حکمت جب تک منافق (کی زبان) سے نکل کر مومن کے سینہ میں پہنچ کر دوسر ی حکمتوں کے ساتھ بہل نہیں جاتی، تڑپتی رہتی ہے۔ حکمت 79
(١٥٤) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۵۴)
خَاطَبَ بِهٖۤ اَهْلَ الْبَصْرَةِ عَلٰی جِهَةِ اقْتِصَاصِ الْمَلَاحِمِ:
اس میں اہل بصرہ کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں فتنوں سے آگاہ کیا ہے:
فَمَنِ اسْتَطَاعَ عِنْدَ ذٰلِكَ اَنْ یَّعْتَقِلَ نَفْسَهٗ عَلَی اللهِ تَعَالٰی. فَلْیَفْعَلْ، فَاِنْ اَطَعْتُمُوْنِیْ فَاِنِّیْ حَامِلُكُمْ اِنْ شَآءَ اللهُ عَلٰی سَبِیْلِ الْجَنَّةِ، وَ اِنْ كَانَ ذَا مَشَقَّةٍ شَدِیْدَةٍ وَّ مَذَاقَةٍ مَّرِیْرَةٍ. وَ اَمَّا فُلَانَةُ فَاَدْرَكَهَا رَاْیُ الْنِّسَآءِ، وَ ضِغْنٌ غَلَا فِیْ صَدْرِهَا كَمِرْجَلِ الْقَیْنِ، وَ لَوْ دُعِیَتْ لِتَنَالَ مِنْ غَیْرِیْ مَاۤ اَتَتْ اِلَیَّ، لَمْ تَفْعَلْ، وَ لَهَا بَعْدُ حُرْمَتُهَا الْاُوْلٰی، وَ الْحِسَابُ عَلَی اللهِ.
جو شخص ان( فتنہ انگیزیوں) کے وقت اپنے نفس کو اللہ کی اطاعت پر ٹھہرائے رکھنے کی طاقت رکھتا ہو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اگر تم میری اطاعت کرو گے تو میں ان شاء اللہ تمہیں جنت کی راہ پر لگا دوں گا۔ اگرچہ وہ راستہ کٹھن دشواریوں اور تلخ مزوں کو لئے ہوئے ہے۔ رہیں فلاں [۱] تو ان میں عورتوں والی کم عقلی آ گئی ہے اور لوہار کے کڑھاؤ کی طرح کینہ و عناد ان کے سینہ میں جوش مار رہا ہے اور جو سلوک مجھ سے کر رہی ہیں اگر میرے سوا کسی دوسرے سے ویسے سلوک کو ان سے کہا جاتا تو وہ نہ کرتیں۔ ان سب چیزوں کے بعد بھی ہمیں ان کی سابقہ حرمت کا لحاظ ہے۔ ان کا حساب و کتاب اللہ کے ذمہ ہے۔
[مِنْهُ]
[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
سَبِیْلٌ اَبْلَجُ الْمِنْهَاجِ، اَنْوَرُ السِّرَاجِ، فَبِالْاِیْمَانِ یُسْتَدَلُّ عَلَی الصّٰلِحٰتِ، وَ بِالصّٰلِحٰتِ یُسْتَدَلُّ عَلَی الْاِیْمَانِ، وَ بِالْاِیْمَانِ یُعْمَرُ الْعِلْمُ، وَ بِالْعِلْمِ یُرْهَبُ الْمَوْتُ، وَ بِالْمَوْتِ تُخْتَمُ الدُّنْیَا، وَ بِالدُّنْیَا تُحْرَزُ الْاٰخِرَةُ، وَ اِنَّ الْخَلْقَ لَا مَقْصَرَ لَهُمْ عَنِ الْقِیٰمَةِ، مُرْقِلِیْنَ فِیْ مِضْمَارِهَاۤ اِلَی الْغَایَةِ الْقُصْوٰی.
(ایمان کی) راہ سب راہوں سے واضح اور سب چراغوں سے زیادہ نورانی ہے، ایمان سے نیکیوں پر استدلال کیا جاتا ہے اور نیکیوں سے ایمان پر دلیل لائی جاتی ہے، ایمان سے علم کی دنیا آباد ہوتی ہے اور علم کی بدولت موت سے ڈرا جاتا ہے اور موت سے دنیا کے سارے جھنجھٹ ختم ہو جاتے ہیں اور دنیا سے آخرت حاصل کی جاتی ہے۔ مخلوقات کیلئے قیامت سے ادھر کوئی منزل نہیں۔ وہ اسی کے میدان میں انتہا کی حد تک پہنچنے کیلئے دوڑ لگانے والی ہے۔
[مِنْهُ]
[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
قَدْ شَخَصُوْا مِنْ مُّسْتَقَرِّ الْاَجْدَاثِ، وَ صَارُوْۤا اِلٰی مَصَآئِرِ الْغَایَاتِ، لِكُلِّ دَارٍ اَهْلُهَا، لَا یَسْتَبْدِلُوْنَ بِهَا وَ لَا یُنْقَلُوْنَ عَنْهَا. وَ اِنَّ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّهْیَ عَنِ الْمُنْكَرِ لَخُلُقَانِ مِنْ خُلُقِ اللهِ سُبْحَانَهٗ، وَاِنَّهُمَا لَا یُقَرِّبَانِ مِنْ اَجَلٍ وَّ لَا یَنْقُصَانِ مِنْ رِّزْقٍ.
وہ اپنی قبروں کے ٹھکانوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی آخرت کے ٹھکانوں کی طرف پلٹ پڑے۔ ہر گھر کیلئے اس کے اہل ہیں کہ نہ وہ اسے تبدیل کر سکیں گے اور نہ اس سے منتقل ہو سکیں گے۔ نیکیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا ایسے دو کام ہیں جو اخلاق خداوندی میں سے ہیں۔ نہ ان کی وجہ سے موت قبل از وقت آ سکتی ہے اور نہ جو رزق مقرر ہے اس میں کوئی کمی ہوسکتی ہے۔
وَ عَلَیْكُمْ بِكِتَابِ اللهِ، فَاِنَّهُ الْحَبْلُ الْمَتِیْنُ، وَ النُّوْرُ الْمُبِیْنُ، وَ الشِّفَآءُ النَّافِعُ، وَ الرِّیُّ النَّاقِعُ، وَ الْعِصْمَةُ لِلْمُتَمَسِّكِ، وَ النَّجَاةُ لِلْمُتَعَلِّقِ، لَا یَعْوَجُّ فَیُقَامَ، وَ لَا یَزِیْغُ فَیُسْتَعْتَبَ، وَ لَا تُخْلِقُهٗ كَثْرَةُ الرَّدِّ، وَ وُلُوْجُ السَّمْعِ، مَنْ قَالَ بِهٖ صَدَقَ، وَ مَنْ عَمِلَ بِهٖ سَبَقَ.
تمہیں کتاب خدا پر عمل کرنا چاہیے۔ اس لئے کہ وہ ایک مضبوط رسی، روشن و واضح نور، نفع بخش شفا، پیاس بجھانے والی سیرابی، تمسک کرنے والے کیلئے سامان حفاظت اور وابستہ رہنے والے کیلئے نجات ہے۔ اس میں کجی نہیں آتی کہ اسے سیدھا کیا جائے، نہ حق سے الگ ہوتی ہے کہ اس کا رخ موڑا جائے۔ کثرت سے دہرایا جانا اور (بار بار) کانوں میں پڑنا اسے پرانا نہیں کرتا۔ جو اس کے مطابق کہے وہ سچا ہے اور جو اس پر عمل کرے وہ سبقت لیجانے والا ہے۔
وَ قَامَ اِلَیْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: اَخْبِرْنَا عَنِ الْفِتْنَةِ، و هَلْ سَئَلْتَ رَسُوْلَ اللهِ -ﷺ عَنْهَا؟ فَقَالَ ؑ:
(اسی اثنا میں) ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ: ہمیں فتنہ کے بارے میں کچھ بتائیے اور کیا آپؑ نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تھا؟ آپؑ نے فرمایا کہ:
لَمَّاۤ اَنْزَلَ اللهُ سُبْحَانَهٗ قَوْلَهٗ: ﴿الٓمّٓۚ اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ﴾ عَلِمْتُ اَنَّ الْفِتْنَةَ لَا تَنْزِلُ بِنَا وَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بَیْنَ اَظْهُرِنَا، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! مَا هٰذِهِ الْفِتْنَةُ الَّتِیْۤ اَخْبَرَكَ اللهُ تَعَالٰی بِهَا؟ فَقَالَ: «یَا عَلِیُّ! اِنَّ اُمَّتِیْ سَیُفْتَنُوْنَ مِنْۢ بَعْدِیْ». فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! اَوَ لَیْسَ قَدْ قُلْتَ لِیْ یَوْمَ اُحُدٍ حَیْثُ اسْتُشْهِدَ مَنِ اسْتُشْهِدَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، وَ حِیْزَتْ عَنِّی الشَّهَادَةُ، فَشَقَّ ذٰلِكَ عَلَیَّ، فَقُلْتَ لِیْ: «اَبْشِرْ، فَاِنَّ الشَّهَادَةَ مِنْ وَّرَآئِكَ»؟ فَقَالَ لِیْ: «اِنَّ ذٰلِكَ لَكَذٰلِكَ، فَكَیْفَ صَبْرُكَ اِذَنْ»؟ فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! لَیسَ هٰذَا مِنْ مَّوَاطِنِ الصَّبْرِ، وَ لٰكِنْ مِّنْ مَّوَاطِنِ الْبُشْرٰی وَ الشُّكُرِ، وَ قَالَ: «یَا عَلِیُّ! اِنَّ الْقَوْمَ سَیُفْتَنُوْنَ بِاَمْوَالِهمْ، وَ یَمُنُّوْنَ بِدِیْنِهِمْ عَلٰی رَبِّهِمْ، وَ یَتَمَنَّوْنَ رَحْمَتَهٗ، وَ یَاْمَنُوْنَ سَطْوَتَهٗ، وَ یَسْتَحِلُّوْنَ حَرَامَهٗ بِالشُّبُهَاتِ الْكَاذِبَةِ، وَ الْاَهْوَآءِ السَّاهِیَةِ، فَیَسْتَحِلُّوْنَ الْخَمْرَ بِالنَّبِیْذِ، وَ السُّحْتَ بِالْهَدِیَّةِ، وَ الرِّبَا بِالْبَیْعِ». قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! فَبِاَیِّ الْمَنَازِلِ اُنْزِلُهُمْ عِنْدَ ذٰلِكَ؟ اَبِمَنْزِلَةِ رِدَّةٍ، اَمْ بِمَنْزِلَةِ فِتْنَةٍ؟ فَقَالَ: «بِمَنْزِلَةِ فِتْنَةٍ».
ہاں! جب اللہ نے یہ آیت اتاری کہ: ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کے اتنا کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لائے ہیں انہیں چھوڑ دیا جائے گا اور وہ فتنوں سے دوچار نہیں ہوں گے‘‘، تو میں سمجھ گیا کہ فتنہ ہم پر تو نہیں آئے گا جبکہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان موجود ہیں، چنانچہ میں نے کہا: یا رسول اللہؐ! یہ فتنہ کیا ہے کہ جس کی اللہ نے آپؐ کو خبر دی ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ: «اے علیؑ! میرے بعد میری اُمت جلد ہی فتنوں میں پڑ جائے گی» تو میں نے کہا کہ: یا رسول اللہؐ! اُحد کے دن جب شہید ہونے والے مسلمان شہید ہوچکے تھے اور شہادت مجھ سے روک لی گئی اور یہ مجھ پر گراں گزرا تھا تو آپؐ نے مجھ سے نہیں فرمایا تھا کہ: «تمہیں بشارت ہو! کہ شہادت تمہیں پیش آنے والی ہے» اور یہ بھی فرمایا تھا کہ: «یہ یونہی ہو کر رہے گا۔ (یہ کہو) کہ اس وقت تمہارے صبر کی کیا حالت ہو گی» تو میں نے کہا تھا کہ: یا رسول اللہؐ! یہ صبر کا کوئی موقع نہیں ہے۔ یہ تو (میرے لئے) مژدہ اور شکر کا مقام ہو گا،۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ: «یا علیؑ! حقیقت یہ ہے کہ لوگ میرے بعد مال و دولت کی وجہ سے فتنوں میں پڑ جائیں گے اور دین اختیار کر لینے سے اللہ پر احسان جتائیں گے۔ اس کی رحمت کی آرزوئیں تو کریں گے لیکن اس کے قہر و غلبہ (کی گرفت) سے بے خوف ہو جائیں گے کہ جھوٹ موٹ کے شبہوں اور غافل کر دینے والی خواہشوں کی وجہ سے حلال کو حرام کر لیں گے، شراب کو انگور و خرما کا پانی کہہ کر اور رشوت کا نام ہدیہ رکھ کر اور سود کو خرید و فروخت قرار دے کر جائز سمجھ لیں گے»۔ (پھر) میں نے کہا کہ: یا رسول اللہؐ! میں انہیں اس موقع پر کس مرتبہ پر سمجھوں؟ اس مرتبہ پر کہ وہ مرتد ہو گئے ہیں؟ یا اس مرتبہ پر کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ: «فتنہ کے مرتبہ پر»۔
۱اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت عائشہ کا رویہ امیر المومنین علیہ السلام سے ہمیشہ معاندانہ رہا اور اکثر ان کے دل کی کدورت ان کے چہرے پر کھل جاتی اور طرز عمل سے نفرت و بیزاری جھلک اٹھتی تھی۔ یہاں تک کہ اگر کسی واقعہ کے سلسلہ میں حضرتؑ کا نام آ جاتا تو ان کی پیشانی پر بل پڑ جاتا تھا اور اس کا زبان پر لانا بھی گوارا نہ کرتی تھیں۔ چنانچہ عبید اللہ ابن عبد اللہ نے حضرت عائشہ کی اس روایت کا کہ: ’’پیغمبر ﷺ حالت مرض میں فضل ابن عباس اور ایک دوسرے شخص کا سہارا لے کر ان کے ہاں چلے آئے‘‘، حضرت عبد اللہ ابن عباس سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا:
هَلْ تَدْرِیْ مَنِ الرَّجُلُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ ؑ وَ لٰکِنَّھَا کَانَتْ لَا تَقْدِرُ عَلٰی اَنْ تَذْکُرَہٗ بِخَیْرٍ.
کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ دوسرا شخص کون تھا؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ کہا کہ: وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھے مگر حضرت عائشہ کے بس کی یہ بات نہ تھی کہ وہ علی علیہ السلام کا کسی اچھائی کے ساتھ ذکر کرتیں۔(تاریخ طبری، ج۲، ص۴۳۳)
اس نفرت و عناد کا ایک سبب حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کا وجود تھا کہ جن کی ہمہ گیر عظمت و توقیر ان کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی اور سوتاپے کی جلن یہ گوارا نہ کر سکتی تھی کہ پیغمبر ﷺ سوت کی دختر کو اس طرح چاہیں کہ اسے دیکھتے ہی تعظیم کیلئے کھڑے ہو جائیں اور اپنی مسند پر جگہ دیں اور ’’سیدة نساء العالمین‘‘ کہہ کر دنیا جہاں کی عورتوں پر اس کی فوقیت ظاہر کریں اور اس کی اولاد کو اس حد تک دوست رکھیں کہ انہیں اپنا فرزند کہہ کر پکاریں۔ یہ تمام چیزیں ان پر شاق گزرنے والی تھیں اور فطری طور پر ان کے جذبات اس موقع پر یہی ہوں گے کہ اگر خود ان کے بطن سے اولاد ہوتی تو وہ پیغمبر ﷺ کے بیٹے کہلاتے اور بجائے حسنؑ و حسینؑ کے وہ ان کی محبت کا مرکز بنتے، مگر ان کی گود اولاد سے ہمیشہ خالی ہی رہی اور ماں بننے کی آرزو کو اپنے بھانجے کے نام پر اپنی کنیت اُمّ عبد اللہ رکھ کر پورا کر لیا۔
غرض یہ سب چیزیں ایسی تھیں جنہوں نے ان کے دل میں نفرت کا جذبہ پیدا کر دیا جس کے تقاضے سے مجبور ہو کر جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے خلاف شکوہ و شکایت کرتی رہتی تھیں، مگر پیغمبر ﷺ کی توجہات ان سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ اس رنجش و کشیدگی کا تذکرہ حضرت ابوبکر کے کانوں میں بھی برابر پہنچتا رہتا تھا جس سے وہ دل ہی دل میں پیچ و تاب کھاتے تھے مگر ان کے کئے بھی کچھ نہ ہو سکتا تھا سوا اس کے کہ ان کی زبانی ہمدردیاں اپنی بیٹی کے ساتھ ہوتی تھیں۔ یہاں تک کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے دنیا سے رحلت فرمائی اور حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آ گئی۔ اب موقع تھا کہ وہ جس طرح چاہتے انتقام لیتے اور جو تشدد چاہتے روا رکھتے۔ چنانچہ پہلا قدم یہ اٹھایا کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کو محروم الارث قرار دینے کیلئے پیغمبروں کے ورثہ کی نفی کر دی کہ: نہ وہ کسی کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ان کا کوئی وارث ہوتا ہے بلکہ ان کا ترکہ حکومت کی ملکیت ہوتا ہے۔ جس سے سیدہ سلام اللہ علیہا اس حد تک متاثر ہوئیں کہ ان سے ترک کلام کر دیا اور انہی تاثرات کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ حضرت عائشہ نے اس موقع پر بھی اپنی روش نہ بدلی اور یہ تک گوارا نہ کیا کہ ان کے انتقال پر ملال پر افسوس کا اظہار کرتیں۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ:
ثُمَّ مَاتَتْ فَاطِمَةُ فَجَآءَ نِسَآءُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ كُلُّهُنَّ اِلٰى بَنِیْ هَاشِمٍ فِی الْعَزَآءِ اِلَّا عَآئِشَةَ، فَاِنَّهَا لَمْ تَاْتِ وَ اَظْهَرَتْ مَرَضًا وَ نُقِلَ اِلٰى عَلِیٍّ ؑ عَنْهَا كَلَامٌ يَّدُلُّ عَلَى السُّرُوْرِ.
جب حضرت فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا نے رحلت فرمائی تو تمام ازواج پیغمبرؐ بنی ہاشم کے ہاں تعزیت کیلئے پہنچ گئیں سوا عائشہ کے کہ وہ نہ آئیں اور یہ ظاہر کیا کہ وہ مریض ہیں اور حضرت علی علیہ السلام تک ان کی طرف سے ایسے الفاظ پہنچے جن سے ان کی مسرت و شادمانی کا پتہ چلتا تھا۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۵۹)
جب جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے اس حد تک عناد تھا تو جن سے ان کا دامن وابستہ ہو گا وہ کس طرح ان کی دشمنی و عناد سے بچ سکتا تھا، جب کہ ایسے واقعات بھی رونما ہوتے رہے ہوں کہ جو اس مخالفت کو ہوا دیتے اور ان کے جذبہ نفرت کو ابھارتے ہوں۔ جیسے واقعۂ افک کے سلسلہ میں امیر المومنین علیہ السلام کا پیغمبر ﷺ سے یہ کہنا کہ: «اِنْ هِیَ اِلَّا شِسْعُ نَعْلِكَ» [۱]: ’’یہ تو آپؐ کی جوتی کا تسمہ ہے‘‘، اسے چھوڑئیے اور طلاق دے کر الگ کیجئے۔ جب حضرت عائشہ نے یہ سنا ہوگا تو یقیناً بے قرارى کے بستر پر کروٹیں بدلی ہوں گی اور حضرتؑ کے خلاف جذبہ نفرت انتہائی شدت سے ابھرا ہوگا۔
پھر ایسے واقعات بھی پیش آتے رہے کہ ان کے والد حضرت ابوبکر کے مقابلہ میں حضرتؑ کو امتیاز دیا گیا اور ان کے مدارج کو بلند اور نمایاں کر کے دکھایا گیا۔ جیسے: تبلیغ سورۂ برائت کے سلسلہ میں پیغمبر ﷺ کا انہیں معزول کر کے واپس پلٹا لینا اور یہ خدمت حضرت علی علیہ السلام کے سپرد کرنا اور یہ فرمانا کہ: «اَنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اُبَلِّغَهٗۤ اَنَا اَوْ رَجُلٌ مِّنْ اَهْلِ بَيْتِیْ» [۲]: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خود اسے پہنچاؤں یا وہ شخص جو میرے اہلبیتؑ میں سے ہو‘‘۔ اسی طرح مسجد نبوی میں کھلنے والے تمام دروازے کہ جن میں حضرت ابوبکر کے گھر کا بھی دروازہ تھا چنوا دئیے اور صرف امیرالمومنین علیہ السلام کے گھر کا دروازہ کھلا رہنے دیا۔
حضرت عائشہ اپنے باپ کے مقابلہ میں حضرتؑ کا تفوق گوارا نہ کر سکتی تھیں اور جب کوئی امتیازی صورت پیدا ہوتی تھی تو اسے مٹانے کی کوئی کوشش اٹھا نہ رکھتی تھیں۔ چنانچہ جب پیغمبر ﷺ نے آخر وقت میں حضرت اسامہ کے ہمراہ لشکر روانہ کیا اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کو بھی ان کی زیر امارت جانے کا حکم دیا تو ازواج پیغمبرؐ کے ذریعہ انہیں یہ پیغام ملتا ہے کہ پیغمبر ﷺ کی حالت نازک ہے، لشکر کو آگے بڑھنے کے بجائے پلٹ آنا چاہیے۔ چونکہ ان کی دور رس نظروں نے یہ بھانپ لیا تھا کہ مدینہ کو مہاجرین و انصار سے خالی کرنے کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ رحلت نبیؐ کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام سے کوئی مزاحم نہ ہو اور کسی شورش انگیزی کے بغیر آپؑ منصب خلافت پر فائز ہو جائیں۔ چنانچہ لشکر اسامہ اس پیغام پر پلٹ آیا۔ جب پیغمبر ﷺ نے یہ دیکھا تو اسامہ کو پھر لشکر لے جانے کی تاکید فرمائی اور یہ تک فرمایا کہ: « لَعَنَ اللّٰهُ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْ جَيْشِ اُسَامَةَ» [۳]: ’’جو شخص لشکر اسامہ سے تخلف کرے اس پر خدا کی لعنت ہو‘‘۔ جس پر وہ پھر روانہ ہوئے مگر پھر انہیں واپس بلایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ پیغمبر ﷺ کے مرض نے شدت اختیار کر لی اور لشکر کو روانہ نہ ہونا تھا نہ ہوا۔ اس کاروائی کے بعد بلال کے ذریعہ حضرت ابوبکر کو یہ کہلوایا جاتا ہے کہ وہ امامت نماز کے فرائض سر انجام دیں تا کہ ان کی خلافت کیلئے راستہ ہموار ہو جائے۔ چنانچہ اسی کے پیش نظر انہیں ’’خَلِیْفَةُ ’’شقشقہ‘‘ رَسُوْلِ اللّٰہِ عَلَی الصَّلٰوةِ‘‘ کہہ کر خلیفہ علی الاطلاق مان لیا گیا اور پھر ایسا طریقہ اختیار کیا گیا کہ کسی طرح خلافت امیر المومنین علیہ السلام تک نہ پہنچ سکے، لیکن دور ثالث کے بعد حالات نے اس طرح کروٹ لی کہ لوگ آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے مجبور ہو گئے۔ حضرت عائشہ اس موقع پر مکہ میں تشریف فرما تھیں انہیں جب حضرتؑ کی بیعت کا علم ہوا تو ان کی آنکھوں سے شرارے برسنے لگے، غیظ و غضب نے مزاج میں برہمی پیدا کر دی اور نفرت نے ایسی شدت اختیار کر لی کہ جس خون کے بہانے کا فتویٰ دے چکی تھیں اسی کے قصاص کا سہارا لے کر اٹھ کھڑی ہوئیں اور کھلم کھلا اعلان جنگ کر دیا جس کے نتیجہ میں ایسا کشت و خون ہوا کہ بصرہ کی سرزمین کشتوں کے خون سے رنگین ہو گئی اور افتراق انگیزی کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھل گیا۔↑
[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۲، ص ۴۵۹۔
[۲]۔ شواہد التنزیل، ج ۱، ص ۳۱۱۔
[۳]۔ بحار الانوار، ج ۳۰، ص ۴۳۲۔