صدقہ کامیاب دوا ہے۔ حکمت 6
(٣٦) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۳۶)
فِیْ تَخْوِیْـفِ اَهْلِ النَّهَرَوَانِ
اہل نہروان [۱] کو ان کے انجام سے ڈراتے ہوئے فرمایا
فَاَنَا نَذِیْرٌ لَّكُمْ اَنْ تُصْبِحُوْا صَرْعٰی بِاَثْنَآءِ هٰذَا النَّهَرِ، وَ بِاَهْضَامِ هٰذَا الْغَآئِطِ، عَلٰی غَیْرِ بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ، وَ لَا سُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ مَّعَكُمْ، قَدْ طَوَّحَتْ بِكُمُ الدَّارُ، وَ احْتَبَلَكُمُ الْمِقْدَارُ، وَ قَدْ كُنْتُ نَهَیْتُكُمْ عَنْ هٰذِهِ الْحُكُوْمَةِ فَاَبَیْتُمْ عَلَیَّ اِبَآءَ الْمُخَالِفِيْنَ الْمُنَابِذِیْنَ، حَتّٰی صَرَفْتُ رَاْیِیْ اِلٰی هَوَاكُمْ، وَ اَنْتُمْ مَعَاشِرُ اَخِفَّـآءُ الْهَامِ، سُفَهَآءُ الْاَحْلَامِ، وَ لَمْ اٰتِ ـ لَاۤ اَبَا لَكُمْ ـ بُجْرًا، وَ لَاۤ اَرَدْتُّ لَكُمْ ضُرًّا.
میں تمہیں متنبہ کر رہا ہوں کہ تم لوگ اس نہر کے موڑوں اور اس نشیب کی ہموار زمینوں پر قتل ہو ہو کر گرے ہوئے ہو گے، اس عالم میں کہ نہ تمہارے پاس اللہ کے سامنے (عذر کرنے کیلئے) کوئی واضح دلیل ہو گی نہ کوئی روشن ثبوت، اس طرح کہ تم اپنے گھروں سے بے گھر ہو گئے اور پھر قضائے الٰہی نے تمہیں اپنے پھندے میں جکڑ لیا۔ میں نے تو تمہیں پہلے ہی اس تحکیم سے روکا تھا، لیکن تم نے میرا حکم ماننے سے مخالف پیمان شکنوں کی طرح انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ (مجبوراً) مجھے بھی اپنی رائے کو ادھر موڑنا پڑا جو تم چاہتے تھے۔ تم ایک ایسا گروہ ہو جس کے افراد کے سر عقلوں سے خالی اور فہم و دانش سے عاری ہیں۔ خدا تمہارا بُرا کرے میں نے تمہیں نہ کسی مصیبت میں پھنسایا ہے نہ تمہارا بُرا چاہا تھا۔
۱جنگ نہروان کی وجہ یہ ہوئی کہ جب تحکیم کی قرارداد کے بعد امیر المومنین علیہ السلام کوفہ کی طرف پلٹ رہے تھے تو جو لوگ تحکیم کے منوانے میں پیش پیش تھے، یہ کہنے لگے کہ: اللہ کے علاوہ کسی کو حکم ٹھہرانا کفر ہے اور معاذا للہ! امیر المومنین علیہ السلام تحکیم کو مان کر کافر ہو گئے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے «لَاحُکْمَ اِلَّا لِلہِ» (حکم اللہ کیلئے مخصوص ہے) کو غلط معنی پہنا کر سیدھے سادھے مسلمانوں کو اپنا ہم خیال بنا لیا اور امیر المومنین علیہ السلام سے کٹ کر کوفہ کے قریب مقامِ حروراء میں ڈیرے ڈال دیئے۔ امیر المومنین علیہ السلام کو ان ریشہ دوانیوں کا علم ہوا تو آپؑ نے صعصعہ ابنِ صوحان اور زیاد ابنِ نضر حارثی کو ابنِ عباس کے ہمراہ ان کی طرف روانہ کیا اور بعد میں خود ان کی قیام گاہ تک تشریف لے گئے اور انہیں سمجھا بجھا کر منتشر کر دیا۔
جب یہ لوگ کوفہ پہنچے تو یہ مشہور کرنا شروع کر دیا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے تحکیم کے معاہدہ کو توڑ ڈالا ہے اور وہ پھر سے شامیوں کے مقابلہ کیلئے آمادہ ہیں۔ حضرتؑ کو معلوم ہوا تو آپؑ نے اس کی تردید فرمائی جس پریہ لوگ فتنہ انگیزی کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے اور بغداد سے بارہ میل کے فاصلہ پر نہر کے نشیبی حصہ میں کہ جسے ’’نہروان‘‘ کہا جاتا ہے پڑاؤ ڈال دیا۔
ادھر امیر المومنین علیہ السلام تحکیم کا فیصلہ سن کر سپاهِ شام سے لڑنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے اور خوارج کو تحریر کیا کہ حکمین نے کتاب و سنت کے بجائے خواہشِ نفسانی سے کام لیتے ہوئے جو فیصلہ کیا ہے وہ ہمیں منظور نہیں ہے، لہٰذا ہم نے ان سے لڑنے کی ٹھان لی ہے، تم بھی ہمارا ساتھ دو تا کہ دشمن کی سرکوبی کی جائے۔ مگر خوارج نے اس کا یہ جواب دیا کہ آپؑ نے جب تحکیم مان لی تھی تو آپؑ ہمارے نزدیک کافر ہو گئے تھے۔ اب اگر آپؑ اپنے کفر کا اقرار کرتے ہوئے تو بہ کریں تو ہم اس معاملہ میں غور کریں گے اور سوچیں گے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
حضرتؑ نے ان کے جواب سے سمجھ لیا کہ ان کی سرکشی و گمراہی بہت شدید ہو گئی ہے۔ اب ان سے کسی قسم کی امید رکھنا بیکار ہے۔ لہٰذا آپؑ نے انہیں نظر انداز کر کے شام کی طرف کوچ کرنے کیلئے وادی نخیلہ میں پڑاؤ ڈال دیا۔ جب لشکر ترتیب دیا جا چکا تو حضرتؑ کو معلوم ہوا کہ لشکر کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ پہلے اہل نہروان سے نپٹ لیں اور بعد میں شام کا رخ کریں۔ مگر حضرتؑ نے فرمایا کہ ابھی ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑو، پہلے شام کی طرف بڑھو اور پھر انہیں دیکھ لیا جائے گا۔ لوگوں نے کہا کہ ہم آپؑ کے ہر حکم کی تعمیل کیلئے بدل و جان حاضر ہیں۔ خواہ اِدھر چلیے یا اُدھر بڑھیے، لیکن ابھی لشکر نے حرکت نہ کی تھی کہ خوارج کی شورش انگیزیوں کی خبریں آنے لگیں اور معلوم ہوا کہ انہوں نے عامل نہروان عبداللہ ابن خباب اور ان کی کنیز کو اس بچے سمیت جو اس کے شکم میں تھا ذبح کر ڈالا ہے اور بنی طے کی تین عورتوں اور ام سنان صیداویہ کو بھی قتل کر دیا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے حارث ابن مرہ کو تحقیق حال کیلئے روانہ کیا، لیکن یہ بھی ان کے ہاتھ سے مارے گئے۔
جب ان کی شورش انگیزیاں اس حد تک بڑھ گئیں تو انہیں جھنجھوڑنا ضروری ہو گیا۔ چنانچہ لشکر نے نہر وان کا رُخ کر لیا اور وہاں پہنچ کر حضرتؑ نے انہیں کہلوا بھیجا کہ جن لوگوں نے عبداللہ ابن خباب اور بے گناہ عورتوں کو قتل کیا ہے انہیں ہمارے حوالے کرو تا کہ ہم اُن سے خون کا قصاص لیں۔ مگر اُن لوگوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ ہم سب نے مل کر اُن کو مارا ہے اور ہمارے نزدیک تم سب کا خون مباح ہے۔ اس پر بھی امیر المومنینؑ نے جنگ میں پہل نہ کی، بلکہ حضرت ابو ایوب انصاری کو پیغامِ امن دے کر اُن کی طرف بھیجا۔ چنانچہ اُنہوں نے پکار کر اُن سے کہا کہ جو شخص اس جھنڈے کے نیچے آ جائے گا یا اس جماعت سے کٹ کر کوفہ یا مدائن چلا جائے گا، اس کیلئے امان ہے اور اُس سے کوئی باز پرس نہیں کی جائے گی۔ چنانچہ اس کا یہ اثر ہوا کہ فروہ ابنِ نوفل اشجعی نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کس بنیاد پر امیر المومنین علیہ السلام سے آمادۂ پیکار ہوئے ہیں اور یہ کہہ کر پانچ سو آدمیوں کے ساتھ الگ ہو گئے اور یونہی لوگ گروہ در گروہ چھٹنا شروع ہو گئے اور کچھ لوگ امیرالمومنین علیہ السلام سے آ ملے۔ جو لوگ باقی رہ گئے اُن کی تعداد چار ہزار تھی۔ (طبری کی روایت کی بنا پر دو ہزار آٹھ سو تھی)۔ یہ لوگ کسی صورت میں دعوتِ حق کی پکار سننے کیلئے تیار نہ تھے اور مرنے مارنے پر اتر آئے تھے۔
حضرتؑ نے اپنی فوج کو پہل کرنے سے روک رکھا تھا، مگر خوارج نے کمانوں میں تیر جوڑ لئے اور تلواروں کی نیامیں توڑ کر پھینک دیں۔ حضرت علیہ السلام نے اس موقعہ پر بھی جنگ کے ہولناک نتائج اور اس کے انجامِ بد سے انہیں آگاہ کیا اور یہ خطبہ بھی اسی زجر و توبیخ کے سلسلہ میں ہے۔ لیکن وہ اس طرح جوش میں بھرے بیٹھے تھے کہ یک لخت سپاهِ امیر المومنین علیہ السلام پر ٹوٹ پڑے۔ یہ حملہ اتنا بے پناہ تھا کہ پیادوں کے قدم اُکھڑ گئے، لیکن پھر اس طرح جمے کہ تیر و سنان کے حملے انہیں اپنی جگہ سے نہ ہٹا سکے اور دیکھتے ہی دیکھتے خوارج کا اس طرح صفایا کیا کہ نو آدمیوں کے علاوہ کہ جنہوں نے بھاگ کر اپنی جان بچالی تھی ایک متنفس بھی زندہ نہ بچا۔ امیر المومنین علیہ السلام کے لشکر میں سے صرف آٹھ آدمی شہید ہوئے۔ یہ جنگ ۹ صفر ۳۸ ھ میں واقع ہوئی۔↑