فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

مفلس اپنے شہرمیں رہ کر بھی غریب الوطن ہوتا ہے، اور عجز ودرماندگی مصیبت ہے۔ حکمت 3
(١٧٣) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۷۳)
اَیُّهَا الْغَافِلُوْنَ غَیْرُ الْمَغْفُوْلِ عَنْهُمْ، وَ التَّارِكُوْنَ الْمَاْخُوْذُ مِنْهُمْ، مَا لِیْۤ اَرَاكُمْ عَنِ اللهِ ذَاهِـبِیْنَ، وَ اِلٰی غَیْرِهٖ رَاغِبـِیْنَ!.
اے غافلو! کہ جن کی طرف سے غفلت نہیں برتی جا رہی اور اے چھوڑ دینے والو! کہ جن کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ تعجب ہے کہ میں تمہیں اس حالت میں دیکھتا ہوں کہ تم اللہ سے دور ہٹتے جا رہے ہو اور دوسروں کی طرف شوق سے بڑھ رہے ہو۔
كَاَنَّكُمْ نَعَمٌ اَرَاحَ بِهَا سَآئِمٌ اِلٰی مَرْعًی وَّبِیٍّ، وَ مَشْرَبٍ دَوِیٍّ، اِنَّمَا هِیَ كَالْمَعْلُوْفَةِ لِلْمُدٰی لَا تَعْرِفُ مَاذَا یُرَادُ بِهَا! اِذَاۤ اُحْسِنَ اِلَیْهَا تَحْسَبُ یَوْمَهَا دَهْرَهَا، وَ شِبَعَهَاۤ اَمْرَهَا.
گویا تم وہ اونٹ ہو جن کا چرواہا انہیں ایک ہلاک کرنے والی چراگاہ اور تباہ کرنے والے گھاٹ پر لایا ہو۔ یہ ان چوپاؤں کی مانند ہیں جنہیں چھریوں سے ذبح کرنے کیلئے چارہ دیا جا رہا ہو اور انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ جب ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جا تا ہے تو ان سے مقصود کیا ہے۔ یہ تو اپنے دن کو اپنا پورا زمانہ خیال کرتے ہیں اور پیٹ بھر کر کھا لینا ہی اپنا کام سمجھتے ہیں۔
وَاللهِ! لَوْ شِئْتُ اَنْ اُخْبِرَ كُلَّ رَجُلٍ مِّنْكُمْ بِمَخْرَجِهٖ وَ مَوْلِجِهٖ وَ جَمِیْعِ شَاْنِهٖ لَفَعَلْتُ، وَ لٰكِنْ اَخَافُ اَنْ تَكْفُرُوْا فِیَّ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ. اَلَا وَ اِنِّیْ مُفْضِیْهِ اِلَی الْخَاصَّةِ مِمَّنْ یُّؤْمَنُ ذٰلِكَ مِنْهُ.
خدا کی قسم! اگر میں بتانا چاہوں تو تم میں سے ہر شخص کو بتا سکتا ہوں کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور اسے کہاں جانا ہے اور اس کے پورے حالات کیا ہیں۔ لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تم مجھ میں (کھو کر)پیغمبر ﷺ سے کفر اختیار کر لو گے۔ البتہ میں اپنے مخصوص دوستوں تک یہ چیزیں ضرور پہنچاؤں گا کہ جن کے بھٹک جانے کا اندیشہ نہیں۔
وَالَّذِیْ بَعَثَهٗ بِالْحَقِّ وَ اصْطَفَاهُ عَلَی الْخَلْقِ! مَاۤ اَنْطِقُ اِلَّا صَادِقًا، وَ لَقَدْ عَهِدَ اِلَیَّ بِذٰلِكَ كُلِّهٖ، وَ بِمَهْلِكِ مَنْ یَّهْلِكُ، وَ مَنْجٰی مَنْ یَّنْجُوْ، وَ مَاٰلِ هٰذَا الْاَمْرِ، وَ مَاۤ اَبْقٰی شَیْئًا یَّمُرُّ عَلٰی رَاْسِیْۤ اِلَّاۤ اَفْرَغَهٗ فِیْۤ اُذُنَییَّ وَ اَفْضٰی بِهٖۤ اِلَیَّ.
اس ذات کی قسم جس نے پیغمبر ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور ساری مخلوقات میں سے ان کو منتخب فرمایا! میں جو کہتا ہوں سچ کہتا ہوں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے ان تمام چیزوں اور ہلاک ہونے والوں کی ہلاکت اور نجات پانے والوں کی نجات اور اس امر (خلافت) کے انجام کی خبر دی ہے اور ہر وہ چیز جو میرے سر پر گزرے گی اسے میرے کانوں میں ڈالے اور مجھ تک پہنچائے بغیر نہیں چھوڑا۔ [۱]
اَیُّهَا النَّاسُ! اِنِّیْ وَاللهِ! مَاۤ اَحُثُّكُمْ عَلٰی طَاعَةٍ اِلَّا وَ اَسْبِقُكُمْ اِلَیْهَا، وَ لَاۤ اَنْهَاكُمْ عَنْ مَّعْصِیَةٍ اِلَّا وَ اَتَنَاهٰی قَبْلَكُمْ عَنْهَا.
اے لوگو! قسم بخدا! میں تمہیں کسی اطاعت پر آمادہ نہیں کرتا مگر یہ کہ تم سے پہلے اس کی طرف بڑھتا ہوں اور کسی گناہ سے تمہیں نہیں روکتا مگر یہ کہ تم سے پہلے خود اس سے باز رہتا ہوں۔

۱؂سرچشمہ وحی و الہام سے سیراب ہونے والے غیب کے پردوں میں مخفی اور مستقبل میں رونما ہونے والی چیزوں کو اسی طرح دیکھتے ہیں جس طرح محسوسات کو آنکھ سے دیکھا جاتا ہے اور یہ ارشادِ قدرت: ﴿قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِى السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ‌ؕ﴾[۱]: ’’تم کہہ دو کہ اللہ کے سوا زمین و آسمان کے بسنے والوں میں سے کوئی بھی غیب نہیں جانتا‘‘، کے منافی نہیں، کیونکہ آیت میں ذاتی طور پر علم غیب کے جاننے کی نفی ہے، اس علم غیب کی نفی نہیں جو انبیاء و اولیاء علیہم السلام کو القائے ربانی سے حاصل ہوتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ مستقبل کے متعلق پیشین گوئیاں کرتے ہیں اور بہت سے احوال و واردات کو بے نقاب کرتے ہیں۔
چنانچہ اس مطلب پر قرآن مجید کی متعدد آیتیں شاہد ہیں:
﴿فَلَمَّا نَـبَّاَهَا بِهٖ قَالَتْ مَنْ اَنْۢبَاَكَ هٰذَا‌ؕ قَالَ نَـبَّاَنِىَ الْعَلِيْمُ الْخَبِیْرُ‏ ﴾
جب رسولؐ نے اس واقعہ کی خبر اپنی ایک بیوی کو دی تو وہ کہنے لگی کہ آپؐ کو کس نے خبر دی ہے؟ رسولؐ نے کہا کہ: مجھے ایک جاننے والے اور واقف کار نے خبر دی ہے۔[۲]
﴿تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَاۤ اِلَيْكَ‌ۚ﴾
اے رسولؐ! یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں وحی کے ذریعہ تمہیں بتاتے ہیں۔[۳]
لہٰذا اپنے معتقدات کی سخن پروری کرتے ہوئے یہ کہنا کہ انبیاء و اولیاء علیہم السلام کو علم غیب کا حامل سمجھنا شرک فی الصفات ہے، حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ شرک تو اس وقت ہوتا کہ جب یہ کہا جاتا کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور بھی ذاتی حیثیت سے عالم الغیب ہے۔ جب ایسا نہیں بلکہ انبیاء و آئمہ علیہم السلام کا علم اللہ کا دیا ہوا ہے تو اس کو شرک سے کیا واسطہ اور اگر شرک کے یہی معنی ہیں تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس دعویٰ کا کیا نام ہو گا جو قرآن مجید میں مذکور ہے:
﴿اَنِّىْۤ  اَخْلُقُ لَـكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَیْـــَٔةِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْرًاۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ‌‌ۚ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ‌ۚ وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَۙ فِىْ بُيُوْتِكُمْ‌ؕ﴾
میں تمہارے لئے مٹی سے ایک پرندہ کا ڈھانچہ بناؤں گا، پھر اس میں پھونکوں گا تو وہ خدا کے حکم سے سچ مچ کا پرندہ بن جائے گا اور میں مادر زاد اندھے اور مبروص کو اچھا کر دوں گا او راس کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دوں گا اور جو کچھ تم کھاتے ہو اور گھروں میں جمع کر کے رکھتے ہو تم کو بتا دوں گا۔[۴]
کیا ان کو بحکم خدا خالق و حیات بخش مان لینے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ کی صفت خلق و احیاء میں ان کو شریک سمجھا گیا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر اللہ کے کسی کو امور غیب پر مطلع کر دینے سے یہ کہاں سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کے عالم الغیب ہو نے میں اس کو شریک ٹھہرا لیا گیا ہے کہ علم غیب کے جاننے کو شرک سے تعبیر کر کے اپنی موحدانہ عظمت کا مظاہرہ کیا جائے۔
اس حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ بعض لوگوں کو خواب میں ایسی چیزیں نظر آ جاتی ہیں یا اس کی تعبیر سے ظاہر ہو جاتی ہیں کہ جن کا ظہور مستقبل سے وابستہ ہوتا ہے، حالانکہ خواب کی حالت میں نہ حواس کام دیتے ہیں اور نہ ذہن و ادراک کی قوتیں ساتھ دیتی ہیں۔ تو اگر بیداری میں بعض افراد پر کچھ حقائق منکشف ہو جائیں تو اس پر اچنبھا کیوں اور اس سے وجہ انکار کیا؟جبکہ عقل کہتی ہے کہ جو چیز خواب میں واقع ہو سکتی ہے وہ بیداری میں بھی ممکن ہے۔ چنانچہ ابن میثم نے تحریر کیا ہے کہ خواب میں یہ افادہ و فیضان اس لئے ہوتا ہے کہ نفس تربیت بدن کی الجھنوں سے آزاد اور مادی علائق سے الگ ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سی ایسی پوشیدہ حقیقتوں کا مشاہدہ کرتا ہے جن کے دیکھنے سے حجاب عنصری مانع ہوتا ہے۔ یونہی وہ نفوس کاملہ جو جنبۂ مادی سے بے اعتنا اور قلب و روح کی پوری توجہ سے افاضہ علمی کے مرکز سے رجوع ہوتے ہیں، ان پر وہ حقائق و بواطن منکشف ہو جاتے ہیں جنہیں ظاہری آنکھیں دیکھنے سے عاجز و قاصر ہوتی ہیں۔لہٰذا اہل بیت علیہم السلام کی روحانی عظمت کے پیش نظر اس میں قطعاً کوئی استبعاد نہیں کہ وہ مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی چیزوں سے آگاہ ہو سکیں۔ چنانچہ ابن خلدون نے تحریر کیا ہے کہ:
وَ اِذَا كَانَتِ الْكَرَامَةُ تَقَعُ لِغَيْرِهِمْ فَمَا ظَنُّكَ بِهِمْ عِلْمًا وَّ دِيْنًا وَّ اٰثَارًا مِّنَ النَّبُوَّةِ وَ عِنَايَةٍ مِّنَ اللهِ بِالْاَصْلِ الْكَرِيْمِ تَشْهَدُ لِفُرُوْعِهِ الطَّيِّبَةِ، وَ قَدْ يُنْقَلُ بَيْنَ اَهْلِ الْبَيْتِ كَثِيْرٌ مِّنْ هٰذَا الْكَلَامُ غَيْرُ مَنْسُوْبٍ اِلٰۤى اَحَدٍ.
جبکہ کرامات کا ظہور اوروں سے ہو سکتا ہے تو ان ہستیوں کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے کہ جو علم و دیانت کے لحاظ سے ممتاز اور نبوت کی نشانیوں کے آئینہ دار تھے اور اس بزرگ اصل (رسولؐ) پر جو نظر توجہ باری تھی وہ اس کی پاکیزہ شاخوں کے کمالات پر شاہد ہے۔ چنانچہ امور غیب کے متعلق اہل بیت علیہم السلام سے بہت سے واقعات نقل کئے جاتے ہیں جو کسی اور کی طرف منسوب نہیں کئے جا سکتے۔ (مقدمہ ابن خلدون، ص۲۳۴)
اس صورت میں امیر المومنین علیہ السلام کے دعویٰ پر کوئی وجہ استعجاب نہیں جبکہ آپؑ پروردۂ آغوش رسالت و متعلم درس گاہ قدرت تھے۔ البتہ جن کا علم محسوسات کی حد سے آگے نہیں بڑھتا اور ان کے علم و ادراک کا وسیلہ صرف ظاہری حواس ہوتے ہیں وہ عرفان و حقیقت کی راہوں سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے اس قسم کے علم بالمغیبات سے انکار کر دیتے ہیں۔ اگر اس قسم کا دعویٰ انوکھا ہوتا اور صرف آپؑ ہی سے سننے میں آیا ہوتا تو ہو سکتا تھا کہ اسے تسلیم کرنے میں دماغ پس و پیش کرتے، طبیعتیں ہچکچاتیں، مگر قرآن میں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ تک دعویٰ موجود ہے کہ میں تمہیں خبر دے سکتا ہوں کہ تم کیا کھاتے پیتے ہو اور کیا گھروں میں جمع کر کے رکھتے ہو تو امیر المومنین علیہ السلام کے اس دعویٰ پر کیوں پس و پیش کیا جاتا ہے؟ جبکہ یہ مسلم ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام پیغمبر ﷺ کے تمام کمالات و خصوصیات کے وارث تھے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جن چیزوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام جان سکتے تھے پیغمبر اکرم ﷺ ان سے بے خبر تھے۔ تو پھر وارث علم پیغمبرؐ اگر ایسا دعویٰ کرے تو اس سے انکار کیسا؟ جبکہ حضرتؑ کی یہ علمی وسعت پیغمبر ﷺ کے علم و کمال کی ایک بہترین حجت و دلیل اور ان کی صداقت کا ایک زندہ معجزہ ہے۔
اس سلسلہ میں یہ امر حیرت انگیز ہے کہ وہ حالات پر مطلع ہونے کے باوجود اپنے کسی قول و عمل سے یہ ظاہر نہ ہونے دیتے تھے کہ وہ انہیں جانتے ہیں۔ چنانچہ سیّد ابن طاؤس علیہ الرحمہ اس دعویٰ کی غیر معمولی عظمت و اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:
وَ مِنْ عَجَآئِبِ هٰذَا الْقَوْلِ اَنَّ عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ ؑ كَانَ مَعَ عِلْمِهٖ بِتَفْصِيْلِ الْاَحْوَالِ يَسِيْرُ فِی النَّاسِ بِالْمَقَالِ وَ الْفِعَالِ سِيْرَةً لَّا يَعْتَقِدُ مَنْ يَّرَاهُ اَنَّهٗ عَارِفٌۢ بِبَوَاطِنِ تِلْكَ الْاَعْمَالِ وَ الْاَفْعَالِ وَ الْاَقْوَالِ وَ قَدْ عَرَفَ الْعُقَلَآءُ اَنَّ كُلَّ مَنْ عَرَفَ وَ اطَّلَعَ عَلٰى مَا يَتَجَدَّدُ مِنْ حَرَكَةٍ مِّنْ حَرَكَاتِ نَفْسِهٖ اَوْ حَرَكَاتِ مَنْ يَّصْحَبُهٗ اَوْ يَطَّلِعُ عَلٰۤى اَسْرَارِ النَّاسِ، فَاِنَّهٗ يَظْهَرُ عَلٰى وَجْهِهٖ وَ فِعْلِهٖ اَثَرُ عِلْمِهٖ بِذٰلِكَ، وَ اِنَّ مَنْ یَّعْلَمُ وَ يَكُوْنُ كَمَنْ لَّا يَعْلَمُ، فَاِنَّہٗ مِنَ الْاٰيَاتِ الْبَاهِرَاتِ وَ الْجَمْعِ بَيْنَ الْاَضْدَادِ الْمُشْكِلَاتِ.
اس دعویٰ کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ امیر المومنین علیہ السلام احوال و وقائع سے با خبر تھے پھر بھی قول و عمل کے لحاظ سے ایسی روش اختیار کئے ہوئے تھے کہ دیکھنے والایہ ماننے کیلئے تیار نہیں ہو سکتا تھا کہ آپؑ دوسروں کی پوشیدہ باتوں اور مخفی کاموں پر مطلع ہوں گے، کیونکہ عقلاء کو یہ اعتراف ہے کہ جس کو یہ معلوم ہو کہ اس سے کون سا عمل ظہور پذیر ہونے والا ہے؟ یا اس کا ساتھی کیا قدم اٹھانے والا ہے؟ یا لوگوں کے چھپے ہوئے بھید اس کی نظر میں ہوں تو اس علم کے اثرات اس کے چہرے کے خط و خال اور اس کے حرکات و سکنات سے ظاہر ہونے لگتے ہیں اور جو شخص جاننے بوجھنے کے باوجود اس طرح رہے سہے کہ گویا وہ بے خبر ہے اور کچھ نہیں جانتا تو اس کی شخصیت ایک معجزہ اور متضاد چیزوں کا مجموعہ ہو گی۔
(طرائف، ص۴۲۲)
اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنے باطنی علم کے مقتضیات پر عمل کیوں نہ کرتے تھے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ احکام شریعت کی بنیاد ظاہری اسباب پر ہے۔ چنانچہ قاضی کو اگر یہ علم ہو جائے کہ فلاں فریق حق بجانب ہے اور فلاں باطل پر ہے تو وہ اپنے علم پر بنا کرتے ہوئے فریق اوّل کے حق میں فیصلہ نہیں کرے گا، بلکہ کسی نتیجہ پر پہنچنے کیلئے جو شرعی اور متعارف طریقے ہیں انہی پر چلے گا اور ان سے جو نتیجہ نکلے گا اسی کا پابند ہو گا۔ مثلاً قاضی کو اگر خواب، مکاشفہ یا فراست سے یہ علم ہو جائے کہ زید نے عمرو کی دیوار گرائی ہے تو اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے اس علم کے مطابق فیصلہ کرے، بلکہ وہ یہ دیکھے گا کہ بینہ و شہادت کی رُو سے اس پر جرم عائد ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر ان ظاہری طریق سے جرم ثابت نہ ہو گا تو اسے مجرم نہ قرار دیا جائے گا، اگرچہ اسے اپنے مقام پر اس کے مجرم ہونے کا یقین ہو۔ اس کے علاوہ انبیاء و اولیاء علیہم السلام اپنے علم باطنی پر بنا کرتے ہوئے عمل درآمد کرتے تو یہ امر اختلال و انتشار اُمت کا باعث ہو جاتا۔ مثلاً اگر کوئی نبی یا ولی اپنے علم باطنی کی وجہ سے کسی واجب القتل کو قتل کی سزا دے تو دیکھنے والوں میں ایک اضطراب و ہیجان پیدا ہو جائے گا کہ اس نے ناحق ایک شخص کو قتل کر دیا ہے۔ اسی لئے قدرت نے خاص موارد کے علاوہ علم باطنی پر بنا کر کے نتائج مرتب کرنے کی اجازت نہیں دی اور صرف ظواہر کا پابند بنایا ہے۔ چنانچہ پیغمبر ﷺ بعض منافقین کے نفاق سے آگاہ ہونے کے باوجود ان سے وہی رویہ رکھتے تھے جو ایک مسلمان کے ساتھ رکھنا چاہیے۔
اب اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ کہا جائے کہ اگر وہ پوشیدہ چیزوں کو جانتے تھے تو اس کے مطابق عمل کیوں نہ کرتے تھے، کیونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ علم باطنی کے مقتضیات پر عمل پیرا ہونے کیلئے مامور ہی نہ تھے۔ البتہ پند و موعظت اور انذار و بشارت کیلئے جہاں حالات و مقتضیات ہوتے تھے بعض امور کو ظاہر کر دیتے تھے تا کہ پیش آئندہ واقعات کی پیش بندی کی جا سکے، جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے یحییٰ ابن زید کو مطلع کر دیا کہ وہ اگر نکلے تو قتل کر دیئے جائیں گے۔ چنانچہ ابن خلدون نے تحریر کیا ہے:
وَ قَدْ صَحَّ عَنْهُ اَنَّهٗ كَانَ يُحَذِّرُ بَعْضَ قَرَابَتِهٖ بِوَقَآئِعِ تَكُوْنُ لَهُمْ، فَتَصِحُّ كَمَا يَقُوْلُ وَ قَدْ حَذَّرَ يَحْيٰى ابْنَ عَمِّهٖ زَيْدٍ مِّنْ مَّصْرَعَهٖ وَ عَصَاهُ فَخَرَجَ وَ قُتِلَ بِالْجَوْزَجَانِ.
امام جعفر صادق علیہ السلام سے صحیح طریقہ پر وارد ہوا ہے کہ وہ اپنے بعض عزیزوں کو پیش آنے والے حادثوں سے آگاہ کر دیتے تھے اور وہ اسی طرح ہو کر رہتے تھے جس طرح آپؑ فرما دیتے تھے۔ چنانچہ آپؑ نے اپنے ابن عم یحییٰ ابن زید کو قتل ہو جانے سے متنبہ کیا۔ مگر وہ آپؑ کے حکم سے سرتابی کرتے ہوئے چل دیئے اور جوزجان میں قتل کر دیئے گئے۔ (مقدمہ ابن خلدون، ص۲۴۳)
البتہ جہاں ذہنوں میں تشویش پیدا ہو نے کا اندیشہ ہوتا تھا وہاں اس کا اظہار تک نہ کیا جاتا تھا۔ چنانچہ اس خطبہ میں حضرتؑ نے اس اندیشہ کے پیش نظر کہ ان کو رسول ﷺ کی منزل سے بھی بالاتر سمجھنے لگیں گے زیادہ تفصیل سے کام نہیں لیا۔لیکن اس کے باوجود جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں لوگ بھٹک گئے اور انہیں ’’ابن اللہ‘‘ کہنے لگے،یونہی حضرتؑ کے متعلق بعض کج فہم کچھ کا کچھ کہنے لگے اور غلو کی حد تک پہنچ کر گمراہ ہو گئے۔

[۱]۔ سورۂ نمل، آیت ۶۵۔
[۲]۔ سورۂ تحریم، آیت ۳۔
[۳]۔ سورۂ ھود، آیت ۴۹۔
[۴]۔ سورۂ آل عمران، آیت ۴۹۔