صلح و صفائی عیبوں کو ڈھانپنے کا ذریعہ ہے۔ حکمت 5
(١٧١) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۷۱)
اَمِیْنُ وَحْیِهٖ، وَ خَاتَمُ رُسُلِهٖ، وَ بَشِیْرُ رَحْمَتِهٖ، وَ نَذِیْرُ نِقْمَتِهٖ.
وہ اللہ کی وحی کے امانتدار، اس کے رسولوں کی آخری فرد، اس کی رحمت کا مژدہ سنا نے والے اور اس کے عذاب سے ڈرانے والے تھے۔
اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ اَحَقَّ النَّاسِ بِهٰذَا الْاَمْرِ اَقْوَاهُمْ عَلَیْهِ، وَ اَعْلَمُهُمْ بِاَمْرِ اللهِ فِیْهِ، فَاِنْ شَغَبَ شَاغِبٌ اسْتُعْتِبَ، فَاِنْ اَبٰی قُوْتِلَ.
اے لوگو! تمام لوگوں میں اس خلافت کا اہل وہ ہے جو اس (کے نظم و نسق کے برقرار رکھنے) کی سب سے زیادہ قوت (و صلاحیت) رکھتا ہو اور اس کے بارے میں اللہ کے احکام کو سب سے زائد جانتا ہو۔ اس صورت میں اگر کوئی فتنہ پرداز فتنہ کھڑا کرے تو (پہلے) اسے توبہ و بازگشت کیلئے کہا جائے گا۔ اگر وہ انکار کرے تو اس سے جنگ و جدال کیا جائے گا۔
وَ لَعَمْرِیْ! لَئِنْ كَانَتِ الْاِمَامَةُ لَا تَنْعَقِدُ حَتّٰی یَحْضُرَهَا عَامَّةُ النَّاسِ، فَمَاۤ اِلٰی ذٰلِكَ سَبِیْلٌ، وَ لٰكِنْ اَهْلُهَا یَحْكُمُوْنَ عَلٰی مَنْ غَابَ عَنْهَا، ثُمَّ لَیْسَ لِلشَّاهِدِ اَنْ یَّرْجِـعَ، وَ لَا لِلْغَآئِبِ اَنْ یَّخْتَارَ.
اپنی جان کی قسم! [۱] اگر خلافت کا انعقاد تمام افراد اُمت کے ایک جگہ اکٹھا ہونے سے ہو تو اس کی کوئی سبیل ہی نہیں، بلکہ (اس کی صورت تو انہوں نے یہ رکھی تھی کہ) اس کے کرتا دھرتا لوگ اپنے فیصلہ کا ان لوگوں کو بھی پابند بنائیں گے جو (بیعت کے وقت) موجود نہ ہوں گے، پھر موجود کو یہ اختیار نہ ہو گا کہ وہ (بیعت سے) انحراف کرے اور نہ غیر موجود کو یہ حق ہو گا کہ وہ کسی اور کو منتخب کرے۔
اَلَا وَ اِنِّیْۤ اُقَاتِلُ رَجُلَیْنِ: رَجُلًا ادَّعٰی مَا لَیْسَ لَهٗ، وَ اٰخَرَ مَنَعَ الَّذِیْ عَلَیْهِ.
دیکھو! میں دو شخصوں سے ضرور جنگ کروں گا: ایک وہ جو ایسی چیز کا دعویٰ کرے جو اس کی نہ ہو اور دوسرا وہ جو اپنے معاہدہ کا پابند نہ رہے۔
اُوْصِیْكُمْ عِبَادَ اللّٰہِ بِتَقْوَی اللهِ، فَاِنَّهَا خَیْرُ مَا تَوَاصَی الْعِبَادُ بِهٖ، وَ خَیْرُ عَوَاقِبِ الْاُمُوْرِ عِنْدَ اللهِ، وَ قَدْ فُتِحَ بَابُ الْحَرْبِ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَ اَهْلِ الْقِبْلَةِ، وَ لَا یَحْمِلُ هٰذَا الْعَلَمَ اِلَّاۤ اَهْلُ الْبَصَرِ وَ الصَّبْرِ وَ الْعِلْمِ بِمَوَاضِعِ الْحَقِّ، فَامْضُوْا لِمَا تُؤْمَرُوْنَ بِهٖ، وَ قِفُوْا عِنْدَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ، وَ لَا تَعْجَلُوْا فِیْۤ اَمْرٍ حَتّٰی تَتَبَیَّنُوْا، فَاِنَّ لَنَا مَعَ كُلِّ اَمْرٍ تُنْكِرُوْنَهٗ غِیَرًا.
اے اللہ کے بندو! میں تمہیں تقویٰ و پرہیز گاری کی ہدایت کرتا ہوں۔ کیونکہ بندے جن چیزوں کی ایک دوسرے کو ہدایت کرتے ہیں ان میں تقویٰ سب سے بہتر اور اللہ کے نزدیک تمام چیزوں کے نتائج سے بہتر و برتر ہے۔ تمہارے اور دوسرے اہل قبلہ کے درمیان جنگ کا دروازہ کھل گیا ہے اور اس (جنگ) کے جھنڈے کو وہی اٹھائے گاجو نظر رکھنے والا، (مصیبتوں پر) صبر کرنے والا اور حق کے مقامات کو پہچاننے والا ہو۔ تمہیں جو حکم دیا جائے اس پر عمل کرو اور جس چیز سے روکا جائے اس سے باز رہو اور کسی بات میں جلدی نہ کرو جب تک اسے خوب سوچ سمجھ نہ لو۔ ہمیں ان امور میں کہ جن پر تم ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہو، غیر معمولی انقلابات کا اندیشہ رہتا ہے۔
اَلَا وَ اِنَّ هٰذِهِ الدُّنْیَا الَّتِیْۤ اَصْبَحْتُمْ تَتَمَنَّوْنَهَا وَ تَرْغَبُوْنَ فِیْهَا، وَ اَصْبَحَتْ تُغْضِبُكُمْ وَ تُرْضِیْكُمْ، لَیْسَتْ بِدَارِكُمْ، وَ لَا مَنْزِلِكُمُ الَّذِیْ خُلِقْتُمْ لَهٗ وَ لَا الَّذِیْ دُعِیْتُمْ اِلَیْهِ،
دیکھو! یہ دنیا جس کی تم تمنا کرتے ہو اور جس کی جانب خواہش و رغبت سے بڑھتے ہو، جو کبھی تم کو غصہ دلاتی ہے اور کبھی تمہیں خوش کر دیتی ہے، تمہارا (اصلی) گھر نہیں ہے اور نہ وہ منزل ہے جس کیلئے تم پیدا کئے گئے ہو اور نہ وہ جگہ ہے جس کی طرف تمہیں دعوت دی گئی ہے۔
اَلَا وَ اِنَّهَا لَیْسَتْ بِبَاقِیَةٍ لَّكُمْ وَ لَا تَبْقَوْنَ عَلَیْهَا، وَ هِیَ وَ اِنْ غَرَّتْكُمْ مِنْهَا فَقَدْ حَذَّرَتْكُمْ شَرَّهَا، فَدَعُوْا غُرُوْرَهَا لِتَحْذِیْرِهَا، وَ اِطْمَاعَهَا لِتَخْوِیْفِهَا، وَ سَابِقُوْا فِیْهَاۤ اِلَی الدَّارِ الَّتِیْ دُعِیْتُمْ اِلَیْهَا، وَ انْصَرِفُوْا بِقُلُوْبِكُمْ عَنْهَا.
دیکھو! یہ تمہارے لئے باقی رہنے والی نہیں اور نہ تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو۔ اگر اس نے تمہیں (اپنی آرائشوں سے) فریب دیا ہے تو اپنی بُرائیوں سے خوف بھی دلایا ہے۔ لہٰذا تم اس کے ڈرانے سے متاثر ہو کر اس سے فریب نہ کھاؤ اور اس کے خوفزدہ کرنے کی بنا پر اس کے طمع دلانے میں نہ آؤ۔ اس گھر کی طرف بڑھو جس کی تمہیں دعوت دی گئی ہے اور اس دنیا سے اپنے دلوں کو موڑ لو۔
وَ لَا یَخِنَّنَّ اَحَدُكُمْ خَنِیْنَ الْاَمَةِ عَلٰی مَا زُوِیَ عَنْهُ مِنْهَا، وَ اسْتَتِمُّوْا نِعْمَةَ اللهِ عَلَیْكُمْ بِالصَّبْرِ عَلَی طَاعَةِ اللهِ وَالْمُحَافَظَةِ عَلَی مَا اسْتَحْفَظَكُمْ مِنْ كِتَابِهِ.
تم میں سے کوئی شخص دنیا کی کسی چیز کے روک لئے جانے پر لونڈیوں کی طرح رونے نہ بیٹھ جائے۔ا طاعت خدا پر صبر کر کے اور جن چیزوں کی اس نے اپنی کتاب میں تم سے حفاظت چاہی ہے ان کی حفاظت کر کے اس سے نعمتوں کی تکمیل چاہو۔
اَلَا وَ اِنَّهٗ لَا یَضُرُّكُمْ تَضْیِیْعُ شَیْءٍ مِّنْ دُنْیَاكُمْ بَعْدَ حِفْظِكُمْ قَآئِمَةَ دِینِكُمْ، اَلَا وَ اِنَّهٗ لَا یَنْفَعُكُمْ بَعْدَ تَضْیِیْعِ دِیْنِكُمْ شَیْءٌ حَافَظْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَمْرِ دُنْیَاكُمْ.
دیکھو! اگر تم نے دین کے اصول محفوظ رکھے تو پھر دنیا کی کسی چیز کو کھو دینا تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا اور دین کو ضائع و برباد کرنے کے بعد تمہیں دنیا کی کوئی ایسی چیز نفع نہ پہنچائے گی جسے تم نے محفوظ کر لیا ہو۔
اَخَذَ اللهُ بِقُلُوْبِنَا وَقُلُوْبِكُمْ اِلَی الْحَقِّ، وَاَلْهَمَنَا وَاِیَّاكُمُ الصَّبْرَ!.
خداوند عالم ہمارے اور تمہارے دلوں کو حق کی طرف متوجہ کرے اور ہمیں اور تمہیں صبر کی توفیق عطا فرمائے۔
۱جب ’’سقیفہ نبی ساعدہ‘‘ میں انتخاب کے سلسلہ میں اجتماع ہوا تو وہاں کے فیصلہ کا ان لوگوں کو بھی پابند بنایا گیا جو اس موقع پر موجود نہ تھے اور یہ اصول قرار دے دیا گیا کہ جو انتخاب کے موقع پر موجود ہوا سے نظر ثانی اور بیعت سے انحراف کا کوئی حق نہ ہوگا اور جو موجود نہ ہو وہ طے شدہ فیصلہ کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوگا۔ لیکن جب امیر المومنین علیہ السلام کے ہاتھ پر اہل مدینہ نے بیعت کی تو امیر شام نے اس بنیاد پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ چونکہ انتخاب کے موقع پر موجود نہ تھا لہٰذا اس پر اس فیصلہ کی پابندی عائد نہیں ہوتی، جس پر امیر المومنین علیہ السلام نے ان مسلمات اور مقررہ اصول و شرائط کے مطابق اس خطبہ میں جواب دیا کہ جو ان لوگوں میں طے پا کر ناقابل انکار بن چکے تھے اور وہ یہ کہ جب اہل مدینہ اور انصار و مہاجرین میرے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں تو معاویہ کو اس بنا پر کہ وہ اس موقع پر موجود نہ تھا، بیعت سے انحراف کا حق نہیں پہنچتا اور نہ طلحہ و زبیر بیعت کرنے کے بعد عہد شکنی کے مجاز ہو سکتے ہیں۔
حضرتؑ نے اس موقع پر پیغمبر ﷺ کے کسی ارشاد کو کہ جو آپؑ کی خلافت پر نص قطعی کی حیثیت رکھتا ہو استدلال میں پیش نہیں فرمایا۔ اس لئے کہ انکار کی وجہ اصول انتخاب کے طریق کار کی بنا پر تھی، لہٰذا موقع و محل کے لحاظ سے انہی کے مسلمات کی رُو سے جواب دینا ہی فریق مخالف کیلئے مسکت ہو سکتا تھا اور اگر نص رسولؐ سے استدلال فرماتے تو اسے مختلف تاویلوں کی زد پر رکھ لیا جاتا اور بات سمٹنے کے بجائے بڑھتی ہی جاتی اور پھر رحلت پیغمبرؐ کے فوراً بعد آپؑ دیکھ چکے تھے کہ باوجود قرب عہد کے تمام نصوص و ارشادات نظر انداز کر دیئے گئے، تو اب جبکہ ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے اس سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اسے تسلیم کرے گا، جبکہ قولِ رسولؐ کے سامنے من مانی کرنے کی عادت پڑ چکی تھی۔↑