بہترین زہد، زہد کا مخفی رکھنا ہے۔ حکمت 27
(١٣٠) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۳۰)
نَحْمَدُهٗ عَلٰی مَاۤ اَخَذَ وَ اَعْطٰی، وَ عَلٰی مَاۤ اَبْلٰی وَ ابْتَلٰی، الْبَاطِنُ لِكُلِّ خَفِیَّةٍ، الْحَاضِرُ لِكُلِّ سَرِیْرَةٍ، الْعَالِمُ بِمَا تُكِنُّ الصُّدُوْرُ، وَ مَا تَخُوْنُ الْعُیُوْنُ. وَ نَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ غَیْرُهٗ، وَ اَنَّ مُحَمَّدًا ﷺ نَّجِیْبُهٗ وَ بَعِیْثُهٗ، شَهَادَةً یُّوَافِقُ فِیْهَا السِّرُّ الْاِعْلَانَ، وَ الْقَلْبُ اللِّسَانَ.
وہ جو کچھ لے اور جو کچھ دے اور جو نعمتیں بخشے اور جن آزمائشوں میں ڈالے (سب پر) ہم اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں۔ وہ ہر چھپی ہوئی چیز کی گہرائیوں سے آگاہ اور ہر پوشیدہ شے پر حاضر و ناظر ہے۔ وہ سینوں میں چھپی ہوئی چیزوں اور آنکھوں کے چوری چھپے اشاروں کا جاننے والا ہے۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے برگزیدہ (بندے) اور فرستادہ (رسول) ہیں۔ ایسی گواہی کہ جس میں ظاہر و باطن یکساں اور دل و زبان ہمنوا ہیں۔
[مِنْهَا]
[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
فَاِنَّهٗ وَاللهِ! الْجِدُّ لَا اللَّعِبُ، وَ الْحَقُّ لَا الْكَذِبُ، وَ مَا هُوَ اِلَّا الْمَوْتُ اَسْمَعَ دَاعِیْهِ، وَ اَعْجَلَ حَادِیْهِ، فَلَا یَغُرَّنَّكَ سَوَادُ النَّاسِ مِنْ نَّفْسِكَ، فَقَدْ رَاَیْتَ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ مِمَّنْ جَمَعَ الْمَالَ وَ حَذِرَ الْاِقْلَالَ، وَ اَمِنَ الْعَوَاقِبَ ـ طُوْلَ اَمَلٍ وَّ اسْتِبْعَادَ اَجَلٍ ـ كَیْفَ نَزَلَ بِهِ الْمَوْتُ فَاَزْعَجَهٗ عَنْ وَّطَنِهٖ، وَ اَخَذَهٗ مِنْ مَّاْمَنِهٖ، مَحْمُوْلًا عَلٰۤی اَعْوَادِ الْمَنَایَا یَتَعَاطٰی بِهِ الرِّجَالُ الرِّجَالَ، حَمْلًا عَلَی الْمَنَاكِبِ وَ اِمْسَاكًۢا بِالْاَنَامِلِ.
خدا کی قسم! وہ چیز جو سرا سر حقیقت ہے ہنسی کھیل نہیں اور سرتاپا حق ہے جھوٹ نہیں، وہ صرف موت ہے۔ اس کے پکارنے والے نے اپنی آواز پہنچا دی ہے اور اس کے ہنکانے والے نے جلدی مچا رکھی ہے۔ یہ (زندہ ) لوگوں کی کثرت تمہارے نفس کو دھوکا نہ دے (کہ اپنی موت کو بھول جاؤ)۔ تم ان لوگوں کو جو تم سے پہلے تھے، جنہوں نے مال و دولت کو سمیٹا تھا، جو افلاس سے ڈرتے تھے اور امیدوں کی درازی اور موت کی دوری کا (فریب کھا کر) نتائج سے بے خوف بن چکے تھے، دیکھ چکے ہو کہ کس طرح موت ان پر ٹوٹ پڑی کہ انہیں وطن سے نکال باہر کیا اور ان کی جائے امن سے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا، اس عالم میں کہ وہ تابوت پر لدے ہوئے تھے اور لوگ یکے بعد دیگرے کندھا دے رہے تھے اور اپنی انگلیوں (کے سہارے) سے روکے ہوئے تھے۔
اَ مَا رَاَیْتُمُ الَّذِیْنَ یَاْمُلُوْنَ بَعِیْدًا، وَ یَبْنُوْنَ مَشِیْدًا، وَ یَجْمَعُوْنَ كَثِیْرًا! كَيْفَ اَصْبَحَتْ بُیُوْتُهُمْ قُبُوْرًا، وَ مَا جَمَعُوْا بُوْرًا، وَ صَارَتْ اَمْوَالُهُمْ لِلْوَارِثِیْنَ، وَ اَزْوَاجُهُمْ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ، لَا فِیْ حَسَنَةٍ یَزِیْدُوْنَ، وَ لَا مِنْ سَیِّئَةٍ یَّسْتَعْتِبُوْنَ!.
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ جو دور کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے، جنہوں نے مضبوط محل بنائے تھے اور ڈھیروں مال جمع کیا تھا، کس طرح ان کے گھر قبروں میں بدل گئے اور جمع پونجی تباہ ہو گئی اور ان کا مال وارثوں کا ہو گیا اور ان کی بیویاں دوسروں کے پاس پہنچ گئیں۔ (اب) نہ وہ نیکیوں میں کچھ اضافہ کر سکتے ہیں اور نہ اس کا کوئی موقعہ ہے کہ وہ کسی گناہ کے بعد (توبہ کر کے) اللہ کی رضا مندیاں حاصل کر لیں۔
فَمَنْ اَشْعَرَ التَّقْوٰی قَلْبَهٗ بَرَّزَ مَهَلُهٗ، وَ فَازَ عَمَلُهٗ. فَاهْتَبِلُوْا هَبَلَهَا، وَ اعْمَلُوْا لِلْجَنَّةِ عَمَلَهَا، فَاِنَّ الدُّنْیَا لَمْ تُخْلَقْ لَكُمْ دَارَ مُقَامٍ، بَلْ خُلِقَتْ لَكُمْ مَجَازًا لِّتَزَوَّدُوْا مِنْهَا الْاَعْمَالَ اِلٰی دَارِ الْقَرَارِ، فَكُوْنُوْا مِنْهَا عَلٰۤی اَوْفَازٍ، وَ قَرِّبُوا الظُّهُوْرَ لِلزِّیَالِ.
جس شخص نے اپنے دل کو تقویٰ شعار بنا لیا وہ بھلائیوں میں سبقت لے گیا اور اس کا کیا کرایا سوارت ہوا۔ تقویٰ حاصل کرنے کا موقعہ غنیمت سمجھو اور جنت کیلئے جو عمل ہونا چاہیے اسے انجام دو، کیونکہ دنیا تمہاری قیام گاہ نہیں بنائی گئی، بلکہ یہ تو تمہارے لئے گزر گاہ ہے، تاکہ تم اس سے اپنی مستقل قیام گاہ کیلئے زاد اکٹھا کر سکو۔ اس دنیا سے چل نکلنے کیلئے آمادہ رہو اور کوچ کیلئے سواریاں اپنے سے قریب کر لو (کہ وقت آنے پر با آسانی سوار ہو سکو)۔