دنیا میں بندوں کے جو اعمال ہیں وہ آخرت میں ان کی آنکھوں کے سامنے ہوں گے۔ حکمت 6
(٩٢) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۹۲)
فَتَبَارَكَ اللهُ الَّذِیْ لَا یَبْلُغُهٗ بُعْدُ الْهِمَمِ، وَ لَا یَنَالُهٗ حَدْسُ الْفِطَنِ، الْاَوَّلُ الَّذِیْ لَا غَایَةَ لَهٗ فَیَنْتَهِیَ، وَ لَاۤ اٰخِرَ لَهٗ فَیَنْقَضِیَ.
با برکت ہے وہ خدا کہ جس کی ذات تک بلند پرواز ہمتوں کی رسائی نہیں اور نہ عقل و فہم کی قوتیں اسے پا سکتی ہیں۔ وہ ایسا اوّل ہے کہ جس کیلئے نہ کوئی نقطۂ ابتدا ہے کہ وہ محدود ہو جائے اور نہ کوئی اس کا آخر ہے کہ (وہاں پہنچ کر) ختم ہو جائے۔
[مِنْهَا: فِیْ وَصْفِ الْاَنْۢبِیَآءِ]
[اسی خطبہ کے ذیل میں (انبیاءؑ کے بارے میں) فرمایا]
فَاسْتَوْدَعَهُمْ فِیْۤ اَفْضَلِ مُسْتَوْدَعٍ، وَ اَقَرَّهُمْ فِیْ خَیْرِ مُسْتَقَرٍّ، تَنَاسَخَتْهُمْ كَرَآئِمُ الْاَصْلَابِ اِلٰی مُطَهَّرَاتِ الْاَرْحَامِ، كُلَّمَا مَضٰی مِنْهُمْ سَلَفٌ، قَامَ مِنْهُمْ بِدِیْنِ اللهِ خَلَفٌ.
اس نے ان (انبیاءؑ) کو بہترین سونپے جانے کی جگہوں میں رکھا اور بہترین ٹھکانوں میں ٹھہرایا۔ وہ بلند مرتبہ صلبوں سے پاکیزہ شکموں کی طرف منتقل ہوتے رہے۔ جب ان میں سے کوئی گزر جانے والا گزر گیا، دوسرا دین خدا کو لے کر کھڑا ہو گیا۔
حَتّٰۤی اَفْضَتْ كَرَامَةُ اللهِ سُبْحَانَهٗ اِلٰی مُحَمَّدٍ ﷺ، فَاَخْرَجَهٗ مِنْ اَفْضَلِ الْمَعَادِنِ مَنْۢبِتًا وَّ اَعَزِّ الْاُرُوْمَاتِ مَغْرِسًا، مِنَ الشَّجَرَةِ الَّتِیْ صَدَعَ مِنْهَا اَنْۢبِیَآئَهٗ، وَ انْتَخَبَ مِنْهَاۤ اُمَنَآئَهٗ.
یہاں تک کہ یہ الٰہی شرف محمد ﷺ تک پہنچا جنہیں ایسے معدنوں سے کہ جو پھلنے پھولنے کے اعتبار سے بہترین اور ایسی اصلوں سے کہ جو نشو و نما کے لحاظ سے بہت باوقار تھیں، پیدا کیا، اسی شجرہ سے کہ جس سے انبیاءؑ پیدا کئے اور جس میں سے اپنے امین منتخب فرمائے۔
عِتْرَتُهٗ خَیْرُ الْعِتَرِ، وَ اُسْرَتُهٗ خَیْرُ الْاُسَرِ، وَ شَجَرَتُهٗ خَیْرُ الشَّجَرِ، نَبَتَتْ فِیْ حَرَمٍ، وَ بَسَقَتْ فِیْ كَرَمٍ، لَهَا فُرُوْعٌ طِوَالٌ، وَ ثَمَرَۃٌ لَّا تُنَالُ.
ان کی عترت بہترین عترت اور قبیلہ بہترین قبیلہ اور شجرہ بہترین شجرہ ہے، جو سر زمین حرم پر اُگا اور بزرگی کے سایہ میں بڑھا، جس کی شاخیں دراز اور پھل دسترس سے باہر ہیں۔
فَهُوَ اِمَامُ مَنِ اتَّقٰی، وَ بَصِیْرَةُ مَنِ اهْتَدٰی، سِرَاجٌ لَّمَعَ ضَوْئُهٗ، وَ شِهَابٌ سَطَعَ نُوْرُهٗ، وَ زَنْدٌۢ بَرَقَ لَمْعُهٗ، سِیْرَتُهُ الْقَصْدُ، وَ سُنَّتُهُ الرُّشْدُ، وَ كَلَامُهُ الْفَصْلُ، وَ حُكْمُهُ الْعَدْلُ، اَرْسَلَهٗ عَلٰی حِیْنِ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ، وَ هَفْوَةٍ عَنِ الْعَمَلِ، وَ غَبَاوَةٍ مِّنَ الْاُمَمِ.
وہ پرہیز گاروں کے امام اور ہدایت حاصل کرنے والوں کیلئے (سر چشمہ) بصیرت ہیں۔ وہ ایسا چراغ ہیں جس کی روشنی لو دیتی ہے اور ایسا روشن ستارہ جس کا نور ضیا پاش اور ایسا چقماق جس کی ضو شعلہ فشاں ہے۔ ان کی سیرت (افراط و تفریط سے بچ کر) سیدھی راہ پر چلنا اور سنت ہدایت کرنا ہے۔ ان کا کلام حق و باطل کا فیصلہ کرنے والا اور حکم عین عدل ہے۔ اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا کہ جب رسولوں کی آمد کا سلسلہ رکا ہوا تھا، بد عملی پھیلی ہوئی اور اُمتوں پر غفلت چھائی ہوئی تھی۔
اِعْمَلُوْا، رَحِمَكُمُ اللهُ! عَلٰۤی اَعْلَامٍۭ بَیِّنَةٍ، فَالطَّرِیْقُ نَهْجٌ یَّدْعُوْ اِلٰی دَارِ السَّلَامِ، وَ اَنْتُمْ فِیْ دَارِ مُسْتَعْتَبٍ عَلٰی مَهَلٍ وَ فَرَاغٍ، وَ الصُّحُفُ مَنْشُوْرَةٌ، وَ الْاَقْلَامُ جَارِیَةٌ، وَ الْاَبْدَانُ صَحِیْحَةٌ، وَ الْاَلْسُنُ مُطْلَقَةٌ، وَ التَّوْبَةُ مَسْمُوْعَةٌ، وَ الْاَعْمَالُ مَقْبُوْلَةٌ.
اللہ تم پر رحم کرے! روشن نشانوں پر جم کر عمل کرو۔ راستہ بالکل سیدھا ہے۔ وہ تمہیں سلامتیوں کے گھر (جنت) کی طرف بلا رہا ہے اور ابھی تم ایسے گھر میں ہو کہ جہاں تمہیں اتنی مہلت و فراغت ہے کہ اس کی خوشنودیاں حاصل کر سکو۔ (ابھی موقعہ ہے، چونکہ) اعمال نامے کھلے ہوئے ہیں، قلم چل رہے ہیں، بدن تندرست و توانا ہیں، زبان آزاد ہے، توبہ سنی جا سکتی ہے اور اعمال قبول کئے جا سکتے ہیں۔