کسی مضطرب کی داد فریاد سننا اور مصیبت زدہ کو مصیبت سے چھٹکارا دلانا بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ ہے۔ حکمت 23
(١٧٦) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۷۶)
لَا یَشْغَلُهٗ شَاْنٌ عَنْ شَاْنٍ، وَ لَا یُغَیِّرُهٗ زَمَانٌ، وَ لَا یَحْوِیْهِ مَكَانٌ، وَ لَا یَصِفُهٗ لِسَانٌ، وَ لَا یَعْزُبُ عَنْهُ عَدَدُ قَطْرِ الْمَآءِ، وَ لَا نُجُوْمِ السَّمَآءِ، وَ لَا سَوَافِی الرِّیْحِ فِی الْهَوَآءِ، وَ لَا دَبِیْبُ النَّمْلِ عَلَی الصَّفَا، وَ لَا مَقِیْلُ الذَّرِّ فِی اللَّیْلَةِ الظَّلْمَآءِ. یَعْلَمُ مَسَاقِطَ الْاَوْرَاقِ، وَ خَفِیَّ طَرْفِ الْاَحْدَاقِ.
خداوند عالم کو ایک حالت دوسری حالت سے سد راہ نہیں ہوتی، نہ زمانہ اس میں تبدیلی پیدا کر تا ہے، نہ کوئی جگہ اسے گھیرتی ہے اور نہ زبان اس کا وصف کر سکتی ہے۔ اس سے پانی کے قطروں اور آسمان کے ستاروں اور ہوا کے جھکڑوں کا شمار، چکنے پتھر پر چیونٹی کے چلنے کی آواز اور اندھیری رات میں چھوٹی چیونٹیوں کے قیام کرنے کی جگہ کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔وہ پتوں کے گرنے کی جگہوں اور آنکھ کے چوری چھپے اشاروں کو جانتا ہے۔
وَ اَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ غَیْرَ مَعْدُوْلٍۭ بِهٖ، وَ لَا مَشْكُوْكٍ فِیْهِ، وَ لَا مَكْفُوْرٍ دِیْنُهٗ، وَ لَا مَجْحُوْدٍ تَكْوِیْنُهٗ، شَهَادَةَ مَنْ صَدَقَتْ نِیَّتُهٗ، وَ صَفَتْ دِخْلَتُهٗ، وَ خَلَصَ یَقِیْنُهٗ، وَ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ.
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، نہ اس کا کوئی ہمسر ہے، نہ اس کی ہستی میں کوئی شبہ، نہ اس کے دین سے سرتابی ہو سکتی ہے اور نہ اس کی آفرینش سے انکار۔ اس شخص کی سی گواہی جس کی نیت سچی، باطن پاکیزہ، یقین (شبہوں سے)پاک اور (اس کے نیک اعمال) کا پلہ بھاری ہو۔
وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ، الْمُجْتَبٰی مِنْ خَلَآئِقِهٖ، وَالْمُعْتَامُ لِشَرْحِ حَقَآئِقِهٖ، وَ الْمُخْتَصُّ بِعَقَآئِلِ كَرَامَاتِهٖ، وَ الْمُصْطَفٰی لِكَرَآئِمِ رِسَالَاتِهٖ، وَ الْمُوَضَّحَةُ بِهٖۤ اَشْرَاطُ الْهُدٰی، وَ الْمَجْلُوُّ بِهٖ غِرْبِیْبُ الْعَمٰی.
اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے عبد اور رسول ہیں اور مخلوقات میں منتخب، بیان شریعت کیلئے برگزیدہ، گراں بہا بزرگیوں سے مخصوص اور عمدہ پیغاموں (کے پہنچانے)کیلئے منتخب ہیں۔ آپؐ کے ذریعے سے ہدایت کے نشانات روشن کئے گئے اور گمراہی کی تیرگیوں کو چھانٹا گیا۔
اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ الدُّنْیَا تَغُرُّ الْمُؤَمِّلَ لَهَا وَ الْمُخْلِدَ اِلَیْهَا، وَ لَا تَنْفَسُ بِمَنْ نَّافَسَ فِیْهَا، وَ تَغْلِبُ مَنْ غَلَبَ عَلَیْهَا.
اے لوگو! جو شخص دنیا کی آرزوئیں کرتا ہے اور اس کی جانب کھنچتا ہے، وہ اسے انجام کار فریب دیتی ہے اور جو اس کا خواہشمند ہوتا ہے اس سے بخل نہیں کرتی اور جو اس پر چھا جاتا ہے وہ اس پر قابو پالے گی۔
وَایْمُ اللهِ! مَا كَانَ قَوْمٌ قَطُّ فِیْ غَضِّ نِعْمَةٍ مِّنْ عَیْشٍ فَزَالَ عَنْهُمْ اِلَّا بِذُنُوْبٍ اجْتَرَحُوْهَا، لِـۧ﴿اَنَّ اللّٰهَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِۚ﴾، وَ لَوْ اَنَّ النَّاسَ حِیْنَ تَنْزِلُ بِهِمُ النِّقَمُ، وَ تَزُوْلُ عَنْهُمُ النِّعَمُ، فَزِعُوْۤا اِلٰی رَبِّهِمْ بِصِدْقٍ مِّنْ نِّیَّاتِهمْ، وَ وَلَهٍ مِّنْ قُلُوْبِهمْ، لَرَدَّ عَلَیْهِمْ كُلَّ شَارِدٍ، وَ اَصْلَحَ لَهُمْ كُلَّ فَاسِدٍ.
خدا کی قسم! جن لوگوں کے پاس زندگی کی تر و تازہ و شاداب نعمتیں تھیں اور پھر ان کے ہاتھوں سے نکل گئیں، یہ ان کے گناہوں کے مرتکب ہو نے کی پاداش ہے، کیونکہ ’’اللہ تو کسی پر ظلم نہیں کرتا‘‘۔ اگر لوگ اس وقت کہ جب ان پر مصیبتیں ٹوٹ رہی ہوں اور نعمتیں ان سے زائل ہو رہی ہوں، صدق نیت و رجوع قلب سے اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہوں تو وہ برگشتہ ہو جانے والی نعمتوں کو پھر ان کی طرف پلٹا دے گا اور ہر خرابی کی اصلاح کر دے گا۔
وَ اِنِّیْ لَاَخْشٰی عَلَیْكُمْ اَنْ تَكُوْنُوْا فِیْ فَتْرَةٍ، وَ قَدْ كَانَتْ اُمُوْرٌ مَّضَتْ، مِلْتُمْ فِیْهَا مَیْلَةً، كُنْتُمْ فِیْهَا عِنْدِیْ غَیْرَ مَحْمُوْدِیْنَ، وَ لَئِنْ رُّدَّ عَلَیْكُمْ اَمْرُكُمْ اِنَّكُمْ لَسُعَدَآءُ، وَ مَا عَلَیَّ اِلَّا الْجُهْدُ، وَ لَوْ اَشَآءُ اَنْ اَقُوْلَ لَقُلْتُ: ﴿عَفَا اللّٰهُ عَمَّا سَلَفَ ؕ ﴾!.
مجھے تم سے یہ اندیشہ ہے کہ کہیں تم جہالت و نادانی میں نہ پڑ جاؤ۔ کچھ واقعات ایسے ہو گزرے ہیں کہ جن میں تم نے نامناسب جذبات سے کام لیا۔ میرے نزدیک تم ان میں سراہنے کے قابل نہیں ہو۔ اگر تمہیں پہلی روش پر پھر لگا دیا جائے تو تم یقیناً نیک بخت و سعادت مند بن جاؤ گے۔ میرا کام تو صرف کوشش کرنا ہے۔ اگر میں کچھ کہنا چاہوں تو البتہ یہی کہوں گا کہ ’’خدا (تمہاری) گزشتہ لغزشوں سے درگزر کرے‘‘۔