حکمت جب تک منافق (کی زبان) سے نکل کر مومن کے سینہ میں پہنچ کر دوسر ی حکمتوں کے ساتھ بہل نہیں جاتی، تڑپتی رہتی ہے۔ حکمت 79
(١٩٩) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۹۹)
اَیُّهَا النَّاسُ! لَا تَسْتَوْحِشُوْا فِیْ طَرِیْقِ الْهُدٰی لِقِلَّةِ اَهْلِهٖ، فَاِنَّ النَّاسَ قَدِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی مَآئِدَةٍ شِبَعُهَا قَصِیْرٌ، وَ جُوْعُهَا طَوِیْلٌ.
اے لوگو! ہدایت کی راہ میں ہدایت پانے والوں کی کمی سے گھبرا نہ جاؤ، کیونکہ لوگ تو اسی دنیا کے خوان نعمت پر ٹوٹے پڑتے ہیں جس سے شکم پری کی مدت کم اور گر سنگی کا عرصہ دراز ہے۔
اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّمَا یَجْمَعُ النَّاسَ الرِّضٰی وَ السُّخْطُ. وَ اِنَّمَا عَقَرَ نَاقَةَ ثَمُوْدَ رَجُلٌ وَّاحِدٌ فَعَمَّهُمُ اللهُ بِالْعَذَابِ لَمَّا عَمُّوْهُ بِالرِّضٰی، فَقَالَ سُبْحَانَهٗ: ﴿فَعَقَرُوْهَا فَاَصْبَحُوْا نٰدِمِیْنَۙ﴾، فَمَا كَانَ اِلَّاۤ اَنْ خَارَتْ اَرْضُهُمْ بِالْخَسْفَةِ خُوَارَ السِّكَّةِ الْمُحْمَاةِ فِی الْاَرْضِ الْخَوَّارَةِ.
اے لوگو! (افعال و اعمال چاہے مختلف ہوں مگر) رضا و ناراضگی کے جذبات تمام لوگوں کو ایک حکم میں لے آتے ہیں آخر قومِ ثمود [۱] کی اونٹنی کو ایک ہی شخص نے پے کیا تھا لیکن اللہ نے عذاب سب پر کیا، کیونکہ وہ سارے کے سارے اس پر رضا مند تھے۔ چنانچہ اللہ کا ارشاد ہےکہ: ’’انہوں نے اونٹنی کے پاؤں کاٹ ڈالے اور صبح کے وقت (جب عذاب کے آثار دیکھے تو اپنے کئے پر) نادم و پریشان ہوئے‘‘۔ (عذاب کی آمد یوں تھی) کہ زمین کے دھنسنے (اور زلزلوں کے جھٹکوں سے) ایسی گھڑگھڑاہٹ ہو نے لگی جیسے نرم زمین میں ہل کی تپی ہوئی پھالی کے چلانے سے آواز آتی ہے۔
اَیُّهَا النَّاسُ! مَنْ سَلَكَ الطّرِیْقَ الْوَاضِحَ وَرَدَ الْمَآءَ، وَ مَنْ خَالَفَ وَقَعَ فِی التِّیْهِ!.
اے لوگو! جو روشن و واضح راہ پر چلتا ہے وہ سر چشمہ (ہدایت) پر پہنچ جاتاہے اور جو بے راہ روی کرتا ہے وہ صحرائے بے آب و گیاہ میں جا پڑتا ہے۔
۱’’ثمود ابن عامر ابن سام‘‘ کی اولاد ’’قوم ثمود‘‘ کہلاتی ہے۔ ان کا موطن و مستقر حجاز و شام کے راستے میں مقام وادی القریٰ تھا جو متفرق بستیوں پر مشتمل ہو نے کی وجہ سے اس نام سے موسوم تھا۔ خداوند عالم نے ان کی ہدایت و رہنمائی کیلئے ان میں حضرت صالح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا جو ۱۶ برس کی عمر سے ۱۲۰ برس کی عمر تک انہیں ہدایت و تبلیغ کرتے رہے، مگر وہ بتوں کی پرستش اور اپنی گمراہی و ضلالت سے باز نہیں آئے۔ آخر اللہ نے ایک اونٹنی کو ان کے سامنے اپنی آیت و نشانی کے طور پر پیش کیا جس کے متعلق حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے کہا کہ ایک دن چشمہ کا پانی یہ پیئے گی اور ایک دن تم اور تمہارے مویشی پئیں گے اور یہ جہاں چاہے چرتی پھرے تم اس سے کوئی تعرض نہ کرنا اور اگر تم نے اسے کوئی صدمہ پہنچایا تو تم پر عذاب الٰہی نازل ہو گا۔ چنانچہ کچھ عرصہ تک ایسا ہی ہوتا رہا کہ ایک دن وہ اپنی ضروریات کیلئے پانی لے لیتے اور دوسرے دن اس اونٹنی کے پینے کیلئے چھوڑ دیتے۔ مگر ان لوگوں نے اس پر اکتفا نہ کیا اور آپس میں مشورہ کر کے اس اونٹنی کو ہلاک کرنے کا تہیہ کر لیا۔ چنانچہ قدار ابن سالف نے اس کی کونچیں کاٹ کر اسے ہلاک کر دیا۔ حضرت صالح علیہ السلام نے جب يه دیکھا تو ان سے کہا كه تم نے اللہ کی نافرمانی کی ہے، اگر تم تین دن کے اندر اندر توبہ نہ کر لو گے تو تم پر عذاب نازل ہو گا، مگر ان لوگوں نے نہ مانا اور ان کی بات کو تمسخر میں اڑا دیا۔ آخر تین دن گزرنے کے بعد ایسا آتش فشاں زلزلہ آیا جس نے ان کا نام و نشان تک صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔