زیر بارِ احسان نہیں سمجھتا اور نہ اسے سراہتا ہے۔ یہی حالت مرنے والے کی ہوتی ہے کہ اس کے ورثا یہی سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ چھوڑ گیا ہے وہ ہمارا حق تھا کہ جو ہمیں ملنا چاہیے تھا، اس میں اس کا احسان ہی کیا کہ اسے سراہا جائے، لیکن اسی مال سے اگر وہ کوئی اچھا کام کر جاتا تو دنیا میں اس کا نام بھی رہتا اور دنیا والے اس کی تحسین و آفرین بھی کرتے۔
خنک تنی که پس از وی حدیث خیر کنند
که جز حدیث نمی ماند از بنی آدم↑