سب سے بڑی وحشت غرور و خود بینی ہے، اور سب سے بڑا جوہر ذاتی حسنِ اخلاق ہے۔ حکمت 38
(٢٠٠) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۰۰)
عِنْدَ دَفْنِ سَیِّدَةِ النِّسَآءِ فَاطِمَةَ عَلَیْھَا
سیّدة النساء حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
السَّلَامُ اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُوْلَ اللهِ عَنِّیْ، وَ عَنِ ابْنَتِكَ النَّازِلَةِ فِیْ جِوَارِكَ، وَ السَّرِیْعَةِ اللَّحَاقِ بِكَ! قَلَّ یَا رَسُوْلَ اللهِ! عَنْ صَفِیَّتِكَ صَبْرِیْ، وَ رَقَّ عَنْهَا تَجَلُّدِیْ، اِلَّاۤ اَنَّ لِیْ فِی التَّاَسِّیْ بِعَظِیْمِ فُرْقَتِكَ، وَ فَادِحِ مُصِیْبَتِكَ، مَوْضِعَ تَعَزٍّ، فَلَقَدْ وَسَّدْتُّكَ فِیْ مَلْحُوْدَةِ قَبْرِكَ، وَ فَاضَتْ بَیْنَ نَحْرِیْ وَ صَدْرِیْ نَفْسُكَ.
یا رسول اللہؐ! آپؐ کو میری جانب سے اور آپؐ کے پڑوس میں اترنے والی اور آپؐ سے جلد ملحق ہونے والی آپؐ کی بیٹی کی طرف سے سلام ہو۔ یا رسول اللہؐ! آپؐ کی برگزیدہ (بیٹی کی رحلت) سے میرا صبر و شکیب جاتا رہا، میری ہمت و توانائی نے ساتھ چھوڑ دیا، لیکن آپؐ کی مفارقت کے حادثہ عظمیٰ اور آپؐ کی رحلت کے صدمہ جانکاہ پر صبر کر لینے کے بعد مجھے اس مصیبت پر بھی صبر و شکیبائی ہی سے کام لینا پڑے گا، جبکہ میں نے اپنے ہاتھوں سے آپؐ کو قبر کی لحد میں اتارا اور اس عالم میں آپؐ کی روح نے پرواز کی کہ آپؐ کا سر میری گردن اور سینے کے درمیان رکھا تھا۔
﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ﴾، فَلَقَدِ اسْتُرْجِعَتِ الْوَدِیْعَةُ، وَ اُخِذَتِ الرَّهِیْنَةُ! اَمَّا حُزْنِیْ فَسَرْمَدٌ، وَ اَمَّا لَیْلِیْ فَمُسَهَّدٌ، اِلٰۤی اَنْ یَّخْتَارَ اللهُ لِیْ دَارَكَ الَّتِیْۤ اَنْتَ بِهَا مُقِیْمٌ.
انا للہ و انا الیہ راجعون ، اب یہ امانت پلٹا لی گئی، گروی رکھی ہوئی چیز چھڑا لی گئی، لیکن میرا غم بے پایاں اور میری راتیں بے خواب رہیں گی، یہاں تک کہ خداوند عالم میرے لئے بھی اسی گھر کو منتخب کرے جس میں آپؐ رونق افروز ہیں۔
وَ سَتُنَبِّئُكَ ابْنَتُكَ بِتَضَافُرِ اُمَّتِكَ عَلٰی هَضْمِهَا، فَاَحْفِهَا السُّؤَالَ، وَ اسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ، هٰذَا وَ لَمْ یَطُلِ الْعَهْدُ، وَ لَمْ یَخْلُ مِنْكَ الذِّكْرُ.
وہ وقت آ گیا کہ آپؐ کی بیٹی آپؐ کو بتائیں کہ کس طرح آپؐ کی اُمت نے ان پر ظلم ڈھانے کیلئے ایکا کر لیا [۱] ۔ آپؐ ان سے پورے طور پر پوچھیں اور تمام احوال و واردات دریافت کریں۔ یہ ساری مصیبتیں ان پر بیت گئیں، حالانکہ آپؐ کو گزرے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہو اتھا اور نہ آپؐ کے تذکروں سے زبانیں بند ہوئی تھیں۔
وَ السَّلَامُ عَلَیْكُمَا سَلَامَ مُوَدِّعٍ، لَا قَالٍ وَّ لَا سَئِمٍ، فَاِنْ اَنْصَرِفْ فَلَا عَنْ مَّلَالَةٍ، وَ اِنْ اُقِمْ فَلَا عَنْ سُوْٓءِ ظَنٍّۭ بِمَا وَعَدَ اللهُ الصَّابِرِیْنَ.
آپؐ دونوں پر میرا سلامِ رخصتی ہو، نہ ایسا سلام جو کسی ملول و دل تنگ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اب اگر میں (اس جگہ سے) پلٹ جاؤں تو اس لئے نہیں کہ آپؐ سے میرا دل بھر گیا ہے اور اگر ٹھہرا رہوں تو اس لئے نہیں کہ میں اس وعدہ سے بدظن ہوں جو اللہ نے صبر کرنے والوں سے کیا ہے۔
۱پیغمبر اکرم ﷺ کی رحلت کے بعد اُمتِ محمدیہؐ نے بنت رسول سلام اللہ علیہا سے جو رویہ اختیار کیا وہ انتہائی تکلیف دہ اور افسوسناک ہے۔ اگرچہ پیغمبر ﷺ کے اُٹھ جانے کے بعد جناب سیدہ سلام اللہ علیہا چند ماہ سے زیادہ اس دنیا میں نہیں رہیں، مگر یہ قلیل عرصہ بھی رنج و اندوہ کی ایک طویل داستان اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس سلسلہ میں جو پہلا منظر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر ﷺ کی تجہیز و تکفین کا سر و سامان بھی نہیں ہونے پاتا کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں جنگِ اقتدار شروع ہو جاتی ہے۔ فطری طور پر ان لوگوں کا نعش پیغمبؐر کو چھوڑ کر چلے جانا سیدہ سلام اللہ علیہا کے غم رسیدہ دل پر اثر انداز ہوا ہو گا کہ زندگی میں پیمانِ وفا و محبت باندھنے والے ان کی اکلوتی بیٹی کی تسلی و تسکین کا سامان کرنے کے بجائے اپنے اقتدار کی فکر میں اس طرح کھو گئے کہ نہ یہ پتہ چلا کہ کب پیغمبر ﷺ کو غسل دیا گیا؟ اور کب دفن کیا گیا؟ اور تعزیت کی بھی تو اس صورت سے کہ پوری شعلہ سامانیوں کے ساتھ ان کے گھر پر ہجوم کر کے آ دھمکے اور ظلم و جبر اور درشتی و تشدد کے مظاہروں کے ساتھ بجبر بیعت لینے کے درپے ہو گئے۔ یہ تمام قہر سامانیاں صرف اس لئے تھیں کہ اس گھر کی عظمت کو خاک میں ملا کر رکھ دیا جائے، تا کہ کسی موقع پر یہ اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل نہ کر سکے۔ چنانچہ اسی مقصد کے پیش نظر صدیقۂ کبریٰ سلام اللہ علیہا کی اقتصادی حالت کو پامال کرنے کیلئے ان کے دعوائے فدک کو کذب بیانی پر محمول کر کے انہیں محروم کر دیا گیا، جس سے متاثر ہو کر سیدہ سلام اللہ علیہا نے یہ وصیت فرمائی کہ ان میں کوئی مشایعت جنازہ تک نہ کرے۔