فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

حکمت جب تک منافق (کی زبان) سے نکل کر مومن کے سینہ میں پہنچ کر دوسر ی حکمتوں کے ساتھ بہل نہیں جاتی، تڑپتی رہتی ہے۔ حکمت 79
(١٥٤) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۵۴)
خَاطَبَ بِهٖۤ اَهْلَ الْبَصْرَةِ عَلٰی جِهَةِ اقْتِصَاصِ الْمَلَاحِمِ:
اس میں اہل بصرہ کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں فتنوں سے آگاہ کیا ہے:
فَمَنِ اسْتَطَاعَ عِنْدَ ذٰلِكَ اَنْ یَّعْتَقِلَ نَفْسَهٗ عَلَی اللهِ تَعَالٰی. فَلْیَفْعَلْ، فَاِنْ اَطَعْتُمُوْنِیْ فَاِنِّیْ حَامِلُكُمْ اِنْ شَآءَ اللهُ عَلٰی سَبِیْلِ الْجَنَّةِ، وَ اِنْ كَانَ ذَا مَشَقَّةٍ شَدِیْدَةٍ وَّ مَذَاقَةٍ مَّرِیْرَةٍ. وَ اَمَّا فُلَانَةُ فَاَدْرَكَهَا رَاْیُ الْنِّسَآءِ، وَ ضِغْنٌ غَلَا فِیْ صَدْرِهَا كَمِرْجَلِ الْقَیْنِ، وَ لَوْ دُعِیَتْ لِتَنَالَ مِنْ غَیْرِیْ مَاۤ اَتَتْ اِلَیَّ، لَمْ تَفْعَلْ، وَ لَهَا بَعْدُ حُرْمَتُهَا الْاُوْلٰی، وَ الْحِسَابُ عَلَی اللهِ.
جو شخص ان( فتنہ انگیزیوں) کے وقت اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت پر ٹھہرائے رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اگر تم میری اطاعت کرو گے تو میں ان شاء اللہ تمہیں جنت کی راہ پر لگا دوں گا۔ اگرچہ وہ راستہ کٹھن دشواریوں اور تلخ مزوں کو لئے ہوئے ہے۔ رہیں فلاں [۱] تو ان میں عورتوں والی کم عقلی آ گئی ہے اور لوہار کے کڑھاؤ کی طرح کینہ و عناد ان کے سینہ میں جوش مار رہا ہے اور جو سلوک مجھ سے کر رہی ہیں اگر میرے سوا کسی دوسرے سے ویسے سلوک کو ان سے کہا جاتا تو وہ نہ کرتیں۔ ان سب چیزوں کے بعد بھی ہمیں ان کی سابقہ حرمت کا لحاظ ہے۔ ان کا حساب و کتاب اللہ کے ذمہ ہے۔
[مِنْهُ]
[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
سَبِیْلٌ اَبْلَجُ الْمِنْهَاجِ، اَنْوَرُ السِّرَاجِ، فَبِالْاِیْمَانِ یُسْتَدَلُّ عَلَی الصّٰلِحٰتِ، وَ بِالصّٰلِحٰتِ یُسْتَدَلُّ عَلَی الْاِیْمَانِ، وَ بِالْاِیْمَانِ یُعْمَرُ الْعِلْمُ، وَ بِالْعِلْمِ یُرْهَبُ الْمَوْتُ، وَ بِالْمَوْتِ تُخْتَمُ الدُّنْیَا، وَ بِالدُّنْیَا تُحْرَزُ الْاٰخِرَةُ، وَ اِنَّ الْخَلْقَ لَا مَقْصَرَ لَهُمْ عَنِ الْقِیٰمَةِ، مُرْقِلِیْنَ فِیْ مِضْمَارِهَاۤ اِلَی الْغَایَةِ الْقُصْوٰی.
(ایمان کی) راہ سب راہوں سے واضح اور سب چراغوں سے زیادہ نورانی ہے، ایمان سے نیکیوں پر استدلال کیا جاتا ہے اور نیکیوں سے ایمان پر دلیل لائی جاتی ہے، ایمان سے علم کی دنیا آباد ہوتی ہے اور علم کی بدولت موت سے ڈرا جاتا ہے اور موت سے دنیا کے سارے جھنجھٹ ختم ہو جاتے ہیں اور دنیا سے آخرت حاصل کی جاتی ہے۔ مخلوقات کیلئے قیامت سے ادھر کوئی منزل نہیں۔ وہ اسی کے میدان میں انتہا کی حد تک پہنچنے کیلئے دوڑ لگانے والی ہے۔
[مِنْهُ]
[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
قَدْ شَخَصُوْا مِنْ مُّسْتَقَرِّ الْاَجْدَاثِ، وَ صَارُوْۤا اِلٰی مَصَآئِرِ الْغَایَاتِ، لِكُلِّ دَارٍ اَهْلُهَا، لَا یَسْتَبْدِلُوْنَ بِهَا وَ لَا یُنْقَلُوْنَ عَنْهَا. وَ اِنَّ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّهْیَ عَنِ الْمُنْكَرِ لَخُلُقَانِ مِنْ خُلُقِ اللهِ سُبْحَانَهٗ، وَاِنَّهُمَا لَا یُقَرِّبَانِ مِنْ اَجَلٍ وَّ لَا یَنْقُصَانِ مِنْ رِّزْقٍ.
وہ اپنی قبروں کے ٹھکانوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی آخرت کے ٹھکانوں کی طرف پلٹ پڑے۔ ہر گھر کیلئے اس کے اہل ہیں کہ نہ وہ اسے تبدیل کر سکیں گے اور نہ اس سے منتقل ہو سکیں گے۔ نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ایسے دو کام ہیں جو اخلاق خداوندی میں سے ہیں۔ نہ ان کی وجہ سے موت قبل از وقت آ سکتی ہے اور نہ جو رزق مقرر ہے اس میں کوئی کمی ہوسکتی ہے۔
وَ عَلَیْكُمْ بِكِتَابِ اللهِ، فَاِنَّهُ الْحَبْلُ الْمَتِیْنُ، وَ النُّوْرُ الْمُبِیْنُ، وَ الشِّفَآءُ النَّافِعُ، وَ الرِّیُّ النَّاقِعُ، وَ الْعِصْمَةُ لِلْمُتَمَسِّكِ، وَ النَّجَاةُ لِلْمُتَعَلِّقِ، لَا یَعْوَجُّ فَیُقَامَ، وَ لَا یَزِیْغُ فَیُسْتَعْتَبَ، وَ لَا تُخْلِقُهٗ كَثْرَةُ الرَّدِّ، وَ وُلُوْجُ السَّمْعِ، مَنْ قَالَ بِهٖ صَدَقَ، وَ مَنْ عَمِلَ بِهٖ سَبَقَ.
تمہیں کتاب خدا پر عمل کرنا چاہیے۔ اس لئے کہ وہ ایک مضبوط رسی، روشن و واضح نور، نفع بخش شفا، پیاس بجھانے والی سیرابی، تمسک کرنے والے کیلئے سامان حفاظت اور وابستہ رہنے والے کیلئے نجات ہے۔ اس میں کجی نہیں آتی کہ اسے سیدھا کیا جائے، نہ حق سے الگ ہوتی ہے کہ اس کا رخ موڑا جائے۔ کثرت سے دہرایا جانا اور (بار بار) کانوں میں پڑنا اسے پرانا نہیں کرتا۔ جو اس کے مطابق کہے وہ سچا ہے اور جو اس پر عمل کرے وہ سبقت لیجانے والا ہے۔
وَ قَامَ اِلَیْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: اَخْبِرْنَا عَنِ الْفِتْنَةِ، و هَلْ سَئَلْتَ رَسُوْلَ اللهِ -ﷺ عَنْهَا؟ فَقَالَ ؑ:
(اسی اثنا میں) ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ: ہمیں فتنہ کے بارے میں کچھ بتائیے اور کیا آپؑ نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تھا؟ آپؑ نے فرمایا کہ:
لَمَّاۤ اَنْزَلَ اللهُ سُبْحَانَهٗ قَوْلَهٗ: ﴿الٓمّٓۚ۝ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ۝﴾ عَلِمْتُ اَنَّ الْفِتْنَةَ لَا تَنْزِلُ بِنَا وَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بَیْنَ اَظْهُرِنَا، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! مَا هٰذِهِ الْفِتْنَةُ الَّتِیْۤ اَخْبَرَكَ اللهُ تَعَالٰی بِهَا؟ فَقَالَ: «یَا عَلِیُّ! اِنَّ اُمَّتِیْ سَیُفْتَنُوْنَ مِنْۢ بَعْدِیْ». فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! اَوَ لَیْسَ قَدْ قُلْتَ لِیْ یَوْمَ اُحُدٍ حَیْثُ اسْتُشْهِدَ مَنِ اسْتُشْهِدَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، وَ حِیْزَتْ عَنِّی الشَّهَادَةُ، فَشَقَّ ذٰلِكَ عَلَیَّ، فَقُلْتَ لِیْ: «اَبْشِرْ، فَاِنَّ الشَّهَادَةَ مِنْ وَّرَآئِكَ»؟ فَقَالَ لِیْ: «اِنَّ ذٰلِكَ لَكَذٰلِكَ، فَكَیْفَ صَبْرُكَ اِذَنْ»؟ فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! لَیسَ هٰذَا مِنْ مَّوَاطِنِ الصَّبْرِ، وَ لٰكِنْ مِّنْ مَّوَاطِنِ الْبُشْرٰی وَ الشُّكُرِ، وَ قَالَ: «یَا عَلِیُّ! اِنَّ الْقَوْمَ سَیُفْتَنُوْنَ بِاَمْوَالِهمْ، وَ یَمُنُّوْنَ بِدِیْنِهِمْ عَلٰی رَبِّهِمْ، وَ یَتَمَنَّوْنَ رَحْمَتَهٗ، وَ یَاْمَنُوْنَ سَطْوَتَهٗ، وَ یَسْتَحِلُّوْنَ حَرَامَهٗ بِالشُّبُهَاتِ الْكَاذِبَةِ، وَ الْاَهْوَآءِ السَّاهِیَةِ، فَیَسْتَحِلُّوْنَ الْخَمْرَ بِالنَّبِیْذِ، وَ السُّحْتَ بِالْهَدِیَّةِ، وَ الرِّبَا بِالْبَیْعِ». قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! فَبِاَیِّ الْمَنَازِلِ اُنْزِلُهُمْ عِنْدَ ذٰلِكَ؟ اَبِمَنْزِلَةِ رِدَّةٍ، اَمْ بِمَنْزِلَةِ فِتْنَةٍ؟ فَقَالَ: «بِمَنْزِلَةِ فِتْنَةٍ».
ہاں! جب اللہ نے یہ آیت اتاری کہ: ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کے اتنا کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لائے ہیں انہیں چھوڑ دیا جائے گا اور وہ فتنوں سے دوچار نہیں ہوں گے‘‘، تو میں سمجھ گیا کہ فتنہ ہم پر تو نہیں آئے گا جبکہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان موجود ہیں، چنانچہ میں نے کہا: یا رسول اللہؐ! یہ فتنہ کیا ہے کہ جس کی اللہ نے آپؐ کو خبر دی ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ: «اے علیؑ! میرے بعد میری اُمت جلد ہی فتنوں میں پڑ جائے گی» تو میں نے کہا کہ: یا رسول اللہؐ! اُحد کے دن جب شہید ہونے والے مسلمان شہید ہوچکے تھے اور شہادت مجھ سے روک لی گئی اور یہ مجھ پر گراں گزرا تھا تو آپؐ نے مجھ سے نہیں فرمایا تھا کہ: «تمہیں بشارت ہو! کہ شہادت تمہیں پیش آنے والی ہے» اور یہ بھی فرمایا تھا کہ: «یہ یونہی ہو کر رہے گا۔ (یہ کہو) کہ اس وقت تمہارے صبر کی کیا حالت ہو گی» تو میں نے کہا تھا کہ: یا رسول اللہؐ! یہ صبر کا کوئی موقع نہیں ہے۔ یہ تو (میرے لئے) مژدہ اور شکر کا مقام ہو گا،۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ: «یا علیؑ! حقیقت یہ ہے کہ لوگ میرے بعد مال و دولت کی وجہ سے فتنوں میں پڑ جائیں گے اور دین اختیار کر لینے سے اللہ پر احسان جتائیں گے۔ اس کی رحمت کی آرزوئیں تو کریں گے لیکن اس کے قہر و غلبہ (کی گرفت) سے بے خوف ہو جائیں گے کہ جھوٹ موٹ کے شبہوں اور غافل کر دینے والی خواہشوں کی وجہ سے حلال کو حرام کر لیں گے، شراب کو انگور و خرما کا پانی کہہ کر اور رشوت کا نام ہدیہ رکھ کر اور سود کو خرید و فروخت قرار دے کر جائز سمجھ لیں گے»۔ (پھر) میں نے کہا کہ: یا رسول اللہؐ! میں انہیں اس موقع پر کس مرتبہ پر سمجھوں؟ اس مرتبہ پر کہ وہ مرتد ہو گئے ہیں؟ یا اس مرتبہ پر کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ: «فتنہ کے مرتبہ پر»۔

۱؂اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت عائشہ کا رویہ امیر المومنین علیہ السلام سے ہمیشہ معاندانہ رہا اور اکثر ان کے دل کی کدورت ان کے چہرے پر کھل جاتی اور طرز عمل سے نفرت و بیزاری جھلک اٹھتی تھی۔ یہاں تک کہ اگر کسی واقعہ کے سلسلہ میں حضرتؑ کا نام آ جاتا تو ان کی پیشانی پر بل پڑ جاتا تھا اور اس کا زبان پر لانا بھی گوارا نہ کرتی تھیں۔ چنانچہ عبید اللہ ابن عبد اللہ نے حضرت عائشہ کی اس روایت کا کہ: ’’پیغمبر ﷺ حالت مرض میں فضل ابن عباس اور ایک دوسرے شخص کا سہارا لے کر ان کے ہاں چلے آئے‘‘، حضرت عبد اللہ ابن عباس سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا:
هَلْ تَدْرِیْ مَنِ الرَّجُلُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ ؑ وَ لٰکِنَّھَا کَانَتْ لَا تَقْدِرُ عَلٰی اَنْ تَذْکُرَہٗ بِخَیْرٍ.
کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ دوسرا شخص کون تھا؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ کہا کہ: وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھے مگر حضرت عائشہ کے بس کی یہ بات نہ تھی کہ وہ علی علیہ السلام کا کسی اچھائی کے ساتھ ذکر کرتیں۔(تاریخ طبری، ج۲، ص۴۳۳)
اس نفرت و عناد کا ایک سبب حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کا وجود تھا کہ جن کی ہمہ گیر عظمت و توقیر ان کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی اور سوتاپے کی جلن یہ گوارا نہ کر سکتی تھی کہ پیغمبر ﷺ سوت کی دختر کو اس طرح چاہیں کہ اسے دیکھتے ہی تعظیم کیلئے کھڑے ہو جائیں اور اپنی مسند پر جگہ دیں اور ’’سیدة نساء العالمین‘‘ کہہ کر دنیا جہاں کی عورتوں پر اس کی فوقیت ظاہر کریں اور اس کی اولاد کو اس حد تک دوست رکھیں کہ انہیں اپنا فرزند کہہ کر پکاریں۔ یہ تمام چیزیں ان پر شاق گزرنے والی تھیں اور فطری طور پر ان کے جذبات اس موقع پر یہی ہوں گے کہ اگر خود ان کے بطن سے اولاد ہوتی تو وہ پیغمبر ﷺ کے بیٹے کہلاتے اور بجائے حسنؑ و حسینؑ کے وہ ان کی محبت کا مرکز بنتے، مگر ان کی گود اولاد سے ہمیشہ خالی ہی رہی اور ماں بننے کی آرزو کو اپنے بھانجے کے نام پر اپنی کنیت اُمّ عبد اللہ رکھ کر پورا کر لیا۔
غرض یہ سب چیزیں ایسی تھیں جنہوں نے ان کے دل میں نفرت کا جذبہ پیدا کر دیا جس کے تقاضے سے مجبور ہو کر جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے خلاف شکوہ و شکایت کرتی رہتی تھیں، مگر پیغمبر ﷺ کی توجہات ان سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ اس رنجش و کشیدگی کا تذکرہ حضرت ابوبکر کے کانوں میں بھی برابر پہنچتا رہتا تھا جس سے وہ دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتے تھے مگر ان کے کئے بھی کچھ نہ ہو سکتا تھا سوا اس کے کہ ان کی زبانی ہمدردیاں اپنی بیٹی کے ساتھ ہوتی تھیں۔ یہاں تک کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے دنیا سے رحلت فرمائی اور حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آ گئی۔ اب موقع تھا کہ وہ جس طرح چاہتے انتقام لیتے اور جو تشدد چاہتے روا رکھتے۔ چنانچہ پہلا قدم یہ اٹھایا کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کو محروم الارث قرار دینے کیلئے پیغمبروں کے ورثہ کی نفی کر دی کہ: نہ وہ کسی کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ان کا کوئی وارث ہوتا ہے بلکہ ان کا ترکہ حکومت کی ملکیت ہوتا ہے۔ جس سے سیدہ سلام اللہ علیہا اس حد تک متاثر ہوئیں کہ ان سے ترک کلام کر دیا اور انہی تاثرات کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ حضرت عائشہ نے اس موقع پر بھی اپنی روش نہ بدلی اور یہ تک گوارا نہ کیا کہ ان کے انتقال پر ملال پر افسوس کا اظہار کرتیں۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ:
ثُمَّ مَاتَتْ فَاطِمَةُ فَجَآءَ نِسَآءُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ كُلُّهُنَّ اِلٰى بَنِیْ هَاشِمٍ فِی الْعَزَآءِ اِلَّا عَآئِشَةَ، فَاِنَّهَا لَمْ تَاْتِ وَ اَظْهَرَتْ مَرَضًا وَ نُقِلَ اِلٰى عَلِیٍّ ؑ عَنْهَا كَلَامٌ يَّدُلُّ عَلَى السُّرُوْرِ.
جب حضرت فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا نے رحلت فرمائی تو تمام ازواج پیغمبرؐ بنی ہاشم کے ہاں تعزیت کیلئے پہنچ گئیں سوا عائشہ کے کہ وہ نہ آئیں اور یہ ظاہر کیا کہ وہ مریض ہیں اور حضرت علی علیہ السلام تک ان کی طرف سے ایسے الفاظ پہنچے جن سے ان کی مسرت و شادمانی کا پتہ چلتا تھا۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۵۹)
جب جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے اس حد تک عناد تھا تو جن سے ان کا دامن وابستہ ہو گا وہ کس طرح ان کی دشمنی و عناد سے بچ سکتا تھا، جب کہ ایسے واقعات بھی رونما ہوتے رہے ہوں کہ جو اس مخالفت کو ہوا دیتے اور ان کے جذبہ نفرت کو ابھارتے ہوں۔ جیسے واقعۂ افک کے سلسلہ میں امیر المومنین علیہ السلام کا پیغمبر ﷺ سے یہ کہنا کہ: «اِنْ هِیَ اِلَّا شِسْعُ نَعْلِكَ» [۱]: ’’یہ تو آپؐ کی جوتی کا تسمہ ہے‘‘، اسے چھوڑئیے اور طلاق دے کر الگ کیجئے۔ جب حضرت عائشہ نے یہ سنا ہوگا تو یقیناً بے قرارى کے بستر پر کروٹیں بدلی ہوں گی اور حضرتؑ کے خلاف جذبہ نفرت انتہائی شدت سے ابھرا ہوگا۔
پھر ایسے واقعات بھی پیش آتے رہے کہ ان کے والد حضرت ابوبکر کے مقابلہ میں حضرتؑ کو امتیاز دیا گیا اور ان کے مدارج کو بلند اور نمایاں کر کے دکھایا گیا۔ جیسے: تبلیغ سورۂ برائت کے سلسلہ میں پیغمبر ﷺ کا انہیں معزول کر کے واپس پلٹا لینا اور یہ خدمت حضرت علی علیہ السلام کے سپرد کرنا اور یہ فرمانا کہ: «اَنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اُبَلِّغَهٗۤ اَنَا اَوْ رَجُلٌ مِّنْ اَهْلِ بَيْتِیْ» [۲]: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خود اسے پہنچاؤں یا وہ شخص جو میرے اہلبیتؑ میں سے ہو‘‘۔ اسی طرح مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام دروازے کہ جن میں حضرت ابوبکر کے گھر کا بھی دروازہ تھا چنوا دئیے اور صرف امیرالمومنین علیہ السلام کے گھر کا دروازہ کھلا رہنے دیا۔
حضرت عائشہ اپنے باپ کے مقابلہ میں حضرتؑ کا تفوق گوارا نہ کر سکتی تھیں اور جب کوئی امتیازی صورت پیدا ہوتی تھی تو اسے مٹانے کی کوئی کوشش اٹھا نہ رکھتی تھیں۔ چنانچہ جب پیغمبر ﷺ نے آخر وقت میں حضرت اسامہ کے ہمراہ لشکر روانہ کیا اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کو بھی ان کی زیر امارت جانے کا حکم دیا تو ازواج پیغمبرؐ کے ذریعہ انہیں یہ پیغام ملتا ہے کہ پیغمبر ﷺ کی حالت نازک ہے، لشکر کو آگے بڑھنے کے بجائے پلٹ آنا چاہیے۔ چونکہ ان کی دور رس نظروں نے یہ بھانپ لیا تھا کہ مدینہ کو مہاجرین و انصار سے خالی کرنے کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ رحلت نبیؐ کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام سے کوئی مزاحم نہ ہو اور کسی شورش انگیزی کے بغیر آپؑ منصب خلافت پر فائز ہو جائیں۔ چنانچہ لشکر اسامہ اس پیغام پر پلٹ آیا۔ جب پیغمبر ﷺ نے یہ دیکھا تو اسامہ کو پھر لشکر لے جانے کی تاکید فرمائی اور یہ تک فرمایا کہ: « لَعَنَ اللّٰهُ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْ جَيْشِ اُسَامَةَ» [۳]: ’’جو شخص لشکر اسامہ سے تخلف کرے اس پر خدا کی لعنت ہو‘‘۔ جس پر وہ پھر روانہ ہوئے مگر پھر انہیں واپس بلایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پیغمبر ﷺ کے مرض نے شدت اختیار کر لی اور لشکر کو روانہ نہ ہونا تھا نہ ہوا۔ اس کاروائی کے بعد بلال کے ذریعہ حضرت ابوبکر کو یہ کہلوایا جاتا ہے کہ وہ امامت نماز کے فرائض سر انجام دیں تا کہ ان کی خلافت کیلئے راستہ ہموار ہو جائے۔ چنانچہ اسی کے پیش نظر انہیں ’’خَلِیْفَةُ ’’شقشقہ‘‘ رَسُوْلِ اللّٰہِ عَلَی الصَّلٰوةِ‘‘ کہہ کر خلیفہ علی الاطلاق مان لیا گیا اور پھر ایسا طریقہ اختیار کیا گیا کہ کسی طرح خلافت امیر المومنین علیہ السلام تک نہ پہنچ سکے، لیکن دور ثالث کے بعد حالات نے اس طرح کروٹ لی کہ لوگ آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے مجبور ہو گئے۔ حضرت عائشہ اس موقع پر مکہ میں تشریف فرما تھیں انہیں جب حضرتؑ کی بیعت کا علم ہوا تو ان کی آنکھوں سے شرارے برسنے لگے، غیظ و غضب نے مزاج میں برہمی پیدا کر دی اور نفرت نے ایسی شدت اختیار کر لی کہ جس خون کے بہانے کا فتویٰ دے چکی تھیں اسی کے قصاص کا سہارا لے کر اٹھ کھڑی ہوئیں اور کھلم کھلا اعلان جنگ کر دیا جس کے نتیجہ میں ایسا کشت و خون ہوا کہ بصرہ کی سرزمین کشتوں کے خون سے رنگین ہو گئی اور افتراق انگیزی کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھل گیا۔

[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۲، ص ۴۵۹۔
[۲]۔ شواہد التنزیل، ج ۱، ص ۳۱۱۔
[۳]۔ بحار الانوار، ج ۳۰، ص ۴۳۲۔