یہ فیصلہ پیغمبر اُمّی ﷺ کی زبان سے ہو گیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: «اے علی! کوئی مومن تم سے دشمنی نہ رکھے گا، اور کوئی منافق تم سے محبت نہ کرے گا»۔ حکمت 45
(١٥٢) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۵۲)
وَ نَاظِرُ قَلْبِ اللَّبِیْبِ بِهٖ یُبْصِرُ اَمَدَهٗ، وَ یَعْرِفُ غَوْرَهٗ وَ نَجْدَهٗ. دَاعٍ دَعَا، وَ رَاعٍ رَّعٰی، فَاسْتَجِیْبُوْا لِلدَّاعِیْ، وَ اتَّبِعُوا الرَّاعِیَ.
عقلمند دل کی آنکھوں سے اپنا مآلِ کار دیکھتا ہے اور اپنی اونچ نیچ (اچھی بری راہوں) کو پہچانتا ہے۔ دعوت دینے والے نے پکارا اور نگہداشت کرنے والے نے نگہداشت کی۔ بلانے والے کی آواز پر لبیک کہو اور نگہداشت کرنے والے کی پیروی کرو۔
قَدْ خَاضُوْا بِحَارَ الْفِتَنِ، وَ اَخَذُوْا بِالْبِدَعِ دُوْنَ السُّنَنِ، وَ اَرَزَ الْمُؤْمِنُوْنَ، وَ نَطَقَ الضَّالُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَ.
کچھ لوگ فتنوں کے دریاؤں میں اترے ہوئے ہیں اور سنتوں کو چھوڑ کر بدعتوں میں پڑ چکے ہیں، ایمان والے دبکے پڑے ہیں اور گمراہوں اور جھٹلانے والوں کی زبانیں کھلی ہوئی ہیں۔
نَحْنُ الشِّعَارُ وَ الْاَصْحَابُ، وَ الْخَزَنَةُ وَ الْاَبْوَابُ، وَ لَا تُؤْتَی الْبُیُوْتُ اِلَّا مِنْ اَبْوَابِهَا، فَمَنْ اَتَاهَا مِنْ غَیْرِ اَبْوَابِهَا سُمِّیَ سَارِقًا.
ہم قریبی تعلق رکھنے والے اور خاص ساتھی اور خزانہ دار اور دروازے ہیں اور گھروں میں دروازوں ہی سے آیا جاتا ہے اور جو دروازوں کو چھوڑ کر کسی اور طرف سے آئے اس کا نام چور ہوتا ہے۔
[مِنْهَا]
[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
فِیْهِمْ كَرَآئِمُ الْقُرْاٰنِ، وَ هُمْ كُنُوْزُ الرَّحْمٰنِ، اِنْ نَّطَقُوْا صَدَقُوْا، وَ اِنْ صَمَتُوْا لَمْ یُسْبَقُوْا.
(آل محمدؑ) انہی کے بارے میں قرآن کی نفیس آیتیں اتری ہیں اور وہ اللہ کے خزینے ہیں۔ اگر بولتے ہیں تو سچ بولتے ہیں اور اگر خاموش رہتے ہیں تو کسی کو بات میں پہل کا حق نہیں۔
فَلْیَصْدُقْ رَآئِدٌ اَهْلَهٗ، وَ لْیُحْضِرْ عَقْلَهٗ، وَ لْیَكُنْ مِّنْ اَبْنَآءِ الْاٰخِرَةِ، فَاِنَّهٗ مِنْهَا قَدِمَ وَ اِلَیْهَا یَنْقَلِبُ. فَالنَّاظِرُ بِالْقَلْبِ الْعَامِلُ بِالْبَصَرِ یَكُوْنُ مُبْتَدَاُ عَمَلِهٖۤ اَنْ یَّعْلَمَ: اَ عَمَلُهٗ عَلَیْهِ اَمْ لَهٗ؟! فَاِنْ كَانَ لَهٗ مَضٰی فِیْهِ، وَ اِنْ كَانَ عَلیْهِ وَقَفَ عَنْهُ.
پیشرو کو اپنے قوم قبیلے سے (ہر بات) سچ سچ بیان کرنا چاہیے اور اپنی عقل کو گم نہ ہونے دے اور اہل آخرت میں سے بنے۔ اس لئے کہ وہ اُدھر ہی سے آیا ہے اور اُدھر ہی اسے پلٹ کر جانا ہے۔ دل (کی آنکھوں) سے دیکھنے والے اور بصیرت کے ساتھ عمل کرنے والے کے عمل کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ وہ (پہلے) یہ جان لیتاہے کہ یہ عمل اس کیلئے فائدہ مند ہے یا نقصان رساں۔ اگر مفید ہوتا ہے تو آگے بڑھتا ہے، مضر ہوتا ہے تو ٹھہر جاتا ہے۔
فَاِنَّ الْعَامِلَ بِغَیْرِ عِلْمٍ كَالسَّآئِرِ عَلٰی غیْرِ طَرِیْقٍ، فَلَا یَزِیْدُهٗ بُعْدُهٗ عَنِ الطَّرِیْقِ اِلَّا بُعْدًا مِّنْ حَاجَتِهٖ، وَ الْعَامِلُ بِالْعِلْمِ كَالسَّآئِرِ عَلَی الطَّرِیْقِ الْوَاضِحِ، فَلْیَنْظُرْ نَاظِرٌ: اَ سَآئِرٌ هُوَ اَمْ رَاجِـعٌ؟!.
اس لئے کہ بے جانے بوجھے ہوئے بڑھنے والا ایسا ہے جیسے کوئی غلط راستے پر چل نکلے تو جتنا وہ اس راہ پر بڑھتا جائے گا اتنا ہی مقصد سے دور ہوتا جائے گا اور علم کی (روشنی میں) عمل کرنے والا ایسا ہے جیسے کوئی روشن راہ پر چل رہا ہو۔ (تو اب) دیکھنے والے کو چاہیے کہ وہ دیکھے کہ آگے کی طرف بڑھ رہا ہے یا پیچھے کی طرف پلٹ رہا ہے۔
وَ اعْلَمْ اَنَّ لِكُلِّ ظَاهِرٍۭ بَاطِنًا عَلٰی مِثَالِهٖ، فَمَا طَابَ ظَاهِرُهٗ طَابَ بَاطِنُهٗ. وَ مَا خَبُثَ ظَاهِرُهٗ خَبُثَ بَاطِنُهٗ، وَ قَدْ قَالَ الرَّسُوْلُ الصَّادِقُﷺ: «اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْعَبْدَ وَ یُبْغِضُ عَمَلَهٗ، وَ یُحِبُّ الْعَمَلَ وَ یُبْغِضُ بَدَنَهٗ».
تمہیں جاننا چاہیے کہ ہر ظاہر کا ویسا ہی باطن ہوتا ہے۔ جس کا ظاہر اچھا ہوتا ہے اس کا باطن بھی اچھا ہوتا ہے اور جس کا ظاہر برا ہوتا ہے اس کا باطن بھی برا ہوتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے جیسا رسولِ صادق ﷺ نے فرمایا ہے کہ: «اللہ ایک بندے کو (ایمان کی وجہ سے) دوست رکھتا ہے اور اس کے عمل کو برا سمجھتا ہے اور (کہیں) عمل کو دوست رکھتا ہے اور عمل کرنے والے کی ذات سے نفرت کرتا ہے»۔
وَ اعْلَمْ اَنَّ لِكُلِّ عَمَلٍ نَّبَاتًا، وَ كُلُّ نَبَاتٍ لَّا غِنٰی بِهٖ عَنِ الْمَآءِ، وَ الْمِیَاهُ مُخْتَلِفَةٌ، فَمَا طَابَ سَقْیُهٗ طَابَ غَرْسُهٗ وَ حَلَتْ ثَمَرَتُهٗ، وَ مَا خَبُثَ سَقْیُهٗ خَبُثَ غَرْسُهٗ وَ اَمَرَّتْ ثَمَرَتُهٗ.
دیکھو ہر عمل ایک اُگنے والا سبزہ ہے اور ہر سبزہ کیلئے پانی کا ہونا ضروری ہے اور پانی مختلف قسم کا ہوتا ہے۔ جہاں پانی اچھا دیا جائے گا وہاں پر کھیتی بھی اچھی ہو گی اور اس کا پھل بھی میٹھا ہو گا اور جہاں پانی برا دیا جائے گا وہاں کھیتی بھی بری ہو گی اور پھل بھی کڑوا ہو گا۔