صبر دو طرح کا ہوتاہے: ایک ناگوار باتوں پر صبر اور دوسرے پسندیدہ چیزوں سے صبر۔ حکمت 55
(٢٢٩) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۲۹)
كَلَّمَ بِهٖ عَبْدَ اللّٰهِ بْنَ زَمْعَةَ وَ هُوَ مِنْ شِیْعَتِهٖ، وَ ذٰلِكَ اَنَّهٗ قَدِمَ عَلَیْهِ فِیْ خِلَافَتِهٖ یَطْلُبُ مِنْهُ مَالًا، فَقَالَ ؑ:
عبد اللہ ابن زمعہ جو آپؑ کی جماعت میں محسوب ہوتا تھا آپؑ کے زمانہ خلافت میں کچھ مال طلب کرنے کیلئے حضرتؑ کے پاس آیا تو آپؑ نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ هٰذَا الْمَالَ لَیْسَ لِیْ وَ لَا لَكَ، وَ اِنَّمَا هُوَ فَیْءٌ لِلْمُسْلِمِیْنَ، وَ جَلْبُ اَسْیَافِهِمْ، فَاِنْ شَرِكْتَهُمْ فِیْ حَرْبِهِمْ كَانَ لَكَ مِثْلُ حَظِّهِمْ، وَ اِلَّا فَجَنَاةُ اَیْدِیْهِمْ لَا تَكُوْنُ لِغَیْرِ اَفْوَاهِهِمْ.
یہ مال نہ میرا ہے نہ تمہارا، بلکہ مسلمانوں کا حق مشترک اور اُن کی تلواروں کا جمع کیا ہوا سرمایہ ہے۔ اگر تم ان کے ساتھ جنگ میں شریک ہوئے ہوتے تو تمہارا حصہ بھی اُن کے برابر ہوتا، ورنہ ان کے ہاتھوں کی کمائی دوسروں کے منہ کا نوالہ بننے کیلئے نہیں ہے۔