بہتر ین دولتمندی یہ ہے کہ تمناؤں کو ترک کرے۔ حکمت 34
(٦٥) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۶۵)
فِیْ مَعْنَى الْاَنْصَارِ
انصار کے بارے میں
قَالُوْا: لَمَّا انْتَهَتْ اِلٰۤى اَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ ؑ اَنْۢبَآءُ السَّقِيْفَةِ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ، قَالَ ؑ: مَا قَالَتِ الْاَنْصَارُ؟ قَالُوْا: قَالَتْ: مِنَّاۤ اَمِيرٌ وَ مِنْكُمْ اَمِيْرٌ، قَالَ ؑ: فَهَلَّا احْتَجَجْتُمْ عَلَیْهِمْ: بِاَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ وَصّٰی بِاَنْ یُّحْسَنَ اِلٰی مُحْسِنِهمْ وَ یُتَجَاوَزَ عَنْ مُّسِیْٓئِهِمْ؟ قَالُوْا: وَ مَا فِیْ هٰذَا مِنَ الْحُجَّةِ عَلَیْهِمْ؟ فَقَالَ ؑ: لَوْ كَانَتِ الْاِمَارَةُ فِیْهِمْ لَمْ تَكُنِ الْوَصِیَّةُ بِهِمْ. ثُمَّ قَالَ ؑ: فَمَاذَا قَالَتْ قُرَیْشٌ؟ قَالُوْا: احْتَجَّتْ بِاَنَّهَا شَجَرَةُ الرَّسُوْلِ ﷺ. فَقَالَ ؑ: احْتَجُّوْا بِالشَّجَرَةِ وَ اَضَاعُوا الَّثمَرَةَ.
پیغمبر ﷺ کی رحلت کے بعد جب سقیفہ بنی ساعدہ کی خبریں امیرالمومنین علیہ السلام تک پہنچیں تو آپؑ نے دریافت فرمایا کہ: ’’انصار کیا کہتے تھے؟‘‘ لوگوں نے کہا کہ: وہ کہتے تھے کہ ایک ہم میں سے امیر ہو جائے اور ایک تم میں سے۔ حضرتؑ نے فرمایا کہ: ’’تم نے یہ دلیل کیوں نہ پیش کی کہ رسول اللہ ﷺ نے وصیت فرمائی تھی کہ انصار میں جو اچھا ہو اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے اور جو برا ہو اس سے درگزر کیا جائے‘‘۔ لوگوں نے کہا کہ اس میں ان کے خلاف کیا ثبوت ہے؟ آپؑ نے فرمایا کہ: ’’اگر حکومت و امارت ان کیلئے ہوتی تو پھر ان کے بارے میں دوسروں کو وصیت کیوں کی جاتی‘‘۔ پھر حضرتؑ نے پوچھا کہ: ’’قریش نے کیا کہا؟‘‘ لوگوں نے کہا کہ: انہوں نے شجرهٔ رسولؐ سے ہونے کی وجہ سے اپنے استحقاق پر استدلال کیا۔ تو حضرتؑ نے فرمایا کہ: ’’انہوں نے شجره ایک ہونے سے تو استدلال کیا، لیکن اس کے پھلوں کو ضائع و برباد کر دیا‘‘۔ [۱]
۱سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انصار کے مقابلے میں مہاجرین کی سب سے بڑی دلیل اور وجہ کامرانی یہی چیز تھی کہ قریش چونکہ پیغمبر ﷺ کے ہم قوم و ہم قبیلہ ہیں، لہٰذا ان کے ہوتے ہوئے کوئی غیر خلافت کا حقدار نہیں ہو سکتا اور اسی بنا پر انصار کا جمِ غفیر تین مہاجرین کے سامنے ہتھیار ڈالنے کو تیار ہو گیا اور وہ نسلی امتیاز کو پیش کر کے خلافت کی بازی جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ چنانچہ مؤرخ طبری واقعات سقیفہ کے سلسلے میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
جب انصار نے سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد ابن عبادہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے اجتماع کیا تو حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور ابو عبیدہ ابن جراح بھی سن گن پا کر وہاں پہنچ گئے۔ اس موقعہ کیلئے حضرت عمر نے پہلے سے کچھ سوچ لیا تھا جسے کہنے کیلئے اٹھے، مگر حضرت ابو بکر نے انہیں روک دیا اور کھڑے ہو گئے اور اللہ کی حمد و ثنا اور مہاجرین کی ہجرت اور سبقت ایمانی کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا:
فَهُمْ اَوَّلُ مَنْ عَبَدَ اللهَ فِی الْاَرْضِ وَ اٰمَنَ بِاللهِ وَ بِالرَّسُوْلِ، وَ هُمْ اَوْلِيَآؤُهٗ وَ عَشِيْرَتُهٗ، وَ اَحَقُّ النَّاسِ بِهٰذَا الْاَمْرِ مِنْۢ بَعْدِهٖ، وَ لَا يُنَازِعُهُمْ ذٰلِكَ اِلَّا ظَالِمٌ.
یہ وہی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے زمین میں اللہ کی پرستش کی اور سب سے پہلے اللہ و رسول ﷺ پر ایمان لائے۔ یہی پیغمبر ﷺ کے دوست اور ان کے کنبہ والے ہیں اور یہی سب سے زائد خلافت کے حقدار ہیں، جو ان سے ٹکرائے گا وہ ظالم ہو گا۔ (طبری، ج۲، ص۴۵۷)
جب حضرت ابو بکر اپنا بیان ختم کر چکے، تو حباب ابن منذر کھڑے ہوئے اور انصار سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ:
اے گروہ انصار! تم اپنی باگ ڈور دوسروں کے ہاتھ میں نہ دو۔ دنیا تمہارے سایہ میں بس رہی ہے۔ تم عزت و ثروت والے اور قبیلے جتھے والے ہو۔ اگر مہاجرین کو بعض چیزوں میں تم پر فضیلت ہے تو تمہیں بھی بعض چیزوں میں ان پر فوقیت حاصل ہے۔ تم نے انہیں اپنے گھروں میں پناہ دی، تم اسلام کے بازوئے شمشیر زن ہو، تمہاری وجہ سے اسلام اپنے پیروں پر کھڑا ہوا، تمہارے شہروں میں آزادی سے اللہ کی نمازیں قائم ہوئیں، تم تفرقہ و انتشار سے اپنے کو بچاؤ اور اپنے حق پر یکجہتی سے جمے رہو اور اگر مہاجرین تمہارا حق تسلیم نہ کریں تو پھر ان سے کہو کہ: ایک امیر تم میں سے ہوگا اور ایک امیر ہم میں سے ہوگا۔
حباب یہ کہہ کر بیٹھے ہی تھے کہ حضرت عمر کھڑے ہو گئے اور فرمایا:
هَيْهَاتَ لَا يَجْتَمِعُ اثْنَانِ فِیْ قَرْنٍ، وَاللهِ! لَا تَرْضَى الْعَرَبُ اَنْ يُّؤَمِّرُوْكُمْ وَ نَبِيُّهَا مِنْ غَيْرِكُمْ وَ لٰكِنَّ الْعَرَبَ لَا تَمْنَعُ اَنْ تَوَلّٰی اَمْرَهَا مَنْ كَانَتِ النُّبُوَّةُ فِيْهِمْ وَ وَلّٰی اُمُوْرَهُمْ مِنْهُمْ، وَ لَنَا بِذٰلِكَ عَلٰى مَنْ اَبٰى مِنَ الْعَرَبِ الْحُجَّةُ الظَّاهِرَةُ وَ السُّلْطَانُ الْمُبِيْنُ مَنْ ذَا يُنَازِعُنَا سُلْطَانَ مُحَمَّدٍ ﷺ وَ اِمَارَتَهٗ وَ نَحْنُ اَوْلِيَآؤُهٗ وَ عَشِيْرَتُهٗ اِلَّا مُدْلٍۭ بِبَاطِلٍ اَوْ مُتَجَانِفٌ لِّاِثْمٍ وَّ مُتَوَرِّطٌ فِیْ هَلَكَةٍ.
ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک زمانہ میں دو (حکمران) جمع ہو جائیں۔ خدا کی قسم! عرب اس پر کبھی راضی نہ ہوں گے کہ تمہیں امیر بنائیں۔ جب کہ نبی ﷺ تم میں سے نہیں ہے۔ البتہ عرب کو اس میں ذرا پس و پیش نہ ہو گا کہ وہ خلافت اس کے حوالے کریں کہ جس کے گھرانے میں نبوت ہو اور صاحبِ امر بھی انہی میں سے ہو اور انکار کرنے والے کے سامنے اس سے ہمارے حق میں کھلم کھلا دلیل اور واضح برہان لائی جا سکتی ہے۔ جو ہم سے محمد ﷺ کی سلطنت و امارت میں ٹکرائے گا، وہ باطل کی طرف جھکنے والا، گناہ کا مرتکب ہونے والا اور ورطۂ ہلاکت میں گرنے والا ہے۔ (طبری، ج۲، ص۴۵۷)
حضرت عمر کے بعد حباب پھر کھڑے ہوئے اور انصار سے کہا کہ:
دیکھو! اپنی بات پر ڈٹے رہو اور اس کی اور اس کے ساتھیوں کی باتوں میں نہ آؤ۔ یہ تمہارے حق کو دبانا چاہتے ہیں۔اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو انہیں اپنے شہروں سے نکال باہر کرو اور خلافت کو سنبھال لو۔ بھلا تم سے زیادہ اس کا کون حقدار ہو سکتا ہے۔
حباب خاموش ہوئے تو حضرت عمر نے انہیں سخت سست کہا۔ ادھر سے بھی کچھ تلخ کلامی ہوئی اور بزم کا رنگ بگڑنے لگا۔ ابو عبیدہ نے جب یہ دیکھا تو انصار کو ٹھنڈا کرنے اور اپنے ڈھرے پر لانے کیلئے کہا کہ:
اے گروهِ انصار! تم وہی لوگ ہو جنہوں نے ہمیں سہارا دیا، ہماری ہر طرح کی مدد امداد کی، اب اپنی روش کو نہ بدلو اور اپنے طور طریقوں کو نہ چھوڑو۔
مگر انصار ان باتوں میں نہ آئے اور وہ سعد کے علاوہ کسی کی بیعت کرنے کو تیار نہ تھے اور ان کی طرف لوگ بڑھا ہی چاہتے تھے کہ سعد کے قبیلہ کا ایک آدمی بشیر خزرجی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ:
بے شک ہم نے جہاد میں قدم بڑھایا، دین کو سہارا دیا، مگر اس سے ہماری غرض صرف اللہ کی رضا مندی اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت تھی۔ ہمارے لئے یہ مناسب نہیں کہ ہم تفوق جتلائیں اور خلافت میں جھگڑا کریں۔ اِنَّ مُحَمَّدًا ﷺ مِنْ قَرَيْشٍ وَّ قَوْمُهٗ اَحَقُّ بِهٖ وَ اَوْلٰى : ’’محمد ﷺ قریش میں سے تھے، لہٰذا ان کی نیابت و وراثت کا حق بھی انہی کی قوم کو پہنچتا ہے‘‘۔
بشیر کا یہ کہنا تھا کہ انصار میں پھوٹ پڑ گئی اور اس کا مقصد بھی یہی تھا، چونکہ وہ اپنے کنبہ کے ایک آدمی کو اس طرح بڑھتے ہوئے نہ دیکھ سکتا تھا، لہٰذا مہاجرین نے انصار کے اس افتراق سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور حضرت عمر اور ابو عبیدہ نے حضرت ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت کا تہیہ کر لیا۔ ابھی وہ بیعت کیلئے بڑھے ہی تھے کہ بشیر نے سب سے پہلے بڑھ کر اپنا ہاتھ حضرت ابو بکر کے ہاتھ پر رکھ دیا اور پھر حضرت عمر اور ابو عبیدہ نے بیعت کی اور پھر بشیر کے قوم قبیلے والے بڑھے اور بیعت کی اور سعد ابن عبادہ کو پیروں تلے روند کر رکھ ديا۔
امیرالمومنین علیہ السلام اس موقعہ پر پیغمبر ﷺ کے غسل و کفن میں مصروف تھے۔ بعد میں جب سقیفہ کے اجتماع کے متعلق سنا اور انہیں یہ معلوم ہوا کہ مہاجرین نے اپنے کو پیغمبر ﷺ کا قوم و قبیلہ کہہ کر انصار سے بازی جیت لی ہے تو یہ لطیف جملہ فرمایا کہ: ’’شجرہ ایک ہونے سے تو دلیل لائے ہیں اور اس کے پھلوں کو ضائع کر دیا ہے کہ جو پیغمبر ﷺ کے اہلبیتؑ ہیں‘‘۔ یعنی اگر شجرهٔ رسولؐ سے ہونے کی بنا پر ان کا حق مانا گیا ہے تو جو اس شجرهٔ رسالت کے پھل ہیں وہ کیونکر نظر انداز کئے جا سکتے ہیں؟۔ حیرت ہے کہ حضرت ابو بکر جو ساتویں پشت پر اور حضرت عمر جو نویں پشت پر رسول ﷺ سے جا کر ملتے ہیں، وہ تو پیغمبر ﷺ کا قوم و قبیلہ بن جائیں اور جو ابن عم تھا اس کے بھائی ہونے سے بھی انکار کر دیا جاتا ہے۔↑