وہ علم بہت بے قدر و قیمت ہے جو زبان تک رہ جائے، اور وہ علم بہت بلند مرتبہ ہے جو اعضا و جوارح سے نمودار ہو۔ حکمت 92
(١٠٦) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۰۶)
وَ هِیَ مِنْ خُطَبِ الْمَلَاحِمِ
یہ ان خطبوں میں سے ہے جن میں زمانہ کے حوادث و فتن کا تذکرہ ہے
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْمُتَجَلِّیْ لِخَلْقِهٖ بِخَلْقِهٖ، وَ الظَّاهِرِ لِقُلُوْبِهِمْ بِحُجَّتِهٖ، خَلَقَ الْخَلْقَ مِنْ غَیْرِ رَوِیَّةٍ، اِذْ كَانَتِ الرَّوِیَّاتُ لَا تَلِیْقُ اِلَّا بِذَوِی الضَّمَآئِرِ، وَ لَیْسَ بِذِیْ ضَمِیْرٍ فِیْ نَفْسِهٖ. خَرَقَ عِلْمُهٗ بَاطِنَ غَیْبِ السُّتُرَاتِ، وَ اَحَاطَ بِغُمُوْضِ عَقَآئِدِ السَّرِیْرَاتِ.
تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو اپنے مخلوقات کی وجہ سے مخلوقات کے سامنے عیاں ہے اور اپنی حجت و برہان کے ذریعہ سے دلوں میں نمایاں ہے۔ اس نے بغیر سوچ بچار میں پڑے مخلوق کو پیدا کیا۔ اس لئے کہ غور و فکر اس کے مناسب ہوا کرتی ہے جو دل و دماغ (جیسے اعضاء) رکھتا ہو اور وہ دل و دماغ کی احتیاج سے بری ہے۔ اس کا علم غیب کے پردوں میں سرایت کئے ہوئے ہے اور عقیدوں کی گہرائیوں کی تہ تک اترا ہوا ہے۔
[مِنْهَا: فِیْ ذِكْرِ النَّبِیِّ ﷺ]
[اس خطبہ کا یہ جُز نبی ﷺ کے متعلق ہے]
اِخْتَارَهٗ مِنْ شَجَرَةِ الْاَنْۢبِیَآءِ، وَ مِشْكَاةِ الضِّیَآءِ، وَ ذُؤَابَةِ الْعَلْیَآءِ، وَ سُرَّةِ الْبَطْحَآءِ، وَ مَصَابِیْحِ الظُّلْمَةِ، وَ یَنَابِیْعِ الْحِكْمَةِ.
انہیں انبیاءؑ کے شجرہ، روشنی کے مرکز (آل ابراہیمؑ)، بلندی کی جبیں (قریش)، بطحاء کی ناف (مکہ) اور اندھیرے کے چراغوں اور حکمت کے سر چشموں سے منتخب کیا۔
[وَ مِنْهَا]
[اس خطبہ کا یہ حصہ بھی رسول ﷺ ہی سے متعلق ہے]
طَبِیْبٌ دَوَّارٌۢ بِطِبِّهٖ، قَدْ اَحْكَمَ مَرَاهِمَهٗ، وَ اَحْمٰی مَوَاسِمَهٗ، یَضَعُ مِنْ ذٰلِكَ حَیْثُ الْحَاجَةُ اِلَیْهِ، مِنْ قُلُوْبٍ عُمْیٍ، وَ اٰذَانٍ صُمٍّ، وَ اَلْسِنَةٍۭ بُكْمٍ، مُتَتَبِّـعٌۢ بِدَوَآئِهٖ مَوَاضِعَ الْغَفْلَةِ، وَ مَوَاطِنَ الْحَیْرَةِ، لَمْ یَسْتَضِیْٓئُوْا بِاَضْوَآءِ الْحِكْمَةِ، وَ لَمْ یَقْدَحُوْا بِزِنَادِ الْعُلُوْمِ الثَّاقِبَةِ، فَهُمْ فِیْ ذٰلِكَ كَالْاَنْعَامِ السَّآئِمَةِ، وَ الصُّخُوْرِ الْقَاسِیَةِ.
وہ ایک طبیب تھے جو اپنی حکمت و طب کو لئے ہوئے چکر لگا رہا ہو، اس نے اپنے مرہم ٹھیک ٹھاک کر لئے ہوں اور داغنے کے آلات تپا لئے ہوں، وہ اندھے دلوں، بہرے کانوں، گونگی زبانوں ( کے علاج معالجہ) میں جہاں ضرورت ہوتی ہے، ان چیزوں کو استعمال میں لاتا ہو اور دوا لئے غفلت زدہ اور حیرانی و پریشانی کے مارے ہوؤں کی کھوج میں لگا رہتا ہو۔ مگر لوگوں نے نہ تو حکمت کی تنویروں سے ضیا و نور کو حاصل کیا اور نہ علومِ درخشاں کے چقماق کو رگڑ کر نورانی شعلے پیدا کئے، وہ اس معاملہ میں چرنے والے حیوانوں اور سخت پتھروں کے مانند ہیں۔
قَدِ انْجَابَتِ السَّرآئِرُ لِاَهْلِ الْبَصَآئِرِ، وَ وَضَحَتْ مَحَجَّةُ الْحَقِّ لِخَابِطِهَا، وَ اَسْفَرَتِ السَّاعَةُ عَنْ وَّجْهِهَا، وَ ظَهَرَتِ الْعَلَامَةُ لِمُتَوَسِّمِهَا. مَا لِیْۤ اَرَاكُمْ اَشْبَاحًۢا بِلَاۤ اَرْوَاحٍ، وَ اَرْوَاحًۢا بِلَاۤ اَشْبَاحٍ، وَ نُسَّاكًۢا بِلَا صَلَاحٍ، وَ تُجَّارًۢا بِلَاۤ اَرْبَاحٍ، وَ اَیْقَاظًا نُّوَّمًا، وَ شُهُوْدًا غُیَّبًا، وَ نَاظِرَةً عَمْیَآءَ، و سَامِعَةً صَمَّآءَ، وَ نَاطِقَةًۢ بَكْمَآءَ.
اہل بصیرت کیلئے چھپی ہوئی چیزیں ظاہر ہو گئی ہیں اور بھٹکنے والوں کیلئے حق کی راہ واضح ہو گئی اور آنے والی ساعت نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دی اور غور سے دیکھنے والوں کیلئے علامتیں ظاہر ہو چکی ہیں، لیکن تمہیں مَیں دیکھتا ہوں کہ پیکر بے روح اور روحِ بے قالب بنے ہوئے ہو، عابد بنے پھرتے ہو بغیر صلاح و تقویٰ کے اور تاجر بنے ہوئے ہو بغیر فائدوں کے، بیدار ہو مگر سو رہے ہو، حاضر ہو مگر ایسے جیسے غائب ہوں، دیکھنے والے ہو مگر اندھے، سننے والے ہو مگر بہرے، بولنے والے ہو مگر گونگے۔
رَایَةُ ضَلَالَۃٍ قَدْ قَامَتْ عَلٰی قُطْبِهَا، وَ تَفَرَّقَتْ بِشُعَبِهَا، تَكِیْلُكُمْ بِصَاعِهَا، وَ تَخْبِطُكُمْ بِبَاعِهَا، قَآئِدُهَا خَارِجٌ مِّنَ الْمِلَّةِ، قَآئِمٌ عَلٰی الضَّلَّةِ، فَلَا یَبْقٰی یَوْمَئِذٍ مِّنْكُمْ اِلَّا ثُفَالَةٌ كَثُفَالَةِ الْقِدْرِ، اَوْ نُفَاضَةٌ كَنُفَاضَةِ الْعِكْمِ، تَعْرُكُكُمْ عَرْكَ الْاَدِیْمِ، وَ تَدُوْسُكُمْ دَوْسَ الْحَصَیْدِ، وَ تَسْتَخْلِصُ الْمُؤْمِنَ مِنْۢ بَیْنِكُمُ اسْتِخْلَاصَ الطَّیْرِ الْحَبَّةَ الْبَطِیْنَةَ مِنْۢ بَیْنِ هَزِیْلِ الْحَبِّ.
گمراہی کا جھنڈا تو اپنے مرکز پر جم چکا ہے اور اس کی شاخیں (ہرسو) پھیل گئی ہیں۔ تمہیں (تباہ کرنے کیلئے) اپنے پیمانوں میں تول رہا ہے اور اپنے ہاتھوں سے تمہیں اِدھر ُادھر بھٹکا رہا ہے اس کا پیشرو ملتِ (اسلام) سے خارج ہے اور گمراہی پر ڈٹا کھڑا ہے۔ اس دن تم میں سے کوئی نہیں بچے گا، مگر کچھ گرے پڑے لوگ، جیسے دیگ کی کھرچن یا تھیلے کے جھاڑنے سے گرے ہوئے ریزے۔ وہ گمراہی تمہیں اس طرح مسل ڈالے گی جس طرح چمڑے کو مسلا جاتا ہے اور اس طرح روندے گی جیسے کٹی ہوئی زراعت کو روندا جاتا ہے اور (مصیبت و ابتلا کیلئے) تم میں سے مومن (کامل) کو اس طرح چن لے گی جس طرح پرندہ باریک دانوں میں سے موٹے دانہ کو چن لیتا ہے۔
اَیْنَ تَذْهَبُ بِكُمُ الْمَذَاهِبُ، وَ تَتِیْهُ بِكُمُ الْغَیَاهِبُ، وَ تَخْدَعُكُمُ الْكَوَاذِبُ؟ وَ مِنْ اَیْنَ تُؤْتَوْنَ وَ ﴿اَنّٰی تٌؤْفَكُوْنَ﴾؟ فَلِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابٌ، وَ لِكُلِّ غَیْبَةٍ اِیَابٌ، فَاسْتَمِعُوْا مِنْ رَّبَّانِیِّكُمْ، وَ اَحْضِرُوْا قُلُوْبَكُمْ، وَ اسْتَیْقِظُوْا اِنْ هَتَفَ بِكُمْ، وَ لْیَصْدُقْ رَآئِدٌ اَهْلَهٗ، وَ لْیَجْمَعْ شَمْلَهٗ، وَ لْیُحْضِرْ ذِهْنَهٗ، فَلَقَدْ فَلَقَ لَكُمُ الْاَمْرَ فَلْقَ الْخَرَزَةِ، وَ قَرَفَهٗ قَرْفَ الصَّمْغَةِ.
یہ (غلط) روشیں تمہیں کہاں لئے جا رہی ہیں اور یہ اندھیاریاں تمہیں کن پریشانیوں میں ڈال رہی ہیں اور یہ جھوٹی امیدیں تمہیں کاہے کا فریب دے رہی ہیں؟ کہاں سے لائے جاتے ہو اور کدھر پلٹائے جاتے ہو؟ ہر میعاد کا ایک نوشتہ ہوتا ہے اور ہر غائب کو پلٹ کر آنا ہے۔ اپنے عالم ربانی سے سنو۔ اپنے دلوں کو حاضر کرو۔ اگر تمہیں پکارے تو جاگ اٹھو۔ قوم کے نمائندہ کو تو اپنی قوم سے سچ ہی بولنا چاہیے اور اپنی پریشاں خاطری میں یکسوئی پیدا کرنا اور اپنے ذہن کو حاضر رکھنا چاہیے۔ چنانچہ اس نے حقیقت کو اس طرح واشگاف کر دیا ہے جس طرح (دھاگے میں پروئے جانے والے)مہرہ کو چیر دیا جاتا ہے اور اس طرح اسے (تہ سے) چھیل ڈالا ہے جیسے درخت سے گوند۔
فَعِنْدَ ذٰلِكَ اَخَذَ الْبَاطِلُ مَاٰخِذَهٗ، وَ رَكِبَ الْجَهْلُ مَرَاكِبَهٗ، وَ عَظُمَتِ الطَّاغِیَةُ، وَ قَلَّتِ الدَّاعِیَةُ، وَ صَالَ الدَّهْرُ صِیَالَ السَّبُعِ الْعَقُوْرِ، وَ هَدَرَ فَنِیْقُ الْبَاطِلِ بَعْدَ كُظُوْمٍ، وَ تَوَاخَی النَّاسُ عَلَی الْفُجْوْرِ، وَ تَهَاجَرُوْا عَلَی الدِّیْنِ، وَ تَحَابُّوْا عَلَی الْكَذِبِ، وَ تَبَاغَضُوْا عَلَی الصِّدْقِ.
باوجود اس کے باطل پھر اپنے مرکز پر آ گیا اور جہالت اپنی سواریوں پر چڑھ بیٹھی، اس کی طغیانیاں بڑھ گئی ہیں اور (حق کی) آواز دَب گئی ہے اور زمانہ نے پھاڑ کھانے والے درندے کی طرح حملہ کر دیا ہے اور باطل کا اونٹ چپ رہنے کے بعد پھر بلبلانے لگا ہے، لوگوں نے فسق و فجور پر آپس میں بھائی چارہ کر لیا ہے اور دین کے سلسلہ میں ان میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے، جھوٹ پر تو ایک دوسرے سے یارانہ گانٹھ رکھا ہے اور سچ کے معاملہ میں باہم کد رکھتے ہیں۔
فَاِذَا كَانَ ذٰلِكَ كَانَ الْوَلَدُ غَیْظًا، وَ الْمَطَرُ قَیْظًا، وَ تَفِیْضُ اللِّئَامُ فَیْضًا، وَ تَغِیْضُ الْكِرَامُ غَیْضًا، وَ كَانَ اَهْلُ ذٰلِكَ الزَّمَانِ ذِئَابًا، وَسَلَاطَیْنُهٗ سِبَاعًا، وَ اَوْسَاطُهٗ اُكَّالًا، وَ فُقَرَاؤُهٗ اَمْوَاتًا، وَ غَارَ الصِّدْقُ، وَ فَاضَ الْكَذِبُ، وَ اسْتُعْمِلَتِ الْمَوَدَّةُ بِاللِّسَانِ، وَ تَشَاجَرَ النَّاسُ بِالْقُلُوْبِ، وَ صَارَ الْفُسُوْقُ نَسَبًا، وَ الْعَفَافُ عَجَبًا، وَ لُبِسَ الْاِسْلَامُ لُبْسَ الْفَرْوِ مَقْلُوْبًا.
(ایسے موقعہ پر) بیٹا (آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے کے بجائے) غیظ و غضب کا سبب ہو گا اور بارشیں گرمی و تپش کا، کمینے پھیل جائیں گے اور شریف گھٹتے جائیں گے۔ اس زمانہ کے لوگ بھیڑیئے ہوں گے اور حکمران درندے، درمیانی طبقہ کے لوگ کھاپی کر مست رہنے والے اور فقیر و نادار بالکل مردہ، سچائی دَب جائے گی اور جھوٹ اُبھر آئے گا، محبت (کی لفظیں) صرف زبانوں پر آئیں گی اور لوگ دلوں میں ایک دوسرے سے کشیدہ رہیں گے، نسب کا معیار زنا ہو گا، عفت و پاکدامنی نرالی چیز سمجھی جائے گی اور اسلام کا لبادہ پوستین کی طرح الٹا اوڑھا جائے گا۔