عقل سے بڑھ کر کوئی ثروت نہیں اور جہالت سے بڑھ کر کوئی بے مائیگی نہیں۔ ادب سے بڑھ کر کوئی میراث نہیں اور مشورہ سے زیادہ کوئی چیز معین و مددگار نہیں۔ حکمت 54
(١٦٠) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۶۰)
لِبَعْضِ اَصْحَابِهٖ وَ قَدْ سَئَلَهٗ: كَیْفَ دَفَعَكُمْ قَوْمُكُمْ عَنْ هٰذَا الْمَقَامِ وَ اَنْتُمْ اَحَقُّ بِهٖ؟ فَقَالَ ؑ:
حضرتؑ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے سوال کیا کہ: کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے آپؑ کو اس منصب سے الگ رکھا، حالانکہ آپؑ اس کے زیادہ حقدار تھے؟ تو آپؑ نے فرمایا کہ:
یاۤ اَخَا بَنِیْۤ اَسَدٍ! اِنَّكَ لَقَلِقُ الْوَضِیْنِ، تُرْسِلُ فِیْ غَیْرِ سَدَدٍ، وَ لَكَ بَعْدُ ذِمَامَةُ الصِّهْرِ وَ حَقُّ الْمَسْئَلَةِ، وَ قَدِ اسْتَعْلَمْتَ فَاعْلَمْ: اَمَّا الْاِسْتِبْدَادُ عَلَیْنَا بِهٰذَا الْمَقَامِ وَ نَحْنُ الْاَعْلَوْنَ نَسَبًا، وَ الْاَشَدُّوْنَ بِالرَّسُوْلِ ﷺ نَوْطًا، فَاِنَّهَا كَانَتْ اَثَرَةً شَحَّتْ عَلَیْهَا نُفُوْسُ قَوْمٍ، وَ سَخَتْ عَنْهَا نُفوْسُ اٰخَرِیْنَ، وَ الْحَكَمُ اللهُ، وَ الْمَعُوْدُ اِلَیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ.
اے برادر بنی اسد! تم بہت تنگ حوصلہ ہو اور بے راہ ہو کر چل نکلے ہو۔ (اس کے باوجود) چونکہ ہمیں تمہاری قرابت کا پاس و لحاظ ہے اور تمہیں سوال کرنے کا حق بھی ہے تو اب دریافت کیا ہے تو پھر جان لو کہ (ان لوگوں کا) اس منصب پر خود اختیاری سے جم جانا، باوجودیکہ ہم نسب کے اعتبار سے بلند تھے اور پیغمبر ﷺ سے رشتہ قرابت بھی قوی تھا ان کی یہ خود غرضی تھی جس میں کچھ لوگوں کے نفس اس پر مر مٹے تھے اور کچھ لوگوں کے نفسوں نے اس کی پروا تک نہ کی اور فیصلہ کرنے والا اللہ ہے اور اس کی طرف بازگشت قیامت کے روز ہے۔ (اس کے بعد حضرتؑ نے بطور تمثیل یہ مصرع پڑھا:)
“وَ دَعْ عَنْكَ نَهْبًا صِیْحَ فِیْ حَجَرَاتِهٖ”
’’چھوڑو اس لوٹ مار کے ذکر کو کہ جس کا چاروں طرف شور مچا ہوا تھا‘‘ [۱]
وَ هَلُمَّ الْخَطْبَ فِی ابْنِ اَبِیْ سُفْیَانَ، فَلَقَدْ اَضْحَكَنِی الدَّهْرُ بَعْدَ اِبْكَآئِهٖ، وَ لَا غَرْوَ وَاللهِ، فَیَا لَهٗ خَطْبًا یَّسْتَفْرِغُ الْعَجَبَ، وَ یُكْثِرُ الْاَوَدَ! حَاوَلَ الْقَوْمُ اِطْفَآءَ نُوْرِ اللهِ مِنْ مِّصْبَاحِهٖ، وَ سَدَّ فَوَّارِهٖ مِنْ یَّنْۢبُوْعِهٖ، وَ جَدَحُوْا بَیْنِیْ وَ بَیْنَهُمْ شِرْبًا وَّ بِیْٓـئًا، فَاِنْ تَرْتَفِـعْ عَنَّا وَ عَنْهُمْ مِحَنُ الْبَلْوٰی، اَحْمِلْهُمْ مِنَ الْحَقِّ عَلٰی مَحْضِهٖ، وَ اِنْ تَكُنِ الْاُخْرٰی، ﴿فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ﴾.
اب تو اس مصیبت کو دیکھو کہ جو ابو سفیان کے بیٹے کی وجہ سے آئی ہے۔ مجھے تو (اس پر) زمانہ نے رلانے کے بعد ہنسایا ہے اور زمانہ کی (موجودہ روش سے) خدا کی قسم! کوئی تعجب نہیں ہے۔ اس مصیبت پر تعجب ہوتا ہے کہ جس سے تعجب کی حد ہو گئی ہے اور جس نے بے راہ رویوں کو بڑھا دیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اللہ کے روشن چراغ کا نور بجھانا چاہا اور اس کے سرچشمہ (ہدایت کے) فوارے کو بند کرنے کے درپے ہوئے اور میرے اور اپنے درمیان زہریلے گھونٹوں کی آمیزش کی۔ اگر اس ابتلا کی دشواریاں ہمارے اور ان کے درمیان سے اٹھ جائیں تو میں انہیں خالص حق کے راستے پر لے چلوں گا اور اگر کوئی اور صورت ہو گئی تو پھر ان پر حسرت و افسوس کرتے ہوئے تمہارا دم نہ نکلے۔ اس لئے کہ یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
۱یہ عرب کے مشہور شاعر ’’امرأ القیس‘‘ کے ایک شعر کا مصرع ہے جس کا دوسرا مصرع یہ ہے:
وَ ھَاتِ حَدِیْثًا مَّا حَدِیْثُ الرَّوَاحِلِ
اس شعر کا واقعہ یہ ہے کہ جب امرأ القیس کا باپ حجر کندی مارا گیا تو وہ قبائل عرب میں چکر لگاتا تھا تا کہ ان کی مدد سے اپنے باپ کا قصاص لے سکے۔ چنانچہ بنی جدیلہ کے ایک شخص طریف کے یہاں چند دن ٹھہرا اور پھر وہاں سے اپنے کو غیر محفوظ سمجھ کر چل دیا اور خالد ابن سدوس کے ہاں جا اترا۔ اس دوران میں بنی جدیلہ کا ایک شخص باعث ابن خویص اس کا اونٹ ہنکا لایا۔ امرأ القیس نے اپنے میزبان سے اس کا شکوہ کیا تو اس نے کہا کہ تم اپنی اونٹنیاں میرے ساتھ کر دو میں تمہارے اونٹ ان سے واپس لائے دیتا ہوں۔ چنانچہ خالد ان کے ہاں گیا اور ان سے کہا کہ تم نے میرے مہمان کے اونٹوں کو لوٹ لیاہے تمہیں ان اونٹوں کو واپس کر دینا چاہیے۔ ان لوگوں نے کہا کہ وہ نہ تمہارا مہمان ہے اور نہ تمہاری زیر حمایت ہے۔ خالد نے قسم کھا کر کہا کہ واقعی میرا مہمان ہے اور یہ اس کی اونٹنیاں میرے ساتھ ہیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ پھر ہم وہ اونٹ واپس دئیے دیتے ہیں۔ کہا تو یہ، لیکن ان اونٹوں کو واپس کرنے کے بجائے ان اونٹنیوں کو بھی ہنکا کر لے گئے۔
اور ایک قول یہ ہے کہ ان لوگوں نے وہ اونٹ خالد کے روانہ کر دئیے تھے اور اس نے امرأ القیس کو دینے کے بجائے خود ان پر قبضہ کر لیا تھا۔ جب امرأ القیس کو اس کا پتہ چلا تو اس نے چند اشعار کہے جن کا ایک شعر یہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان اونٹوں کا ذکر چھوڑو جنہیں لوٹا جا چکا ہے۔ اب ان اونٹنیوں کی بات کرو جو ہاتھ سے جاتی رہی ہیں۔
حضرتؐ کے اس شعر کو بطور تمثیل پیش کرنے سے مقصد یہ ہے کہ اب جبکہ معاویہ بر سرپیکار ہے اس کی بات کرو اور ان لوگوں کی غارت گریوں کا ذکر رہنے دو کہ جنہوں نے پیغمبر ﷺ کے بعد میرے حق پر چھاپہ مارا۔ وہ دور گزر چکا ہے۔ اب اس دور کے فتنوں سے نپٹنے کا وقت ہے۔ لہٰذا وقت کی بات کرو اور بے وقت کی راگنی نہ چھیڑو۔ یہ اس لئے فرمایا کہ سائل نے یہ سوال جنگ صفین کے موقع پر کیا تھا، جبکہ جنگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے اور کشت و خون کی گرم بازاری تھی۔↑