صدقہ کامیاب دوا ہے۔ حکمت 6
(٢٦) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۶)
اِنَّ اللهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا ﷺ نَذِیْرًا لِّلْعٰلَمِیْنَ، وَ اَمِیْنًا عَلَى التَّنْزِیْلِ، وَ اَنْتُمْ مَعْشَرَ الْعَرَبِ عَلٰى شَرِّ دِیْنٍ، وَ فِیْ شَرِّ دَارٍ، مُنِیْخُوْنَ بَیْنَ حِجَارَةٍ خُشْنٍ وَّ حَیَّاتٍ صُمٍّ، تَشْرَبُوْنَ الْكَدِرَ، وَ تَاْكُلُوْنَ الْجَشِبَ، وَ تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ، وَتَقْطَعُوْنَ اَرْحَامَكُمْ، اَلْاَصْنَامُ فِیْكُمْ مَنْصُوْبَةٌ، وَ الْاٰثَامُ بِكُمْ مَعْصُوْبَةٌ.
اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمد ﷺ کو تمام جہانوں کو (ان کی بد اعمالیوں سے) متنبہ کرنے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا۔ اے گروہ عرب! اس وقت تم بد ترین دین پر اور بد ترین گھروں میں تھے، کھردرے پتھروں اور زہریلے سانپوں میں تم بود و باش رکھتے تھے، تم گدلا پانی پیتے اور موٹا جھوٹا کھاتے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے اور رشتہ قرابت قطع کیا کرتے تھے۔ بت تمہارے درمیان گڑے ہوئے تھے اور گناہ تم سے چمٹے ہوئے تھے۔
[وَ مِنْهَا]
[اسی خطبہ کا ایک حصہ یہ ہے]
فَنَظَرْتُ فَاِذَا لَیْسَ لِیْ مُعِیْنٌ اِلَّاۤ اَهْلُ بَیْتِیْ، فَضَنِنْتُ بِهِمْ عَنِ الْمَوْتِ، وَ اَغْضَیْتُ عَلَى الْقَذٰى، وَ شَرِبْتُ عَلَى الشَّجَا، وَ صَبَرْتُ عَلٰۤى اَخْذِ الْكَظَمِ،وَ عَلٰۤى اَمَرَّ مِنْ طَعْمِ الْعَلْقَمِ.
میں نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو مجھے اپنے اہل بیتؑ کے علاوہ کوئی اپنا معین و مدد گار نظر نہ آیا۔ میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے بخل کیا۔ آنکھوں میں خس و خاشاک تھا مگر میں نے چشم پوشی کی، حلق میں پھندے تھے مگر میں نے غم و غصہ کے گھونٹ پی لئے اور گلو گرفتگی کے باوجود حنظل سے زیادہ تلخ حالات پر صبر کیا۔
[وَ مِنْهَا]
[اسی خطبہ کا ایک جُز یہ ہے] [۱]
وَلَمْ یُبَایِـعْ حَتّٰى شَرَطَ اَنْ یُّؤْتِیَهٗ عَلَى الْبَیْعَةِ ثَمَنًا، فَلَا ظَفِرَتْ یَدُ الْبَآئِعِ، وَ خَزِیَتْ اَمَانَةُ الْمُبْتَاعِ! فَخُذُوْا لِلْحَرْبِ اُهْبَتَهَا، وَ اَعِدُّوْا لَهَا عُدَّتَهَا، فَقَدْ شَبَّ لَـظَاهَا، وَ عَلَا سَنَاهَا، وَ اسْتَشْعِرُوا الصَّبْرَ، فَاِنَّهٗۤ اَدْعٰۤى اِلَى النَّصْرِ.
اس نے اس وقت تک معاویہ کی بیعت نہیں کی جب تک یہ شرط اس سے منوانہ لی کہ وہ اس بیعت کی قیمت ادا کرے۔ اس بیعت کرنے والے کے ہاتھوں کو فتح و فیروز مندی نصیب نہ ہو اور خریدنے والے کے معاہدے کو ذلت و رسوائی حاصل ہو۔ (لو اب وقت آ گیا کہ) تم جنگ کیلئے تیار ہو جاؤ اور اس کیلئے ساز و سامان مہیا کرلو۔ اس کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں اور لپٹیں بلند ہو رہی ہیں اور جامۂ صبر پہن لو کہ اس سے نصرت و کامرانی حاصل ہونے کا زیادہ امکان ہے۔
۱حضرتؑ نے نہروان کی طرف متوجہ ہونے سے قبل ایک خطبہ ارشاد فرمایا تھا جس کے تین ٹکڑے یہ ہیں: پہلے ٹکڑے میں بعثت سے قبل جو عرب کی حالت تھی اس کا تذکرہ فرمایا ہے اور دوسرے حصے میں رسول ﷺ کی رحلت کے بعد جن حالات نے آپؑ کو گوشہ عزلت میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا تھا ان کی طرف اشارہ کیا ہے اور تیسرے حصے میں معاویہ اور عمرو بن عاص کے درمیان جو قول و قرار ہوا تھا اس کا ذکر کیا ہے۔ اس باہمی معاہدہ کی صورت یہ تھی کہ جب امیر المومنین علیہ السلام نے جریر ابنِ عبد اللہ بجلی کو بیعت لینے کیلئے معاویہ کے پاس روانہ کیا تو اس نے جریر کو جواب دینے کے بہانے روک لیا اور اس دوران میں اہل شام کو ٹٹولنا شروع کیا کہ وہ کہاں تک اس کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ چنانچہ جب انہیں خونِ عثمان کے انتقام پر اُبھار کر اپنا ہمنوا بنا لیا تو اپنے بھائی عتبہ ابنِ ابی سفیان سے مشورہ کیا۔ اس نے رائے دی کہ اگر اس کام میں عمرو ابنِ عاص کو ساتھ ملا لیا جائے تو وہ اپنی سوجھ بوجھ سے بہت سی مشکلوں کو آسان کر سکتا ہے، لیکن وہ یوں ہی تمہارے اقتدار کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہو گا، جب تک کہ اس کی منہ مانگی قیمت حاصل نہ کرے گا۔ اگر تم اس کیلئے تیار ہو تو وہ تمہارے لئے بہترین مشیر و معاون ثابت ہو گا۔ معاویہ نے اس مشورہ کو پسند کیا اور عمرو ابنِ عاص کو بلا کر اس سے گفتگو کی اور آخر یہ طے پایا کہ وہ حکومت مصر کے بدلے میں امیر المومنین علیہ السلام کو موردِ الزام ٹھہرا کر قتلِ عثمان کا انتقام لے گا اور جس طرح بن پڑے گا معاویہ کے شامی اقتدار کو متزلزل نہ ہونے دے گا۔ چنانچہ ان دونوں نے معاہدہ کی پابندی کی اور اپنے قول و قرار کو پوری طرح نبھایا۔