فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

یقین کی حالت میں سونا شک کی حالت میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ حکمت 97
(٩١) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۹۱)
اَمَّا بَعْدُ! اَیُّهَا النَّاسُ! فَاَنَا فَقَاْتُ عَیْنَ الْفِتْنَةِ، وَ لَمْ یَكُنْ لِّیَجْتَرِئَ عَلَیْهَاۤ اَحَدٌ غَیْرِیْ بَعْدَ اَنْ مَّاجَ غَیْهَبُهَا، وَ اشْتَدَّ كَلَبُهَا.
اے لوگو! [۱] میں نے فتنہ و شر کی آنکھیں پھوڑ ڈالی ہیں اور جب اس کی تاریکیاں (موجوں کی طرح) تہ و بالا ہو رہی تھیں اور (دیوانے کتوں کی طرح) اس کی دیوانگی زوروں پر تھی تو میرے علاوہ کسی ایک میں جرأت نہ تھی کہ وہ اس کی طرف بڑھتا۔
فَاسْئَلُوْنِیْ قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ، فَوَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِهٖ! لَا تَسْئَلُوْنِیْ عَنْ شَیْءٍ فِیْمَا بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَ السَّاعَةِ، وَ لَا عَنْ فِئَةٍ تَهْدِیْ مِائَۃً وَ تُضِلُّ مِائَةً اِلَّاۤ اَنْۢبَاْتُكُمْ بِنَاعِقِهَا وَ قَآئِدِهَا وَ سَآئِقِهَا، وَ مُنَاخِ رِكَابِهَا، وَ مَحَطِّ رِحَالِهَا، وَ مَنْ یُّقْتَلُ مِنْ اَهْلِهَا قَتْلًا وَ مَنْ یَّمُوْتُ مِنْهُمْ مَوْتًا.
اب (موقعہ ہے جو چاہو) مجھ سے پوچھ لو [۲] ، پیشتر اس کے کہ مجھے نہ پاؤ۔ اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تم اس وقت سے لے کر قیامت تک کے درمیانی عرصے کی جو بات مجھ سے پوچھو گے میں بتاؤں گا اور کسی ایسے گروہ کے متعلق دریافت کر و گے کہ جس نے سو کو ہدایت کی ہو اور سو کو گمراہ کیا ہو تو میں اس کے للکارنے والے اور اسے آگے سے کھینچنے والے اور پیچھے سے دھکیلنے والے اور اس کی سواریوں کی منزل اور اس کے (ساز و سامان سے لدے ہوئے ) پالانوں کے اترنے کی جگہ تک بتا دوں گا اور یہ کہ کون ان میں سے قتل کیا جائے گا اور کون (اپنی موت ) مرے گا۔
وَ لَوْ قَدْ فَقَدْتُّمُوْنِیْ وَ نَزَلَتْ بِکُمُ كَرَآئِهُ الْاُمُوْرِ، وَ حَوَازِبُ الْخُطُوْبِ، لَاَطْرَقَ كَثِیْرٌ مِّنَ السَّآئِلِیْنَ، وَ فَشِلَ كَثِیْرٌ مِّنَ الْمَسْؤُوْلِیْنَ، وَ ذٰلِكَ اِذَا قَلَّصَتْ حَرْبُكُمْ، وَ شَمَّرَتْ عَنْ سَاقٍ، وَ ضَاقَتِ الدُّنْیَا عَلَیْكُمْ ضِیْقًا، تَسْتَطِیْلُوْنَ مَعَہٗ اَیَّامَ الْبَلَآءِ عَلَیْكُمْ، حَتّٰی یَفْتَحَ اللهُ لِبَقِیَّةِ الْاَبْرَارِ مِنْكُمْ.
اور جب میں نہ رہوں گا اور ناخوشگوار چیزیں اور سخت مشکلیں پیش آئیں گی (تو دیکھ لینا) کہ بہت سے پوچھنے والے (پریشانی سے) سر نیچے ڈال دیں گے اور بتانے والے عاجز و درماندہ ہو جائیں گے۔ یہ اس وقت ہو گا کہ جب تم پر لڑائیاں زور سے ٹوٹ پڑیں گے اور اس کی سختیاں نمایاں ہو جائیں گی اور دنیا اس طرح تم پر تنگ ہو جائے گی کہ مصیبتوں کے دنوں کو تم یہ سمجھنے لگو گے کہ وہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ خداوند عالم تمہارے باقی ماندہ لوگوں کو فتح و کامرانی دے گا۔
اِنّ الْفِتَنَ اِذَا اَقْبَلَتْ شَبَّهَتْ، وَ اِذَاۤ اَدْبَرَتْ نَبَّهَتْ، یُنْكَرْنَ مُقْبِلَاتٍ، وَ یُعْرَفْنَ مُدْبِرَاتٍ، یَحُمْنَ حَوْمَ الرِّیَاحِ، یُصِبْنَ بَلَدًا وَّ یُخْطِئْنَ بَلَدًا.
فتنوں کی یہ صورت ہوتی ہے کہ جب وہ آتے ہیں تو اس طرح اندھیرے میں ڈال دیتے ہیں کہ (حق و باطل) کا امتیاز نہیں ہوتا اور پلٹتے ہیں تو ہوشیار کر کے جاتے ہیں۔ جب آتے ہیں تو شناخت نہیں ہوتی، پیچھے ہٹتے ہیں تو پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ہواؤں کی طرح چکر لگاتے ہیں، کسی شہر کو اپنی زد پر رکھ لیتے ہیں اور کوئی ان سے رہ جاتا ہے۔
اَلَا وَ اِنَّ اَخْوَفَ الْفِتَنِ عِنْدِیْ عَلَیْكُمْ فِتْنَةُ بَنِیْۤ اُمَیَّةَ، فَاِنَّهَا فِتْنَةٌ عَمْیَآءُ مُظْلِمَةٌ: عَمَّتْ خُطَّتُهَا، وَ خَصَّتْ بَلِیَّتُهَا، وَ اَصَابَ الْبَلَآءُ مَنْ اَبْصَرَ فِیْهَا، وَ اَخْطَاَ الْبَلَآءُ مَنْ عَمِیَ عَنْهَا.
میرے نزدیک سب فتنوں سے زیادہ خوفناک تمہارے لئے بنی امیہ کا فتنہ ہے جسے نہ خود کچھ نظر آتا ہے اور نہ اس میں کوئی چیز سجھائی دیتی ہے، اس کے اثرات تو سب کو شامل ہیں لیکن خصوصیت سے اس کی آفتیں خاص ہی افراد کیلئے ہیں۔ جو اس میں حق کو پیش نظر رکھے گا اس پر مصیبتیں آئیں گی اور جو آنکھیں بند رکھے گا وہ ان سے بچا رہے گا۔
وَ ایْمُ اللهِ لَتَجِدُنَّ بَنِیْۤ اُمَیَّةَ لَكُمْ اَرْبَابَ سُوْٓءٍۭ بَعْدِیْ، كَالنَّابِ الضَّرُوْسِ: تَعْذِمُ بِفِیْهَا،وَ تَخْبِطُ بِیَدِهَا،وَ تَزْبِنُ بِرِجْلِهَا، وَ تَمْنَعُ دَرَّهَا، لَا یَزَالُوْنَ بِكُمْ حَتّٰی لَا یَتْرُكُوْا مِنْكُمْ اِلَّا نَافِعًا لَّهُمْ، اَوْ غَیْرَ ضَآئِرٍۭ بِهِمْ، وَ لَا یَزَالُ بَلَآ ؤُهُمْ حَتّٰی لَا یَكُوْنَ انْتِصَارُ اَحَدِكُمْ مِنْهُمْ اِلَّا كَانْتِصَارِ الْعَبْدِ مِنْ رَّبِّهٖ، وَ الصَّاحِبِ مِنْ مُّسْتَصْحِبِهٖ، تَرِدُ عَلَیْكُمْ فِتْنَتُهُمْ شَوْهَآءَ مَخْشِیَّةً، وَ قِطَعًا جَاهِلِیَّةً، لَیْسَ فِیْهَا مَنَارُ هُدًی، وَ لَا عَلَمٌ یُّرٰی.
خدا کی قسم! میرے بعد تم بنی امیہ کو اپنے لئے بدترین حکمران پاؤ گے۔ وہ تو اس بوڑھی اور سرکش اونٹنی کے مانند ہیں جو منہ سے کاٹتی ہو اور اِدھر اُدھر ہاتھ پیر مارتی ہو اور دوہنے والے پر ٹانگیں چلاتی ہو اور دودھ دینے سے انکار کر دیتی ہو۔ وہ برابر تمہارا قلع قمع کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ صرف اسے چھوڑیں گے جو ان کے مفید مطلب ہو یا(کم از کم) ان کیلئے نقصان رساں نہ ہو۔ اور ان کی مصیبت اسی طرح گھیرے رہے گی کہ ان سے داد خواہی ایسی ہی مشکل ہو جائے گی جیسے غلام کیلئے اپنے آقا سے اور مرید کی اپنے پیر سے۔ تم پر ان کا فتنہ ایسی بھیانک صورت میں آئے گا کہ جس سے ڈر لگنے لگے گا اور زمانہ جاہلیت کی مختلف حالتوں کو لئے ہو گا۔ نہ اس میں ہدایت کا مینار نصب ہو گا اور نہ راستہ دکھانے والا کوئی نشان نظر آئے گا۔
نَحْنُ اَهْلَ الْبَیْتِ مِنْهَا بِمَنْجَاةٍ، وَ لَسْنَا فِیْهَا بِدُعَاةٍ، ثُمَّ یُفَرِّجُهَا اللهُ عَنْكُمْ كَتَفْرِیْجِ الْاَدِیْمِ: بِمَنْ یَّسُوْمُهُمْ خَسْفًا، وَ یَسُوْقُهُمْ عُنْفًا، وَ یَسْقِیْهِمْ بِكَاْسٍ مُّصَبَّرَةٍ، لَا یُعْطِیْهِمْ اِلَّا السَّیْفَ، وَ لَا یُحْلِسُهُمْ اِلَّا الْخَوْفَ، فَعِنْدَ ذٰلِكَ تَوَدُّ قُرَیْشٌ بِالدُّنْیَا وَ مَا فِیْهَا لَوْ یَرَوْنَنِیْ مَقَامًا وَّاحِدًا، وَ لَوْ قَدْرَ جَزْرِ جَزُوْرٍ، لِاَقْبَلَ مِنْهُمْ مَاۤ اَطْلُبُ الْیَوْمَ بَعْضَهٗ فَلَا يُعْطُوْنَنِيْهِ!.
ہم اہل بیت ِ(رسول علیہم السلام) ان فتنہ انگیزیوں (کے گناہ) سے بچے ہوں گے اور ان کی طرف لوگوں کو بلانے میں ہمارا کوئی حصہ نہ ہو گا۔ پھر ایک دن وہ آئے گا کہ اللہ اس شخص کے ذریعہ سے جو انہیں ذلت کا مزا چکھائے اور سختی سے ہنکائے اور (موت کے ) تلخ جام پلائے اور ان کے سامنے تلوار رکھے اور خوف انہیں چمٹا دے، ان فتنوں سے اس طرح علیحدہ کر دے گا جس طرح ذبیحہ سے کھال الگ کی جاتی ہے۔ اس وقت قریش دنیا و ما فیہا کے بدلے میں یہ چاہیں گے کہ وہ مجھے صرف اتنی دیر کہ جتنی اونٹ کے ذبح ہونے میں لگتی ہے، کہیں ایک دفعہ دیکھ لیں تاکہ میں اس چیز کو قبول کر لوں کہ جس کا آج کچھ حصہ بھی طلب کرنے کے باوجود دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔

۱؂امیر المومنین علیہ السلام نے یہ خطبہ جنگ نہروان کے بعد ارشاد فرمایا۔ اس میں ’’فتنہ‘‘ سے مراد وہ جنگیں ہیں جو بصرہ، صفین اور نہر وان میں لڑی گئیں۔ چونکہ ان کی نوعیت پیغمبر ﷺ کی جنگوں سے جداگانہ تھی، کیونکہ وہاں مد مقابل کفار ہوتے تھے اور یہاں مقابلہ ان لوگوں سے تھا جو چہروں پر اسلام کی نقاب ڈالے ہوئے تھے۔ اس لئے لوگ اہل قبلہ سے جنگ کرنے کیلئے متردّد تھے اور یہ کہتے تھے کہ جو لوگ اذانیں دیتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں ان سے قتال کیسا؟ چنانچہ خزیمہ ابن ثابت انصاری جیسے بزرگ اس وقت تک صفین میں شریک جنگ نہیں ہوئے جب تک عمار یاسر کی شہادت نے شامیوں کا گروہ باغی ہونا ثابت نہ کر دیا۔ یونہی بصرہ میں اُمّ المومنین کے ہمراہ عشرہ مبشرہ میں شمار ہونے والے طلحہ و زبیر ایسے صحابہ کی موجودگی اور نہروان میں خوارج کی پیشانیوں کے گھٹے اور ان کی نمازیں اور عبادتیں ذہنوں میں خلفشار پیدا کئے ہوئے تھیں۔ اندریں حالات ان کے سامنے شمشیر بکف کھڑے ہونے کی جرأت وہی کر سکتا تھا جو ان کے مکنونِ قلب سے واقف اور ان کے ایمان کی حقیقت سے آشنا ہو اور یہ امیر المومنین علیہ السلام ہی کی بصیرتِ خاص و ایمانی جرأت کا کام تھا کہ ان کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوئے اور پیغمبر ﷺ کے اس ارشاد کی تصدیق فرما دی:
سَتُقَاتِلُ بَعْدِی النَّاكِثِيْنَ وَ الْقَاسِطِيْنَ وَ الْمَارِقِيْنَ۔
اے علیؑ! تم میرے بعد بیعت توڑنے والوں (اصحابِ جمل) ظلم ڈھانے والوں (اہل شام) اور دین سے بے راہ ہو جانے والوں (خوارج) سے جنگ کرو گے۔[۱]
۲؂۲پیغمبر اکرم ﷺ کے بعد کوئی متنفس امیر المومنین علیہ السلام کے علاوہ یہ دعویٰ نہ کر سکا کہ: ’’جو پوچھنا چاہو پوچھ لو‘‘۔ چنانچہ ابن حجر نے ’’صواعق محرقہ‘‘ میں لکھا ہے کہ:
لَمْ يَكُنْ اَحَدٌ مِنَ الصَّحَابَةِ يَقُوْلُ سَلُوْنِیْ اِلَّا عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِبٍ ؑ.
صحابہ میں سے کوئی ایک بھی یہ دعویٰ نہ کر سکا کہ: ’’جو پوچھنا چاہو ہم سے پوچھ لو سوا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے۔[۲]
البتہ صحابہ کے علاوہ تاریخ میں چند نام ایسے نظر آتے ہیں جنہوں نے ایسا دعویٰ کرنے کی جرأت کی: جیسے ابراہیم ابن ہشام، مقاتل ابن سلیمان، قتادہ، سبط ابن جوزی اور محمد ابن ادریس شافعی وغیرہ۔ مگر ان میں سے ہر شخص سوال کے موقع پر رسوا اور اپنے اس دعوے کو واپس لینے پر مجبور ہوا۔ یہ دعویٰ وہی کر سکتا ہے جو حقائق عالم سے واقف اور مستقبل کے واقعات سے آگاہ ہو۔ چنانچہ امیر المومنین ہی وہ دَر کشائے علوم نبوت تھے جو کسی موقعہ پر کسی سوال کے جواب سے عاجز ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر کو بھی یہ کہنا پڑتا تھا کہ:
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ مُّعْضَلَةٍ لَّیْسَ لَھَا اَبُو الْحَسَنِ ؑ.
میں اس مشکل سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جس کے حل کرنے کیلئے امیرالمومنین علیہ السلام نہ ہوں۔[۳]
یونہی مستقبل کے متعلق جو پیشین گوئیاں آپؑ نے کیں، وہ حرف بحرف پوری ہو کر آپؑ کی وسعتِ علمی کی آئینہ دار ہیں۔ وہ بنی اُمیہ کی تباہ کاریوں کے متعلق ہوں یا خوارج کی شورش انگیزیوں کے متعلق، وہ تاتاریوں کی تاخت و تاراج کے بارے میں ہوں یا زنگیوں کی حملہ آوریوں کے متعلق، وہ بصرہ کی غرقابی کے بارے میں ہوں یا کوفہ کی تباہی کے متعلق۔ غرض جب یہ واقعات تاریخی حیثیت سے مسلمہ حیثیت رکھتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپؑ کے اس دعوے پر تعجب کیا جائے۔

[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱، ص ۲۰۱۔
[۲]۔ الصواعق المحرقہ، مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۹۹۷ ء۔
[۳]۔ البدایۃ و النہایۃ، ج ۷، ص ۳۶۰، مطبوعہ مکتبۃ المعارف، بیروت