پورا عالم و دانا وہ ہے جو لوگوں کو رحمت خدا سے مایوس اور اس کی طرف سے حاصل ہونے والی آسائش و راحت سے نا امید نہ کرے اور نہ انہیں اللہ کے عذاب سے بالکل مطمئن کر دے۔ حکمت 90
(٢١٧) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۱۷)
قَدْ اَحْیَا عَقْلَهٗ، وَ اَمَاتَ نَفْسَهٗ، حَتّٰی دَقَّ جَلِیْلُهٗ، وَ لَطُفَ غَلِیْظُهٗ، وَ بَرَقَ لَهٗ لَامِعٌ كَثِیْرُ الْبَرْقِ، فَاَبَانَ لَهُ الطَّرِیْقَ، وَ سَلَكَ بِهِ السَّبِیْلَ، وَ تَدَافَعَتْهُ الْاَبْوَابُ اِلٰی بَابِ السَّلَامَةِ، وَ دَارِ الْاِقَامَةِ، وَ ثَبَتَتْ رِجْلَاهُ بِطُمَاْنِیْنَةِ بَدَنِهٖ فِیْ قَرَارِ الْاَمْنِ وَ الرَّاحَةِ، بِمَا اسْتَعْمَلَ قَلْبَهٗ، وَ اَرْضٰی رَبَّهٗ.
مومن نے اپنی عقل کو زندہ رکھا اور اپنے نفس کو مار ڈالا، یہاں تک کہ اس کا ڈیل ڈول لاغر اور تن و توش ہلکا ہو گیا، اس کیلئے بھرپور درخشندگیوں والا نورِ ہدایت چمکا کہ جس نے اس کے سامنے راستہ نمایاں کر دیا اور اسے سیدھی راہ پر لے چلا اور مختلف دروازے اسے دھکیلتے ہوئے سلامتی کے دروازہ اور (دائمی) قرار گاہ تک لے گئے اور اس کے پاؤں بدن کے ٹکاؤ کے ساتھ امن و راحت کے مقام پر جم گئے۔ چونکہ اس نے اپنے دل کو عمل میں لگائے رکھا تھا اور اپنے پروردگار کو راضی و خوشنود کیا تھا۔