سخاوت کرو، لیکن فضول خرچی نہ کرو، اور جزرسی کرو مگر بخل نہیں۔ حکمت 33
(٤٨) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۴۸)
عِنْدَ الْمَسِیْرِ اِلَی الشَّامِ
جب شام روانہ ہوئے تو فرمایا
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ كُلَّمَا وَقَبَ لَیْلٌ وَ غَسَقَ، وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ كُلَّمَا لَاحَ نَجْمٌ وَّ خَفَقَ، وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ غَیْرَ مَفْقُوْدِ الْاِنْعَامِ، وَ لَا مُكَافَاِ الْاِفْضَالِ.
اللہ کیلئے حمد و ثنا ہے جب بھی رات آئے اور اندھیرا پھیلے اور اللہ کیلئے تعریف و توصیف ہے جب بھی ستارہ نکلے اور ڈوبے اور اس اللہ کیلئے مدح و ستائش ہے کہ جس کے انعامات کبھی ختم نہیں ہوتے اور جس کے احسانات کا بدلہ اتارا نہیں جا سکتا۔
اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ بَعَثْتُ مُقَدِّمَتِیْ، وَ اَمَرْتُهُمْ بِلُزُوْمِ هٰذَا الْمِلْطَاطِ، حَتّٰی یَاْتِیَهُمْ اَمْرِیْ، وَ قَدْ اَرَدْتُّ اَنْ اَقْطَعَ هٰذِهِ الْنُّطْفَةَ اِلٰی شِرْذِمَةٍ مِّنْكُمْ، مُوْطِنِیْنَ اَكْنَافَ دَجْلَةَ، فَاُنْهِضَهُمْ مَّعَكُمْ اِلٰی عَدُوِّكُمْ، وَ اَجْعَلَهُمْ مِنْ اَمْدَادِ الْقُوَّةِ لَكُمْ.
(آگاہ رہو کہ) میں نے فوج کا ہر اول دستہ آگے بھیج دیا ہے اور اسے حکم دیا ہے کہ میرا فرمان پہنچنے تک اس دریا کے کنارے پڑاؤ ڈالے رہے اور میرا ارادہ ہے کہ اس پانی کو عبور کر کے اس چھوٹے سے گروہ کے پاس پہنچ جاؤں جو اطراف دجلہ (مدائن) میں آباد ہے اور اسے بھی تمہارے ساتھ دشمنوں کے مقابلہ میں کھڑا کروں اور انہیں تمہاری کمک کیلئے ذخیرہ بناؤں۔ [۱]
اَقُوْلُ: يَعْنِىْ ؑ بِـ «الْمِلْطَاطِ» هٰهُنَا السَّمْتَ الَّذِىْ اَمَرَهُمْ بِلُزوْمِهٖ وَ هُوَ شَاطِئُ الْفُرَاتِ، وَ يُقَالُ ذٰلِكَ اَيْضًا لِشَاطِئِ الْبَحْرِ، وَ اَصْلُهٗ مَا اسْتَوٰى مِنَ الْاَرْضِ، وَ يَعْنِیْ بِـ «النُّطْفَةِ» مَآءَ الْفُرَاتِ ، وَ هُوَ مِنْ غَرِيْبِ الْعِبَارَاتِ وَ عَجِيْبِهَا.
علامہ رضیؒ کہتے ہیں کہ: امیر المومنین علیہ السلام نے اس مقام پر «الْمِلْطَاطِ» سے وہ سمت مراد لی ہے جہاں انہیں ٹھہرنے کا حکم دیا تھا اور وہ سمت کنارہ فرات ہے اور ’’ملطاط‘‘ کنارۂ دریا کو کہا جاتا ہے۔ اگرچہ اس کے اصل معنی ہموار زمین کے ہیں۔ اور «النُّطْفَةِ» (صاف و شفاف پانی) سے آپؑ کی مراد آبِ فرات ہے اور یہ عجیب و غریب تعبیرات میں سے ہے۔
۱جب امیر المومنین علیہ السلام نے صفین کے ارادہ سے وادی نخیلہ میں پڑاؤ ڈالا تو ۵ شوال ۳۷ھء بروز چہار شنبہ یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس میں حضرتؑ نے جس ہر اول دستے کا ذکر کیا ہے، اس سے وہ بارہ ہزار افراد مراد ہیں جو زیاد ابنِ نضر اور شریح ابنِ ہانی کے زیر قیادت صفین کی طرف روانہ فرمائے تھے اور مدائن کے جس چھوٹے سے گروہ کا ذکر کیا ہے وہ بارہ سو افراد کا ایک جتھا تھا جو آپؑ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔