دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے۔ حکمت 64
(٣٨) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۳۸)
وَ اِنَّمَا سُمِّیَتِ الشُّبْهَةُ شُبْهَةً لِّاَنَّهَا تُشْبِهُ الْحَقَّ، فَاَمَّا اَوْلِیَآءُ اللهِ فَضِیَآئُهُمْ فِیْهَا الْیَقِیْنُ، وَدَلِیْلُهُمْ سَمْتُ الْهُدٰی، وَ اَمَّا اَعْدَآءُ اللهِ فَدُعَآئُهُمْ فِیْهَا الضَّلَالُ، وَ دَلِیْلُهُمُ الْعَمٰی، فَمَا یَنْجُوْ مِنَ الْمَوْتِ مَنْ خَافَهٗ، وَ لَا یُعْطَی الْبَقَآءَ مَنْ اَحَبَّهٗ.
’’شبہ‘‘ کو شبہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حق سے شباہت رکھتا ہے، تو جو دوستانِ خدا ہوتے ہیں ان کیلئے شبہات (کے اندھیروں) میں یقین اجالے کا اور ہدایت کی سمت رہنما کا کام دیتی ہے اور جو دشمنانِ خدا ہیں وہ ان شبہات میں گمراہی کی دعوت و تبلیغ کرتے ہیں اور کوری و بے بصری ان کی رہبر ہوتی ہے۔ موت وہ چیز ہے کہ ڈرنے والا اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتا اور ہمیشہ کی زندگی چاہنے والا ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کر سکتا۔