قناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہو سکتا۔ حکمت 57
(٣٩) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۳۹)
مُنِیْتُ بِمَنْ لَّا یُطِیْعُ اِذَا اَمَرْتُ، وَ لَا یُجِیْبُ اِذَا دَعَوْتُ، لَاۤ اَبَا لَكُمْ! مَا تَنْتَظِرُوْنَ بِنَصْرِكُمْ رَبَّكُمْ؟ اَمَا دِیْنٌ یَجْمَعُكُمْ؟ وَ لَا حَمِیَّةَ تُحْمِشُكُمْ؟ اَقُوْمُ فِیْكُمْ مُسْتَصْرِخًا، وَ اُنَادِیْكُمْ مُتَغَوِّثًا، فَلَا تَسْمَعُوْنَ لِیْ قَوْلًا، وَ لَا تُطِیْعُوْنَ لِیْۤ اَمْرًا، حَتّٰی تَكَشَّفَ الْاُمُوْرُ عَنْ عَوَاقِبِ الْمَسَآئَةِ، فَمَا یُدْرَكُ بِكُمْ ثَارٌ، وَ لَا یُبْلَغُ بِكُمْ مَرَامٌ، دَعَوْتُكُمْ اِلٰی نَصْرِ اِخْوَانِكُمْ فَجَرْجَرْتُمْ جَرْجَرَةَ الْجَمَلِ الْاَسَرِّ، وَ تَثَاقَلْتُمْ تَثَاقُلَ الْنِّضْوِ الْاَدْبَرِ، ثُمَّ خَرَجَ اِلَیَّ مِنْكُمْ جُنَیْدٌ مُتَذَآئِبٌ ضَعِیْفٌ، ﴿كَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ اِلَی الْمَوْتِ وَ هُمْ یَنْظُرُوْنَؕ﴾.
میرا ایسے لوگوں سے سابقہ پڑا ہے جنہیں حکم دیتا ہوں تو مانتے نہیں، بلاتا ہوں تو آواز پر لبیک نہیں کہتے۔ تمہارا بُرا ہو! اب اپنے اللہ کی نصرت کرنے میں تمہیں کس چیز کا انتظار ہے؟ کیا دین تمہیں ایک جگہ اکھٹا نہیں کرتا اور غیرت و حمیت تمہیں جوش میں نہیں لاتی؟میں تم میں کھڑا ہو کر چلاتا ہوں اور مدد کیلئے پکارتا ہوں لیکن تم نہ میری کوئی بات سنتے ہو، نہ میرا کوئی حکم مانتے ہو، یہاں تک کہ ان نافرمانیوں کے بُرے نتائج کھل کر سامنے آ جائیں۔ نہ تمہارے ذریعے خون کا بدلا لیا جا سکتا ہے، نہ کسی مقصد تک پہنچا جا سکتا ہے۔ میں نے تم کو تمہارے ہی بھائیوں کی مدد کیلئے پکارا تھا۔ مگر تم اس اونٹ کی طرح بلبلا نے لگے جس کی ناف میں درد ہو رہا ہو اور اس لاغر و کمزور شتر کی طرح ڈھیلے پڑ گئے جس کی پیٹھ زخمی ہو، پھر میرے پاس تم لوگوں کی ایک چھوٹی سی متزلزل و کمزور فوج آئی، اس عالم میں کہ گویا اسے اس کی نظروں کے سامنے موت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ [۱]
اَقُوْل: قَوْلُهٗ ؑ: «مُتَذَآئِبٌ» اَیْ مُضْطَرِبٌ، مِنْ قَوْلِهِمْ: تَذَائَبَتِ الرِّیْحُ اَیِ اضْطَرَبَ هُبُوْبُهَا، وَ مِنْهُ سُمِّیَ الذِّئْبُ ذِئْبًا، لِاضْطِرَابِ مِشْیَتِهٖ.
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: اس خطبہ میں جو لفظ «مُتَذَآئِبٌ» آیا ہے اس کے معنی مضطرب کے ہیں۔ جب ہوائیں بل کھاتی ہوئی چلتی ہیں تو عرب اس موقعہ پر «تَذَائَبَتِ الرِّیْحُ » بولتے ہیں اور بھیڑیئے کو بھی ’’ذئب‘‘ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ اس کی چال میں ایک اضطرابی کیفیت ہوتی ہے۔
۱معاویہ نے مقام ’’عین التمر‘‘ پر دھاوا بولنے کیلئے دو ہزار سپاہیوں کا ایک دستہ نعمان ابن بشیر کی سرکردگی میں بھیجا۔ یہ جگہ کوفہ کے قریب امیر المومنین علیہ السلام کا ایک دفاعی مورچہ تھی، جس کے نگران مالک ابن کعب ارحبی تھے۔ گو ان کے ماتحت ایک ہزار جنگجو افراد تھے، مگر اس موقعہ پر صرف سو آدمی وہاں موجود تھے۔ جب مالک نے حملہ آور لشکر کو بڑھتے دیکھا تو امیر المومنین علیہ السلام کو کمک کیلئے تحریر کیا۔ جب امیرالمومنین علیہ السلام کو یہ پیغام ملا تو آپؑ نے لوگوں کو ان کی امداد کیلئے کہا، مگر صرف تین سو آدمی آمادہ ہوئے جس سے حضرتؑ بہت بد دل ہوئے اور انہیں زجر و توبیخ کرتے ہوئے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔
حضرتؑ خطبہ دینے کے بعد جب مکان پر پہنچے تو عدی ابن حاتم آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا امیر المومنینؑ! میرے ہاتھ میں بنی طے کے ایک ہزار افراد ہیں، اگر آپؑ حکم دیں تو انہیں روانہ کر دوں؟ حضرتؑ نے فرمایا کہ: یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ دشمن کے سامنے ایک ہی قبیلہ کے لوگ پیش کیے جائیں، تم وادی نخیلہ میں جا کر لشکر بندی کرو۔ چنانچہ انہوں نے وہاں پہنچ کر لوگوں کو جہاد کی دعوت دی تو بنی طے کے علاوہ ایک ہزار اور جنگ آزما جمع ہو گئے۔ یہ ابھی کوچ کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ مالک ابنِ کعب کا پیغام آ گیا کہ اب مدد کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ہم نے دشمن کو مار بھگایا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ مالک نے عبد اللہ ابن جوزہ کو قرظہ ابنِ کعب اور مخنف ابنِ سلیم کے پاس دوڑا دیا تھا کہ اگر کوفہ سے مدد آنے میں تاخیر ہو تو یہاں سے بر وقت امداد مل سکے۔ چنانچہ عبد اللہ دونوں کے پاس گیا مگر قرظہ سے کوئی امداد نہ مل سکی، البتہ مخنف ابنِ سلیم نے پچاس آدمی عبد الرحمٰن ابنِ مخنف کے ہمراہ تیار کیے جو عصر کے قریب وہاں پہنچے۔ اس وقت تک یہ دو ہزار آدمی مالک کے سو آدمیوں کو پسپا نہ کر سکے تھے۔ جب نعمان نے ان پچاس آدمیوں کو دیکھا تو یہ خیال کیا کہ اب ان کی فوجیں آنا شروع ہو گئی ہیں، لہٰذا وہ میدان سے بھاگ کھڑا ہوا۔ مالک نے ان کے جاتے جاتے بھی عقب سے حملہ کر کے ان کے تین آدمیوں کو مار ڈالا۔↑