جب تمہیں تھوڑی بہت نعمتیں حاصل ہوں تو ناشکری سے انہیں اپنے تک پہنچنے سے پہلے بھگا نہ دو۔ حکمت 12
(١٤٠) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۴۰)
وَ لَیْسَ لِوَاضِعِ الْمَعْرُوْفِ فِیْ غَیْرِ حَقِّهٖ وَ عِنْدَ غَیْرِ اَهْلِهٖ، مِنَ الْحَظِّ فِیْمَاۤ اَتٰی اِلَّا مَحْمَدَةُ اللِّئَامِ، وَثَنَآءُ الْاَشْرَارِ، وَ مَقَالَةُ الْجُهَّالِ، مَادَامَ مُنْعِمًا عَلَیْهِمْ، ماۤ اَجْوَدَ یَدَهٗ! وَ هُوَ عَنْ ذَاتِ اللهِ بَخِیْلٌ!.
جو شخص غیر مستحق کے ساتھ حسن سلوک برتتا ہے اور نااہلوں کے ساتھ احسان کرتا ہے، اس کے پلے یہی پڑتا ہے کہ کمینے اور شریر اس کی مدح و ثنا کرنے لگتے ہیں اور جب تک وہ دیتا دلاتا رہے جاہل کہتے رہتے ہیں کہ اس کا ہاتھ کتنا سخی ہے۔ حالانکہ اللہ کے معاملہ میں وہ بخل کرتا ہے۔
فَمَنْ اٰتَاهُ اللهُ مَالًا فَلْیَصِلْ بِهِ الْقَرَابَةَ، وَ لْیُحْسِنْ مِنْهُ الضِّیَافَةَ، وَ لْیَفُكَّ بِهِ الْاَسِیْرَ وَ الْعَانِیَ، وَ لْیُعْطِ مِنْهُ الْفَقِیْرَ وَ الْغَارِمَ، وَ لْیَصْبِرْ نَفْسَهٗ عَلَی الْحُقُوْقِ وَ النَّوَآئِبِ ابْتِغَآءَ الثَّوَابِ، فَاِنَّ فَوْزًۢا بِهٰذِهِ الْخِصَالِ شَرَفُ مَكَارِمِ الدُّنْیَا، وَ دَرْكُ فَضَآئِلِ الْاٰخِرَةِ، اِنْ شَآءَ اللهُ.
چاہیے تو یہ کہ اللہ نے جسے مال دیا ہے وہ اس سے عزیزوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، خوش اسلوبی سے مہمان نوازی کرے، قیدیوں اور خستہ حال اسیروں کو آزاد کرائے، محتاجوں اور قرضداروں کو دے اور ثواب کی خواہش میں حقوق کی ادائیگی اور مختلف زحمتوں کو اپنے نفس پر برداشت کرے۔ اس لئے کہ ان خصائل و عادات سے آراستہ ہونا دنیا کی بزرگیوں سے شرفیاب ہونا اور آخرت کی فضیلتوں کو پا لینا ہے۔ ان شاء اللہ!