’’صبر‘‘کی چار شاخیں ہیں: اشتیاق، خوف، دنیا سے بے اعتنائی اور انتظار۔ حکمت 30
(٧١) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۷۱)
قَالَهٗ لِمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ بِالْبَصْرَةِ قَالُوْا: اُخِذَ مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ اَسِيْرًا يَّوْمَ الْجَمَلِ، فَاسْتَشْفَعَ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ عَلَیْھِمَا السَّلَامُ اِلٰۤى اَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ ؑ فَكَلَّمَاهُ فِيْهِ فَخَلّٰى سَبِيْلَهٗ: فَقَالَا لَهٗ يُبَايِعُكَ يَاۤ اَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ، فَقَالَ ؑ:
جمل کے موقعہ پر جب مروان بن حکم [۱] گرفتار کیا گیا تو اس نے حسن اور حسین علیہما السلام سے خواہش کی کہ وہ امیر المومنین علیہ السلام سے اس کی سفارش کریں۔ چنانچہ ان دونوں حضراتؑ نے امیر المومنینؑ سے اس سلسلہ میں بات چیت کی اور حضرتؑ نے اُسے رہا کر دیا۔ پھر دونوں شہزادوں نے کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! یہ آپؑ کی بیعت کرنا چاہتا ہے، تو حضرت علی علیہ السلام نے اس کے متعلق فرمایا:
اَ وَ لَمْ یُبَایِعْنِیْ بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ؟ لَا حَاجَةَ لِیْ فِیْ بَیْعَتِهٖ! اِنَّهَا كَفٌّ یَّهُوْدِیَّةٌ، لَوْ بَایَعَنِیْ بِكَفِّهٖ لَغَدَرَ بِسَبَّتِهٖ. اَمَا اِنَّ لَهٗ اِمْرَةً كَلَعْقَةِ الْكَلْبِ اَنْفَهٗ، وَ هُوَ اَبُو الْاَكْبُشِ الْاَرْبَعَةِ، وَ سَتَلْقَی الْاُمَّةُ مِنْهُ وَ مِنْ وَّلَدِهٖ یَوْمًا اَحْمَرَ!.
کیا اس نے عثمان کے قتل ہو جانے کے بعد میری بیعت نہیں کی تھی؟ اب مجھے اس کی بیعت کی ضرورت نہیں۔ یہ یہودی قسم کا ہاتھ ہے۔ اگر ہاتھ سے بیعت کرے گا تو ذلیل طریقے سے توڑ بھی دے گا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بھی اتنی دیر کہ کتا اپنی ناک چاٹنے سے فارغ ہو، حکومت کرے گا اور اس کے چار بیٹے بھی حکمران ہوں گے اور اُمت اس کے اور اس کے بیٹوں کے ہاتھوں سے سختیوں کے دن دیکھے گی۔
۱’’مروان ابن حکم‘‘ حضرت عثمان کا بھتیجا اور داماد تھا اور اکہرا جسم اور لمبا قد ہونے کی وجہ سے ’’خیط باطل‘‘ (باطل کا ڈورا) کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا چنانچہ عبد الملک ابن مروان نے جب عمرو ابن سعید اشدق کو قتل کر دیا تو اس کے بھائی یحییٰ ابن سعید نے کہا:
غَدَرْتُمْ بِعَمْرٍو يَا بَنِیْ خَيْطِ بَاطِلٍ
وَ مِثْلُكُمْ يَبْنِی الْبُيوْتَ عَلى الْغَدَرِ
’’اے خیطِ باطل کی اولاد! تم نے عمرو سے غداری کی اور تمہارے ایسے لوگ غداری ہی کی بنیادوں پر اپنے اقتدار کی عمارتیں کھڑی کیا کرتے ہیں‘‘۔[۱]
اس کا باپ ’’حکم‘‘ گو فتح مکہ کے موقعہ پر اسلام لے آیا تھا مگر اس کے طور طریقے ایسے تھے کہ جو پیغمبر ﷺ کیلئے انتہائی اذیت کا باعث ہوتے تھے۔ چنانچہ پیغمبر ﷺ نے اس پر اور اس کی اولاد پر لعنت کی اور فرمایا کہ:
وَیْلٌ لِاُمَّتِیْ مِنْ صُلْبِ ھٰذَا۔
یعنی اس کی اولاد کے ہاتھوں میری اُمت تباہی کے دن دیکھے گی۔ (اسد الغابہ)
آخر پیغمبر ﷺ نے اس کی بڑھتی ہوئی سازشوں کے پیش نظر اسے مدینہ سے وادی وج (طائف میں ایک جگہ ہے) کی طرف نکلوا دیا اور مروان بھی اس کے ساتھ چلتا بنا اور پھر پیغمبر ﷺ نے زندگی بھر ان دونوں کو مدینہ نہ آنے دیا۔ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے بھی ایسا ہی کیا، لیکن حضرت عثمان نے اپنے عہد میں ان دونوں کو واپس بلوا لیا اور مروان کو تو اس عروج پر پہنچایا کہ گویا خلافت کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے اور پھر اس کے حالات اس طرح سازگار ہوئے کہ معاویہ ابن یزید کے مرنے کے بعد خلیفۃ المسلمین بن گیا، لیکن ابھی نو مہینے اٹھارہ دن ہی حکومت کرتے ہوئے گزرے تھے کہ ۳ رمضان سن ۶۵ ہجری میں ۶۳ برس کی عمر میں قضا نے اس طرح آ گھیرا کہ اس کی بیوی اس کے منہ پر تکیہ رکھ کر بیٹھ گئی اور اُس وقت تک الگ نہ ہوئی جب تک اُس نے دم نہ توڑ دیا۔
اس کے جن چار بیٹوں کی طرف امیر المومنین علیہ السلام نے اشارہ کیا ہے وہ عبد الملک ابنِ مروان کے چار بیٹے: ولید، سلیمان، یزید اور ہشام ہیں کہ جو عبد الملک کے بعد یکے بعد دیگرے تخت خلافت پر بیٹھے اور اپنی خونچکاں داستانوں سے صفحاتِ تاریخ رنگین کر گئے۔
اور بعض شارحین نے خود اس کے صلبی بیٹے مراد لئے ہیں جن کے نام یہ ہیں: عبد الملک، عبد العزیز، بشر اور محمد۔ ان میں سے عبدالملک تو خلیفہ ہو گیا اور عبد العزیز مصر کا، بشر عراق کا اور محمد جزیرہ کا والی قرار پایا۔↑
[۱]۔ الاوائل، ابو ہلال العسکری، ج ۱، ص ۲۴۹، مطبوعہ دار البشیر، طنطہ، ۱۴۰۸ ھ۔