کامیابی دور اندیشی سے وابستہ ہے، اور دور اندیشی فکر و تدبر کو کام میں لانے سے، اور تدبر بھیدوں کو چھپاکر رکھنے سے۔ حکمت 48
(١٤٤) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۴۴)
وَ قَدِ اسْتَشَارَهٗ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِی الشُّخُوْصِ لِقِتَالِ الْفُرْسِ بِنَفْسِهٖ:
جب حضرت عمر ابن خطاب نے جنگ فارس میں شریک ہونے کیلئے آپؑ سے مشورہ لیا تو آپؑ نے فرمایا: [۱]
اِنَّ هٰذَا الْاَمْرَ لَمْ یَكُنْ نَّصْرُهٗ وَ لَا خِذْلَانُهٗ بِكَثْرَةٍ وَّ لَا بِقِلَّةٍ، وَ هُوَ دِیْنُ اللهِ الَّذِیْۤ اَظْهَرَهٗ، وَ جُنْدُهُ الَّذِیْۤ اَعَدَّهٗ وَ اَمَدَّهٗ، حَتّٰی بَلَغَ مَا بَلَغَ، وَ طَلَعَ حَیْثُ طَلَعَ، وَ نَحْنُ عَلٰی مَوْعُوْدٍ مِّنَ اللهِ، وَاللهُ مُنْجِزٌ وَّعْدَهٗ، وَ نَاصِرٌ جُنْدَهٗ.
اس امر میں کامیابی و ناکامیابی کا دارو مدار فوج کی کمی بیشی پر نہیں رہا ہے۔ یہ تو اللہ کا دین ہے جسے اُس نے (سب دینوں پر) غالب رکھا ہے اور اسی کا لشکر ہے جسے اُس نے تیار کیا ہے اور اس کی ایسی نصرت کی ہے کہ وہ بڑھ کر اپنی موجودہ حد تک پہنچ گیا ہے اور پھیل کر اپنے موجودہ پھیلاؤ پر آ گیا ہے اور ہم سے اللہ کا ایک وعدہ ہے اور وہ اپنے وعدہ کو پورا کرے گا اور اپنے لشکر کی خود ہی مدد کرے گا۔
وَ مَكَانُ الْقَیِّمِ بِالْاَمْرِ مَكَانُ النِّظَامِ مِنَ الْخَرَزِ یَجْمَعُهٗ وَ یَضُمُّهٗ، فَاِنِ انْقَطَعَ النِّظَامُ تَفَرَّقَ الْخَرَزُ وَ ذَهَبَ، ثُمَّ لَمْ یَجْتَمِـعْ بِحَذَافِیْرِهٖۤ اَبَدًا. وَ الْعَرَبُ الْیَوْمَ وَ اِنْ كَانُوْا قَلِیْلًا، فَهُمْ كَثِیْرُوْنَ بِالْاِسْلَامِ، وَ عَزِیْزُوْنَ بِالْاِجْتِمَاعِ! فَكُنْ قُطْبًا، وَ اسْتَدِرِ الرَّحٰی بِالْعَرَبِ، وَ اَصْلِهِمْ دُوْنَكَ نَارَ الْحَرْبِ، فَاِنَّكَ اِنْ شَخَصْتَ مِنْ هٰذِهِ الْاَرْضِ انْتَقَضَتْ عَلَیْكَ الْعَرَبُ مِنْ اَطْرَافِهَا وَ اَقْطَارِهَا، حَتّٰی یَكُوْنَ مَا تَدَعُ وَرَآءَكَ مِنَ الْعَوْرَاتِ اَهَمَّ اِلَیْكَ مِمَّا بَیْنَ یَدَیْكَ.
امور (سلطنت) میں حاکم کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو مہروں میں ڈورے کی جو انہیں سمیٹ کر رکھتا ہے۔ جب ڈورا ٹوٹ جائے تو سب مہرے بکھر جائیں گے اور پھر کبھی سمٹ نہ سکیں گے۔ آج عرب والے اگرچہ گنتی میں کم ہیں مگر اسلام کی وجہ سے وہ بہت ہیں اور اتحاد باہمی کے سبب سے (فتح و) غلبہ پانے والے ہیں۔ تم اپنے مقام پر کھونٹی کی طرح جمے رہو اور عرب کا نظم و نسق برقرار رکھو اور ان ہی کو جنگ کی آگ کا مقابلہ کرنے دو۔ اس لئے کہ اگر تم نے اس سرزمین کو چھوڑا تو عرب اطراف و جوانب سے تم پر ٹوٹ پڑیں گے، یہاں تک کہ تمہیں اپنے سامنے کے حالات سے زیادہ ان مقامات کی فکر ہو جائے گی جنہیں تم اپنے پس پشت غیر محفوظ چھوڑ کر گئے ہو۔
اِنَّ الْاَعَاجِمَ اِنْ یَّنْظُرُوْۤا اِلَیْكَ غَدًا یَقُوْلُوْا: هٰذَا اَصْلُ الْعَرَبِ، فَاِذَا اقْتَطَعْتُمُوْهُ اسْتَرَحْتُمْ، فَیَكُوْنُ ذٰلِكَ اَشَدَّ لِكَلَبِهِمْ عَلَیْكَ، وَ طَمَعِهِمْ فِیْكَ.
کل اگر عجم والے تمہیں دیکھیں گے تو (آپس میں) یہ کہیں گے کہ یہ ہے ’’سردار عرب‘‘ اگر تم نے اس کا قلع قمع کردیا تو آسودہ ہو جاؤ گے۔تو اس کی وجہ سے ان کی حرص و طمع تم پر زیادہ ہو جائے گی۔
فَاَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ مَّسِیْرِ الْقَوْمِ اِلٰی قِتَالِ الْمُسْلِمِیْنَ، فَاِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ هُوَ اَكْرَهُ لِمَسِیْرِهِمْ مِنْكَ، وَ هُوَ اَقْدَرُ عَلٰی تَغْیِیْرِ مَا یَكْرَهُ. وَ اَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ عَدَدِهِمْ، فَاِنَّا لَمْ نَكُنْ نُّقَاتِلُ فِیْمَا مَضٰی بِالْكَثْرَةِ، وَ اِنَّمَا كُنَّا نُقَاتِلُ بِالنَّصْرِ وَ الْمَعُوْنَةِ!.
لیکن یہ جو تم کہتے ہو کہ وہ لوگ مسلمانوں سے لڑنے بھڑنے کیلئے چل کھڑے ہوئے ہیں تو اللہ ان کے بڑھنے کو تم سے زیادہ بُرا سمجھتا ہے اور وہ جسے بُرا سمجھے اس کے بدلنے (اور روکنے) پر بہت قدرت رکھتا ہے اور ان کی تعداد کے متعلق جو کہتے ہو (کہ وہ بہت ہیں) تو ہم سابق میں کثرت کے بل بوتے پر نہیں لڑا کرتے تھے بلکہ (اللہ کی) تائید و نصرت (کے سہارے) پر۔
۱جب حضرت عمر کو کچھ لوگوں نے جنگ قادسیہ یا جنگِ نہاوند کے موقع پر شریک کا رزار ہونے کا مشورہ دیا تو آپ نے لوگوں کے مشورہ کو اپنے جذبات کے خلاف سمجھتے ہوئے امیر المومنین علیہ السلام سے مشورہ لینا بھی ضروری سمجھا کہ اگر انہوں نے ٹھہرنے کا مشورہ دیا تو دوسروں کے سامنے یہ عذر کر دیا جائے گا کہ امیر المومنین علیہ السلام کے مشورہ کی وجہ سے رک گیا ہوں اور اگر انہوں نے بھی شریک جنگ ہونے کا مشورہ دیا تو پھر کوئی اور تدبیر سوچ لی جائے گی۔ چنانچہ حضرتؑ نے دوسروں کے خلاف انہیں ٹھہرے رہنے ہی کا مشورہ دیا۔ دوسرے لوگوں نے تو اس بنا پر انہیں شرکت کا مشورہ دیا تھا کہ وہ دیکھ چکے تھے کہ رسول اللہ ﷺ صرف لشکر والوں ہی کو جنگ میں نہ جھونکتے تھے بلکہ خود بھی شرکت فرماتے تھے اور اپنے خاندان کے عزیز ترین فردوں کو بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے اور امیر المومنین علیہ السلام کے پیش نظر یہ چیز تھی کہ ان کی شرکت اسلام کیلئے مفید نہیں ہو سکتی، بلکہ ان کا اپنے مقام پر ٹھہرے رہنا ہی مسلمانوں کو پراگندگی سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
حضرتؑ کا ارشاد کہ ’’حاکم کی حیثیت ایک محور کی ہوتی ہے جس کے گرد نظام مملکت گھومتا ہے‘‘، ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی خاص شخصیت کے متعلق نہیں ہے۔ چنانچہ حکمران مسلمان ہو یا کافر، عادل ہو یا ظالم، نیک عمل ہو یا بد کردار، مملکت کے نظم و نسق کیلئے اس کا وجود ناگزیر ہے۔ جیسا کہ حضرتؑ نے اس مطلب کو دوسرے مقام پر وضاحت سے بیان فرمایا ہے:
وَ اِنَّهٗ لَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ اَمِیْرٍ بَرٍّ اَوْ فَاجِرٍ، یَعْمَلُ فِیْۤ اِمْرَتِهِ الْمُؤْمِنُ، وَ یَسْتَمْتِعُ فِیْهَا الْكَافِرُ، وَ یُبَلِّغُ اللهُ فِیْهَا الْاَجَلَ، وَ یُجْمَعُ بِهِ الْفَیْءُ، وَ یُقَاتَلُ بِهِ الْعَدُوُّ، وَ تَاْمَنُ بِهِ السُّبُلُ، وَ یُؤْخَذُ بِهٖ لِلضَّعِیْفِ مِنَ الْقَوِیِّ، حَتّٰی یَسْتَرِیْحَ بَرٌّ، وَ یُسْتَرَاحَ مِنْ فَاجِرٍ.
لوگوں کیلئے ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے، وہ نیک ہو یا بد کردار۔ (اگر نیک ہو گا تو) مومن اس کی حکومت میں اچھے عمل کر سکے گا اور (اگر فاسق ہو گا تو) کافر اس کے عہد میں بہرہ اندوز ہوں گے اور اللہ اس نظام حکومت کی ہر چیز کو اس کی آخری حدوں تک پہنچا دے گا۔ اس حاکم کی وجہ سے (چاہے وہ اچھا ہو یا برا) مالیات فراہم ہوتے ہیں، دشمن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن رہتے ہیں، یہاں تک کہ نیک حاکم (مر کر یا معزول ہو کر) راحت پائے اور برے حاکم (کے مرنے یا معزول ہونے) سے دوسروں کو راحت پہنچے۔[۴]
حضرتؑ نے مشورہ کے موقع پر جو الفاظ کہے ہیں ان سے حضرت عمر کے حاکم و صاحب اقتدار ہونے کے علاوہ اور کسی خصوصیت کا اظہار نہیں ہوتا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہیں دنیاوی اقتدار حاصل تھا، چاہے وہ صحیح طریق سے حاصل ہوا ہو یا غلط طریق سے اور جہاں اقتدار ہو وہاں رعیت کی مرکزیت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اسی لئے حضرتؑ نے فرمایا کہ: اگر وہ نکل کھڑے ہوں گے تو پھر عرب بھی جوق در جوق میدان جنگ کا رُخ کریں گے، کیونکہ جب حکمران ہی نکل کھڑا ہو تو رعیت پیچھے رہنا گوارا نہ کرے گی اور ان کے نکلنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ شہروں کے شہر خالی ہو جائیں گے اور دشمن بھی ان کے میدان جنگ میں پہنچ جانے سے یہ اندازہ کر لے گا کہ اسلامی شہر خالی پڑے ہیں۔ اگر انہیں پسپا کر دیا گیا تو پھر مسلمانوں کو مرکز سے کمک حاصل نہیں ہو سکتی اور اگر حکمران ہی کو ختم کر دیا گیا تو فوج خود بخود منتشر ہو جائے گی۔ کیونکہ حکمران بمنزلہ اساس و بنیاد کے ہوتا ہے۔ جب بنیاد ہی ہل جائے تو دیواریں کہاں کھڑی رہ سکتی ہیں۔ یہ ’’اصل العرب‘‘ (عرب کی جڑ) کی لفظ حضرتؑ نے اپنی طرف سے نہیں فرمائی، بلکہ عجموں کی زبان سے نقل کی ہے اور ظاہر ہے کہ بادشاہ ہونے کی وجہ سے وہ ان کی نظروں میں بنیاد عرب ہی سمجھے جا رہے تھے اور پھر یہ اضافت ’’ملک‘‘ کی طرف ہے، ’’اسلام‘‘ یا ’’مسلمین‘‘ کی طرف نہیں ہے کہ اسلامی اعتبار سے ان کی کسی اہمیت کا اظہار ہو۔
جب حضرتؑ نے انہیں بتایا کہ ان کے پہنچ جانے سے عجم انہی کی تاک میں رہیں گے اور ہتھے چڑھ جانے پر وہ قتل کئے بغیر نہ رہیں گے تو ایسی باتیں اگرچہ شجاعوں کیلئے سمند ہمت پر تازیانہ کا کام دیتی ہیں اور ان کا جوش و ولولہ اُبھر آتا ہے، مگر آپ نے ٹھہرے رہنے ہی کا مشورہ پسند فرمایا اور جنگ کے شعلوں سے اپنا دامن بچانا ہی بہتر سمجھا۔ اگر یہ مشورہ ان کے طبعی میلان کے موافق نہ ہوتا تو وہ اس طرح خندہ پیشانی سے اس کا خیر مقدم نہ کرتے، بلکہ کچھ کہتے سنتے اور یہ سمجھانے کی کوشش کرتے کہ ملک میں کسی کو نائب بنا کر ملکی نظم و نسق کو برقرار رکھا جا سکتا ہے اور پھر جب اور لوگوں نے جانے کا مشورہ دیا تھا تو امیر المومنین علیہ السلام سے مشورہ لینے کا داعی اس کے علاوہ ہو ہی کیا سکتا تھا کہ رک جانے کا کوئی سہارا مل جائے۔↑
[۱]۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۴۰۔