مفلس اپنے شہرمیں رہ کر بھی غریب الوطن ہوتا ہے، اور عجز ودرماندگی مصیبت ہے۔ حکمت 3
(٢٠٥) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۰۵)
فِیْ بَعْضِ اَيَّامِ صِفِّيْنَ وَ قَدْ رَاَى الْحَسَنَ ابْنَہٗ ؑ يَتَسَرَّعُ اِلَى الْحَرْبِ:
صفین کے موقع پر جب آپؑ نے اپنے فرزند حسن علیہ السلام کو جنگ کی طرف تیزی سے لپکتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
اِمْلِكُوْا عَنِّیْ هٰذَا الْغُلَامَ لَا یَهُدَّنِیْ، فَاِنَّنِیْۤ اَنْفَسُ بِهٰذَیْنِ ـ یَعْنِی الْحَسَنَ وَ الْحُسَیْنَ عَلَیْهِمَا السَّلَامُ ـ عَلَی الْمَوْتِ، لِئَلَّا یَنْقَطِعَ بِهِمَا نَسْلُ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ.
میری طرف سے اس جوان کو روک لو، کہیں (اس کی موت) مجھے خستہ و بے حال نہ کر دے، کیونکہ میں ان دونوں نوجوانوں (حسن اور حسین علیہما السلام) کو موت کے منہ میں دینے سے بخل کرتا ہوں کہ کہیں ان کے (مرنے سے) رسول اللہ ﷺ کی نسل قطع نہ ہو جائے۔
وَ قَوْلُهٗ ؑ: «اِمْلِكُوْا عَنِّیْ هٰذَا الْغُلَامَ» مِنْ اَعْلَی الْكَلَامِ وَ اَفْصَحِهٖ.
سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: حضرتؑ کا ارشاد: «اِمْلِكُوْا عَنِّیْ هٰذَا الْغُلَامَ» : ’’میری طرف سے اس جوان کو روک لو‘‘ بہت بلند اور فصیح جملہ ہے۔