صبر دو طرح کا ہوتاہے: ایک ناگوار باتوں پر صبر اور دوسرے پسندیدہ چیزوں سے صبر۔ حکمت 55
(٥٤) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۵۴)
فَتَدَاكُّوْا عَلَیَّ تَدَاكَّ الْاِبِلِ الْهِیْمِ یَوْمَ وِرْدِهَا، قَدْ اَرْسَلَهَا رَاعِیْهَا، وَ خُلِعَتْ مَثَانِیْهَا، حَتّٰی ظَنَنْتُ اَنَّهُمْ قَاتِلِیَّ، اَوْ بَعْضَهُمْ قَاتِلُ بَعْضٍ لَّدَیَّ، وَ قَدْ قَلَّبْتُ هٰذَا الْاَمْرَ بَطْنَهٗ وَ ظَهْرَهٗ، فَمَا وَجَدْتُّنِیْ یَسَعُنِیْۤ اِلَّا قِتَالُهُمْ اَوِ الْجُحُوْدُ بِمَا جَآءَ بِهٖ مُحَمَّدٌ ﷺ، فَكَانَتْ مُعَالَجَةُ الْقِتَالِ اَهْوَنَ عَلَیَّ مِنْ مُّعَالَجَةِ الْعِقَابِ، وَ مَوْتَاتُ الدُّنْیَا اَهْوَنَ عَلَیَّ مِنْ مَّوْتَاتِ الْاٰخِرَةِ.
وہ اس طرح بے تحاشا میری طرف لپکے جس طرح پانی پینے کے دن وہ اونٹ ایک دوسرے پر ٹوٹتے ہیں کہ جنہیں ان کے ساربان نے پیروں کے بندھن کھول کر کھلا چھوڑ دیا ہو۔ یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ یا تو مجھے مار ڈالیں گے، یا میرے سامنے ان میں سے کوئی کسی کا خون کر دے گا۔ میں نے اس امر کو اندر باہر سے الٹ پلٹ کر دیکھا تو مجھے جنگ کے علاوہ کوئی صورت نظر نہ آئی، یا یہ کہ محمد ﷺ کے لائے ہوئے احکام سے انکار کر دوں، لیکن آخرت کی سختیاں جھیلنے سے مجھے جنگ کی سختیاں جھیلنا سہل نظر آیا اور آخرت کی تباہیوں سے دنیا کی ہلاکتیں میرے لئے آسان نظر آئیں۔