اگر میں مومن کی ناک پر تلواریں لگاؤں کہ وہ مجھے دشمن رکھے تو جب بھی وہ مجھ سے دشمنی نہ کرے گا حکمت 45
(٣٥) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۳۵)
بَعْدَ التَّحْكِیْمِ
تحکیم [۱] کے بعد فرمایا
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ اِنْ اَتَی الدَّهْرُ بِالْخَطْبِ الْفَادِحِ، وَ الْحَدَثِ الْجَلِیْلِ. وَ اَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ،وَحْدَہٗ لَا شَرِیْكَ لَهٗ، لَیْسَ مَعَهٗۤ اِلٰهٌ غَیْرُهٗ، وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ ﷺ.
(ہر حالت میں) اللہ کیلئے حمد و ثنا ہے۔ گو زمانہ (ہمارے لئے) جانکاہ مصیبتیں اور صبر آزما حادثے لے آیا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ یکتا ولا شریک ہے، اس کے ساتھ کوئی دوسرا خدا نہیں اور محمد ﷺ اس کے عبد اور رسول ہیں۔
اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ مَعْصِیَةَ النَّاصِحِ الشَّفِیْقِ الْعَالِمِ الْمُجَرِّبِ تُوْرِثُ الْحَسْرَةَ، وَتُعْقِبُ النَّدَامَةَ. وَقَدْ كُنْتُ اَمَرْتُكُمْ فِیْ هٰذِهِ الْحُكُوْمَةِ اَمْرِیْ، وَ نَخَلْتُ لَكُمْ مَخزُوْنَ رَاْیِیْ، لَوْ كَانَ یُطَاعُ لِقَصِیْرٍ اَمْرٌ! فَاَبَیْتُمْ عَلَیَّ اِبَآءَ الْمُخَالِفِیْنَ الْجُفَاةِ، وَ الْمُنَابِذِیْنَ الْعُصَاةِ، حَتَّی ارْتَابَ النَّاصِحُ بِنُصْحِهٖ، وَ ضَنَّ الزَّنْدُ بِقَدْحِهٖ، فَكُنْتُ اَنَا وَ اِیَّاكُمْ كَمَا قَالَ اَخُوْ هَوَازِنَ:
(تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ) مہربان، باخبر اور تجربہ کار ناصح کی مخالفت کا ثمرہ، حسرت و ندامت ہوتا ہے۔ میں نے اس تحکیم کے متعلق اپنا فرمان سنا دیا تھا اور اپنی قیمتی رائے کا نچوڑ تمہارے سامنے رکھ دیا تھا۔ کاش کہ ’’قصیر [۲] ‘‘ کا حکم مان لیا جاتا، لیکن تم تو تند خو مخالفین اور عہد شکن نافرمانوں کی طرح انکار پر تل گئے۔ یہاں تک کہ ناصح خود اپنی نصیحت کے متعلق سوچ میں پڑ گیا اور طبیعت اس چقماق کی طرح بجھ گئی کہ جس نے شعلے بھڑکانا بند کر دیا ہو۔ میری اور تمہاری حالت شاعر بنی ہوازن [۳] کے اس قول کے مطابق ہے:
اَمَرْتُكُمُ اَمْرِیْ بِمُنْعَرِجِ اللِّوٰی فَلَمْ تَسْتَبِیْنُوا النُّصْحَ اِلَّا ضُحَی الْغَدِ
’’میں نے مقامِ منعرج اللوی (ٹیلے کا موڑ) پر تمہیں اپنے حکم سے آگاہ کیا(گو اس وقت تم نے میری نصیحت پر عمل نہ کیا) لیکن دوسرے دن کی چاشت کو میری نصیحت کی صداقت دیکھ لی‘‘۔
۱جب اہل عراق کی خونریز تلواروں سے شامیوں کی ہمت ٹوٹ گئی اور لیلة الہریر کے تابڑ توڑ حملوں نے ان کے حوصلے پست اور ولولے ختم کر دیئے تو عمرو بن عاص نے معاویہ کو یہ چال سوجھائی کہ قرآن کو نیزوں پر بلند کر کے اسے حکم ٹھہرانے کا نعرہ لگایا جائے، جس کا اثر یہ ہو گا کہ کچھ لوگ جنگ کو رکوانا چاہیں گے اور کچھ جاری رکھنا چاہیں گے اور ہم اس طرح ان میں پھوٹ ڈلوا کر جنگ کو دوسرے موقعہ کیلئے ملتوی کرا سکیں گے۔ چنانچہ قرآن نیزوں پر بلند کئے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند سر پھروں نے شور و غوغا مچا کر تمام لشکر میں انتشار و برہمی پیدا کر دی اور سادہ لوح مسلمانوں کی سرگرمیاں فتح کے قریب پہنچ کر دھیمی پڑ گئیں اور بے سوچے سمجھے پکارنے لگے کہ: ہمیں جنگ پر قرآن کے فیصلے کو ترجیح دینا چاہیے۔
امیر المومنین علیہ السلام نے جب قرآن کو آلہ کار بنتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ: اے لوگو! اس مکر و فریب میں نہ آؤ۔ یہ صرف شکست کی روسیاہیوں سے بچنے کیلئے چال چل رہے ہیں۔ میں ان میں سے ایک ایک کی سیرت کو جانتا ہوں۔ نہ یہ قرآن والے ہیں اور نہ دین و مذہب سے انہیں کوئی لگاؤ ہے۔ ہمارے جنگ کرنے کا تو مقصد ہی یہ تھا کہ یہ لوگ قرآن کو مانیں اور اس کے احکام پر عمل پیرا ہوں۔ خدا کیلئے ان کی فریب کاریوں میں نہ آؤ۔ عزم و ہمت کے ولولوں کے ساتھ آگے بڑھو اور دم توڑتے ہوئے دشمن کو ختم کر کے دم لو۔
مگر باطل کا پر فریب حربہ چل چکا تھا۔ لوگ طغیان و سرکشی پر اتر آئے۔ سعد ابن فدکی تمیمی اور زید ابنِ حصین طائی دونوں بیس ہزار آدمیوں کے ساتھ آگے بڑھے اور امیر المومنین علیہ السلام سے کہا کہ اے علیؑ! اگر آپؑ نے قرآن کی آواز پر لبیک نہ کہی تو پھر ہم آپ کا وہی حشر کریں گے جو عثمان کا کیا تھا۔ آپؑ فوراً جنگ ختم کرائیں اور قرآن کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کریں۔ حضرتؑ نے بہت سمجھانے بجھانے کی کوشش کی، لیکن شیطان قرآن کا جامہ پہنے ہوئے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے ایک نہ چلنے دی اور ان لوگوں نے امیر المومنین علیہ السلام کو مجبور کر دیا کہ وہ کسی کو بھیج کر مالک اشتر کو میدان جنگ سے واپس لوٹائیں۔
حضرتؑ نے لاچار ہو کر یزید ابن ہانی کو مالک کے بلانے کیلئے بھیجا۔ مالک نے جب یہ حکم سنا تو وہ چکرا سے گئے اور کہا کہ ان سے کہیے کہ یہ موقعہ مورچہ سے الگ ہونے کا نہیں ہے، کچھ دیر توقف فرمائیں تو میں نوید فتح لے کر حاضرِ خدمت ہوتا ہوں۔ یزید ابن ہانی نے پلٹ کر یہ پیغام دیا تو لوگوں نے غل مچایا کہ آپؑ نے چپکے سے انہیں جنگ پر جمے رہنے کیلئے کہلوا بھیجا ہے۔ حضرتؑ نے فرمایا کہ مجھے اس کا موقعہ کہاں ملا ہے کہ میں علیحدگی میں اسے کوئی پیغام دیتا۔ جو کچھ کہا ہے تمہارے سامنے کہا ہے۔ لوگوں نے کہا آپؑ اسے دوبارہ بھیجیں اور اگر مالک نے آنے میں تاخیر کی تو پھر آپؑ اپنی جان سے ہاتھ دھو لیں۔ حضرتؑ نے ہانی کو پھر روانہ کیا اور کہلوا بھیجا کہ فتنہ اٹھ کھڑا ہوا ہے، جس حالت میں ہو فوراً آؤ۔ چنانچہ ہانی نے مالک سے جا کر کہا کہ: تمہیں فتح عزیز ہے یا امیر المومنین علیہ السلام کی جان؟ اگر ان کی جان عزیز ہے تو جنگ سے ہاتھ اٹھاؤ اور ان کے پاس پہنچو۔ مالک فتح کی کامرانیوں کو چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور حسرت و اندوہ لئے ہوئے حضرتؑ کی خدمت میں پہنچے۔ وہاں ایک ہڑبونگ مچا ہوا تھا۔ آپؑ نے لوگوں کو بہت بُرا بھلا کہا، مگر حالات اس طرح پلٹا کھا چکے تھے کہ انہیں سدھارا نہ جا سکتا تھا۔
اب یہ طے پایا کہ دونوں فریق میں سے ایک ایک حکم منتخب کر لیا جائے تا کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق خلافت کا فیصلہ کریں۔ معاویہ کی طرف سے عمرو ابن عاص قرار پایا اور حضرتؑ کی طرف سے لوگوں نے ابو موسیٰ اشعری کا نام پیش کیا۔ حضرتؑ نے اس غلط انتخاب کو دیکھتے ہوئے فرمایا کہ: اگر تم نے تحکیم کے بارے میں میرا حکم نہیں مانا تو اتنا تو کرو کہ اس (ابو موسیٰ) کو حَکَم نہ بناؤ۔ یہ بھروسے کا آدمی نہیں ہے۔ یہ عبداللہ ابن عباس ہیں، یہ مالک اشتر ہیں، ان میں سے کسی ایک کو منتخب کر لو۔ مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور اسی کے نام پر اَڑ گئے۔ حضرتؑ نے فرمایا کہ: اچھا جو چاہو کرو اور وہ دن دور نہیں ہے کہ اپنی بے راہ رویوں پر اپنے ہاتھ کاٹو گے۔
حکمین کی نامزدگی کے بعد جب عہد نامہ لکھا جانے لگا تو ’’علی ابنِ ابی طالبؑ‘‘ کے نام کے ساتھ ’’امیر المومنین‘‘ لکھا گیا۔ عمرو ابنِ عاص نے کہا کہ اس لفظ کو مٹا دیا جائے۔ اگر ہم انہیں امیر المومنین سمجھتے ہوتے تو یہ جنگ ہی کیوں لڑی جاتی۔ حضرتؑ نے پہلے تو اسے مٹانے سے انکار کیا اور جب وہ کسی طرح نہ مانے تو اسے مٹا دیا اور فرمایا کہ یہ واقعہ حدیبیہ کے واقعہ سے بالکل ملتا جلتا ہے کہ جب کفار اس پر اَڑ گئے تھے کہ پیغمبر ﷺ کے نام کے ساتھ ’’رسول اللہ‘‘ کی لفظ مٹا دی جائے اور پیغمبر ﷺ نے اسے مٹا دیا۔ اس پر عمرو ابن عاص نے بگڑ کر کہا کہ: کیا آپؑ ہمیں کفار کی طرح سمجھتے ہیں؟ حضرتؑ نے فرمایا کہ: تمہیں کس دن ایمان والوں سے لگاؤ رہا ہے اور کب ان کے ہمنوا رہے ہو؟
بہر صورت اس قرارداد کے بعد لوگ منتشر ہو گئے اور ان دونوں حکموں نے آپس میں صلاح و مشورہ کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور معاویہ دونوں کو معزول کر کے لوگوں کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ جسے چاہیں منتخب کر لیں۔ جب اس کے اعلان کا وقت آیا تو عراق اور شام کے درمیان مقام دومة الجندل میں اجتماع ہوا اور یہ دونوں حَکَم بھی مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ سنانے کیلئے پہنچ گئے۔ عمرو ابن عاص نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے ابو موسیٰ سے کہا کہ میں آپ پر سبقت کرنا سوءِ اَدب سمجھتا ہوں، آپ سن وسال کے لحاظ سے بزرگ ہیں، لہٰذا پہلے آپ اعلان فرمائیں۔ چنانچہ ابوُ موسیٰ تاننے میں آ گئے اور جھوُمتے ہوئے مجمع کے سامنے آ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: اے مسلمانو! ہم نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ علی ابن ابی طالبؑ اور معاویہ کو معزول کر دیا جائے اور انتخاب خلافت کا حق مسلمانوں کو دے دیا جائے، وہ جسے چاہیں منتخب کر لیں اور یہ کہہ کر بیٹھ گئے۔ اب عمرو ابنِ عاص کی باری آئی اور اس نے کہا کہ اے مسلمانو! تم نے سن لیا ہے کہ ابو موسیٰ نے علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام کو معزول کر دیا ہے، میں بھی اس سے متفق ہوں، رہا معاویہ تو اس کے معزول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لہٰذا میں اسے اس جگہ پر نصب کرتا ہوں۔ یہ کہنا تھا کہ ہر طرف شور مچ گیا۔ ابو موسیٰ بہت چیخے چلائے کہ یہ دھوکا ہے، فریب ہے اور عمرو ابن عاص سے کہا کہ تم نے چالبازی سے کام لیا ہے اور تمہاری مثال اس کتے کی سی ہے کہ جس پر کچھ لادو، جب ہانپے گا، چھوڑ دو جب ہانپے گا۔ عمرو ابن عاص نے کہا کہ تمہاری مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ غرض عمرو ابن عاص کی چالاکی کام کر گئی اور معاویہ کے اکھڑے ہوئے قدم پھر سے جم گئے۔
یہ تھا اس تحکیم کا مختصر سا خاکہ جس کی اساس قرآن و سنت کو قرار دیا گیا تھا۔ مگر کیا یہ قرآن و سنت کا فیصلہ تھا؟ یا ان فریب کاریوں کا نتیجہ کہ جو دنیا والے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے کام میں لایا کرتے ہیں؟ کاش کہ تاریخ کے ان اوراق کو مستقبل کیلئے مشعل راہ بنایا جائے اور قرآن و سنت کو آڑ بنا کر حصول اقتدار کا ذریعہ اور دنیا طلبی کا وسیلہ نہ بننے دیا جائے۔
امیرالمومنین علیہ السلام کو جب تحکیم کے اس افسوسناک نتیجہ کی اطلاع ملی تو آپؑ منبر پر تشریف لائے اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس کے لفظ لفظ سے آپؑ کا اندوہ و قلق جھلک رہا ہے اور ساتھ ہی آپؑ کی صحت فکر و نظر، اصابتِ رائے اور دُور رس بصیرت پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔↑
۲یہ ایک مثل ہے جو ایسے موقعہ پر استعمال کی جاتی ہے کہ جہاں کسی نصیحت کرنے والے کی بات ٹھکرا دی جائے اور بعد میں پچھتایا جائے۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ حیرہ کے فرمانروا جذیمہ ابرش نے جزیرہ کے تاجدار عمرو ابن طرب کو قتل کر دیا جس کے بعد اس کی بیٹی زباء جزیرہ کی حکمران قرار پائی۔ اُس نے تخت نشین ہوتے ہی اپنے باپ کے انتقام لینے کی یہ تدبیر کی کہ جذیمہ کو پیغام بھیجا کہ میں تنہا امور سلطنت کی انجام دہی نہیں کر سکتی، اگر تم مجھے اپنے حبالہ عقد میں لے کر میری سرپرستی کرو تو میں شکر گزار رہوں گی۔ جذیمہ اس پیشکش پر پھولا نہ سمایا اور ہزار سوار ہمراہ لے کر جزیرہ جانے کیلئے آمادہ ہو گیا۔ اس کے غلام قصیر نے بہت سمجھایا بجھایا کہ یہ دھوکا اور فریب ہے۔ اس خطرے میں اپنے آپ کو نہ ڈالئے، مگر اس کی عقل پر ایسا پردہ پڑا ہوا تھا کہ اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی تھی کہ زباء نے اپنی رفاقت کیلئے اپنے باپ کے قاتل ہی کو کیوں منتخب کیا ہے۔ بہر صورت یہ چل کھڑا ہوا اور جب حدودِ جزیرہ میں پہنچا تو گوزباء کا لشکر استقبال کیلئے موجود تھا مگر نہ اس نے کوئی خاص آؤ بھگت کی، نہ پر تپاک خیر مقدم کیا۔یہ رنگ دیکھ کر قصیر کا پھر ماتھا ٹھنکا اور اس نے جذیمہ سے پلٹ جانے کو کہا۔ مگر منزل کے نزدیک پہنچ کر آتشِِ شوق اور بھڑک اٹھی تھی۔ اس نے پرواہ نہ کی اور قدم بڑھا کر شہر کے اندر داخل ہو گیا۔ وہاں پہنچتے ہی قتل کر ڈالا گیا۔ قصیر نے یہ دیکھا تو کہا: «لَوْ كَانَ یُطَاعُ لِقَصِیْرٍ اَمْرٌ» (کاش قصیر کی بات مان لی ہوتی) اور اس وقت سے یہ مثل چل نکلی۔
۳شاعر بنی ہوازن سے مراد ’’دُرید ابنِ صمہ‘‘ ہے اور یہ شعر اس نے اپنے بھائی عبد اللہ ابن صمہ کے مرنے کے بعد کہا۔ جس کا واقعہ یہ ہے کہ عبد اللہ اپنے بھائی کے ہمراہ بنی بکر ابن ہوازن پر حملہ آور ہوا اور ان کے بہت سے اونٹ ہنکا لایا۔ واپسی پر جب مقام منعرج اللوی میں سستانے کا ارادہ کیا تو دُرید نے کہا کہ: یہاں ٹھہرنا مصلحت کے خلاف ہے، ایسا نہ ہو کہ پیچھے سے دشمن ٹوٹ پڑے، مگر عبد اللہ نہ مانا اور وہاں ٹھہر گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صبح ہوتے ہی دشمنوں نے حملہ کیا اور عبد اللہ کو وہیں پر قتل کر دیا۔ دُرید کے بھی زخم آئے، لیکن وہ بچ نکلا اور اس کے بعد چند اشعار کہے ان میں سے ایک شعر یہ ہے جس میں اس کی رائے کے ٹھکرا دیئے جانے سے جو تباہی آئی تھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔