سب سے بڑی وحشت غرور و خود بینی ہے، اور سب سے بڑا جوہر ذاتی حسنِ اخلاق ہے۔ حکمت 38
(١٢٤) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۲۴)
لَمَّا عُوْتِبَ عَلَى التَّسْوِیَةِ فِی الْعَطَآءِ:
جب مال کی تقسیم میں آپؑ کے برابری و مساوات کا اصول برتنے پر کچھ لوگ بگڑ اٹھے تو آپؑ نے ارشاد فرمایا:
اَتَاْمُرُوْنِّیْۤ اَنْ اَطْلُبَ النَّصْرَ بِالْجَوْرِ فِیْمَنْ وُّلِّیْتُ عَلَیْهِ! وَاللهِ! لَاۤ اَطُوْرُ بِهٖ مَا سَمَرَ سَمِیْرٌ، وَ مَاۤ اَمَّ نَجْمٌ فِی السَّمَآءِ نَجْمًا! لَوْ كَانَ الْمَالُ لِیْ لَسَوَّیْتُ بَیْنَهُمْ، فَكَیْفَ وَ اِنَّمَا الْمَالُ مَالُ اللهِ.
کیا تم مجھ پر یہ امر عائد کرنا چاہتے ہو کہ میں جن لوگوں کا حاکم ہوں ان پر ظلم و زیادتی کر کے (کچھ لوگوں کی) امداد حاصل کروں تو خدا کی قسم! جب تک دنیا کا قصہ چلتا رہے گا اور کچھ ستارے دوسرے ستاروں کی طرف جھکتے رہیں گے، میں اس چیز کے قریب بھی نہیں پھٹکوں گا۔ اگر یہ خود میرا مال ہوتا جب بھی میں اسے سب میں برابر تقسیم کرتا، چہ جائیکہ یہ مال اللہ کا مال ہے۔
اَلَا وَ اِنَّ اِعْطَآءَ الْمَالِ فِیْ غَیْرِ حَقِّهٖ تَبْذِیْرٌ وَّ اِسْرَافٌ، وَ هُوَ یَرْفَعُ صَاحِبَهٗ فِی الدُّنْیَا وَ یَضَعُهٗ فِی الْاٰخِرَةِ، وَ یُكْرِمُهٗ فِی النَّاسِ وَ یُهِیْنُهٗ عِنْدَ اللهِ، وَ لَمْ یَضَعِ امْرُؤٌ مَالَهٗ فِیْ غَیْرِ حَقِّهٖ وَ لَا عِنْدَ غَیْرِ اَهْلِهٖ اِلَّا حَرَمَهُ اللهُ شُكْرَهُمْ وَ كَانَ لِغَیْرِهٖ وُّدُّهُمْ، فَاِنْ زَلَّتْ بِهِ النَّعْلُ یَوْمًا فَاحْتَاجَ اِلٰی مَعُوْنَتِهِمْ فَشَرُّ خَدِیْنٍ وَّ اَلْاَمُ خَلِیْلٍ!.
دیکھو بغیر کسی حق کے داد و دہش کرنا بے اعتدالی اور فضول خرچی ہے اور یہ اپنے مرتکب کو دنیا میں بلند کر دیتی ہے، لیکن آخرت میں پست کرتی ہے اور لوگوں کے اندر عزت میں اضافہ کرتی، مگر اللہ کے نزدیک ذلیل کرتی ہے۔ جو شخص بھی مال کو بغیر استحقاق کے یا نااہل افراد کو دے گا اللہ اسے ان کے شکریہ سے محروم ہی رکھے گا اور ان کی دوستی و محبت بھی دوسروں ہی کے حصہ میں جائے گی اور اگر کسی دن اس کے پیر پھسل جائیں (یعنی فقر و تنگدستی اسے گھیر لے) اور ان کی امداد کا محتاج ہو جائے تو وہ اس کیلئے بہت ہی بُرے ساتھی اور کمینے دوست ثابت ہوں گے۔