عورت ایک ایسا بچھو ہے جس کے لپٹنے میں بھی مزہ آتا ہے۔ حکمت 61
(١٥١) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۵۱)
وَ هُوَ فِیْ مُهْلَةٍ مِّنَ اللهِ یَهْوِیْ مَعَ الْغٰفِلِیْنَ، وَ یَغْدُوْ مَعَ الْمُذْنِبِیْنَ، بِلَا سَبِیْلٍ قَاصِدٍ، وَ لَاۤ اِمَامٍ قَآئِدٍ.
اسے اللہ کی طرف سے مہلت ملی ہے۔ وہ غفلت شعاروں کے ساتھ (تباہیوں میں) گرتا ہے، بغیر سیدھی راہ اختیار کئے اور بغیر کسی ہادی و رہبر کے ساتھ دئیے صبح سویرے ہی گنہگاروں کے ساتھ ہو لیتا ہے۔
[مِنْهَا]
[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
حَتّٰۤی اِذَا كَشَفَ لَهُمْ عَنْ جَزَآءِ مَعْصِیَتِهِمْ، وَ اسْتَخْرَجَهُمْ مِنْ جَلَابِیْبِ غَفْلَتِهِمْ، اسْتَقْبَلُوْا مُدْبِرًا، وَ اسْتَدْبَرُوْا مُقْبِلًا، فَلَمْ یَنْتَفِعُوْا بِمَاۤ اَدْرَكُوْا مِنْ طَلِبَتِهِمْ، وَ لَا بِمَا قَضَوْا مِنْ وَّطَرِهِمْ.
آخر کار جب اللہ ان کے گناہوں کا نتیجہ ان کے سامنے لائے گا اور غفلت کے پردوں سے انہیں نکال باہر کرے گا تو پھر اس چیز کی طرف بڑھیں گے جسے پیٹھ دکھاتے تھے اور اس شے سے پیٹھ پھرائیں گے جس کی طرف ان کا رخ رہتا تھا۔ انہوں نے اپنے مطلوبہ سر و سامان کو پا کر اور خواہشوں کو پورا کرکے کچھ بھی تو فائدہ حاصل نہ کیا۔
وَ اِنِّیْۤ اُحَذِّرُكُمْ وَ نَفْسِیْ هٰذِهِ الْمَنْزِلَةَ، فَلْیَنْتَفِعِ امْرُؤٌۢ بِنَفْسِهٖ، فَاِنَّمَا الْبَصِیْرُ مَنْ سَمِـعَ فَتَفَكَّرَ، وَ نَظَرَ فَاَبْصَرَ، وَانْتَفَعَ بِالْعِبَرِ، ثُمَّ سَلَكَ جَدَدًا وَّاضِحًا یَّتَجَنَّبُ فِیْهِ الصَّرْعَةَ فِی الْمَهَاوِیْ، وَ الضَّلَالَ فِی الْمَغَاوِیْ، وَ لَا یُعِیْنُ عَلٰی نَفْسِهِ الْغُوَاةَ بِتَعَسُّفٍ فِیْ حَقٍّ، اَوْ تَحْرِیْفٍ فِیْ نُطْقٍ، اَوْ تَخَوُّفٍ مِّنْ صِدْقٍ.
میں تمہیں اور خود اپنے کو اس مرحلہ سے متنبہ کرتا ہوں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس سے فائدہ اٹھائے۔ اس لئے کہ آنکھوں والا وہ ہے جو سنے تو غور کرے اور نظر اٹھائے تو حقیقتوں کو دیکھ لے اور عبرتوں سے فائدہ اٹھائے۔ پھر واضح راستہ اختیار کرے جس کے بعد گڑھوں میں گرنے اور شبہات میں بھٹک جانے سے بچتا رہے اور حق سے بے راہ ہونے اور بات میں ردّ و بدل کرنے اور سچائی میں خوف کھانے سے گمراہوں کی مدد کرکے زیاں کار نہ بنے۔
فَاَفِقْ اَیُّهَا السَّامِعُ مِنْ سَكْرَتِكَ، وَاسْتَیْقِظْ مِنْ غَفْلَتِكَ، وَ اخْتَصِرْ مِنْ عَجَلَتِكَ، وَ اَنْعِمِ الْفِكْرَ فِیْمَا جَآءَكَ عَلٰی لِسَانِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ- ﷺ- مِمَّا لَابُدَّ مِنْهُ وَ لَا مَحِیْصَ عَنْهُ، وَ خَالِفْ مَنْ خَالَفَ ذٰلِكَ اِلٰی غَیْرِهٖ، وَ دَعْهُ وَ مَا رَضِیَ لِنَفْسِهٖ، وَ ضَعْ فَخْرَكَ، وَ احْطُطْ كِبْرَكَ، وَاذْكُرْ قَبْرَكَ، فَاِنَّ عَلَیْهِ مَمَرَّكَ، وَ كَمَا تَدِیْنُ تُدَانُ، وَكَمَا تَزْرَعُ تَحْصُدُ، وَمَا قَدَّمْتَ الْیَوْمَ تَقْدَمُ عَلَیْهِ غَدًا، فَامْهَدْ لِقَدَمِكَ، وَ قَدِّمْ لِیَوْمِكَ.
اے سننے والو! اپنی سرمستیوں سے ہوش میں آؤ، غفلت سے آنکھیں کھولو، اس (دنیا کی) دوڑ دھوپ کو کم کرو اور جو باتیں نبی اُمیؐ کی زبان (مبارک) سے پہنچی ہیں ان میں اچھی طرح غور و فکر کرو کہ ان سے نہ کوئی چارہ ہے اور نہ کوئی گریز کی راہ۔ جو ان کی خلاف ورزی کرے تم اس سے دوسری طرف رخ پھیر لو اور اسے چھوڑو کہ وہ اپنے نفس کی مرضی پر چلتا رہے۔ فخر کے پاس نہ جاؤ اور بڑائی (کے سر) کو نیچا کرو۔ اپنی قبر کو یاد رکھو کہ تمہارا راستہ وہی ہے اور جیسا کرو گے ویسا پاؤ گے، جو بوؤ گے وہی کاٹو گے، جو آج آگے بھیجو گے وہی کل پا لو گے، آگے کیلئے کچھ تہیہ کرو اور اس دن کیلئے سرو سامان تیار رکھو۔
فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ اَیُّهَا الْمُسْتَمِـعُ! وَ الْجِدَّ الْجِدَّ اَیُّهَا الْغَافِلُ! ﴿وَ لَا یُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِیْرٍ۠﴾. اِنَّ مِنْ عَزَآئِمِ اللهِ فِی الذِّكْرِ الْحَكِیْمِ، الَّتِیْ عَلَیْهَا یُثِیْبُ وَ یُعَاقِبُ، وَ لَهَا یَرْضٰی وَ یَسْخَطُ، اَنَّهٗ لَا یَنْفَعُ عَبْدًا ـ وَ اِنْ اَجْهَدَ نَفْسَهٗ، وَ اَخْلَصَ فِعْلَهٗ ـ اَنْ یَّخْرُجَ مِنَ الدُّنْیَا لَاقِیًا رَّبَّهٗ بِخَصْلَةٍ مِّنْ هٰذِهِ الْخِصَالِ لَمْ یَتُبْ مِنْهَا: اَنْ یُشْرِكَ بِاللهِ فِیْمَا افْتَرَضَ عَلَیْهِ مِنْ عِبَادَتِهٖ، اَوْ یَشْفِیَ غَیْظَهٗ بِهَلَاكِ نَفْسٍ، اَوْ یَعُرَّ بِاَمْرٍ فَعَلَهٗ غَیْرُهٗ، اَوْ یَسْتَنْجِحَ حَاجَةً اِلَی النَّاسِ بِاِظْهَارِ بِدْعَةٍ فِیْ دِیْنِهٖ، اَوْ یَلْقَی النَّاسَ بِوَجْهَیْنِ، اَوْ یَمْشِیَ فِیْهِمْ بِلِسَانَیْنِ. اِعْقِلْ ذٰلِكَ فَاِنَّ الْمِثْلَ دَلِیْلٌ عَلٰی شِبْهِهٖ.
اے سننے والو! ڈرو ڈرو اور اے غفلت کرنے والو! کوشش کرو، کوشش کرو! تمہیں خبر رکھنے والا جو بتائے گا وہ دوسرا نہیں بتا سکتا۔ قرآن حکیم میں اللہ کے ان اٹل اصول میں سے کہ جن پر وہ جزا و سزا دیتا ہے اور راضی و ناراض ہوتا ہے، یہ چیز ہے کہ کسی بندے کو چاہے وہ جو کچھ جتن کر ڈالے دنیا سے نکل کر اللہ کی بارگاہ میں جانا ذرا فائدہ نہیں پہنچا سکتا جبکہ وہ ان خصلتوں میں سے کسی ایک خصلت سے توبہ کئے بغیر مر جائے: ایک یہ کہ فرائض عبادت میں کسی کو اس کا شریک ٹھہرایا ہو، یا کسی کو ہلاک کرکے اپنے غضب کو ٹھنڈا کیا ہو، یا دوسرے کے کئے پر عیب لگایا ہو، یا دین میں بدعتیں ڈال کر لوگوں سے اپنا مقصد پورا کیا ہو، یا لوگوں سے دو رخی چال چلتا ہو، یا دو زبانوں سے لوگوں سے گفتگو کرتا ہو۔ اس بات کو سمجھو! اس لئے کہ ایک نظیر دوسری نظیر کی دلیل ہوا کرتی ہے۔
اِنَّ الْبَهَآئِمَ هَمُّهَا بُطُوْنُهَا، وَ اِنَّ السِّبَاعَ هَمُّهَا الْعُدْوَانُ عَلٰی غَیْرِهَا، وَ اِنَّ النِّسَآءَ هَمُّهُنَّ زِیْنَةُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَ الْفَسَادُ فِیْهَا.
بلاشبہ چوپاؤں کا مقصد پیٹ (بھرنا) اور درندوں کا مقصد دوسروں پر حملہ آور ہونا اور عورتوں کا مقصد اس پست دنیا کو بنانا سنوارنا اور فتنے اٹھانا ہی ہوتا ہے۔ [۱]
اِنَّ الْمُؤْمِنِیْنَ مُسْتَكِیْنُوْنَ، اِنَّ الْمُؤْمِنِیْنَ مُشْفِقُوْنَ، اِنَّ الْمُؤْمِنِیْنَ خَآئِفُوْنَ.
مومن وہ ہیں جو تکبر و غرور سے دور ہوں۔ مومن وہ ہیں جو خائف و ترسان ہوں۔ مومن وہ ہیں جو ہراساں ہو۔
۱مقصد یہ ہے کہ تمام شر و مفاسد کا سرچشمہ قوتِ شہویہ و قوتِ غضبیہ ہوتی ہے۔ اگر انسان قوتِ شہویہ سے مغلوب ہو کر پیٹ بھرنا ہی اپنا مقصد بنا لے تو اس میں اور چوپائے میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا، کیونکہ چوپائے کے پیش نظر بھی پیٹ بھرنے کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں ہوتا اور اگر قوت غضبیہ سے مغلوب ہو کر ہلاکت و تباہ کاری شروع کر دے تو اس میں اور درندے میں کوئی فرق نہ رہے گا، کیونکہ اس کا مقصد بھی یہی چیرنا پھاڑنا ہوتا ہے اور اگر دونوں قوتیں اس میں کارفرما ہوں تو پھر عورت کى مانند ہے، کیونکہ عورت میں یہ دونوں قوتیں کارفرما ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بناؤ سنگار پر جان دیتی ہے اور فتنہ و فساد کو ہوا دینے میں اپنی کوششوں کو برسرکار رکھتی ہے۔ البتہ مرد مومن کبھی یہ گوارا نہ کرے گا کہ وہ ان حیوانی خصلتوں کو اپنا شعار بنائے، بلکہ وہ ان قوتوں کو دبائے رکھتا ہے۔ یوں کہ نہ وہ غرور و خود پسندی کو اپنے پاس پھٹکنے دیتا ہے اور نہ خوفِ خدا کی وجہ سے فتنہ و شر کو ہوا دیتا ہے۔
ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ حضرتؑ نے یہ خطبہ بصرہ کی طرف روانہ ہوتے وقت ارشاد فرمایا اور بصرہ کا ہنگامہ چونکہ ایک عورت کے ابھارنے کا نتیجہ تھا اس لئے چوپاؤں اور درندوں کی طبعی عادتوں کا ذکر کرنے کے بعد عورت کو بھی انہی خصلتوں کا حامل قرار دیا ہے۔ چنانچہ انہی کے نتیجہ میں بصرہ کی خونریز جنگ ہوئی اور ہزاروں افراد ہلاکت و تباہی کی لپیٹ میں آ گئے۔↑