جب تم پر کوئی احسان کرے تو اس سے بڑھ چڑھ کر بدلہ دو، اگرچہ اس صورت میں بھی فضیلت پہل کرنے والے ہی کیلئے ہو گی۔ حکمت 62
(١٦٤) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۶۴)
لِیَتَاَسَّ صَغِیْرُكُمْ بِكَبِیْرِكُمْ، وَلْیَرْاَفْ كَبِیْرُكُمْ بِصَغِیْرِكُمْ، وَ لَا تَكُوْنُوْا كَجُفَاةِ الْجَاهِلِیَّةِ: لَا فِی الدِّیْنِ یَتَفَقَّهُوْنَ، وَ لَا عَنِ اللهِ یَعْقِلُوْنَ، كَقَیْضِ بَیْضٍ فِیْۤ اَدَاحٍ یَّكُوْنُ كَسْرُهَا وِزْرًا، وَ یُخْرِجُ حِضَانُهَا شَرًّا.
تمہارے چھوٹوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں کی پیروی کریں اور بڑوں کو چاہئے کہ وہ چھوٹوں سے شفقت و مہربانی سے پیش آئیں۔ زمانۂ جاہلیت کے ان اُجڈ آدمیوں کے مانند نہ ہو جاؤ کہ جو نہ دین میں فہم و بصیرت سے اور نہ اللہ کے بارے میں عقل و فہم سے کام لیتے تھے۔ وہ ان انڈوں کے چھلکوں کی طرح ہیں جو شتر مرغوں کے انڈے دینے کی جگہ پر رکھے ہوں جن کا توڑنا گناہ معلوم ہوتا ہے مگر انہیں سینے کیلئے چھوڑ دینا ایذا رساں بچوں کے نکالنے کا سبب ہوتا ہے۔ [۱]
[مِنْهَا]
[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
اِفْتَرَقُوْا بَعْدَ اُلْفَتِهِمْ، وَ تَشَتَّتُوْا عَنْ اَصْلِهِمْ، فَمِنْهُمْ اٰخِذٌۢ بِغُصْنٍ اَیْنَما مَالَ مَالَ مَعَهٗ. عَلٰۤی اَنَّ اللهَ تَعَالٰی سَیَجْمَعُهُمْ لِشَرِّ یَوْمٍ لِّبَنِیْۤ اُمَیَّةَ، كَمَا تَجْتَمِـعُ قَزَعُ الْخَرِیْفِ! یُؤَلِّفُ اللهُ بَیْنَهُمْ، ثُمَّ یَجْعَلُهُمْ رُكَامًا كَرُكَامِ السَّحَابِ، ثُمَّ یَفْتَحُ لَهُمْ اَبْوَابًا، یَسِیْلُوْنَ مِنْ مُّسْتَثَارِهِمْ كَسَیْلِ الْجَنَّتَیْنِ، حَیْثُ لَمْ تَسْلَمْ عَلَیْهِ قَارَةٌ،وَ لَمْ تَثْبُتْ عَلَیْهِ اَكَمَةٌ، وَ لَمْ یَرُدَّ سَنَنَهٗ رَصُّ طَوْدٍ، وَ لَا حِدَابُ اَرْضٍ.
وہ الفت و یکجائی کے بعد الگ الگ اور اپنے مرکز سے منتشر ہو گئے ہوں گے۔ البتہ ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو ایک شاخ کو پکڑے رہیں گے کہ جدھر یہ جھکے ادھر وہ جھکیں گے، یہاں تک کہ اللہ جلد ہی اس دن کیلئے کہ جو بنی امیہ کیلئے بدترین دن ہو گا انہیں اس طرح جمع کرے گا جس طرح خریف کے موسم میں بادل کے ٹکڑے جمع ہو جاتے ہیں۔ اللہ ان کے درمیان محبت و دوستی پیدا کرے گا اور پھر ان کا تہ بہ تہ جمے ہوئے ابر کی طرح ایک مضبوط جتھا بنا دے گا اور ان کیلئے دروازوں کو کھول دے گا کہ وہ اپنے ابھرنے کے مقام سے شہر سبا کے دو باغوں کے اس سیلاب کی طرح بہہ نکلیں گے جس سے نہ کوئی چٹان محفوظ رہی تھی اور نہ کوئی ٹیلہ اس کے سامنے ٹک سکا تھا اور نہ پہاڑ کی مضبوطی اور نہ زمین کی اونچائی اس کا دھارا موڑ سکی تھی۔
یُذَعْذِعُهُمُ اللهُ فِیْ بُطُوْنِ اَوْدِیَتِهٖ، ثُمَّ یَسْلُكُهُمْ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ، یَاْخُذُ بِهِمْ مِنْ قَوْمٍ حُقُوْقَ قَوْمٍ، وَ یُمَكِّنُ لِقَوْمٍ فِیْ دِیَارِ قَوْمٍ. وَایْمُ اللهِ! لَیَذُوْبَنَّ مَا فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ بَعْدَ الْعُلُوِّ وَالتَّمْكِیْنِ، كَمَا تَذُوْبُ الْاَلْیَةُ عَلَی النَّارِ.
اللہ سبحانہ انہیں گھاٹیوں کے نشیبوں میں متفرق کر دے گا۔ پھر انہیں چشموں (کے بہاؤ) کی طرح زمین میں پھیلا دے گا اور ان کے ذریعہ سے کچھ لوگوں کے حقوق کچھ لوگوں سے لے گا اور ایک قوم کو دوسری قوم کے شہروں پر متمکن کر دے گا۔ خدا کی قسم! ان کی سر بلندی و اقتدار کے بعد جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہو گا اس طرح پگھل جائے گا جس طرح آگ پر چربی۔
اَیُّهَا النَّاسُ! لَوْ لَمْ تَتَخَاذَلُوْا عَنْ نَّصْرِ الْحَقِّ، وَ لَمْ تَهِنُوْا عَنْ تَوْهِیْنِ الْبَاطِلِ، لَمْ یَطْمَعْ فِیْكُمْ مَنْ لَّیْسَ مِثْلَكُمْ، وَ لَمْ یَقْوَ مَنْ قَوِیَ عَلَیْكُمْ، لٰكِنَّكُمْ تِهْتُمْ مَتَاهَ بَنِیْۤ اِسْرَآئِیْلَ. وَ لَعَمْرِیْ! لَیُضَعَّفَنَّ لَكُمُ التِّیْهُ مِنْۢ بَعْدِیْۤ اَضْعَافًا، بِمَا خَلَّفْتُمُ الْحَقَّ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْ، وَ قَطَعْتُمُ الْاَدْنٰی، وَ وَصَلْتُمُ الْاَبْعَدَ.
اے لوگو! اگر تم حق کی نصرت و امداد سے پہلو نہ بچاتے اور باطل کو کمزور کرنے سے کمزوری نہ دکھاتے تو جو تمہارا ہم پایہ نہ تھا وہ تم پر دانت نہ رکھتا اور جس نے تم پر قابو پا لیا وہ تم پر قابو نہ پاتا۔ لیکن تم تو بنی اسرائیل کی طرح صحرائے تیہ میں بھٹک گئے۔ اور اپنی جان کی قسم! میرے بعد تمہاری سرگردانی و پریشانی کئی گنا بڑھ جائے گی، کیونکہ تم نے حق کو پس پشت ڈال دیا ہے اور قریبیوں سے قطع تعلق کر لیا اور دور والوں سے رشتہ جوڑ لیا ہے۔
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ اِنِ اتَّبَعْتُمُ الدَّاعِیَ لَكُمْ، سَلَكَ بِكُمْ مِنْهَاجَ الرَّسُوْلِ، وَ كُفِیْتُمْ مَؤٗنَةَ الْاِعْتِسَافِ، وَ نَبَذْتُمُ الثِّقْلَ الْفَادِحَ عَنِ الْاَعْنَاقِ.
یقین رکھو کہ اگر تم دعوت دینے والے کی پیروی کرتے تو وہ تمہیں رسول اللہ ﷺ کے راستہ پر لے چلتا اور تم بے راہ روی کی زحمتوں سے بچ جاتے اور اپنی گردنوں سے بھاری بوجھ اتار پھینکتے۔
۱مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے ظاہری اسلام کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان پر تشدد نہ کیا جائے، مگر اس طرح انہیں چھوڑ دینے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ شر و مفاسد پھیلاتے ہیں۔