جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا اس نے اپنے کو سبک کیا۔ حکمت 2
(١١٣) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۱۳)
فِی الْاِسْتِسْقَآءِ
طلبِ باراں کیلئے آپؑ کے دُعائیہ کلمات
اَللّٰهُمَّ قَدِ انْصَاحَتْ جِبَالُنَا، وَ اغْبَرَّتْ اَرْضُنَا، وَ هَامَتْ دَوَابُّنَا، وَ تَحَیَّرَتْ فِیْ مَرَابِضِهَا، وَ عَجَّتْ عَجِیْجَ الثَّكَالٰی عَلٰۤی اَوْلَادِهَا، وَ مَلَّتِ التَّرَدُّدَ فِیْ مَرَاتِعِهَا، وَ الْحَنِیْنَ اِلٰی مَوَارِدِهَا.
بار الٰہا! (خشک سالی سے) ہمارے پہاڑوں کا سبزہ بالکل سوکھ گیا ہے اور زمین پر خاک اُڑ رہی ہے، ہمارے چوپائے پیاسے ہیں اور اپنے چوپالوں میں بوکھلائے ہوئے پھرتے ہیں اور اس طرح چلّا رہے ہیں جس طرح رونے والیاں اپنے بچوں پر بین کرتی ہیں اور اپنی چراگاہوں کے پھیرے کرنے اور تالابوں کی طرف بصد شوق بڑھنے سے عاجز آ گئے ہیں۔
اَللّٰھُمَّ فَارْحَمْ اَنِیْنَ الْاٰنَّةِ، وَ حَنِیْنَ الْحَانَّةِ، اَللّٰهُمَّ فَارْحَمْ حَیْرَتَهَا فِیْ مَذَاهِبِهَا، وَ اَنِیْنَهَا فِیْ مَوَالِجِهَا، اَللّٰهُمَّ خَرَجْنَا اِلَیْكَ حِیْنَ اعْتَكَرَتْ عَلَیْنَا حَدَابِیْرُ السِّنِیْنَ، وَ اَخْلَفَتْنَا مَخَآئِلُ الْجَوْدِ، فَكُنْتَ الرَّجَآءَ لِلْمُبْتَئِسِ، وَ الْبَلَاغَ لِلْمُلْتَمِسِ.
پروردگارا! ان چیخنے والی بکریوں اور ان شوق بھرے لہجے میں پکارنے والے اونٹوں پر رحم کر۔ خدایا! تو راستوں میں ان کی پریشانی اور گھروں میں ان کی چیخ و پکار پر ترس کھا۔ بار خدایا! جب کہ قحط سالی کے لاغر اور نڈھال اونٹ ہماری طرف پلٹ پڑے ہیں اور بظاہر برسنے والی گھٹائیں آ آ کے بِن برسے گزر گئیں تو ہم تیری طرف نکل پڑے ہیں۔ تو ہی دکھ درد کے ماروں کی آس ہے اور تو ہی التجا کرنے والوں کا سہارا ہے۔
نَدْعُوْكَ حِیْنَ قَنَطَ الْاَنَامُ، وَ مُنِعَ الْغَمَامُ، وَ هَلَكَ الْسَّوَامُ، اَنْ لَّا تُؤَاخِذَنَا بِاَعْمَالِنَا، وَ لَا تَاْخُذَنَا بِذُنُوْبِنَا، وَ انْشُرْ عَلَیْنَا رَحْمَتَكَ بِالسَّحَابِ الْمُنْبَعِقِ، وَ الرَّبِیْعِ الْمُغْدِقِ، وَ النَّبَاتِ الْمُوْنِقِ، سَحًّا وَّابِلًا تُحْیِیْ بِهٖ مَا قَدْ مَاتَ،وَ تَرُدُّ بِهٖ مَا قَدْ فَاتَ.
جب کہ لوگ بے آس ہو گئے اور بادلوں کا اٹھنا بند ہو گیا اور مویشی بے جان ہو گئے تو ہم تجھ سے دُعا کرتے ہیں کہ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہماری گرفت نہ کر اور ہمارے گناہوں کے سبب سے ہمیں (اپنے عذاب میں) نہ دھر لے۔ اے اللہ! تو دھواں دھار بارشوں والے ابر اور چھاجوں پانی برسانے والی برکھا رُت اور نظروں میں کھب جانے والے ہریاول سے اپنے دامانِ رحمت کو ہم پر پھیلا دے۔ وہ موسلا دھار اور لگاتار اس طرح برسیں کہ ان سے مَری ہوئی چیزوں کو تو زندہ کر دے اور گزری ہوئی بہاروں کو پلٹا دے۔
اَللّٰهُمَّ سُقْیَا مِنْكَ مُحْیِیَةً مُّرْوِیَةً، تَامَّةً عَامَّةً، طَیِّبَةً مُّبَارَكَةً، هَنِیْٓئَةً مَرِیْعَةً، زَاكِیًا نَّبْتُهَا، ثَامِرًا فَرْعُهَا، نَاضِرًا وَّرَقُهَا، تَنْعَشُ بِهَا الضَّعِیْفَ مِنْ عِبَادِكَ، وَ تُحْیِیْ بِهَا الْمَیِّتَ مِنْۢ بِلَادِكَ.
خدایا! ایسی سیرابی ہو کہ جو (مردہ زمینوں کو) زندہ کرنے والی، سیراب بنانے والی اور بھرپور برسنے والی اور سب جگہ پھیل جانے والی اور پاکیزہ و با برکت اور خوشگوار و شاداب ہو، جس سے نباتات پھلنے پھولنے لگیں، شاخیں بار آور اور پتے ہرے بھرے ہو جائیں اور جس سے تو اپنے عاجز و زمین گیر بندوں کو سہارا دے کر اوپر اٹھائے اور اپنے مردہ شہروں کو زندگی بخش دے۔
اَللّٰهُمَّ سُقْیَا مِنْكَ تُعْشِبُ بِهَا نِجَادُنَا، وَ تَجْرِیْ بِهَا وِهَادُنَا، وَ یُخْصِبُ بِهَا جَنَابُنَا، وَ تُقْبِلُ بِهَا ثِمَارُنَا، وَ تَعِیْشُ بِهَا مَوَاشِیْنَا، وَ تَنْدٰی بِهَا اَقَاصِیْنَا، وَ تَسْتَعِیْنُ بِهَا ضَوَاحِیْنَا، مِنْۢ بَرَكَاتِكَ الْوَاسِعَةِ، وَ عَطَایَاكَ الْجَزِیْلَةِ، عَلٰی بَرِیَّتِكَ الْمُرْمِلَةِ وَ وَحْشِكَ الْمُهْمَلَةِ.
اے اللہ! ایسی سیرابی کہ جس سے ہمارے ٹیلے سبزہ پوش ہو جائیں اور ندی نالے بہہ نکلیں اور آس پاس کے اطراف سر سبز و شاداب ہو جائیں اور پھل نکل آئیں اور چوپائے جی اٹھیں اور دور کی زمینیں بھی تر بتر ہو جائیں اور کھلے میدان بھی اس سے مدد پا سکیں۔ اپنی پھیلنے والی برکتوں اور بڑی بڑی بخششوں سے جو تیری تباہ حال مخلوق اور بغیر چرواہے کے کھلے پھرنے والے حیوانوں پر ہیں۔
وَ اَنْزِلْ عَلَیْنَا سَمَآءً مُّخْضِلَةً، مِدْرَارًا هَاطِلَةً، یُدَافِعُ الْوَدْقُ مِنْهَا الْوَدْقَ، وَ یَحْفِزُ الْقَطْرُ مِنْهَا الْقَطْرَ، غَیْرَ خُلَّبٍۭ بَرْقُهَا، وَ لَا جَهَامٍ عَارِضُهَا، وَ لَا قَزَعٍ رَّبَابُهَا، وَ لَا شَفَّانٍ ذِهَابُهَا، حَتّٰی یُخْصِبَ لِاِمْرَاعِهَا الْمُجْدِبُوْنَ، وَ یَحْیَا بِبَرَكَتِهَا الْمُسْنِتُوْنَ، فَاِنَّكَ تُنْزِلُ الْغَیْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا، وَ تَنْشُرُ رَحْمَتَكَ، وَ اَنْتَ ﴿الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ﴾.
ہم پر ایسی بارش ہو جو پانی سے شرابور کر دینے والی اور موسلا دھار اور لگاتار برسنے والی ہو۔ اس طرح کہ بارشیں بارشوں سے ٹکرائیں اور بوندیں بوندوں کو تیزی سے دھکیلیں (کہ تار بندھ جائے)، اس کی بجلی دھوکہ دینے والی نہ ہو اور نہ اُفق پر چھا جانے والی گھٹا پانی سے خالی ہو اور نہ سفید ابر کے ٹکڑے بکھرے بکھرے سے ہوں اور نہ صرف ہوا کے ٹھنڈے جھونکوں والی بوندا باندی ہو کر رہ جائے، (یوں برسا) کہ قحط کے مارے ہوئے اس کی سر سبزیوں سے خوشحال ہو جائیں اور خشک سالی کی سختیاں جھیلنے والے اس کی برکتوں سے جی اٹھیں اور تو ہی وہ ہے جو لوگوں کے ناامید ہو جانے کے بعد مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت کے دامن پھیلا دیتا ہے اور تو ہی والی و وارث اور (اچھی)صفتوں والا ہے۔
[تَفْسِیْرُ مَا فِیْ هٰذِهِ الْخُطْبَةِ مِنَ الْغَرِیْبِ]
[اس خطبہ کے بعض مشکل الفاظ کی تشریح]
قَوْلُہٗ ؑ: «انْصَاحَتْ جِبَالُنَا» اَیْ: تَشَقَّقَتْ مِنَ الْمُحُوْلِ، یُقَالُ:
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: امیر المومنینؑ کے اس ارشاد: «انْصَاحَتْ جِبَالُنَا» کے معنی یہ ہیں کہ پہاڑوں میں قحط سالی سے شگاف پڑ گئے ہیں۔ ’’ انْصَاحَ الثَّوْبُ‘‘ اس وقت کہا جاتا ہے کہ جب کپڑا پھٹ جائے اور ’’ انْصَاحَ النَّبْتُ، صَاحَ النَّبْتُ اور صَوَّحَ النَّبْتُ‘‘ اس وقت بولا جاتا ہے کہ جب سبزہ خشک ہو جائے اور بالکل سوُکھ جائے۔ اور «وَ هَامَتْ دَوَابُّنَا» کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے چوپائے پیاسے ہو گئے ہیں۔ ’’ھیام‘‘ کے معنی پیاس کے ہوتے ہیں۔ اور «حَدَابِیْرُ السِّنِیْنَ» میں ’’حدابیر‘‘ حدبار کی جمع ہے جس کے معنی اس اونٹنی کے ہیں جسے سفروں نے لاغر اور نڈھال کر دیا ہو۔ چنانچہ حضرت علیہ السلام نے قحط زدہ سال کو اسی سفروں کی ماری ہوئی اونٹنی سے تشبیہ دی ہے۔ (عرب کے شاعر) ’’ذوالرّمہ‘‘ نے کہا ہے:
انْصَاحَ الثَّوْبُ: اِذَا انْشَقَّ، وَ یُقَالُ اَیْضًا: انْصَاحَ النَّبْتُ وَ صَاحَ وَ صَوَّحَ: اِذَا جَفَّ وَ یَبِسَ. وَ قَوْلُهٗؑ: «وَ هَامَتْ دَوَابُّنَا» اَیْ: عَطِشَتْ، وَ الْهُیَامُ: الْعَطَشُ. وَ قَوْلُهٗ ؑ: «حَدَابِیْرُ السِّنِیْنَ» جَمْعُ حِدْبَارٍ، وَ هِیَ: النَّاقَةُ الَّتِی اَنْضَاهَا السَّیْرُ، فَشَبَّهَ بِهَا السَّنَةَ الَّتِیْ فَشَا فِیْهَا الْجَدْبُ، قَالَ ذُوْ الرُّمَّةِ: حَدَابِیْرُ مَا تَنْفَكُّ اِلَّا مُنَاخَةً عَلَی الْخَسْفِ اَوْ نَرْمِیْ بِهَا بَلَدًا قَفْرًا
’’یہ لاغر اور کمزور اونٹنیاں ہیں کہ جو یا تو بس ہر سختی و صعوبت کو جھیل کر اپنی جگہ پر بیٹھی رہتی ہیں اور یا یہ کہ ہم انہیں کسی بے آب و گیاہ جنگل کے سفر میں لے جاتے ہیں تو وہاں جاتی ہیں‘‘۔
وَ قَوْلُهٗ ؑ: «وَ لَا قَزَعٍ رَبَابُهَا»، الْقَزَعُ: الْقِطَعُ الصِّغَارُ الْمُتَفَرِّقَۃُ مِنَ السَّحَابِ. وَ قَوْلُهٗ ؑ: «وَ لَا شَفَّانٍ ذِهَابُهَا» فَاِنَّ تَقْدِیْرَهٗ: وَ لَا ذَاتِ شَفَّانٍ ذِهَابُهَا. وَ الشَّفَّانُ: الرِّیْحُ الْبَارِدَةُ. وَ الذِّهَابُ: الْاَمْطَارُ اللَّیِّنَةُ، فَحَذَفَ ’’ذَاتَ‘‘ لِعِلْمِ السَّامِعِ بِهٖ.
اور «وَ لَا قَزَعٍ رَّبَابُهَا» میں قزع چھوٹی چھوٹی بکھری ہوئی بدلیوں کو کہتے ہیں۔ اور «وَ لَا شَفَّانٍ ذِهَابُهَا» میں ’’شفان‘‘ کے معنی ٹھنڈی ہواؤں کے ہیں اور ’’الذِّهَابُ‘‘ ہلکی ہلکی بوندا باندی کو کہتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں والی پھوار۔ اور ’’ذات‘‘ کی لفظ جس کے معنی ’’والی‘‘ ہوتے ہیں اس جگہ حذف فرما دی ہے۔ اس لئے کہ سننے والا اسے خود ہی سمجھ سکتا ہے۔