فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

صلح و صفائی عیبوں کو ڈھانپنے کا ذریعہ ہے۔ حکمت 5
(١٩٦) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۹۶)
یَعْلَمُ عَجِیْجَ الْوُحُوْشِ فِی الْفَلَوَاتِ، وَ مَعَاصِیَ الْعِبَادِ فِی الْخَلَوَاتِ، وَ اخْتِلَافَ النِّیْنَانِ فِی الْبِحَارِ الْغَامِرَاتِ، وَ تَلَاطُمَ الْمَآءِ بِالرِّیَاحِ الْعَاصِفَاتِ.
وہ (خداوند عالم) بیابانوں میں چوپاؤں کے نالے (سنتا ہے)، تنہائیوں میں بندوں کے گناہوں سے آگاہ ہے اور اَتھاہ دریاؤں میں مچھلیوں کی آمد و شد اور تند ہواؤں کے ٹکراؤ سے پانی کے تھپیڑوں کو جانتا ہے۔
وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا نَّجِیْبُ اللهِ، وَ سَفِیْرُ وَحْیِهٖ، وَ رَسُوْلُ رَحْمَتِهٖ ﷺ.
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے برگزیدہ، اس کی وحی کے ترجمان اور رحمت کے پیغامبر ہیں۔
اَمَّا بَعْدُ! فَاِنِّیْۤ اُوْصِیْكُمْ بِتَقْوَی اللهِ الَّذِی ابْتَدَاَ خَلْقَكُمْ، وَ اِلَیْهِ یَكُوْنُ مَعَادُكُمْ، وَ بِهٖ نَجَاحُ طَلِبَتِكُمْ، وَ اِلَیْهِ مُنْتَهٰی رَغْبَتِكُمْ، وَ نَحْوَهُ قَصْدُ سَبِیْلِكُمْ، وَ اِلَیْهِ مَرَامِیْ مَفْزَعِكُمْ، فَاِنَّ تَقْوَی اللهِ دَوَآءُ دَآءِ قُلُوْبِكُمْ، وَ بَصَرُ عَمٰۤی اَفْئِدَتِكُمْ، وَ شِفَآءُ مَرَضِ اَجْسَادِكُمْ، وَ صَلَاحُ فَسَادِ صُدُوْرِكُمْ، وَ طُهُوْرُ دَنَسِ اَنْفُسِكُمْ، وَ جِلَآءُ عَشَاۤ اَبْصَارِكُمْ، وَ اَمْنُ فَزَعِ جَاْشِكُمْ، وَ ضِیَآءُ سَوَادِ ظُلْمَتِكُمْ.
میں تمہیں اس اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں کہ جس نے تمہیں پیدا کیا اور جس کی طرف تمہیں پلٹنا ہے۔ وہی تمہاری کامرانیوں کا ذریعہ اور تمہاری آرزوؤں کی منزل منتہا ہے۔ تمہاری راہ حق اسی کی طرف پلٹتی ہے اور وہی خوف و ہراس کے وقت تمہارے لئے پناہ گاہ ہے۔ (دل میں اللہ کا خوف رکھو) کیونکہ یہ تمہارے دلوں کے روگ کا چارہ، فکر و شعور کی تاریکیوں کیلئے اجالا، جسموں کی بیماریوں کیلئے شفا، سینے کی تباہ کاریوں کیلئے اصلاح، نفس کی کثافتوں کیلئے پاکیزگی، آنکھوں کی تیرگی کیلئے جلا، دل کی دہشت کیلئے ڈھارس اور جہالت کی اندھیاریوں کیلئے روشنی ہے۔
فَاجْعَلُوْا طَاعَةَ اللهِ شِعَارًا دُوْنَ دِثَارِكُمْ، وَ دَخِیْلًا دُوْنَ شِعَارِكُمْ، وَ لَطِیْفًۢا بَیْنَ اَضْلَاعِكُمْ، وَ اَمِیْرًا فَوْقَ اُمُوْرِكُمْ، وَ مَنْهَلًا لِّحِیْنِ وُرُوْدِكُمْ، وَ شَفِیْعًا لِّدَرَكِ طَلِبَتِكُمْ، وَ جُنَّةً لِّیَوْمِ فَزَعِكُمْ، وَ مَصَابِیْحَ لِبُطُوْنِ قُبُوْرِكُمْ، وَ سَكَنًا لِّطُوْلِ وَحْشَتِكُمْ، وَ نَفَسًا لِّكُرَبِ مَوَاطِنِكُمْ، فَاِنَّ طَاعَةَ اللهِ حِرْزٌ مِّنْ مَتَالِفَ مُكْتَنِفَةٍ، وَ مَخَاوِفَ مُتَوَقَّعَةٍ، وَ اُوَارِ نِیْرَانٍ مُّوْقَدَةٍ.
صرف ظاہری طور پر اللہ کی اطاعت کا جامہ نہ اوڑھ لو، (بلکہ) اسے اپنا اندرونی پہناوا بناؤ، نہ صرف اندرونی پہناوا، بلکہ ایسا کرو کہ وہ تمہارے باطن میں اتر جائے اور پسلیوں کے اندر (دل میں) رچ بس جائے اور اسے اپنے معاملات پر حکمران اور (حشر میں) وارد ہونے کے وقت سر چشمہ، منزل مقصود تک پہنچنے کا وسیلہ، خوف کے دن کیلئے سپر، نہاں خانۂ قبر کیلئے چراغ، (تنہائی کی) طویل وحشتوں کیلئے ہمنوا و دمساز اور منزل کی اندوہناکیوں سے رہائی (کا ذریعہ) قرار دو، کیونکہ اطاعت خدا گھیرنے والے مہلکوں، پیش آئند خوف و دہشت کے مرحلوں اور بھڑکتی ہوئی آگ کی لپکوں کیلئے پناہ گاہ ہے۔
فَمَنْ اَخَذَ بِالتَّقْوٰی عَزَبَتْ عَنْهُ الشَّدَآئِدُ بَعْدَ دُنُوِّهَا، وَ احْلَوْلَتْ لَهُ الْاُمُوْرُ بَعْدَ مَرَارَتِهَا، وَ انْفَرَجَتْ عَنْهُ الْاَمْوَاجُ بَعْدَ تَرَاكُمِهَا، وَ اَسْهَلَتْ لَهُ الصِّعَابُ بَعْدَ اِنْصَابِهَا، وَ هَطَلَتْ عَلَیْهِ الْكَرَامَةُ بَعْدَ قُحُوْطِهَا، وَ تَحَدَّبَتْ عَلَیْهِ الرَّحْمَةُ بَعْدَ نُفُوْرِهَا، وَ تَفَجَّرَتْ عَلَیْهِ النِّعَمُ بَعْدَ نُضُوْبِهَا، وَ وَبَلَتْ عَلَیْهِ الْبَرَكَةُ بَعْدَ اِرْذَاذِهَا.
جو تقویٰ کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے تو مصیبتیں اس کے قریب ہونے کے باوجود دور ہٹ جاتی ہیں، تمام امور تلخی و بدمزگی کے بعد شیریں و خوشگوار ہو جاتے ہیں، (تباہی و ہلا کت کی) موجیں ہجوم کرنے کے بعد چھٹ جاتی ہیں اور دشواریاں سختیوں میں مبتلا کرنے کے بعد آسان ہو جاتی ہیں، قحط و نایابی کے بعد لطف و کرم کی جھڑی لگ جاتی ہے، رحمت برگشتہ ہونے کے بعد پھر جھک پڑتی ہے، زمین میں پایاب ہونے کے بعد پھر نعمتوں کے سر چشمے ابل پڑتے ہیں اور پھوار کی کمی کے بعد رحمت و برکت کی دھواں دھار بارشیں ہونے لگتی ہیں۔
فَاتَّقُوا اللهَ الَّذِیْ نَفَعَكُمْ بِمَوْعِظَتِهٖ، وَ وَعَظَكُمْ بِرِسَالَتِهٖ، وَ امْتَنَّ عَلَیْكُمْ بِنِعْمَتِهٖ، فَعَبِّدُوْا اَنْفُسَكُمْ لِعِبَادَتِهٖ، وَ اخْرُجُوْۤا اِلَیْهِ مِنْ حَقِّ طَاعَتِهٖ.
اس اللہ سے ڈرو! کہ جس نے پند و موعظت سے تمہیں فائدہ پہنچایا، اپنے پیغام کے ذریعے تمہیں وعظ و نصیحت کی، اپنی نعمتوں سے تم پر لطف و احسان کیا۔ اس کی بندگی و نیاز مندی کیلئے اپنے نفسوں کو رام کرو اور اس کی فرمانبرداری کا پورا پورا حق ادا کرو۔
ثُمَّ اِنَّ هٰذَا الْاِسْلَامَ دِیْنُ اللهِ الَّذِی اصْطَفَاهُ لِنَفْسِهٖ، وَ اصْطَنَعَهٗ عَلٰی عَیْنِهٖ، وَ اَصْفَاهُ خِیْرَةَ خَلْقِهٖ، وَ اَقَامَ دَعَآئِمَهٗ عَلٰی مَحَبَّتِهٖ، اَذَلَّ الْاَدْیَانَ بِعِزَّتِهٖ، وَ وَضَعَ الْمِلَلَ بِرَفْعِهٖ، وَ اَهَانَ اَعْدَآءَهٗ بِكَرَامَتِهٖ، وَ خَذَلَ مُحَادِّیْهِ بِنَصْرِهٖ، وَ هَدَمَ اَرْكَانَ الضَّلَالَةِ بِرُكْنِهٖ، وَ سَقٰی مَنْ عَطِشَ مِنْ حِیَاضِهٖ، وَ اَتْاَقَ الْحِیَاضَ بِمَوَاتِحِهٖ.
پھر یہ کہ اسلام ہی وہ دین ہے جسے اللہ نے اپنے پہچنوانے کیلئے پسند کیا، اپنی نظروں کے سامنے اس کی دیکھ بھال کی، اس کی (تبلیغ کیلئے) بہترین خلق کا انتخاب فرمایا، اپنی محبت پر اس کے ستون کھڑے کئے، اس کی عزت و برتری کی وجہ سے تمام دینوں کو سر نگوں کیا اور اس کی بلندی کے سامنے سب ملتوں کو پست کیا، اس کی عزت و بزرگی کے ذریعہ دشمنوں کو ذلیل اور اس کی نصرت و تائید سے مخالفوں کو رسوا کیا، اس کے ستون سے گمراہی کے کھمبوں کو گرا دیا، پیاسوں کو اس کے تالابوں سے سیراب کیا اور پانی الچنے والوں کے ذریعہ حوضوں کو بھر دیا۔
ثُمَّ جَعَلَهٗ لَا انْفِصَامَ لِعُرْوَتِهٖ، وَ لَا فَكَّ لِحَلْقَتِهٖ، وَ لَا انْهِدَامَ لِاَسَاسِهٖ، وَ لَا زَوَالَ لِدَعَآئِمِهٖ، وَ لَا انْقِلَاعَ لِشَجَرَتِهٖ، وَ لَا انْقِطَاعَ لِمُدَّتِهٖ، وَ لَا عَفَآءَ لِشَرَآئِعِهٖ، وَ لَا جَذَّ لِفُرُوْعِهٖ، وَ لَا ضَنْكَ لِطُرُقِهٖ، وَ لَا وُعُوْثَةَ لِسُهُوْلَتِهٖ، وَ لَا سَوَادَ لِوَضَحِهٖ، وَ لَا عِوَجَ لِانْتِصَابِهٖ، وَ لَا عَصَلَ فِیْ عُوْدِهٖ، وَ لَا وَعَثَ لِفَجِّهٖ، وَ لَا انْطِفَآءَ لِمَصَابِیْحِهٖ، وَ لَا مَرَارَةَ لِحَلَاوَتِهٖ.
پھر یہ کہ اسے اس طرح مضبوط کیا کہ اس کے بندھنوں کیلئے شکست و ریخت نہیں، نہ اس کے حلقہ (کی کڑیاں) الگ الگ ہو سکتی ہیں، نہ اس کی بنیاد گر سکتی ہے، نہ اس کے ستون اپنی جگہ چھوڑ سکتے ہیں، نہ اس کا درخت اکھڑ سکتا ہے، نہ اس کی مدت ختم ہو سکتی ہے،نہ اس کے قوانین محو ہو سکتے ہیں، نہ اس کی شاخیں کٹ سکتی ہیں، نہ اس کی راہیں تنگ، نہ اس کی آسانیاں دشوار ہیں، نہ اس کے سفید دامن پر سیاہی کا دھبہ، نہ اس کی استقامت میں پیچ و خم، نہ اس کی لکڑی میں کجی، نہ اس کی کشادہ راہ میں کوئی دشواری ہے، نہ اس کے چراغ گُل ہوتے ہیں، نہ اس کی خوشگواریوں میں تلخیوں کا گزر ہوتا ہے۔
فَهُوَ دَعَآئِمُ اَسَاخَ فِی الْحَقِّ اَسْنَاخَهَا، وَ ثَبَّتَ لَهَاۤ اٰسَاسَهَا، وَ یَنَابِیْعُ غَزُرَتْ عُیُوْنُهَا، وَ مَصَابِیْحُ شَبَّتْ نِیْرَانُهَا، وَ مَنَارٌ اقْتَدٰی بِهَا سُفَّارُهَا، وَ اَعْلَامٌ قُصِدَ بِهَا فِجَاجُهَا، وَ مَنَاهِلُ رَوِیَ بِهَا وُرَّادُهَا.
اسلام ایسے ستونوں پر حاوی ہے جس کے پائے اللہ نے حق (کی سر زمین) میں قائم کئے ہیں اور ان کی اساس و بنیاد کو استحکام بخشا ہے اور ایسے سر چشمے ہیں جن کے چشمے پانی سے بھرپور اور ایسے چراغ ہیں جن کی لوئیں ضیاء بار ہیں اور ایسے مینار ہیں جن کی روشنی میں مسافر قدم بڑھاتے ہیں اور ایسے نشان ہیں کہ جن سے سیدھی راہوں کا قصد کیا جاتا ہے اور ایسے گھاٹ ہیں جن پر اترنے والے ان سے سیراب ہوتے ہیں۔
جَعَلَ اللهُ فِیْهِ مُنْتَهٰی رِضْوَانِهٖ، وَ ذِرْوَةَ دَعَآئِمِهٖ، وَ سَنَامَ طَاعَتِهٖ، فَهُوَ عِنْدَ اللهِ وَثِیْقُ الْاَرْكَانِ، رَفِیْعُ الْبُنْیَانِ، مُنِیْرُ الْبُرْهَانِ، مُضِیْٓءُ النِّیْرَانِ، عَزِیْزُ السُّلْطَانِ، مُشْرِفُ الْمَنَارِ، مُعْوِزُ الْمَثَارِ. فَشَرِّفُوْهُ وَ اتَّبِعُوْهُ، وَ اَدُّوْۤا اِلَیْهِ حَقَّهٗ، وَ ضَعُوْهُ مَوَاضِعَهٗ.
اللہ نے اسلام میں اپنی انتہائے رضا مندی، بلند ترین ارکان اور اپنی اطاعت کی اونچی سطح کو قرار دیا ہے چنانچہ اللہ کے نزدیک اس کے ستون مضبوط، اس کی عمارت سر بلند، دلیلیں روشن اور ضیائیں نور پاش ہیں۔ اس کی سلطنت غالب اور مینار بلند ہیں اور اس کی بیخ کنی دشوار ہے۔ اس کی عزت و وقار باقی رکھو، اس کے (احکام کی) پیروی کرو، اس کے حقوق ادا کرو اور اس (کے ہر حکم) کو اس کی جگہ پر قائم کرو۔
ثُمَّ اِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ بَعَثَ مُحَمَّدًا -ﷺ بِالْحَقِّ حِیْنَ دَنَا مِنَ الدُّنْیَا الْاِنْقِطَاعُ، وَ اَقْبَلَ مِنَ الْاٰخِرَةِ الْاِطِّلَاعُ، وَ اَظْلَمَتْ بَهْجَتُهَا بَعْدَ اِشْرَاقٍ، وَ قَامَتْ بِاَهْلِهَا عَلٰی سَاقٍ، وَ خَشُنَ مِنْهَا مِهَادٌ، وَ اَزِفَ مِنْهَا قِیَادٌ، فِی انْقِطَاعٍ مِّنْ مُّدَّتِهَا، وَ اقْتِرَابٍ مِّنْ اَشْرَاطِهَا، وَ تَصَرُّمٍ مِّنْ اَهْلِهَا، وَانْفِصَامٍ مِّنْ حَلْقَتِهَا، وَانْتِشَارٍ مِّنْ سَبَبِهَا، وَ عَفَآءٍ مِّنْ اَعْلَامِهَا، وَ تَكَشُّفٍ مِّنْ عَوْرَاتِهَا، وَقِصَرٍ مِّنْ طُوْلِهَا. جَعَلَهُ اللهُ بَلَاغًا لِّرِسٰلَتِهٖ، وَ كَرَامَةً لِّاُمَّتِهٖ، وَ رَبِیْعًا لِّاَهْلِ زَمَانِهٖ، وَرِفْعَةً لِّاَعْوَانِهٖ، وَشَرَفًا لِّاَنْصَارِهٖ.
پھر یہ کہ اللہ سبحا نہ نے محمد ﷺ کو اس وقت حق کے ساتھ مبعوث کیا جب کہ فنا نے دنیا کے قریب ڈیرے ڈال دیئے اور آخرت سر پر منڈلانے لگی، اس کی رونقوں کا اجالا اندھیرے سے بدلنے لگا اور اپنے رہنے والوں کیلئے مصیبت بن کر کھڑی ہو گئی، اس کا فرش درشت و ناہموار ہو گیا اور فنا کے ہاتھوں میں باگ ڈور دینے کیلئے آمادہ ہو گئی۔ یہ اس وقت کہ جب اس کی مدت اختتام پذیر اور (فنا کی) علامتیں قریب آ گئیں، اس کے بسنے والے تباہ اور اس کے حلقہ کی کڑیاں الگ ہو نے لگیں، اس کے بندھن پراگندہ اور نشانات بوسیدہ ہو گئے، اس کے عیب کھلنے اور پھیلے ہوئے دامن سمٹنے لگے۔ اللہ نے ان کو پیغام رسانی اور اُمت کی سرفرازی کا ذریعہ، اہل عالم کیلئے بہار اور یار و انصار کی رفعت و عزت کا سبب قرار دیا۔
ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْهِ الْكِتَابَ نُوْرًا لَّا تُطْفَاُ مَصَابِیْحُهٗ، وَ سِرَاجًا لَّا یَخْبُوْ تَوَقُّدُهٗ، وَ بَحْرًا لَّا یُدْرَكُ قَعْرُهٗ، وَ مِنْهَاجًا لَّا یُضِلُّ نَهْجُهٗ، وَ شُعَاعًا لَّا یُظْلِمُ ضَوْؤُهٗ، وَ فُرْقَانًا لَّا یُخْمَدُ بُرْهَانُهٗ، وَ تِبْیَانًا لَّا تُهْدَمُ اَرْكَانُهٗ، وَ شِفَآءً لَّا تُخْشٰۤی اَسْقَامُهٗ، وَ عِزًّا لَّا تُهْزَمُ اَنْصَارُهٗ، وَ حَقًّا لَّا تُخْذَلُ اَعْوَانُهٗ.
پھر آپؐ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جو (سراپا) نور ہے، جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتیں، ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی، ایسا دریا ہے جس کی تھاہ نہیں لگائی جا سکتی، ایسی شاہراہ ہے جس میں راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی، ایسی کرن ہے جس کی چھوٹ مدہم نہیں پڑتی، وہ ایسا (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والا ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی، ایسا کھول کر بیان کرنیوالا ہے جس کے ستون منہدم نہیں کئے جا سکتے، وہ (سراسر) شفا ہے جس کے ہوتے ہوئے (روحانی) بیماریوں کا کھٹکا نہیں، وہ (سر تا سر) عزت و غلبہ ہے جس کے یار و مددگار شکست نہیں کھاتے، وہ (سراپا) حق ہے جس کے معین و معاون بے مدد چھوڑے نہیں جاتے۔
فَهُوَ مَعْدِنُ الْاِیْمَانِ وَ بُحْبُوْحَتُهٗ، وَ یَنَابِیْعُ الْعِلْمِ وَ بُحُوْرُهٗ، وَ رِیَاضُ الْعَدْلِ وَ غُدْرَانُهٗ، وَ اَثَافِیُّ الْاِسْلَامِ وَ بُنْیَانُهٗ، وَ اَوْدِیَةُ الْحَقِّ وَ غِیْطَانُهٗ. وَ بَحْرٌ لَّا یَنْزِفُهُ الْمُسْتَنْزِفُوْنَ، وَ عُیُوْنٌ لَّا یُنْضِبُهَا الْمَاتِحُوْنَ، وَ مَنَاهِلُ لَا یُغِیْضُهَا الْوَارِدُوْنَ، وَ مَنَازِلُ لَا یَضِلُّ نَهْجَهَا الْمُسَافِرُوْنَ، وَ اَعْلَامٌ لَّا یَعْمٰی عَنْهَا السَّآئِرُوْنَ، وَ اٰكَامٌ لَّا یَجُوْزُ عنْهَا الْقَاصِدُوْنَ.
وہ ایمان کا معدن اور مرکز ہے، اس سے علم کے چشمے پھوٹتے اور دریا بہتے ہیں، اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں، وہ اسلام کا سنگ بنیاد اور اس کی اساس ہے، حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے، وہ ایسا دریا ہے کہ جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کر سکتے، وہ ایسا چشمہ ہے کہ پانی الچنے والے اسے خشک نہیں کر سکتے، وہ ایسا گھاٹ ہے کہ اس پر اترنے والوں سے اس کا پانی گھٹ نہیں سکتا، وہ ایسی منزل ہے کہ جس کی راہ میں کوئی راہرو بھٹکتا نہیں، وہ ایسا نشان ہے کہ چلنے والے کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا، وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے گزر نہیں سکتے۔
جَعَلَهُ اللهُ رِیًّا لِّعَطَشِ الْعُلَمَآءِ، وَ رَبِیْعًا لِّقُلُوْبِ الْفُقَهَآءِ، وَ مَحَاجَّ لِطُرُقِ الصُّلَحَآءِ، وَ دَوَآءً لَّیْسَ بَعْدَهٗ دَآءٌ، وَ نُوْرًا لَّیْسَ مَعَهٗ ظُلْمَةٌ، وَ حَبْلًا وَّثِیْقًا عُرْوَتُهٗ، وَ مَعْقِلًا مَّنِیْعًا ذِرْوَتُهٗ، وَ عِزًّا لِّمَنْ تَوَلَّاهُ، وَ سِلْمًا لِّمَنْ دَخَلَهٗ، وَ هُدًی لِّمَنِ ائْتَمَّ بِهٖ، وَ عُذْرًا لِّمَنِ انْتَحَلَهٗ، وَ بُرْهَانًا لِّمَنْ تَكَلَّمَ بِهٖ، وَ شَاهِدًا لِّمَنْ خَاصَمَ بِهٖ، وَ فَلْجًا لِّمَنْ حَاجَّ بِهٖ، وَ حَامِلًا لِّمَنْ حَمَلَهٗ، وَ مَطِیَّةً لِّمَنْ اَعْمَلَهٗ، وَ اٰیَةً لِّمَنْ تَوَسَّمَ، وَ جُنَّةً لِّمَنِ اسْتَلْاَمَ، وَ عِلْمًا لِّمَنْ وَّعٰی، وَ حَدِیْثًا لِّمَنْ رَّوٰی، وَ حُكْمًا لِّمَنْ قَضٰی.
اللہ نے اسے عالموں کی تشنگی کیلئے سیرابی، فقیہوں کے دلوں کیلئے بہار اور نیکوں کی رہ گزر کیلئے شاہراہ قرار دیا ہے۔ یہ ایسی دوا ہے کہ جس سے کوئی مرض نہیں رہتا، ایسا نور ہے جس میں تیرگی کا گزر نہیں، ایسی رسی ہے کہ جس کے حلقے مضبوط ہیں، ایسی چوٹی ہے کہ جس کی پناہ گاہ محفوظ ہے۔ جو اس سے وابستہ ہو اس کیلئے سرمایۂ عزت ہے، جو اس کی حدود میں داخل ہو اس کیلئے پیغام صلح و امن ہے، جو اس کی پیروی کرے اس کیلئے ہدایت ہے، جو اسے اپنی طرف نسبت دے اس کیلئے حجت ہے، جو اس کی رُو سے بات کرے اس کیلئے دلیل و برہان ہے، جو اس کی بنیاد پر بحث و مناظرہ کرے اس کیلئے گواہ ہے، جو اسے حجت بنا کر پیش کرے اس کیلئے فتح و کامرانی ہے، جو اس کا بار اٹھائے یہ اس کا بوجھ بٹانے والا ہے، جو اسے اپنا دستور العمل بنائے اس کیلئے مرکب (تیز گام) ہے، یہ حقیقت شناس کیلئے ایک واضح نشان ہے، جو (ضلالت سے ٹکرانے کیلئے) سلاح بند ہو اس کیلئے سپر ہے، جو اس کی ہدایت کو گرہ میں باندھ لے اس کیلئے علم و دانش ہے، بیان کرنے والے کیلئے بہترین کلام اور فیصلہ کرنے والے کیلئے قطعی حکم ہے۔