صبر و شکیبائی شجاعت ہے، اور دنیا سے بے تعلقی بڑی دولت ہے۔ حکمت 3
(١٨٩) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۸۹)
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْفَاشِیْ حَمْدُهٗ، وَ الْغَالِبِ جُنْدُهٗ، وَ الْمُتَعَالِیْ جَدُّهٗ. اَحْمَدُهٗ عَلٰی نِعَمِهِ التُّؤَامِ، وَ اٰلَآئِهِ الْعِظَامِ. الَّذِیْ عَظُمَ حِلْمُهٗ فَعَفَا، وَ عَدَلَ فِیْ كُلِّ مَا قَضٰی، وَ عَلِمَ مَا یَمْضِیْ وَ مَا مَضٰی، مُبْتَدِعِ الْخَلَآئِقِ بِعِلْمِهٖ، وَ مُنْشِئِهِمْ بِحُكْمِهٖ بِلَا اقْتِدَآءٍ وَّ لَا تَعْلِیْمٍ، وَ لَا احْتِذَآءٍ لِّـمِثَالِ صَانِعٍ حَكِیْمٍ، وَ لَاۤ اِصَابَةِ خَطَاٍ، وَ لَا حَضْرَةِ مَلَاٍ.
تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جس کی حمد ہمہ گیر ہے، جس کا لشکر غالب اور عظمت و شان بلند ہے۔ میں اس کی پے درپے نعمتوں اور بلند پایہ عطیوں پر اس کی حمد و ثنا کرتا ہوں۔ اس کے حلم کا درجہ بلند ہے، چنانچہ اس نے گنہگاروں سے درگزر کیا اور اس کا ہر فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہے۔ وہ گزری ہوئی اور گزرنے والی باتوں کو جانتا ہے اور بغیر کسی کے نقش قدم پر چلے اور بغیر کسی کے سکھائے پڑھائے اور کسی با فہم صنعت گر کے نمونہ و مثال کی پیروی کئے بغیر اور بغیر لغزشوں سے دو چار ہوئے اور بغیر (مشیروں کی) جماعت کی موجودگی کے وہ اپنے علم و دانش سے مخلوقات کو ایجاد و اختراع کرنے والا ہے۔
وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ، ابْتَعَثَهٗ وَ النَّاسُ یَضْرِبُوْنَ فِیْ غَمْرَةٍ، وَ یَمُوْجُوْنُ فِیْ حَیْرَةٍ، قَدْ قَادَتْهُمْ اَزِمَّةُ الْحَیْنِ، وَ اسْتَغْلَقَتْ عَلٰی اَفْئِدَتِهِمْ اَقْفَالُ الرَّیْنِ.
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، جنہیں اس وقت بھیجا جبکہ لوگ گمراہیوں میں چکر کاٹ رہے تھے اور حیرانیوں میں غلطاں و پیچان تھے، ہلاکت و تباہی کی مہاریں انہیں کھینچ رہی تھیں اور زنگ و کدورت کے تالے ان کے دلوں پر لگے ہوئے تھے۔
اُوْصِیْكُمْ عِبَادَ اللهِ بِتَقْوَی اللهِ، فَاِنَّهَا حَقُّ اللهِ عَلَیْكُمْ، وَ الْمُوْجِبَةُ عَلَی اللهِ حَقَّكُمْ، وَ اَنْ تَسْتَعِیْنُوْا عَلَیْهَا بِاللهِ، وَ تَسْتَعِیْنُوْا بِهَا عَلَی اللهِ: فَاِنَّ الْتَّقْوٰی فِی الْیَوْمِ الْحِرْزُ وَ الْجُنَّةُ، وَ فِیْ غَدٍ الطَّرِیْقُ اِلَی الْجَنَّةِ، مَسْلَكُهَا وَاضِحٌ، وَ سَالِكُهَا رَابِحٌ، وَ مُسْتَوْدَعُهَا حَافِظٌ. لَمْ تَبْرَحْ عَارِضَةً نَّفْسَهَا عَلَی الْاُمَمِ الْمَاضِیْنَ وَ الْغَابِرِیْنَ لِحَاجَتِهِمْ اِلَیْهَا غَدًا.
اے خدا کے بندو! میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں کہ یہ اللہ کا تم پر حق ہے اور تمہارے حق کو اللہ پر ثابت کرنے والا ہے اور یہ کہ تقویٰ کیلئے اللہ سے اعانت چاہو اور تقرب الٰہی کیلئے اس سے مدد مانگو۔ اس لئے کہ تقویٰ آج (دنیا میں) پناہ و سپر ہے اور کل جنت کی راہ ہے۔ اس کا راستہ آشکارا اور اس کا راہ پیما نفع میں رہنے والا ہے۔ جس کے سپرد یہ ودیعت ہے وہ اس کا نگہبان ہے۔ یہ تقویٰ اپنے آپ کو گزر جانے والی اور پیچھے رہ جانے والی اُمتوں کے سامنے ہمیشہ پیش کرتا رہا ہے، کیونکہ وہ سب اس کی حاجتمند ہوں گی۔
اِذَاۤ اَعَادَ اللهُ مَاۤ اَبْدٰی، وَ اَخَذَ مَاۤ اَعْطٰی، وَ سَئَلَ عَمَّاۤ اَسْدٰی، فَمَاۤ اَقَلَّ مَنْ قَبِلَهَا، وَ حَمَلَهَا حَقَّ حَمْلِهَا! اُولٰٓئِكَ الْاَقَلُّوْنَ عَدَدًا، وَ هُمْ اَهْلُ صِفَةِ اللهِ سُبْحَانَهٗ اِذْ یَقُوْلُ: ﴿وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْرُ﴾.
کل جب خداوند عالم اپنی مخلوق کو دوبارہ پلٹائے گا اور جو دے رکھا ہے وہ واپس لے گا اور اپنی بخشی ہوئی نعمتوں کے بارے میں سوال کرے گا تو اسے قبول کرنے والے اور اس کا پورا پورا حق ادا کرنے والے بہت ہی تھوڑے نکلیں گے۔ وہ گنتی کے اعتبار سے کم اور اس توصیف کے مصداق ہیں جو اللہ نے فرمائی ہے کہ: ’’میرے بندوں میں شکر گزار بندے کم ہیں‘‘ ۔
فَاَهْطِعُوْا بِاَسْمَاعِكُمْ اِلَیْهَا، و اَلِظُّوْا بِجِدِّكُمْ عَلَیْهَا، وَ اعْتَاضُوْهَا مِنْ كُلِّ سَلَفٍ خَلَفًا، وَ مِنْ كُلِّ مُخَالِفٍ مُّوَافِقًا. اَیْقِظُوْا بِهَا نَوْمَكُمْ، وَ اقْطَعُوْا بِهَا یَوْمَكُمْ، وَ اَشْعِرُوْهَا قُلُوْبَكُمْ، وَ ارْحَضُوْا بِهَا ذُنُوْبَكُمْ، وَ دَاوُوْا بِهَا الْاَسْقَامَ، وَبَادِرُوْا بِهَا الْحِمَامَ، وَ اعْتَبِرُوْا بِمَنْ اَضَاعَهَا، وَ لَا یَعْتَبِرَنَّ بِكُمْ مَّنْ اَطَاعَهَا.
لہٰذا تقویٰ کی (آواز پر) اپنے کان لگاؤ اور سعی و کوشش سے برابر اس کی پابندی کرو اور اس کو گزری ہوئی کوتاہیوں کا عوض قرار دو اور ہر مخالفت کرنے والے کے بدلہ میں اسے اپنا ہمنوا بناؤ، اسے خواب غفلت سے اپنے چونکنے کا ذریعہ بناؤ اور اسی میں اپنے دن کا ٹ دو اور اسے اپنے دلوں کا شعار بناؤ اور گناہوں کو اس کے ذریعہ سے دھو ڈالو اور اس سے اپنی بیماریوں کا علاج کرو اور موت سے پہلے اس کا توشہ حاصل کرو اور جنہوں نے اسے ضائع و برباد کیا ہے۔ ان سے عبرت حاصل کرو۔ یہ نہ ہو کہ دوسرے تقویٰ پر عمل کرنے والے تم سے عبرت اندوز ہوں۔
اَلَا فَصُوْنُوْهَا وَ تَصَوَّنُوْا بِهَا، وَ كُوْنُوْا عَنِ الدُّنْیَا نُزَّاهًا، وَ اِلَی الْاٰخِرَةِ وُلَّاهًا. وَ لَا تَضَعُوْا مَنْ رَّفَعَتْهُ التَّقْوٰی، وَ لَا تَرْفَعُوْا مَنْ رَّفَعَتْهُ الدُّنْیَا، وَ لَا تَشِیْمُوْا بَارِقَهَا، وَ لَا تَسْتَمِعُوْا نَاطِقَهَا، وَ لَا تُجِیْبُوْا نَاعِقَهَا، وَ لَا تَسْتَضِیْٓئُوْا بِاِشْرَاقِهَا، وَ لَا تُفْتَنُوْا بِاَعْلَاقِهَا، فَاِنَّ بَرْقَهَا خَالِبٌ، وَ نُطْقَهَا كَاذِبٌ، وَ اَمْوَالَهَا مَحْرُوْبَةٌ، وَ اَعْلَاقَهَا مَسْلُوْبَةٌ.
دیکھو! اس کی حفاظت کرو اور اس کے ذریعہ سے اپنے لئے سرو سامانِ حفاظت فراہم کرو۔ دنیا (کی آلودگیوں) سے اپنا دامن پاک و صاف رکھو اور آخرت کی طرف والہانہ انداز سے بڑھو۔ جسے تقویٰ نے بلندی بخشی ہو اسے پست نہ سمجھو اور جسے دنیا نے اوج و رفعت پر پہنچایا ہو اُسے بلند (مرتبہ) نہ خیال کرو۔ اس کے چمکنے والے بادل پر نظر نہ کرو، اس کی باتیں کرنے والے کی باتوں پر کان نہ دھرو اور نہ اس کی دعوت دینے والے کی (آواز پر) لبیک کہو، نہ اس کی جگمگاہٹوں سے روشنی کی امید کرو، نہ اس کی عمدہ و نفیس چیزوں پر مر مٹو، کیونکہ اس کی چمکتی ہوئی بجلیاں نمائش اور اس کی باتیں جھوٹی ہیں، اس کا اثاثہ تباہ اور اس کا عمدہ متاع غارت ہونے والا ہے۔
اَلَا وَ هِیَ الْمُتَصَدِّیَةُ الْعَنُوْنُ، وَ الْجَامِحَةُ الْحَرُوْنُ، وَ الْمَآئِنَةُ الْخَؤُوْنُ، وَ الْجَحُوْدُ الْكَنُوْدُ، وَ الْعَنُوْدُ الصَّدُوْدُ، وَ الْحَیُوْدُ الْمَیُوْدُ. حَالُهَا انْتِقَالٌ، وَ وَطْاَتُهَا زِلْزَالٌ، وَ عِزُّهَا ذُلٌّ، وَ جِدُّهَا هَزْلٌ، وَ عُلُوُّهَا سُفْلٌ، دَارُ حَرَبٍ وَّ سَلْبٍ، وَ نَهْبٍ وَّ عَطَبٍ، اَهْلُهَا عَلٰی سَاقٍ وَّ سِیَاقٍ، وَ لَحَاقٍ وَّ فِرَاقٍ، قَدْ تَحَیَّرَتْ مَذَاهِبُهَا، وَ اَعْجَزَتْ مَهَارِبُهَا، وَ خَابَتْ مَطَالِبُهَا، فَاَسْلَمَتْهُمُ الْمَعَاقِلُ، وَ لَفَظَتْهُمُ الْمَنَازِلُ، وَ اَعْیَتْهُمُ الْمَحَاوِلُ:
دیکھو!یہ دنیا جھلک دکھا کر منہ موڑ لینے والی، چنڈال اور منہ زور، اڑیل اور جھوٹی، بڑی خائن اور ہٹ دھرم ناشکری ہے اور سیدھی راہ سے مڑنے رخ پھیرنے والی اور کجر و پیچ و تاب کھانے والی ہے۔ اس کا وتیرہ (ایک سے دوسرے کی طرف) پلٹ جانا ہے اور اس کا ہر قدم زلزلہ انگیز ہے۔ اس کی عزت (سراسر) ذلت، اس کی سنجیدگی عین ہر زہ سرائی اور اس کی بلندی سر تا سر پستی ہے۔ یہ غارتگری و تباہ کاری، ہلاکت و تاراجی کا گھر ہے۔ اس کے رہنے والے پا در رِکاب، چل چلاؤ کے منتظر، وصل و ہجر کی کشمکش میں گرفتار، اس کے راستے پاشان و پریشان، اس سے گریز کی راہیں دشوار اور اس کے منصوبے ناکام ہیں۔ چنانچہ اس کی محفوظ گھاٹیوں نے ان کو (بے یار و مددگار) چھوڑ دیا اور ان کے گھروں نے انہیں دور پھینک دیا اور ان کی ساری دانشمندیوں نے انہیں درماندہ کر دیا۔
فَمِنْ نَّاجٍ مَّعْقُوْرٍ، وَ لَحْمٍ مَّجْزُوْرٍ، وَ شِلْوٍ مَّذْبُوْحٍ، وَ دَمٍ مَّسْفُوْحٍ، وَ عَاضٍّ عَلٰی یَدَیْهِ، وَ صَافِقٍۭ بِكَفَّیْهِ، وَ مُرْتَفِقٍۭ بِخَدَّیْهِ، وَ زَارٍ عَلٰی رَاْیِهٖ، وَ رَاجِعٍ عَنْ عَزْمِهٖ.
اب جو ہیں (ان کی حالت یہ ہے) کہ کچھ کی کونچیں کٹی ہوئی ہیں اور کچھ گوشت کے لوتھڑے ہیں جن کی کھال اتری ہوئی ہے اور کچھ کٹے ہوئے جسم اور بہے ہوئے خون ہیں اور کچھ (غم و اندوہ سے) اپنے ہاتھ کاٹنے والے اور کچھ کفِ افسوس ملنے والے اور کچھ (فکر و تردد میں) رخسار کہنیوں پر رکھے ہوئے ہیں او رکچھ اپنی سمجھ کو کوسنے والے اور کچھ اپنے ارادوں سے روگردانی کرنے والے ہیں۔
وَ قَدْ اَدْبَرَتِ الْحِیْلَةُ، وَ اَقْبَلَتِ الْغِیْلَةُ، وَ ﴿لَاتَ حِیْنَ مَنَاصٍ﴾. هَیْهَاتَ هَیْهَاتَ! قَدْ فَاتَ مَا فَاتَ، وَ ذَهَبَ مَا ذَهَبَ، وَ مَضَتِ الدُّنْیَا لِحَالِ بَالِهَا، ﴿فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ وَ مَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ۠﴾.
(لیکن اب کہاں) جبکہ چارہ سازی کا موقعہ ہاتھ سے نکل چکا اور ناگہانی مصیبت سامنے آ گئی۔ اب نکل بھاگنے کا وقت کہاں! یہ تو ایک اَنہونی بات ہے۔ جو چیز ہاتھ سے نکل گئی سو نکل گئی اور جو وقت جا چکا سو جا چکا اور دنیا اپنی من مانی کرتے ہوئے گزر گئی۔ ’’ان پر نہ آسمان رویا نہ زمین اور نہ ہی انہیں مہلت دی گئی‘‘۔