جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا اس نے اپنے کو سبک کیا۔ حکمت 2
(٥٥) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۵۵)
وَ قَدِ اسْتَبْطَاَ اَصْحَابُهٗ اِذْنَهٗ لَهُمْ فِی الْقِتَالِ بِصِفِّيْنَ:
صفین میں حضرت علیہ السلام کے اصحاب نے جب اِذنِ جہاد دینے میں تاخیر پر بے چینی کا اظہار کیا، تو آپؑ نے ارشاد فرمایا:
اَمَّا قَوْلُكُمْ: اَ كُلُّ ذٰلِكَ كَرَاهِیَةَ الْمَوْتِ؟ فَوَاللهِ! مَاۤ اُبَالِیْ دَخَلْتُ اِلَی الْمَوْتِ اَوْ خَرَجَ الْمَوْتُ اِلَیَّ.
تم لوگوں کا یہ کہنا :یہ پس و پیش کیا اس لئے ہے کہ میں موت کو ناخوش جانتا ہوں اور اس سے بھاگتا ہوں، تو خدا کی قسم! مجھے ذرا پروا نہیں کہ مَیں موت کی طرف بڑھوں یا موت میری طرف بڑھے۔
وَ اَمَّا قَوْلُكُمْ: شَكًّا فِیْ اَهْلِ الشَّامِ! فَوَاللهِ! مَا دَفَعْتُ الْحَرْبَ یَوْمًا اِلَّا وَ اَنَا اَطْمَعُ اَنْ تَلْحَقَ بِیْ طَآئِفَةٌ فَتَهْتَدِیَ بِیْ، وَ تَعْشُوَ اِلٰی ضَوْئِیْ، وَ ذٰلِكَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اَقْتُلَهَا عَلٰی ضَلَالِهَا، وَ اِنْ كَانَتْ تَبُوْٓءُ بِاٰثَامِهَا.
اور اس طرح تم لوگوں کا یہ کہنا کہ مجھے اہل شام سے جہاد کرنے کے جواز میں کچھ شبہ ہے تو خدا کی قسم! میں نے جنگ کو ایک دن کیلئے بھی التوا میں نہیں ڈالا، مگر اس خیال سے کہ ان میں سے شاید کوئی گروہ مجھ سے آ کر مل جائے اور میری وجہ سے ہدایت پا جائے اور اپنی چندھیائی ہوئی آنکھوں سے میری روشنی کو بھی دیکھ لے اور مجھے یہ چیز گمراہی کی حالت میں انہیں قتل کر دینے سے کہیں زیادہ پسند ہے۔ اگرچہ اپنے گناہوں کے ذمہ دار بہرحال یہ خود ہوں گے۔