فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

عورت ایک ایسا بچھو ہے جس کے لپٹنے میں بھی مزہ آتا ہے۔ حکمت 61
(١٠٧) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۰۷)
كُلُّ شَیْءٍ خَاشِعٌ لَّهٗ، وَكُلُّ شَیْءٍ قَآئِمٌۢ بِهٖ: غِنٰی كُلِّ فَقِیْرٍ، وَ عِزُّ كُلِّ ذَلِیْلٍ، وَ قُوَّةُ كُلِّ ضَعِیْفٍ، وَ مَفْزَعُ كُلِّ مَلْهُوْفٍ، مَنْ تَكَلَّمَ سَمِـعَ نُطْقَهٗ، وَ مَنْ سَكَتَ عَلِمَ سِرَّهٗ، وَ مَنْ عَاشَ فَعَلَیْهِ رِزْقُهٗ، وَ مَنْ مَّاتَ فَاِلَیْهِ مُنْقَلَبُهٗ. لَمْ تَرَكَ الْعُیُوْنُ فَتُخْبِرَ عَنْكَ، بَلْ كُنْتَ قَبْلَ الْوَاصِفِیْنَ مِنْ خَلْقِكَ.
ہر چیز اس کے سامنے عاجز و سرنگوں اور ہر شے اس کے سہارے وابستہ ہے۔ وہ ہر فقیر کا سرمایہ، ہر ذلیل کی آبرو، ہر کمزور کی توانائی اور ہر مظلوم کی پناہ گاہ ہے۔ جو کہے اس کی بات بھی وہ سنتا ہے اور جو چپ رہے اس کے بھید سے بھی وہ آگاہ ہے۔ جو زندہ ہے اس کے رزق کا ذمہ اس پر ہے اور جو مر جائے اس کا پلٹنا اسی کی طرف ہے۔ (اے اللہ!) آنکھوں نے تجھے دیکھا نہیں کہ تیری خبر دے سکیں، بلکہ تو تو اس وصف کرنے والی مخلوق سے پہلے موجود تھا۔
لَمْ تَخْلُقِ الْخَلْقَ لِوَحْشَةٍ، وَ لَا اسْتَعْمَلْتَهُمْ لِمَنْفَعَةٍ، وَ لَا یَسْبِقُكَ مَنْ طَلَبْتَ، وَ لَا یُفْلِتُكَ مَنْ اَخَذْتَ، وَ لَا یَنْقُصُ سُلْطَانَكَ مَنْ عَصَاكَ، وَ لَا یَزِیْدُ فِیْ مُلْكِكَ مَنْ اَطَاعَكَ، وَ لَایَرُدُّ اَمْرَكَ مَنْ سَخِطَ قَضَآءَكَ، وَ لَایَسْتَغْنِیْ عَنْكَ مَنْ تَوَلّٰی عَنْ اَمْرِكَ، كُلُّ سِرٍّ عِنْدَكَ عَلَانِیَةٌ، وَ كُلُّ غَیْبٍ عِنْدَكَ شَهَادَةٌ.
تو نے (تنہائی کی) وحشتوں سے اکتا کر مخلوق کو پیدا نہیں کیا اور نہ اپنے کسی فائدے کے پیش نظر ان سے اعمال کرائے۔ جسے تو گرفت میں لانا چاہے وہ تجھ سے آگے بڑھ کر جا نہیں سکتا اور جسے تو نے گرفت میں لے لیا پھر وہ نکل نہیں سکتا۔ جو تیری مخالفت کرتا ہے ایسا نہیں کہ وہ تیری فرمانروائی کو نقصان پہنچائے اور جو تیری اطاعت کرتا ہے وہ تیرے ملک (کی وسعتوں) کو بڑھا نہیں دیتا اور جو تیری قضا و قدر پر بگڑ اُٹھے وہ تیرے امر کو رد نہیں کر سکتا اور جو تیرے حکم سے منہ موڑ لے وہ تجھ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ ہر چھپی ہوئی چیز تیرے لئے ظاہر اور ہر غیب تیرے سامنے بے نقاب ہے۔
اَنْتَ الْاَبَدُ فَلَاۤ اَمَدَ لَكَ، وَ اَنْتَ الْمُنْتَهٰی فَلَا مَحِیْصَ عَنْكَ، وَ اَنْتَ الْمَوْعِدُ فَلَا مَنْجٰی مِنْكَ اِلَّاۤ اِلَیْكَ، بِیَدِكَ نَاصِیَةُ كُلِّ دَآبَّةٍ، وَ اِلَیْكَ مَصِیْرُ كُلِّ نَسَمَةٍ.
تو ابدی ہے جس کی کوئی حد نہیں اور تو ہی (سب کی) منزل منتہا ہے کہ جس سے کوئی گریز کی راہ نہیں اور تو ہی وعدہ گاہ ہے کہ تجھ سے چھٹکارا پانے کی کوئی جگہ نہیں مگر تیری ہی ذات۔ ہر راہ چلنے والا تیرے قبضہ میں ہے اور ہر ذی روح کی بازگشت تیری طرف ہے۔
سُبْحَانَكَ مَاۤ اَعْظَمَ مَا نَرٰی مِنْ خَلْقِكَ! وَ مَاۤ اَصْغَرَ عِظَمَہٗ فِیْ جَنْۢبِ قُدْرَتِكَ! وَ مَاۤ اَهْوَلَ مَا نَرٰی مِنْ مَّلَكُوْْتِكَ! وَ مَاۤ اَحْقَرَ ذٰلِكَ فِیْمَا غَابَ عَنَّا مِنْ سُلْطَانِكَ! وَ مَاۤ اَسْبَغَ نِعَمَكَ فِی الدُّنْیَا، وَ مَاۤ اَصْغَرَهَا فِیْ نِعَمِ الْاٰخِرَةِ!.
سبحان اللہ! یہ تیری کائنات جو ہم دیکھ رہے ہیں، کتنی عظیم الشان ہے اور تیری قدرت کے سامنے ان کی عظمت کتنی کم ہے اور یہ تیری بادشاہت جو ہماری نظروں کے سامنے ہے کتنی پر شکوہ ہے۔ لیکن تیری اس سلطنت کے مقابلہ میں جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے کتنی حقیر ہے اور دنیا میں یہ تیری نعمتیں کتنی کامل و ہمہ گیر ہیں مگر آخرت کی نعمتوں کے سامنے وہ کتنی مختصر ہیں۔
[مِنْهَا]
[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
مِنْ مَّلٰٓئِكَةٍ اَسْكَنْتَهُمْ سَمٰوَاتِكَ، وَ رَفَعْتَهُمْ عَنْ اَرْضِكَ، هُمْ اَعْلَمُ خَلْقِكَ بِكَ، وَ اَخْوَفُهُمْ لَكَ، وَ اَقْرَبُهُمْ مِّنْكَ. لَمْ یَسْكُنُوا الْاَصْلَابَ، وَ لَمْ یُضَمَّنُوا الْاَرْحَامَ، وَ لَمْ یُخْلَقُوْا ﴿مِنْ مَّآءٍ مَّهِیْنٍۚ۝﴾، وَ لَمْ یَتَشَعَّبْهُمْ رَیْبُ الْمَنُوْنِ، وَ اِنَّهُمْ عَلٰی مَكَانِهِمْ مِنْكَ، وَ مَنْزِلَتِهِمْ عِنْدَكَ، وَ اسْتِجْمَاعِ اَهْوَآئِهِمْ فِیْكَ، وَكَثْرَةِ طَاعَتِهِمْ لَكَ، وَ قِلَّةِ غَفْلَتِهِمْ عَنْ اَمْرِكَ، لَوْ عَایَنُوْا كُنْهَ مَا خَفِیَ عَلَیْهِمْ مِنْكَ لَحَقَّرُوْا اَعْمَالَهُمْ، وَ لَزَرَوْا عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ، وَ لَعَرَفُوْۤا اَنَّهُمْ لَمْ یَعْبُدُوْكَ حَقَّ عِبَادَتِكَ، وَ لَمْ یُطِیْعُوْكَ حَقَّ طَاعَتِكَ.
تو نے فرشتوں کو آسمانوں میں بسایا اور انہیں زمین کی سطح سے بلند رکھا۔ وہ سب مخلوق سے زیادہ تیری معرفت رکھتے ہیں اور سب سے زیادہ تجھ سے ڈرتے ہیں اور سب سے زیادہ تیرے مقرب ہیں۔ نہ وہ صلبوں میں ٹھہرے، نہ شکموں میں رکھے گئے، نہ ذلیل پانی (نطفہ) سے ان کی پیدائش ہوئی اور نہ زمانہ کے حوادث نے انہیں منتشر کیا۔ وہ تیرے قرب میں اپنے مقام و منزلت کی بلندی اور تیرے بارے میں خیالات کی یکسوئی اور تیری عبادت کی فراوانی اور تیرے احکام میں عدم غفلت کے باوجود اگر تیرے راز ہائے قدرت کی اس تہ تک پہنچ جائیں کہ جو ان سے پوشیدہ ہے، تو وہ اپنے اعمال کو بہت ہی حقیر سمجھیں گے اور اپنے نفسوں پر حرف گیری کریں گے اور یہ جان لیں گے کہ انہوں نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا اور نہ کماحقہ تیری اطاعت کی ہے۔
سُبْحَانَكَ خَالِقًا وَّ مَعْبُوْدًا! بِحُسْنِ بَلَآئِكَ عِنْدَ خَلْقِكَ، خَلَقْتَ دَارًا وَّ جَعَلْتَ فِیْهَا مَاْدُبَةً: مَشْرَبًا وَّ مَطْعَمًا، وَ اَزْوَاجًا وَّ خَدَمًا، وَ قُصُوْرًا وَّ اَنْهَارًا، وَ زُرُوْعًا وَّ ثِمَارًا.
میں خالق و معبود جانتے ہوئے تیری تسبیح کرتا ہوں۔ تیرے اس بہترین سلوک کی بنا پر جو تیرا اپنے مخلوقات کے ساتھ ہے۔ تو نے ایک ایسا گھر (جنت) بنایا ہے کہ جس میں مہمانی کیلئے کھانے پینے کی چیزیں، حوریں، غلمان، محل، نہریں، کھیت اور پھل مہیا کئے ہیں۔
ثُمَّ اَرْسَلْتَ دَاعِیًا یَّدْعُوْۤ اِلَیْهَا، فَلَا الدَّاعِیَ اَجَابُوْا، وَ لَا فِیْمَا رَغَّبْتَ رَغِبُوْا، وَ لَاۤ اِلٰی مَا شَوَّقْتَ اِلَیْهِ اشْتَاقُوْا.
پھر تو نے ان نعمتوں کی طرف دعوت دینے والا بھیجا، مگر نہ انہوں نے بلانے والے کی آواز پر لبیک کہی اور نہ ان چیزوں کی طرف راغب ہوئے جن کی تو نے رغبت دلائی تھی اور نہ ان چیزوں کے مشتاق ہوئے جن کا تو نے اشتیاق دلایا تھا۔
اَقْبَلُوْا عَلٰی جِیْفَةٍ قَدِ افْتَضَحُوْا بِاَكْلِهَا، وَ اصْطَلَحُوْا عَلٰی حُبِّهَا، وَ مَنْ عَشِقَ شَیْئًا اَعْشٰی بَصَرَهٗ، وَ اَمْرَضَ قَلْبَهٗ، فَهُوَ یَنْظُرُ بِعَیْنٍ غَیْرِ صَحِیْحَةٍ، وَ یَسْمَعُ بِاُذُنٍ غَیْرِ سَمِیْعَةٍ، قَدْ خَرَقَتِ الشَّهَوَاتُ عَقْلَهٗ، وَ اَمَاتَتِ الدُّنْیَا قَلْبَهٗ، وَ وَلِهَتْ عَلَیْهَا نَفْسُهٗ، فَهُوَ عَبْدٌ لَّهَا، وَ لِمَنْ فِیْ یَدَیْهِ شَیْءٌ مِّنْهَا، حَیْثُمَا زَالَتْ زَالَ اِلَیْهَا، وَ حَیْثُمَاۤ اَقْبَلَتْ اَقْبَلَ عَلَیْهَا، لَا یَنْزَجِرُ مِنَ اللهِ بِزَاجِرٍ، وَ لَایَتَّعِظُ مِنْهُ بِوَاعِظٍ، وَ هُوَ یَرَی الْمَاْخُوْذِیْنَ عَلَی الْغِرَّةِ، حَیْثُ لَاۤ اِقَالَةَ لَہُمْ وَ لَا رَجْعَةَ، كَیْفَ نَزَلَ بِهِمْ مَا كَانُوْا یَجْهَلُوْنَ، وَ جَآءَهُمْ مِنْ فِرَاقِ الدُّنْیَا مَا كَانُوْا یَاْمَنُوْنَ، وَ قَدِمُوْا مِنَ الْاٰخِرَةِ عَلٰی مَا كَانُوْا یُوْعَدُوْنَ.
وہ تو اسی مردار دنیا پر ٹوٹ پڑے کہ جسے نوچ کھانے میں اپنی عزت آبرو گنوا رہے تھے اور اس کی چاہت پر ایکا کر لیا تھا۔ جو شخص کسی شے سے بے تحاشا محبت کرتا ہے تو وہ اس کی آنکھوں کو اندھا، دل کو مریض کر دیتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے تو بیمار آنکھوں سے، سنتا ہے تو نہ سننے والے کانوں سے۔ شہوتوں نے اس کی عقل کا دامن چاک کر دیا ہے اور دنیا نے اس کے دل کو مردہ بنا دیا ہے اور اس کا نفس اس پر مرمٹا ہے۔ یہ دنیا کا اور ان لوگوں کا جن کے پاس کچھ بھی وہ دنیا ہے بندہ و غلام بن گیا ہے۔ جدھر وہ مڑتی ہے ادھر یہ مڑتا ہے، جدھر اس کا رخ ہوتا ہے ادھر ہی اس کا رخ ہوتا ہے۔ نہ اللہ کی طرف سے کسی روکنے والے کے کہنے سننے سے وہ رکتا ہے اور نہ ہی اس کے کسی وعظ و پند کرنے والے کی نصیحت مانتا ہے۔ حالانکہ وہ ان لوگوں کو دیکھتا ہے کہ جنہیں عین غفلت کی حالت میں وہاں پر جکڑ لیا گیا کہ جہاں نہ تدارک کی گنجائش اور نہ دنیا کی طرف پلٹنے کا موقعہ ہوتا ہے اور کس طرح وہ چیزیں ان پر ٹوٹ پڑیں کہ جن سے وہ بے خبر تھے اور کس طرح اس دنیا سے جدائی (کی گھڑی سامنے) آ گئی کہ جس سے پوری طرح مطمئن تھے اور کیونکر آخرت کی ان چیزوں تک پہنچ گئے کہ جن کی انہیں خبر دی گئی تھی۔
فَغَیْرُ مَوْصُوْفٍ مَّا نَزَلَ بِهِمْ: اِجْتَمَعَتْ عَلَیْهِمْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ وَ حَسْرَةُ الْفَوْتِ، فَفَتَرَتْ لَهَا اَطْرَافُهُمْ، وَ تَغَیَّرَتْ لَهَا اَلْوَانُهُمْ. ثُمَّ ازْدَادَ الْمَوْتُ فِیْهِمْ وُلُوْجًا، فَحِیْلَ بَیْنَ اَحَدِهِمْ وَ بَیْنَ مَنْطِقِهٖ، وَ اِنَّهٗ لَبَیْنَ اَهْلِهٖ یَنْظُرُ بِبَصَرِهٖ، وَ یَسْمَعُ بِاُذُنِهٖ، عَلٰی صِحَّةٍ مِّنْ عَقْلِهٖ، وَ بَقَآءٍ مِّنْ لُّبِّهٖ، یُفَكِّرُ فِیْمَ اَفْنٰی عُمْرَهٗ، وَ فِیْمَ اَذْهَبَ دَهْرَهٗ! وَ یَتَذَكَّرُ اَمْوَالًا جَمَعَهَا، اَغْمَضَ فِیْ مَطَالِبِهَا، وَ اَخَذَهَا مِنْ مُّصَرَّحَاتِهَا وَ مُشْتَبِهَاتِهَا، قَدْ لَزِمَتْهُ تَبِعَاتُ جَمْعِهَا، وَ اَشْرَفَ عَلٰی فِرَاقِهَا، تَبْقٰی لِمَنْ وَّرَآءَهٗ یَنْعَمُوْنَ فِیْهَا، وَ یَتَمَتَّعُوْنَ بِهَا، فَیَكُوْنُ الْمَهْنَاُ لِغَیْرِهٖ، وَالْعِبْءُ عَلٰی ظَهْرِهٖ. وَالْمَرْءُ قَدْ غَلِقَتْ رُهُوْنُهٗ بِهَا، فَهُوَ یَعَضُّ یَدَهٗ نَدَامَةً عَلٰی مَاۤ اَصْحَرَ لَهٗ عِنْدَ الْمَوْتِ مِنْ اَمْرِهٖ، وَ یَزْهَدُ فِیْمَا كَانَ یَرْغَبُ فِیْهِ اَیَّامَ عُمُرِهٖ، وَ یَتَمَنّٰۤی اَنَّ الَّذِیْ كَانَ یَغْبِطُهٗ بِهَا وَ یَحْسُدُهٗ عَلَیْهَا قَدْ حَازَهَا دُوْنَهٗ.
اب جو مصیبتیں ان پر ٹوٹ پڑی ہیں انہیں بیان نہیں کیا جا سکتا، موت کی سختیاں اور دنیا چھوڑنے کی حسرتیں مل کر انہیں گھیر لیتی ہیں۔ چنانچہ ان کے ہاتھ پیر ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور رنگتیں بدل جاتی ہیں۔ پھر ان (کے اعضاء) میں موت کی دخل اندازیاں بڑھ جاتی ہیں۔ کوئی ایسا ہوتا ہے کہ پہلے ہی اس کی زبان بند ہو جاتی ہے، در صورتیکہ اس کی عقل درست اور ہوش و حواس باقی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے گھر والوں کے سامنے پڑا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اپنے کانوں سے سنتا ہے اور ان چیزوں کو سوچتا ہے کہ جن میں اس نے اپنی عمر گنوا دی ہے اور اپنا زمانہ گزار دیا ہے اور اپنے جمع کیے ہوئے مال و متاع کو یاد کرتا ہے کہ جس کے طلب کرنے میں (جائز و ناجائز سے) آنکھیں بند کر لی تھیں اور جسے صاف اور مشکوک ہر طرح کی جگہوں سے حاصل کیا تھا۔ اس کا وبال اپنے سر لے کر اسے چھوڑ دینے کی تیاری کرنے لگا۔ وہ مال (اب) اس کے پچھلوں کیلئے رہ جائے گا کہ وہ اس سے عیش و آرام کریں اور گل چھڑے اڑائیں۔ اس طرح وہ دوسروں کو تو بغیر ہاتھ پیر ہلائے یونہی مل گیا، لیکن اس کا بوجھ اس کی پیٹھ پر رہا اور یہ اس مال کی وجہ سے ایسا گروی ہوا ہے کہ بس اپنے کو چھڑا نہیں سکتا۔ مرنے کے وقت یہ حقیقت جو کھل کر اس کے سامنے آ گئی تو ندامت سے وہ اپنے ہاتھ کاٹنے لگتا ہے اور عمر بھر جن چیزوں کا طلب گار رہا تھا اب ان سے کنارہ ڈھونڈتا ہے اور یہ تمنا کرتا ہے کہ جو اس مال کی وجہ سے اس پر رشک و حسد کیا کرتے تھے (کاش کہ) وہی اس مال کو سمیٹتے نہ وہ۔
فَلَمْ یَزَلِ الْمَوْتُ یُبَالِغُ فِیْ جَسَدِهٖ حَتّٰی خَالَطَ لِسَانُهٗ سَمْعَهٗ، فَصَارَ بَیْنَ اَهْلِهٖ، لَا یَنْطِقُ بِلِسَانِهٖ، وَ لَا یَسْمَعُ بِسَمْعِهٖ: یُرَدِّدُ طَرْفَهٗ بِالنَّظَرِ فِیْ وجُوْهِهِمْ، یَرٰی حَرَكَاتِ اَلْسِنَتِهِمْ، وَ لَا یَسْمَعُ رَجْعَ كَلَامِهِمْ. ثُمَّ ازْدَادَ الْمَوْتُ الْتِیَاطًا بِهٖ، فَقُبِضَ بَصَرُهٗ كَمَا قُبِضَ سَمْعُهٗ، وَ خَرَجَتِ الرُّوْحُ مِنْ جَسَدِهٖ، فَصَارَ جِیْفَةًۢ بَیْنَ اَهْلِهٖ، قَدْ اَوْحَشُوْا مِنْ جَانِبِهٖ، وَ تَبَاعَدُوْا مِنْ قُرْبِهٖ. لَا یُسْعِدُ بَاكِیًا، وَ لَا یُجِیْبُ دَاعِیًا. ثُمَّ حَمَلُوْهُ اِلٰی مَخَطٍّ فِی الْاَرْضِ، فَاَسْلَمُوْهُ فِیْهِ اِلٰی عَمَلِهٖ، وَ انْقَطَعُوْا عَنْ زَوْرَتِهٖ.
اب موت کے تصرفات اس کے جسم میں اور بڑھے، یہاں تک کہ زبان کے ساتھ ساتھ کانوں پر بھی موت چھا گئی۔ گھر والوں کے سامنے اس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ نہ زبان سے بول سکتا ہے، نہ کانوں سے سن سکتا ہے، آنکھیں گھما گھما کر ان کے چہروں کو تکتا ہے، ان کی زبانوں کی جنبشوں کو دیکھتا ہے، لیکن بات چیت کی آوازیں نہیں سن پاتا۔ پھر اس سے موت اور لپٹ گئی کہ اس کی آنکھوں کو بھی بند کر دیا جس طرح اس کے کانوں کو بند کیا تھا اور روح اس کے جسم سے مفارقت کر گئی۔ اب وہ گھر والوں کے سامنے ایک مردار کی صورت میں پڑا ہوا ہے کہ اس کی طرف سے انہیں وحشت ہوتی ہے اور اس کے پاس پھٹکنے سے دور بھاگتے ہیں۔ وہ نہ رونے والے کی کچھ مدد کر سکتا ہے، نہ پکارنے والے کو جواب دے سکتا ہے۔ پھر اسے اٹھا کر زمین میں جہاں اس کی قبر بننا ہے لے جاتے ہیں اور اسے اس کے حوالے کر دیتے ہیں کہ اب وہ جانے اور اس کا کام اور اس کی ملاقات سے ہمیشہ کیلئے منہ موڑ لیتے ہیں۔
حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ الْكِتَابُ اَجَلَهٗ، وَ الْاَمْرُ مَقَادِیْرَهٗ، وَ اُلْحِقَ اٰخِرُ الْخَلْقِ بِاَوَّلِهٖ، وَ جَآءَ مِنْ اَمْرِ اللهِ مَا یُرِیْدُهٗ مِنْ تَجْدِیْدِ خَلْقِهٖ، اَمَادَ السَّمَآءَ وَ فَطَرَهَا، وَ اَرَجَّ الْاَرْضَ وَ اَرْجَفَهَا، وَ قَلَعَ جِبَالَهَا وَ نَسَفَهَا، وَ دَكَّ بَعْضُهَا بَعْضًا مِّنْ هَیْبَةِ جَلَالَتِهٖ وَ مَخُوْفِ سَطْوَتِهٖ، وَ اَخْرَجَ مَنْ فِیْهَا، فَجَدَّدَهُمْ بَعْدَ اِخْلَاقِهِمْ، وَ جَمَعَهُمْ بَعْدَ تَفَرُّقِهِمْ.
یہاں تک کہ نوشتہ (تقدیر) اپنی میعاد کو اور حکمِ الٰہی اپنی مقررہ حد کو پہنچ جائے گا اور پچھلوں کو اَگلوں کے ساتھ ملا دیا جائے گا اور فرمان قضا پھر سرے سے پیدا کرنے کا ارادہ لیکر آئے گا تو وہ آسمانوں کو جنبش میں لائے گا اور انہیں پھاڑ دے گا اور زمین کو ہلا ڈالے گا اور اس کی بنیادیں کھوکھلی کر دے گا اور پہاڑوں کو جڑ و بنیاد سے اکھاڑ دے گا اور وہ اس کے جلال کی ہیبت اور قہر و غلبہ کی دہشت سے آپس میں ٹکرانے لگیں گے۔ وہ زمین کے اندر سے سب کو نکالے گا اور انہیں سڑ گل جانے کے بعد پھر از سر نو تر و تازہ کرے گا اور متفرق و پراگندہ ہونے کے بعد پھر یکجا کر دے گا۔
ثُمَّ مَیَّزَهُمْ لِمَا یُرِیْدُ مِنْ مَّسْئَلَتِهِمْ عَنْ خَفَایَا الْاَعْمَالِ وَ خَبَایَا الْاَفْعَالِ، وَ جَعَلَهُمْ فَرِیْقَیْنِ: اَنْعَمَ عَلٰی هٰٓؤُلَآءِ وَ انْتَقَمَ مِنْ هٰٓؤُلَآءِ. فَاَمَّا اَهْلُ الطَّاعَةِ فَاَثَابَهُمْ بِجِوَارِهٖ، وَ خَلَّدَهُمْ فِیْ دَارِهٖ، حَیْثُ لَا یَظْعَنُ النُّزَّالُ، وَ لَا تَتَغَیَّرُ بِهِمُ الْحَالُ، وَ لَا تَنُوْبُهُمُ الْاَفْزَاعُ، وَ لَا تَنَالُهُمُ الْاَسْقَامُ، وَ لَا تَعْرِضُ لَهُمُ الْاَخْطَارُ، وَ لَا تُشْخِصُهُمُ الْاَسْفَارُ.
پھر ان کے چھپے ہوئے اعمال اور پوشیدہ کار گزاریوں کے متعلق پوچھ گچھ کرنے کیلئے انہیں جدا جدا کرے گا اور انہیں دو حصوں میں بانٹ دے گا۔ ایک کو وہ انعام و اکرام دے گا اور ایک سے انتقام لے گا۔ جو فرمانبردار تھے انہیں جزا دے گا کہ وہ اس کے جوارِ رحمت میں رہیں اور اپنے گھر میں انہیں ہمیشہ کیلئے ٹھہرا دے گا کہ جہاں اترنے والے پھر کوچ نہیں کیا کرتے اور نہ ان کے حالات ادلتے بدلتے رہتے ہیں اور نہ انہیں گھڑی گھڑی خوف ستاتا ہے، نہ بیماریاں ان پر آتی ہیں، نہ انہیں خطرات درپیش ہوتے ہیں اور نہ انہیں سفر ایک جگہ سے دوسری جگہ لئے پھرتے ہیں۔
وَ اَمَّا اَهْلُ الْمَعْصِیَةِ فَاَنْزَلَهُمْ شَرَّ دَارٍ، وَ غَلَّ الْاَیْدِیَ اِلَی الْاَعْنَاقِ، وَ قَرَنَ النَّوَاصِیَ بِالْاَقْدَامِ، وَ اَلْبَسَهُمْ سَرَابِیْلَ الْقَطِرَانِ، وَ مُقَطَّعَاتِ النِّیْرَانِ، فِیْ عَذَابٍ قَدِ اشْتَدَّ حَرُّهٗ، وَ بَابٍ قَدْ اُطْبِقَ عَلٰۤی اَهْلِهٖ، فِیْ نَارٍ لَّهَا كَلَبٌ وَّ لَجَبٌ، وَ لَهَبٌ سَاطِعٌ، وَ قَصِیْفٌ هَآئِلٌ، لَا یَظْعَنُ مُقِیْمُهَا، وَ لَا یُفَادٰۤی اَسِیْرُهَا، وَ لَا تُفْصَمُ كُبُوْلُهَا. لَا مُدَّةَ لِلدَّارِ فَتَفْنٰی، وَ لَا اَجَلَ لِلْقَوْمِ فَیُقْضٰی.
اور جو نافرمان ہوں گے انہیں ایک برے گھر میں پھینکے گا اور ان کے ہاتھ گردن سے (کس کر) باندھ دے گا اور ان کی پیشانیوں پر لٹکنے والے بالوں کو قدموں سے جکڑ دے گا اور انہیں تارکول کی قمیضیں اور آگ سے قطع کئے ہوئے کپڑے پہنائے گا (یعنی ان پر تیل چھڑک کر آگ میں جھونک دے گا)۔ وہ ایسے عذاب میں ہوں گے کہ جس کی تپش بڑی سخت ہو گی اور (ایسی جگہ میں ہوں گے کہ جہاں) ان پر دروازے بند کر دیئے جائیں گے اور ایسی آگ میں ہوں گے کہ جس میں تیز شرارے، بھڑکنے کی آوازیں، اٹھتی ہوئی لپٹیں اور ہولناک چیخیں ہوں گی۔ اس میں ٹھہرنے والا نکل نہ سکے گا اور نہ ہی اس کے قیدیوں کو فدیہ دیکر چھڑا یا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی بیڑیاں ٹوٹ سکتی ہیں۔ اس گھر کی کوئی مدّت مقرر نہیں کہ اس کے بعد مٹ مٹاجائے، نہ رہنے والوں کیلئے کوئی مقررہ میعاد ہے کہ وہ پوری ہو جائے (تو پھر چھوڑ دیئے جائیں)۔
[مِنْهَا: فِیْ ذِكْرِ النَّبِیِّ ﷺ]
[اسی خطبہ کا یہ جز نبی ﷺ کے متعلق ہے]
قَدْ حَقَّرَ الدُّنْیَا وَ صَغَّرَهَا، وَ اَهْوَنَ بِهَا وَ هَوَّنَهَا، وَ عَلِمَ اَنَّ اللهَ زَوَاهَا عَنْهُ اخْتِیَارًا، وَ بَسَطَهَا لِغَیْرِهِ احْتِقَارًا، فَاَعْرَضَ عَنِ الدُّنْیَا بِقَلْبِهٖ، وَ اَمَاتَ ذِكْرَهَا عَنْ نَّفْسِهٖ، وَ اَحَبَّ اَنْ تَغِیْبَ زِیْنَتُهَا عَنْ عَیْنِهٖ، لِكَیْلَا یَتَّخِذَ مِنْهَا رِیَاشًا، اَوْ یَرْجُوَ فِیْهَا مُقَامًا. بَلَّغَ عَنْ رَّبِّهٖ مُعْذِرًا، وَ نَصَحَ لِاُمَّتِهٖ مُنْذِرًا، وَ دَعَاۤ اِلَی الْجَنَّةِ مُبَشِّرًا.
انہوں نے (اس) دنیا کو ذلیل و خوار سمجھا اور پست و حقیر جانا اور جانتے تھے کہ اللہ نے ان کی شان کو بالاتر سمجھتے ہوئے دنیا کا رخ ان سے موڑا ہے اور اسے گھٹیا سمجھتے ہوئے دوسروں کیلئے اس کا دامن پھیلا دیا ہے، لہٰذا آپؐ نے دنیا سے دل ہٹا لیا اور اس کی یاد اپنے نفس سے مٹا ڈالی اور یہ چاهتے رہے کہ اس کی سج دھج ان کی نظروں سے اوجھل رہے کہ نہ اس سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کریں اور نہ اس میں قیام کی آس لگائیں۔ انہوں نے عذر تمام کرتے ہوئے اپنے پروردگار کا پیغام پہنچا دیا اور ڈراتے ہوئے اُمت کو پند و نصیحت کی اور خوشخبری سناتے ہوئے جنت کی طرف دعوت دی۔
نَحْنُ شَجَرَةُ النُّبُوَّةِ، وَ مَحَطُّ الرِّسَالَةِ، وَ مُخْتَلَفُ الْمَلٰٓئِكَةِ، وَ مَعَادِنُ الْعِلْمِ، وَ یَنَابِیْعُ الْحِكَمِ، نَاصِرُنَا وَ مُحِبُّنَا یَنْتَظِرُ الرَّحْمَةَ، وَ عَدُوُّنَا وَ مُبْغِضُنَا یَنْتَظِرُ السَّطْوَةَ.
ہم نبوت کا شجرہ، رسالت کی منزل، ملائکہ کی فرودگاہ، علم کا معدن اور حکمت کا سر چشمہ ہیں۔ ہماری نصرت کرنے والا اور ہم سے محبت کرنے والا رحمت کیلئے چشم براہ ہے اور ہم سے دشمنی و عناد رکھنے والے کو قہر (الٰہی) کا منتظر رہنا چاہیے۔