تسلیم و رضا بہترین مصاحب، اور علم شریف ترین میراث ہے حکمت 4
(٨) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۸)
يَعْنِیْ بِهِ الزُّبَيْرَ فِیْ حَالٍ اقْتَضَتْ ذٰلِكَ:
یہ کلام زبیر [۱] کے متعلق اس وقت فرمایا جبکہ حالات اسی قسم کے بیان کے مقتضی تھے:
یَزْعُمُ اَنَّهٗ قَدْ بَایَعَ بِیَدِهٖ، وَ لَمْ یُبَایِـعْ بِقَلْبِهٖ، فَقَدْ اَقَرَّ بِالْبَیْعَةِ، وَ ادَّعَى الْوَلِیْجَةَ، فَلْیَاْتِ عَلَیْهَا بِاَمْرٍ یُّعْرَفُ، وَ اِلَّا فَلْیَدْخُلْ فِیْمَا خَرَجَ مِنْهُ.
وہ ایسا ظاہر کرتا ہے کہ اس نے بیعت ہاتھ سے کر لی تھی مگر دل سے نہیں کی تھی۔ بہر صورت اس نے بیعت کا تو اقرار کر لیا، لیکن اس کا یہ اِدّعا کہ اس کے دل میں کھوٹ تھا تو اسے چاہیے کہ اس دعویٰ کیلئے کوئی دلیل واضح پیش کرے، ورنہ جس بیعت سے منحرف ہوا ہے اس میں واپس آئے۔
۱جب زبیر ابن عوام نے امیر المومنین علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد بیعت شکنی کی تو وہ اس کیلئے کبھی یہ عذر کرتے تھے کہ مجھے بیعت کیلئے مجبور کیا گیا تھا اور مجبوری کی بیعت کوئی بیعت نہیں ہوا کرتی اور کبھی یہ فرماتے تھے کہ یہ تو صرف دکھاوے کی بیعت تھی، میرا دل اس سے ہمنوانہ تھا۔ گویا کہ وہ خود ہی اپنی زبان سے اپنے ظاہر و باطن کے مختلف ہونے کا اعتراف کر لیا کرتے تھے، لیکن یہ عذر ایسا ہی ہے جیسے کوئی اسلام لانے کے بعد منحرف ہو جائے اور سزا سے بچنے کیلئے یہ کہہ دے کہ میں نے صرف زبان سے اسلام قبول کیا تھا، دل سے نہیں مانا تھا، تو ظاہر ہے کہ یہ عذر مسموع نہیں ہو سکتا اور نہ اس ادّعا کی بنا پر وہ سزا سے بچ سکتا ہے۔ اگر انہیں یہ شبہ تھا کہ حضرتؑ کے اشارے پر عثمان کا خون بہایا گیا ہے تو یہ شبہ اس وقت بھی دامن گیر ہونا چاہیے تھا کہ جب اطاعت کیلئے حلف اٹھایا جا رہا تھا اور بیعت کیلئے ہاتھ بڑھ رہا تھا یا یہ کہ اب توقعات ناکام ہوتے ہوئے نظر آئے اور کہیں اور سے امید کی جھلکیاں دکھائی دینے لگی تھیں۔
حضرتؑ نے مختصر سے لفظوں میں ان کے دعویٰ کو یوں باطل کیا ہے کہ جب وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہاتھ سے بیعت کی تھی تو پھر جب تک بیعت کے توڑنے کا جواز پیدا نہیں ہوتا، انہیں بیعت پر برقرار رہنا چاہئے اور اگر بقول ان کے کہ دل اس سے ہم آہنگ نہ تھا تو اس کیلئے انہیں کوئی واضح ثبوت پیش کرنا چاہیے، لیکن دلی کیفیات پر تو کوئی دلیل لائی نہیں جا سکتی تو وہ اس کیلئے دلیل کہاں سے لائیں گے اور دعویٰ بے دلیل قبول خرد نہیں۔↑
٭٭٭٭٭