فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

خدا تم پر رحم کرے! شاید تم نے حتمی و لازمی قضاء و قدر سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں)۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا، نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعید کے۔ حکمت 78
(٢١٤) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۱۴)
خَطَبَهَا بِصِفِّیْنَ
صفین کے موقع پر فرمایا
اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ جَعَلَ اللهُ لِیْ عَلَیْكُمْ حَقًّۢا بِوِلَایَةِ اَمْرِكُمْ، وَ لَكُمْ عَلَیَّ مِنَ الْحَقِّ مِثْلُ الَّذِیْ لِیْ عَلَیْكُمْ، فَالْحَقُّ اَوْسَعُ الْاَشْیَآءِ فِی التَّوَاصُفِ، وَ اَضْیَقُهَا فِی التَّنَاصُفِ، لَا یَجْرِیْ لِاَحَدٍ اِلَّا جَرٰی عَلَیْهِ، وَ لَا یَجْرِیْ عَلَیْهِ اِلَّا جَرٰی لَهٗ.
اللہ سبحانہ نے مجھے تمہارے امور کا اختیار دے کر میرا حق تم پر قائم کر دیا ہے اور جس طرح میرا تم پر حق ہے ویسا ہی تمہارا بھی مجھ پر حق ہے۔ یوں تو حق کے بارے میں باہمی اوصاف گنوانے میں بہت وسعت ہے، لیکن آپس میں حق و انصاف کرنے کا دائرہ بہت تنگ ہے۔ دو آدمیوں میں اس کا حق اس پر اسی وقت ہے جب دوسرے کا بھی اس پر حق ہو اور اس کا حق اس پر جب ہی ہوتا ہے جب اس کا حق اس پر بھی ہو۔
وَ لَوْ كَانَ لِاَحَدٍ اَنْ یَّجْرِیَ لَهٗ وَ لَا یَجْرِیَ عَلَیْهِ، لَكَانَ ذٰلِكَ خَالِصًا لِلّٰهِ سُبْحَانَهٗ دُوْنَ خَلْقِهٖ، لِقُدْرَتِهٖ عَلٰی عِبَادِهٖ، وَ لِعَدْلِهٖ فِیْ كُلِّ مَا جَرَتْ عَلَیْهِ صُرُوْفُ قَضَآئِهٖ، وَ لٰكِنَّهٗ جَعَلَ حَقَّهٗ عَلَی الْعِبَادِ اَنْ یُّطِیْعُوْهُ، وَ جَعَلَ جَزَآءَهُمْ عَلَیْهِ مُضَاعَفَةَ الثَّوَابِ تَفَضُّلًا مِّنْهُ، وَ تَوَسُّعًۢا بِمَا هُوَ مِنَ الْمَزِیْدِ اَهْلُهٗ.
اور اگر ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کا حق تو دوسروں پر ہو لیکن اس پر کسی کا حق نہ ہو تو یہ امر ذات باری کیلئے مخصوص ہے نہ اس کی مخلوق کیلئے، کیونکہ وہ اپنے بندوں پر پورا تسلط و اقتدار رکھتا ہے اور اس نے تمام ان چیزوں میں کہ جن پر اس کے فرمانِ قضا جاری ہوئے ہیں، عدل کرتے ہوئے (ہر صاحب حق کا حق دے دیا ہے) اس نے بندوں پر اپنا یہ حق رکھا ہے کہ وہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور اس نے محض اپنے فضل و کرم اور اپنے احسان کو وسعت دینے کی بنا پر کہ جس کا وہ اہل ہے ان کا کئی گنا اجر قرار دیا ہے۔
ثُمَّ جَعَلَ ـ سُبْحَانَهٗ ـ مِنْ حُقُوْقِهٖ حُقُوْقًا افْتَرَضَهَا لِبَعْضِ النَّاسِ عَلٰی بَعْضٍ، فَجَعَلَهَا تَتَكَافَاُ فِیْ وُجُوْهِهَا، وَ یُوْجِبُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَ لَا یُسْتَوْجَبُ بَعْضُهَاۤ اِلَّا بِبَعْضٍ.
پھر اس نے ان حقوق انسانی کو بھی کہ جنہیں ایک کیلئے دوسرے پر قرار دیا ہے اپنے ہی حقوق میں سے قرار دیا ہے اور انہیں اس طرح ٹھہرایا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں برابر اتریں اور کچھ ان میں سے کچھ حقوق کا باعث ہوتے ہیں اور اس وقت تک واجب نہیں ہوتے جب تک اس کے مقابلہ میں حقوق ثابت نہ ہو جائیں۔
وَ اَعْظَمُ مَا افْتَرَضَ ـ سُبْحَانَهٗ ـ مِنْ تِلْكَ الْحُقُوْقِ حَقُّ الْوَالِی عَلَی الرَّعِیَّةِ وَ حَقُّ الرَّعِیَّةِ عَلَی الْوَالِیْ، فَرِیْضَةً فَرَضَهَا اللهُ ـ سُبْحَانَهٗ ـ لِكُلٍّ عَلٰی كُلٍّ، فَجَعَلَهَا نِظَامًا لِّاُلْفَتِهِمْ، وَ عِزًّا لِّدِیْنِهِمْ، فَلَیْسَتْ تَصْلُحُ الرَّعِیَّةُ اِلَّا بِصَلَاحِ الْوُلَاةِ، وَ لَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ اِلَّا بِاسْتِقَامَةِ الرَّعِیَّةِ.
اور سب سے بڑا حق کہ جسے اللہ سبحانہ نے واجب کیا ہے حکمران کا رعیت پر اور رعیت کا حکمران پر ہے کہ جسے اللہ نے والی و رعیت میں سے ہر ایک کیلئے فریضہ بنا کر عائد کیا ہے اور اسے ان میں رابطۂ محبت قائم کرنے اور ان کے دین کو سرفرازی بخشنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ رعیت اسی وقت خوشحال رہ سکتی ہے جب حاکم کے طور طریقے درست ہوں اور حاکم بھی اسی وقت صلاح و درستگی سے آراستہ ہو سکتا ہے جب رعیت اس کے احکام کی انجام دہی کیلئے آمادہ ہو۔
فَاِذَاۤ اَدَّتِ الرَّعِیَّةُ اِلَی الْوَالِیْ حَقَّهٗ، وَ اَدَّی الْوَالِیْۤ اِلَیْهَا حَقَّهَا، عَزَّ الْحَقُّ بَیْنَهُمْ، وَ قَامَتْ مَنَاهِجُ الدِّیْنِ، وَ اعْتَدَلَتْ مَعَالِمُ الْعَدْلِ، وَ جَرَتْ عَلٰۤی اَذْلَالِهَا السُّنَنُ، فَصَلَحَ بِذٰلِكَ الزَّمَانُ، وَ طُمِعَ فِیْ بَقَآءِ الدَّوْلَةِ، وَ یَئِسَتْ مَطَامِعُ الْاَعْدَآءِ.
جب رعیت فرمانروا کے حقوق پورے کرے اور فرمانروا رعیت کے حقوق سے عہدہ برآ ہو تو ان میں حق با وقار، دین کی راہیں استوار اور عدل و انصاف کے نشانات برقرار ہو جائیں گے اور پیغمبرؐ کی سنتیں اپنے دھڑے پر چل نکلیں گی اور زمانہ سدھر جائے گا، بقائے سلطنت کے توقعات پیدا ہو جائیں گے اور دشمنوں کی حرص و طمع یاس و ناامیدی سے بدل جائے گی۔
وَ اِذَا غَلَبَتِ الرَّعِیَّةُ وَالِیَهَا، اَوْ اَجْحَفَ الْوَالِیْ بِرَعِیَّتِهٖ، اخْتَلَفَتْ هُنَالِكَ الْكَلِمَةُ، وَ ظَهَرَتْ مَعَالِمُ الْجَوْرِ، وَ كَثُرَ الْاِدْغَالُ فِی الدِّیْنِ، وَ تُرِكَتْ مَحَاجُّ السُّنَنِ، فَعُمِلَ بِالْهَوٰی، وَ عُطِّلَتِ الْاَحْكَامُ، وَ كَثُرَتْ عِلَلُ النُّفُوْسِ، فَلَا یُسْتَوْحَشُ لِعَظِیْمِ حَقٍّ عُطِّلَ، وَ لَا لِعَظِیْمِ بَاطِلٍ فُعِلَ! فَهُنَالِكَ تَذِلُّ الْاَبْرَارُ، وَ تَعِزُّ الْاَشْرَارُ، وَ تَعْظُمُ تَبِعَاتُ اللهِ عِنْدَ الْعِبَادِ.
اور جب رعیت حاکم پر مسلط ہو جائے یا حاکم رعیت پر ظلم ڈھانے لگے تو اس موقعہ پر ہر بات میں اختلاف ہو گا، ظلم کے نشانات ابھر آئیں گے، دین میں مفسدے بڑھ جائیں گے، شریعت کی راہیں متروک ہو جائیں گی، خواہشوں پر عمل درآمد ہو گا، شریعت کے احکام ٹھکرا دیئے جائیں گے، نفسانی بیماریاں بڑھ جائیں گی اور بڑے سے بڑے حق کو ٹھکرا دینے اور بڑے سے بڑے باطل پر عمل پیرا ہو نے سے بھی کوئی نہ گھبرائے گا۔ ایسے موقعہ پر نیکو کار ذلیل اور بد کردار باعزت ہو جاتے ہیں اور بندوں پر اللہ کی عقوبتیں بڑھ جاتی ہیں۔
فَعَلَیْكُمْ بِالتَّنَاصُحِ فِیْ ذٰلِكَ، وَ حُسْنِ التَّعَاوُنِ عَلَیْهِ، فَلَیْسَ اَحَدٌ ـ وَ اِنِ اشْتَدَّ عَلٰی رِضَی اللهِ حِرْصُهٗ، وَ طَالَ فِی الْعَمَلِ اجْتِهَادُهٗ ـ بِبَالِغٍ حَقِیْقَةَ مَا اللهُ اَهْلُهٗ مِنَ الطَّاعَةِ لَهٗ، وَ لٰكِنْ مِّنْ وَاجِبِ حُقُوْقِ اللهِ عَلَی الْعِبَادِ النَّصِیْحَةُ بِمَبْلَغِ جُهْدِهِمْ، وَ التَّعَاوُنُ عَلٰۤی اِقَامَةِ الْحَقِّ بَیْنَهُمْ، وَ لَیْسَ امْرُؤٌـ وَ اِنْ عَظُمَتْ فِی الْحَقِّ مَنْزِلَتُهٗ، وَ تَقَدَّمَتْ فِی الدِّیْنِ فَضِیْلَتُهٗ ـ بِفَوْقِ اَنْ یُّعَانَ عَلٰی مَا حَمَّلَهُ اللهُ مِنْ حَقِّهٖ، وَ لَا امْرُؤٌ ـ وَ اِنْ صَغَّرَتْهُ النُّفُوْسُ، وَ اقْتَحَمَتْهُ الْعُیُوْنُ ـ بِدُوْنِ اَنْ یُّعِیْنَ عَلٰی ذٰلِكَ اَوْ یُعَانَ عَلَیْهِ.
لہٰذا اس حق کی ادائیگی میں ایک دوسرے کو سمجھانا بجھانا اور ایک دوسرے سے بخوبی تعاون کرنا تمہارے لئے ضروری ہے۔ اس لئے کہ کوئی شخص بھی اللہ کی اطاعت و بندگی میں اس حد تک نہیں پہنچ سکتا کہ جس کا وہ اہل ہے۔ چاہے وہ اس کی خوشنودیوں کو حاصل کرنے کیلئے کتنا ہی حریص ہو اور اس کی عملی کوششیں بھی بڑھی چڑھی ہوئی ہوں۔ پھر بھی اس نے بندوں پر یہ حق واجب قرار دیا ہے کہ وہ مقدور بھر پند و نصیحت کریں اور اپنے درمیان حق کو قائم کرنے کیلئے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔ کوئی شخص بھی اپنے کو اس سے بے نیاز نہیں قرار دے سکتا کہ اللہ نے جس ذمہ داری کا بوجھ اس پر ڈالا ہے اس میں اس کا ہاتھ بٹایا جائے، چاہے وہ حق میں کتنا ہی بلند منزلت کیوں نہ ہو اور دین میں اسے فضیلت و برتری کیوں نہ حاصل ہو اور کوئی شخص اس سے بھی گیا گزرا نہیں کہ حق میں تعاون کرے یا اس کی طرف دست تعاون بڑھایا جائے، چاہے لوگ اسے ذلیل سمجھیں اور اپنی حقارت کی وجہ سے آنکھوں میں نہ جچے۔
فَاَجَابَهٗ ؑ رَجُلٌ مِّنْ اَصْحَابِهٖ بِكَلَامٍ طَوِیْلٍ، یُكْثِرُ فِیْهِ الثَّنَآءَ عَلَیْهِ، وَ یَذْكُرُ سَمْعَهٗ وَ طَاعَتَهٗ لَهٗ، فَقَالَ ؑ:
اس موقعہ پر آپؑ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے آپؑ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک طویل گفتگو کی جس میں حضرتؑ کی بڑی مدح و ثنا کی اور آپؑ کی باتوں پر کان دھرنے اور ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا اقرار کیا تو آپؑ نے فرمایا:
اِنَّ مِنْ حَقِّ مَنْ عَظُمَ جَلَالُ اللهِ فِیْ نَفْسِهٖ، وَ جَلَّ مَوْضِعُهٗ مِنْ قَلْبِهٖ، اَنْ یَّصْغُرَ عِنْدَهٗ ـ لِعِظَمِ ذٰلِكَ ـ كُلُّ مَا سِوَاهُ، وَ اِنَّ اَحَقَّ مَنْ كَانَ كَذٰلِكَ لَمَنْ عَظُمَتْ نِعْمَةُ اللهِ عَلَیْهِ، وَ لَطُفَ اِحْسَانُهٗۤ اِلَیْهِ، فَاِنَّهٗ لَمْ تَعْظُمْ نِعْمَةُ اللهِ عَلٰۤی اَحَدٍ اِلَّا ازْدَادَ حَقُّ اللهِ عَلَیْهِ عِظَمًا.
جس شخص کے دل میں جلالِ الٰہی کی عظمت اور قلب میں منزلت خداوندی کی رفعت کا احساس ہو اسے سزاوار ہے کہ اس جلالت و عظمت کے پیش نظر اللہ کے ما سوا ہر چیز کو حقیر جانے اور ایسے لوگوں میں وہ شخص اور بھی اس کا زیادہ اہل ہے کہ جسے اس نے بڑی نعمتیں دی ہوں اور اچھے احسانات کئے ہوں۔ اس لئے کہ جتنی اللہ کی نعمتيں کسی پر بڑی ہوں گی اُتنا ہی اُس پر اللہ کا حق زيادہ ہو گا۔
وَ اِنَّ مِنْ اَسْخَفِ حَالَاتِ الْوُلَاةِ عِنْدَ صَالِحِ النَّاسِ، اَنْ یُّظَنَّ بِهِمْ حُبُّ الْفَخْرِ، وَ یُوْضَعَ اَمْرُهُمْ عَلَی الْكِبْرِ، وَ قَدْ كَرِهْتُ اَنْ یَّكُوْنَ جَالَ فِیْ ظَنِّكُمْ اَنِّیْۤ اُحِبُّ الْاِطْرَآءَ، وَ اسْتِمَاعَ الثَّنَآءِ، وَ لَسْتُ ـ بِحَمْدِ اللهِ ـ كَذٰلِكَ، وَ لَوْ كُنْتُ اُحِبُّ اَنْ یُّقَالَ ذٰلِكَ لَتَرَكْتُهُ انْحِطَاطًا لِلّٰهِ سُبْحَانَهٗ عَنْ تَنَاوُلِ مَا هُوَ اَحَقُّ بِهٖ مِنَ الْعَظَمَةِ وَ الْكِبْرِیَآءِ.
نیک بندوں کے نزديک فرمانرواؤں کی ذلیل ترین صورت حال یہ ہے کہ ان کے متعلق یہ گمان ہونے لگے کہ وہ فخر و سر بلندی کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے حالات کبر و غرور پر محمول ہو سکیں۔ مجھے يہ تک ناگوار معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں اس کا وہم و گمان بھی گزرے کہ میں بڑھ چڑھ کر سراہے جانے یا تعریف سننے کو پسند کرتا ہوں۔ بحمد اللہ! کہ میں ایسا نہیں ہوں اور اگر مجھے اس کی خواہش بھی ہوتی کہ ایسا کہا جائے تو بھی اللہ کے سامنے فروتنی کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیتا کہ ایسی عظمت و بزرگی کو اپنایا جائے کہ جس کا وہی اہل ہے۔
وَ رُبَّمَا اسْتَحْلَی النَّاسُ الثَّنَآءَ بَعْدَ الْبَلَآءِ، فَلَا تُثْنُوْا عَلَیَّ بِجَمِیْلِ ثَنَآءٍ، لِاِخْرَاجِیْ نَفْسِیْۤ اِلَی اللهِ وَ اِلَیْكُمْ مِنَ التَّقِیَّةِ فِیْ حُقُوْقٍ لَّمْ اَفْرُغْ مِنْ اَدَآئِهَا، وَ فَرَآئِضَ لَا بُدَّ مِنْ اِمْضَآئِهَا، فَلَا تُكَلِّمُوْنِیْ بِمَا تُكَلَّمُ بِهِ الْجَبَابِرَةُ، وَ لَا تَتَحَفَّظُوْا مِنِّیْ بِمَا یُتَحَفَّظُ بِهٖ عِنْدَ اَهْلِ الْبَادِرَةِ، وَ لَا تُخَالِطُوْنِیْ بِالْمُصَانَعَةِ، وَ لَا تَظُنُّوْا بِیَ اسْتِثْقَالًا فِیْ حَقٍّ قِیْلَ لِیْ، وَ لَا الْتِمَاسَ اِعْظَامٍ لِّنَفْسِیْ، فَاِنَّهٗ مَنِ اسْتَثْقَلَ الْحَقَّ اَنْ یُّقَالَ لَهٗۤ اَوِ الْعَدْلَ اَنْ یُّعْرَضَ عَلَیْهِ، كَانَ الْعَمَلُ بِهِمَاۤ اَثْقَلَ عَلَیْهِ.
یوں تو لوگ اکثر اچھی کارکردگی کے بعد مدح و ثنا کو خوشگوار سمجھا کرتے ہیں (لیکن) میری اس پر مدح و ستائش نہ کر و کہ اللہ کی اطاعت اور تمہارے حقوق سے عہدہ برآ ہوا ہوں، کیونکہ ابھی ان حقوق کا ڈر ہے کہ جنہیں پورا کرنے سے میں ابھی فارغ نہیں ہوا اور ان فرائض کا ابھی اندیشہ ہے کہ جن کا نفاذ ضروری ہے۔ مجھ سے ویسی باتیں نہ کیا کرو جیسی جابر و سرکش فرمانرواؤں سے کی جاتی ہیں اور نہ مجھ سے اس طرح بچاؤ کرو جس طرح طیش کھانے والے حاکموں سے بچ بچاؤ کیا جاتا ہے اور مجھ سے اس طرح کا میل جول نہ رکھو جس سے چاپلوسی اور خوشامد کا پہلو نکلتا ہو۔ میرے متعلق یہ گمان نہ کرو کہ میرے سامنے کوئی حق بات کہی جائے گی تو مجھے گراں گزرے گی اور نہ یہ خیال کرو کہ میں یہ درخواست کروں گا کہ مجھے بڑھا چڑھا دو، کیونکہ جو اپنے سامنے حق کے کہے جانے اور عدل کے پیش کئے جانے کو بھی گراں سمجھتا ہو اُسے حق و انصاف پر عمل کرنا کہیں زیادہ دشوار ہو گا۔
فَلَا تَكُفُّوْا عَنْ مَّقَالَةٍۭ بِحَقٍّ، اَوْ مَشُوْرَةٍۭ بِعَدْلٍ، فَاِنِّیْ لَسْتُ فِیْ نَفْسِیْ بِفَوْقِ اَنْ اُخْطِئَ، وَ لَاۤ اٰمَنُ ذٰلِكَ مِنْ فِعْلِیْ، اِلَّا اَنْ یَّكْفِیَ اللهُ مِنْ نَّفْسِیْ مَا هُوَ اَمْلَكُ بِهٖ مِنِّیْ، فَاِنَّماۤ اَنَا وَ اَنْتُمْ عَبِیْدٌ مَّمْلُوْكُوْنَ لِرَبٍّ لَّا رَبَّ غَیْرُهٗ، یَمْلِكُ مِنَّا مَا لَا نَمْلِكُ مِنْ اَنْفُسِنَا، وَ اَخْرَجَنَا مِمَّا كُنَّا فِیْهِ اِلٰی مَا صَلَحْنَا عَلَیْهِ، فَاَبْدَلَنَا بَعْدَ الضَّلَالَةِ بِالْهُدٰی، وَ اَعْطَانَا الْبصِیْرَةَ بَعْدَ الْعَمٰی.
تم اپنے کو حق کی بات کہنے اور عدل کا مشورہ دینے سے نہ روکو۔ کیونکہ میں تو اپنے کو اس سے بالا تر نہیں سمجھتا کہ خطا کروں اور نہ اپنے کسی کام کو لغزش سے محفوظ سمجھتا ہوں [۱] ، مگر یہ کہ خدا میرے نفس کو اس سے بچائے کہ جس پر وہ مجھ سے زیادہ اختیار رکھتا ہے۔ ہم اور تم اسی رب کے بے اختیار بندے ہیں کہ جس کے علاوہ کوئی رب نہیں۔ وہ ہم پر اتنا اختیار رکھتا ہے کہ خود ہم اپنے نفسوں پر اتنا اختیار نہیں رکھتے۔ اسی نے ہمیں پہلی حالت سے نکال کر جس میں ہم تھے بہبودی کی راہ پر لگایا اور اسی نے ہماری گمراہی کو ہدایت سے بدلا اور بے بصیرتی کے بعد بصیرت عطا کی۔

۱؂یہ امر کسی تصریح کا محتاج نہیں ہے کہ عصمت مَلکی اور ہے اور عصمت بشری اور ہے۔ فرشتوں کے معصوم ہونے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ان میں کسی خطا و لغزش کی تحریک ہی پیدا نہیں ہوتی۔ مگر انسان کے معصوم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس میں بشری تقاضے اور نفسانی خواہشیں ہوتی ہیں، مگر وہ انہیں روکنے کی ایک قوت خاص رکھتا ہے اور ان سے مغلوب ہو کر کسی خطا کا مرتکب نہیں ہوتا اور اسی قوت کا نام عصمت ہے کہ جو ذاتی خواہشات و جذبات کو ابھرنے نہیں دیتی۔
حضرتؑ کے ارشاد: «فَاِنِّیْ لَسْتُ فِیْ نَفْسِیْ بِفَوْقِ اَنْ اُخْطِئَ» : ’’میں اپنے کو اس سے بالاتر نہیں سمجھتا کہ خطا کروں‘‘، میں انہی بشری تقاضوں اور خواہشوں کی طرف اشارہ ہے اور «اِلَّا اَنْ یَّكْفِیَ اللهُ مِنْ نَّفْسِیْ» : ’’مگر یہ کہ خدا میرے نفس کو اس سے بچائے رہے‘‘ میں عصمت کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ اسی لب و لہجہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی قرآن میں وارد ہوا ہے کہ ﴿وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِىْ‌ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىْ ؕ﴾[۱]: ’’میں اپنے نفس کو گناہ سے پاک نہیں ٹھہراتا کیونکہ انسان کا نفس گناہ پر بہت ابھارنے والا ہے، مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے‘‘، تو جس طرح یہاں پر ﴿اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيْ۝۰ۭ﴾ کا جو استثناء ہے اس کی وجہ سے آیت کے پہلے جز و سے آپؑ کی عصمت کے خلاف دلیل نہیں لائی جا سکتی، اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام کے کلام میں «اِلَّا اَنْ یَّكْفِیَ اللهُ مِنْ نَّفْسِیْ» کا جو استثناء ہے اس کے ہوتے ہوئے کلام کے پہلے ٹکڑے سے آپؑ کے غیر معصوم ہو نے پر استدلال نہیں کیا جا سکتا، ورنہ ایک نبی کی عصمت سے بھی انکار کرنا پڑے گا۔
یونہی اس خطبہ کے آخری ٹکڑے سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ آپؑ بعثت رسولؐ سے پہلے دور جاہلیت کے عقائد سے متاثر رہ چکے ہوں گے اور جس طرح دوسروں کا دامن کفر و شرک سے آلودہ رہ چکا تھا اسی طرح آپؑ بھی تاریکی و ضلالت میں رہے ہوں گے، کیونکہ آپؑ پیدائش کے دن سے رہبر عالم کے زیر سایہ پرورش پا رہے تھے اور انہی کی تعلیم و تربیت کے اثرات آپؑ کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے۔ لہٰذا یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ابتدائے عمر سے پیغمبر ﷺ کے نقش قدم پر چلنے والا زندگی کے کسی لمحہ میں ہدایت سے بیگانہ رہا ہو گا۔چنانچہ مسعودی نے تحریر کیا ہے کہ:
اِنَّهٗ لَمْ يُشْرِكْ بِاللّٰهِ شَيْئًا فَيَسْتَاْنِفُ الْاِسْلَامَ، بَلْ كَانَ تَابِعًا لِّلنَّبِیِّ ﷺ فِیْ جَمِيْعِ فِعَالِهٖ، مُقْتَدِيًۢا بِهٖ، وَ بَلَغَ وَ هُوَ عَلٰى ذٰلِكَ.
آپؑ نے کبھی شرک ہی نہیں کیا کہ اس سے الگ ہو کر آپؑ کے اسلام لانے کا سوال پیدا ہو، بلکہ تمام افعال و اعمال میں رسول ﷺ کے تابع اور ان کے پیرو تھے اور اسی حالت اتباع میں آپؑ نے سر حد بلوغ میں قدم رکھا۔
(مروج الذہب، ج۲، ص۳)
اس مقام پر ان لوگوں سے جن کو اللہ نے تاریکی و گمراہی سے راہ راست پر لگایا وہ لوگ مراد ہیں جو آپؑ کے مخاطب تھے۔چنانچہ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ:
لَيْسَ هٰذَا اِشَارَةٌ اِلٰى خَاصِّ نَفْسِهٖ ؑ، لِاَنَّهٗ لَمْ يَكُنْ كَافِرًا فَاَسْلَمَ وَ لٰكِنَّهٗ كَلَامٌ يَّقُوْلُهٗ وَ يُشِيْرُ بِهٖۤ اِلَى الْقَوْمِ الَّذِيْنَ يُخَاطِبُهُمْ مِنْ اَفْنَآءِ النَّاسِ‏.
یہ خود امیر المومنین علیہ السلام کی طرف اشارہ نہیں، کیونکہ وہ کبھی کافر نہیں رہے کہ کفر کے بعد اسلام لاتے، بلکہ لوگوں کی مختلف جماعتیں جو آپؑ کے مخاطب تھیں، ان کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔[۲]

[۱]۔ سورۂ یوسف، آیت ۵۳۔
[۲]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۱، ص ۱۰۸۔