نیک کام کر نے والا خود اس کام سے بہتر اور برائی کا مرتکب ہونے والا خود اس برائی سے بدتر ہے۔ حکمت 32
(٢٢) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۲)
اَلَا وَ اِنَّ الشَّیْطٰنَ قَدْ ذَمَرَ حِزْبَهٗ، وَ اسْتَجْلَبَ جَلَبَهٗ، لِیَعُوْدَ الْجَوْرُ اِلٰۤى اَوْطَانِهٖ، وَ یَرْجِـعَ الْبَاطِلُ اِلٰى نِصَابِهٖ، وَاللهِ مَاۤ اَنْكَرُوْا عَلَیَّ مُنْكَرًا، وَ لَا جَعَلُوْا بَیْنِیْ وَ بَیْنَهُمْ نَصِفًا. وَ اِنَّهُمْ لَیَطْلُبُوْنَ حَقًّا هُمْ تَرَكُوْهُ، وَ دَمًا هُمْ سَفَكُوْهُ، فَلَئِنْ كُنْتُ شَرِیْكَهُمْ فِیْهِ فَاِنَّ لَهُمْ لَنَصِیْبَهُمْ مِنْهُ، وَ لَئِنْ كَانُوْا وَلُوْهُ دُوْنِیْ، فَمَا التَّبِعَةُ اِلَّا عِنْدَهُمْ، وَ اِنَّ اَعْظَمَ حُجَّتِهِمْ لَعَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ، یَرْتَضِعُوْنَ اُمًّا قَدْ فَطَمَتْ، وَ یُحْیُوْنَ بِدْعَةً قَدْ اُمِیْتَتْ.
معلوم ہونا چاہیے کہ شیطان نے اپنے گروہ کو بھڑکانا شروع کر دیا اور اپنی فوجیں فراہم کر لی ہیں تاکہ ظلم اپنی انتہا کی حد تک اور باطل اپنے مقام پر پلٹ آئے۔ خدا کی قسم! انہوں نے مجھ پر کوئی سچا الزام نہیں لگایا اور نہ انہوں نے میرے اور اپنے درمیان انصاف برتا۔ وہ مجھ سے اس حق کا مطالبہ کرتے ہیں جسے خود ہی انہوں نے چھوڑ دیا اور اس خون کا عوض چاہتے ہیں جسے انہوں نے خود بہایا ہے۔ اب اگر اس میں مَیں ان کا شریک تھا تو پھر اس میں ان کا بھی تو حصہ نکلتا ہے اور اگر وہی اس کے مرتکب ہوئے ہیں، مَیں نہیں تو پھر اس کی سزا بھی صرف انہی کو بھگتنا چاہیے۔ جو سب سے بڑی دلیل وہ میرے خلاف پیش کریں گے وہ انہی کے خلاف پڑے گی۔ وہ اس ماں کا دودھ پینا چاہتے ہیں جس کا دودھ منقطع ہو چکا ہے اور مری ہوئی بدعت کو پھر سے زندہ کرنا چاہتے ہیں۔
یَا خَیْبَةَ الدَّاعِیْ! مَنْ دَعَا وَ اِلَامَ اُجِیْبَ! وَ اِنِّیْ لَرَاضٍۭ بِحُجَّةِ اللهِ عَلَیْهِمْ وَ عِلْمِهٖ فِیْهِمْ. فَاِنْ اَبَوْا اَعْطَیْتُهُمْ حَدَّ السَّیْفِ، وَ كَفٰى بِهٖ شَافِیًا مِّنَ الْبَاطِلِ، وَ نَاصِرًا لِّلْحَقِّ وَ مِنَ الْعَجَبِ بَعْثُهُمْ اِلَیَّ اَنْ اَبْرُزَ لِلطِّعَانِ! وَ اَنْ اَصْبِرَ لِلْجِلَادِ! هَبِلَتْهُمُ الْهَبُوْلُ، لَقَدْ كُنْتُ وَ مَاۤ اُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ، وَ لَاۤ اُرَهَّبُ بِالضَّرْبِ، وَ اِنِّیْ لَعَلٰى یَقِیْنٍ مِّنْ رَّبِّیْ، وَ غَیْرِ شُبْهَةٍ مِّنْ دِیْنِیْ.
اُف کتنا نامراد یہ (جنگ کیلئے) پکارنے والا ہے۔ یہ ہے کون جو للکارنے والا ہے اور کس مقصد کیلئے اس کی بات کو سنا جا رہا ہے اور میں تو اس سے خوش ہوں کہ ان پر اللہ کی حجت تمام ہو چکی ہے اور ہر چیز اس کے علم میں ہے۔ اگر ان لوگوں نے اطاعت سے انکار کیا تو میں تلوار کی باڑ ان کے سامنے رکھ دوں گا جو باطل سے شفا دینے اور حق کی نصرت کیلئے کافی ہے۔ حیرت ہے کہ وہ مجھے یہ پیغام بھیجتے ہیں کہ میں نیزہ زنی کیلئے میدان میں اتر آؤں اور تلواروں کی جنگ کیلئے جمنے پر تیار رہوں۔ رونے والیاں ان کے غم میں روئیں! مَیں تو ہمیشہ ایسا رہا کہ جنگ سے مجھے دھمکایا نہیں جا سکا اور شمشیر زنی سے خوفزدہ نہیں کیا جا سکا اور میں اپنے پروردگار کی طرف سے یقین کے درجہ پر فائز ہوں اور اپنے دین کی حقانیت میں مجھے کوئی شک نہیں ہے۔ [۱]
۱جب امیرالمومنین علیہ السلام پر قتلِ عثمان کی تہمت لگائی گئی تو اس غلط الزام کی تردید میں یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں الزام رکھنے والوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ: یہ انتقام کی رٹ لگانے والے یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ تنہا میں ہی قاتل ہوں اور اس میں اور کوئی شریک نہ تھا اور نہ یہ کہہ کر سامنے کے واقعات کو جھٹلا سکتے ہیں کہ وہ خود اس سے بے تعلق تھے، تو پھر اس انتقام کیلئے مجھے ہی کیوں آگے دھر لیا ہے۔ میرے ساتھ اپنے کو بھی شریک کریں اور اگر میں اس سے بری الذمہ ہوں تو وہ تو خود اپنی برائت ثابت نہیں کر سکتے، لہٰذا اس پاداش سے اپنے کو کیوں الگ کرتے ہیں۔ حقیقت امر یہ ہے کہ مجھے موردِ الزام ٹھہرانے سے ان کا مقصد یہ ہے کہ میں ان سے وُہی روش اختیار کروں جس کے یہ عادی رہ چکے ہیں، لیکن ان کو مجھ سے یہ توقع نہ رکھنا چاہیے کہ میں سابقہ دور کی بدعتوں کو پھر سے زندہ کروں۔ رہا جنگ کا سوال تو میں نہ اس سے کبھی ڈرا ہوں اور نہ اب خائف ہوں۔ میری نیت کو اللہ جانتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہ انتقام کا سہارا لے کر کھڑے ہونے والے ہی ان کے خون سے ہاتھ رنگنے والے ہیں۔
چنانچہ تاریخ اس سے ہمنوا ہے کہ جن لوگوں نے اشتعال دلا کر ان کی موت کا سر و سامان کیا تھا اور جنازہ پر پتھر برسوا کر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے تک سے مانع ہوئے تھے وہ وہی لوگ تھے جو ان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اس سلسلہ میں طلحہ ابنِ عبید اللہ، زبیر ابنِ عوام اور اُمّ المومنین عائشہ کا نام سرِ فہرست نظر آتا ہے اور دونوں موقعوں پر ان کی کوششیں نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں۔
چنانچہ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں:
رَوَى النَّاسُ الَّذِيْنَ صَنَّفُوْا فِیْ وَاقِعَةِ الدَّارِ اَنَّ طَلْحَةَ كَانَ يَوْمَ قَتْلِ عُثْمَانَ مُقْنِعًۢا بِثَوْبٍ قَدِ اسْتَتَرَ بِهٖ عَنْ اَعْيُنِ النَّاسِ يَرْمِی الدَّارَ بِالسِّهَامِ.
جن لوگوں نے قتلِ عثمان کے سلسلے میں واقعات تحریر کئے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے قتل کے دن طلحہ کی یہ حالت تھی کہ وہ لوگوں کی نظروں سے بچنے کیلئے چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے حضرت عثمان کے گھر پر تیر بارانی کر رہے تھے۔
اور اس سلسلہ میں زبیر کے خیالات کے متعلق تحریر کرتے ہیں کہ:
وَ رَوَوْا اَيْضًا اَنَّ الزُّبَيْرَ كَانَ يَقُوْلُ: اقْتُلُوْهُ فَقَدْ بَدَّلَ دِيْنَكُمْ، فَقَالُوْا: اِنَّ ابْنَكَ يُحَامِیْ عَنْهُ بِالْبَابِ؟ فَقَالَ: مَاۤ اَكْرَهُ اَنْ يُّقْتَلَ عُثْمَانُ وَ لَوْ بُدِئَ بِابْنِيْ، اِنَّ عُثْمَانَ لَجِيْفَةٌ عَلَى الصِّرَاطِ غَدًا.
مورّخین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ زبیر یہ کہتے تھے کہ: عثمان کو قتل کر دو، اس نے تمہارا دین ہی بدل ڈالا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ کا بیٹا تو ان کے دروازے پر کھڑا ہوا ان کی حفاظت کر رہا ہے؟ آپ نے کہا کہ: خواہ میرا بیٹا ہی پہلے کام آ جائے، مگر عثمان قتل کر دیا جائے، یہ تو کل پل صراط پر مردار کی صورت میں پڑا ہو گا۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۰۴)
اور اُمّ المومنین کے متعلق ابن عبد ربہ لکھتے ہیں کہ:
دَخَلَ الْمُغِيْرَةُ بْنُ شُعْبَةَ عَلٰى عَآئِشَةَ فَقَالَتْ: يَاۤ اَبَا عَبْدِ اللهِ! لَوْ رَاَيْتَنِیْ يَوْمَ الْجَمَلِ قَدْ نَفَذَتْ النِّصَالُ هَوْدَجِیْ حَتّٰی وَصَلَ بَعْضُهَا اِلٰى جِلْدِیْ! قَالَ لَهَا الْمُغِيْرَةُ: وَدِدْتُّ وَاللهِ! اَنَّ بَعْضَهَا كَانَ قَتَلَكِ! قَالَتْ يَرْحَمُكَ اللهُ! وَ لِمَ تَقُوْلُ هٰذَا؟ قَالَ: لَعَلَّهَا تَكُوْنُ كَفَّارَةٌ فِیْ سَعْيِكِ عَلٰى عُثْمَانَ.
مغیرہ ابنِ شعبہ حضرت عائشہ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: اے ابو عبد اللہ! کاش تم جمل کے موقعہ پر میری حالت دیکھتے کہ کس طرح تیر میرے ہودج کو چیرتے ہوئے نکل رہے تھے، یہاں تک کہ کچھ تو میرے جسم سے ٹکرا جاتے تھے۔ مغیرہ نے کہا کہ: خدا کی قسم! میں تویہ چاہتا تھا کہ ان میں سے ایک آدھ تیر آپ کا خاتمہ کر دیتا۔ آپ نے کہا کہ: خدا تمہارا بھلا کرے یہ کیسی بات کہہ رہے ہو؟ اس نے کہا کہ: یہ اس لئے کہ حضرت عثمان کے خلاف جو آپ نے تگ و دو کی تھی اس کا کچھ تو کفارہ ہو جاتا۔ (عقد الفرید، ج۳، ص۸۷)↑